چینی زندگی کے عکس

منظور ملاح  جمعـء 20 نومبر 2015
mallahmanzoor73@gmail.com

[email protected]

جاپان کے ہاروکی مراکامی کے ساتھ چینی رائٹرگاؤزنگ جیان موجودہ دورکے شاندار فکشن رائٹر ہیں ، 2000  میں نوبل پرائزحاصل کرنیوالے گاؤ نے 1966 سے 1976  کے کلچرل انقلاب کے دوران اپنے ڈرامے، شاعری ، فکشن اور مضامین جلا ڈالے، جو اس نے گزشتہ دو دہائیوں میں لکھے تھے۔

1980میں جب چین میں کلچرل انقلاب کی لہر ٹھنڈی پڑگئی تو ان کی تحریریں بھی چھپنے لگیں ۔1982سے پھران کی کتابوں پر پابندی لگنا شروع ہوگئی، وجہ یہ الزام کہ وہ مغربی جدت پسندی کی تبلیغ کرتا ہے۔1980کے دہائی میں یورپین ادب خاص طور پر فرانسیسی ادب کو چین میں متعارف کروایا۔ بیکٹ، انتونن آرچڈ، سارتر،کامیو، جیرزی گروتو وسکی اورکانٹر پر مضامین لکھے۔

1987 میں چین چھوڑکر فرانس میں ہمیشہ کے لیے خیمے گاڑ دیے، جہاں اسے ڈرامہ، فکشن اور آرٹ کے اظہار کی آزادی ملی۔اسے بہت سارے ایوارڈز ملے، جن میں0 200 میں نوبل پرائز کا ملنا بھی شامل ہے۔1999 میں ڈراموں پر مشتمل کتاب ’دی ادھر اشوز‘ 2000 میں ناول’ سول ماؤنٹین ، 2002 میں ناول ’ ون مینس بائیبل، 2002 میں آرٹ پررٹرن ٹو پینٹنگز اور2004 میں افسانوں پر مشتمل کتاب ’ بائنگ اے فشنگ راڈ فارمائی گرانڈ فادر‘‘  شامل ہیں، لیکن 1981 میں ان کی کتاب ’’پریلمنری ایکسپلور یشنز آن دی آرٹ آف ماڈرن فکشن ‘‘ نے چین میں تہلکہ مچایا بعد میں اس پر بھی پابندی لگی۔

اپنے فکشن کے متعلق ان کا قارئین کو صاف پیغام تھا کہ ان کا فکشن کسی کہانی کے لیے نہیں ، نہ ہی اس کا کوئی پلاٹ ہے ، جیسا عام افسانوں میں ہوتا ہے، لیکن اس میں کوئی دلچسپ چیز ہے تو وہ ہے زبان، فکشن اصل میں زبان کے حسن کو بیان کرتا ہے، نہ کہ حقیقت کو توڑ مروڑ کر لکھنا ہے ۔ ایک خوبصورت ڈکشن حقیقی جذبوں کو ابھارتا ہے۔ان کے زیر نظر افسانوں کی کتاب’ بائنگ اے فشنگ راڈ فارمائی گرانڈ فادر‘ جو انھوں نے 80 کی دہائی میں لکھیں جوچائنا کے پبلشرز نے پہلے چھاپنے سے ہی انکارکردیا لیکن پھر تائیوان میں چھاپی گئیں۔

انھیں میبل لی نے ترجمہ کیا ہے،جو اس سے پہلے بھی ان کے ناولزانگلش میں ترجمہ کرچکی ہیں۔ پہلے افسانے کا نام ہے” The Temple ”  جس میں مرد اور عورت کے دوکردار ہیں ۔ان دونوں کے خاندان ماضی میں چائنا میں کمیونسٹ راج کے دوران کئی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، جو پورے ملک کے غریب عوام کے قسمت میں ٹھونس دی جاتی ہیں ،لیکن یہی دونوں ماضی کو دہرانے کی بجائے خوش رہنا چاہتے ہیں اور یہی اس افسانے کا مرکزی خیال بھی ہے۔ یہ دونوں کم تنخواہ ہونے کے باوجود ہنی مون کے لیے ریل کے راستے دوردراز کے دیہاتی علاقوں میں جانا چاہتے ہیں۔ ان کے اس سفرکے دوران ریل چلنے،لوگوں کے چڑھنے اترنے، ریلوے اسٹیشن کے مناظر بھی پڑھنے کو ملیں گے۔

اچانک جب ٹرین ایک اسٹیشن پرکھڑی ہوتی ہے تو وہاں سے انھیں دور پہاڑی کی چوٹی پر ایک خوبصورت قلعہ نظر آتا ہے، اس طرح وہ ٹرین سے اترکر قلعہ گھومنے جاتے ہیں ۔ چھوٹے سے بازار سے گذرنے کے دوران راستے سے اڑتی دھول، دھول سے ڈھکے پھل فروٹ، غربت کے مارے لوگ اور پھر پہاڑی کے اوپر خستہ حال قلعہ جو شایدکسی کے توجہ کا مرکز نہیں رہا، جہاں ٹوٹی ہوئی دیواریں ،اُکھڑی ہوئی اینٹیں ،آس پاس جھاڑیاں ،جس میں پرندوں کا شکار اور زمین آباد کرنیوالے غریب لوگ ، ان کے سانجھے دکھ،جسے مختصر طریقے سے بیان کیا گیا ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہلکی پھلکی تلخ سماجی حقیقتیں شامل ہیں۔ڈکشن سادہ سیدھا ہے،اس میںفلسفہ جھاڑا گیا ہے نہ ہی کوئی اتنا زیادہ تخلیقی عنصر شامل ہے۔

دوسرا فسانہ”  In The Park ” ہے ، یہ ایک خوبصورت تخلیق ہے جس میں صرف دوکردار پارک میں ایک بینچ پربیٹھے ایک طرف تلخ ماضی کوکریدتے ہیں، تو دوسری طرف آس پاس کے ماحول کو محسوس کرتے رہتے ہیں ۔ یہ افسانہ صرف ’’ ڈائیلا گ ‘‘ کے اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ جس میں ہاتھ، پاؤں حرکت کرنے کی بجائے صرف زبان حرکت کرتی رہتی ہے یا پھر سورج اور درختوں کے پتے۔کچھ سطریں ملاحظہ کیجیے ’’ جب میں چھوٹا تھا، تو میں پہاڑوں میں رہتا تھا۔

میں سات سال تک ان قدیم جنگلوں میں لکڑیاں کاٹتا رہتا ۔  اچھا تو آپ بچ نکلے ۔ سورج غروب ہوتے وقت ایسے لگتا ہے جیسے آسمان کوآگ لگی ہو، ایسی شدید آگ جو جنگل میں اٹھتی تھی جب جنگل کو آگ لگتی ہے تو درخت رائی کی طرح ہوا میں اڑجاتے تھے، شیر دم دبا کے بھاگتے تھے، شیر لوگوں پر حملہ کرتے تھے نہ لوگ شیروں کا شکار ۔ صرف دھوئیں اورگرمی کاراج تھا‘‘۔ کلچرل انقلاب کے دوران کئی نوجوان مردوں، عورتوں، بچوں کوکام کرنے کے لیے دوردراز علاقوں میں بھیجا گیا، جہاں ان کے ساتھ جنسی، نفسیاتی اورمعاشرتی مسائل پیش آتے رہے، اس طرح ان کی شخصیتیں بدل کر جنگل کے جانور بن گئیں،کس طرح انھوں نے اپنے پیاروں سے دور رہنے کے درد کوجھیلا اور جوانیاں بڑھاپے میں بدل گئیں، شخصی آزادیوں کو سلب کیا گیا۔

ان ڈائیلا گ کے اندر تلخ حقیقتیں پڑھ کر جسم کانپ اٹھتا ہے۔اس افسا نے کی ابتدا اور انتہائی بھی یہی ہے، کیونکہ یہ Narrative بیانیہ اندازمیں لکھنے کی بجائے صرف ڈائیلا گس کے ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ ڈکشن بھی شاندار ہے۔ایک اورافسانہ ہے’ دی ایکسیڈنٹ‘ یہ بھی دنیا کے ہر بڑے رائٹر کی طرح ان کی زندگی کے تجربات پر مشتمل ہے، جس میں رائٹر اپنی زبانی کہانی سناتا ہے کہ کس طرح وہ ایک شہر سے گذرتا ہے۔

جہاں گندگی،کچرہ، اڑتی دھول لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں، لوگوں کارش ، سائیکلیں ، بائیک ،گاڑیاں کس طرح  پلک جھپکتے گذرتی ہیں اور یہ سارے عناصر مل کر کس طرح قدرتی ماحول پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔اچانک ایک سائیکل سوار جس کی سائیکل سے جڑی ہوئی ایک بگھی ہوتی ہے، جس میں بچہ بیٹھا ہوتا ہے، بس سے ٹکراتا ہے اورمرجاتا ہے۔ جس کے بعد کئی راہگیر اکٹھے ہوتے ہیں اور ہرکوئی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق خیال کے گھوڑے دوڑاتا ہے، کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ قصور بس والے کا تھا، نہیں سائیکل والا اس سے خود جاکر ٹکرایا ۔کوئی بچاؤ ہوا یا نہیں اس ڈرائیور کاکیاہوگا۔ بچہ سائیکل والے کا بیٹا تھا یا نہیں ۔دکھ ، پچھتاوا، انداز ے ٹکراتے نظر آتے ہیں،جس میںلوگوں کی سوچ ، زندگی کے عکس دیکھے جاسکتے ہیں۔

باقی اس میں مجھے تخلیقی عنصرکچھ کم ہی نظر آتا ہے۔ اس لیے اسے ایک عام افسانہ کہا جاسکتا ہے، البتہ میری رائے سے اختلاف کرنا ہرکسی کا حق ہے۔ اگلا افسانہ ہے’ بائنگ اے فشنگ راڈ فارمائی گرانڈفادر ، ایک زبردست تخلیقی شاہکار ہے۔ اپنے بچپن، گھر ، داد،گاؤں کی یادیں اس میں خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں۔ Nostalgia اس میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے، وہ جو پرانے گھر، قدرتی جنگلات، ندی کا بہتا ہوا صاف پانی، چہچہاتے پرندے سب کے سب جدت کے نام پر آثار قدیمہ میں بدل چکے ہوتے ہیں۔ اب یہ رائٹرکو بیاباں نظرآتے ہیں، جس کے نیچے  یہ سب دب چکے ہیں ۔

رائٹر جب اپنے گاؤں کا رخ کرتا ہے۔ تو سب کچھ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے ۔گاؤں کی زندگی میں  تبدیلی اوراپنے احساسات کوانتہائی بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس میں کئی چینی استعارے بھی شامل ہیں۔ جو افسانے کو چار چاند لگاتے ہیں، روانی اورتسلسل بھی پایا جاتا ہے۔ بہرحال Nostalgiaکے شکار لوگ اس افسانے سے زبردست طریقے سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ ’’ان این انسٹنٹ‘‘ افسانے میں سمندرکنارے رائٹر زندگی کا گہرا مطالعہ کرتا ہے، جس میں ہرطرف اسے تیزی سے بڑھتی ہوئی زندگی نظر آتی ہے۔ چاہے کوئی برگر کلاس  ہو یا غریب کسان ہرکوئی اپنی دھن میں مگن ہے۔

البتہ ایک طرف زندگی ہنستی نظر آتی ہے تو دوسری طرف دکھوں کا دریا نظر آتا ہے۔ اس افسانے میں بھی رائٹرکے ذاتی مشاہدات اور چینی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔اس افسانے میں بھی چینی استعارے، زبان کی خوبصورتی اورتخلیقیت کا شاندار امتزاج پایا جاتاہے۔

ہمارے ہاں جو معیاری شارٹ اسٹوری زوال پذیر ہورہی ہے بلکہ دنیا میں بھی قحط پایا جاتا ہے، ان حالات میں شارٹ اسٹوریزکی یہ کتاب پڑھنے کے بعد ہمیں اپنے دور عالمی ادب کے درمیان کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ عالمی ادب میں کسی طرح کی معیاری شارٹ اسٹوری لکھی جارہی ہے اور ہم کس طرف کھڑے ہیں۔ جدید اسٹوری میں کون سے نئے رجحانات پائے جاتے ہیں یا کیا ٹیکنیکس استعمال کی گئی ہیں،اس میں یہ سب سوچ کا سامان موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔