اجتماعی خود کش حملہ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 21 نومبر 2015

قبل مسیح کے مشہور ڈراما نگار Terentius نے کہا تھا ’’آدمی، انسان ہونے کے ناتے جوکچھ انسانیت کو درپیش ہے، اس سے پہلو تہی نہیں کرسکتا ‘‘ ایک طبقے کے عوام کارکن ہونے کے باعث ہم سب کو لوگوں کی تقدیرکا ساجھے دار ہونا پڑیگا، تمام انسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر نا صرف ان کا ہی استحقاق نہیں ہوتا جو عوام کے مقدرکی رہنمائی کرتے ہیں یا جو سماج میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں بلکہ یہ تو ہر طبقے،عہدے اور حیثیت کے لوگوں کا فرض ہوتا ہے مشرقی تیمورکے کارلوس بیلو نے 1996 میں امن کا نوبیل انعام وصول کرتے ہوئے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا تھا ’’سماج آپس میں بنے ہوئے ایسے دائروں کا پارچہ ہوتا ہے۔

جس میں ہرآنیوالی نسل کو دنیا میں پر امن زندگی بسرکرنے کے لیے اپنے حصے کے تجربات شامل کرنا فرض ہوتا ہے میری دنیا کے پیارے نوجوانو۔ آپ کے کاندھوں پر اس ذمے داری کا بوجھ ہے کہ آپ آنے والے کل کو ایسے سماج میں بدل دیں جس میں امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فرماں روائی ہو۔‘‘ انسانیت کے وقارکا دفاع ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے انسانی وقار انسانیت کی مشترکہ جائیداد ہے وہ جائیداد ہم سب جس کی ذمے داری میں حصے دار ہیں ہم سب کی خوشیاں،غم اوردکھ درد سانجھے ہیں کیونکہ ہم سب اس دنیا کے حصہ دار ہیں، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اس دنیا کا حصہ ہیں تو ہم اس دنیا کے با قی انسانوں سے کٹ کر الگ تھلگ ہو کر تنہا ہوکر نہیں رہ سکتے نہیں جی سکتے جب ہم حصہ ہیں تو پھر اس کے امن ، ترقی، بھائی چارے کے فروغ میں ہمارا بھی کردار ہونا چاہیے، کیا ہم دنیا کی ترقی کے مزے نہیں لے رہے ہیں ،کیا اس سے لطف اندوز نہیں ہورہے ہیں حالانکہ اس ساری ترقی میں ہمارا کوئی بھی کردار نہیں ہے ۔

کیا جب ہمارے ہاں کوئی قدرتی آفت آجاتی ہے یا ہم کسی انسانی سانحے سے دوچارہوجاتے ہیں توکیا پوری دنیا کے انسان ہمارے دکھ درد میں ساتھ نہیں کھڑے ہوتے ہیں تو پھر ان سے نفرت کا پروپیگنڈہ کیوں ۔جتنے ہم خدا کے پیروکار ہیں اتنے ہی باقی دنیا کے انسان پیروکار ہیں وہ بھی خدا کی ہی مخلوق ہیں جتنا ہمیں خدا پیارا ہے انھیں بھی خدا اتنا ہی پیارا ہے۔ وہ بھی حرام چیزوں کو حرام ہی سمجھتے ہیں بس فقط ان کے جینے کا انداز اور طور طریقے ہم سے الگ ہیں۔ ہمارے رسم ورواج ان کے رسم و رواج سے مختلف ہیں ۔ توکیا وہ مجرم ہوگئے ہیں کافر ہو گئے ہیں یا خدا نے ہمیں اپنا خصوصی ٹھیکیدار بنا دیاہے یا پھر خدا صرف ہمارا ہی خدا ہے ان کا نہیں ہے ۔

یا ہم خدائی فوجدار ہیں ہماری اسی سوچ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے ساری دنیا ہمیں اپنا دشمن سمجھنے لگی ہے۔ آپ کچھ نہ کریں صرف 50 سال پہلے کے مسلمانوں کے حالات اٹھا کر دیکھ لیں، پوری دنیا کے دروازے آپ کے لیے کھلے پڑے تھے، پوری دنیا آپ کو اپنی آنکھوں پر بٹھاتی تھی۔ آپ کی بدحالی ، جہالت ، بربادی کے پیچھے دنیا نہیں بلکہ آپ کے خود کے حکمران ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار اور عیش وعشرت کی خاطر مسلمانوں کو جہالت، بربادی اور بدحالی کے اندھے کنوؤں میں دھکیل دیا تو پھر ظاہر ہے مذہبی انتہا پسندوں ، بنیاد پرستوں ،رجعت پسندوں اور قدامت پرستوں کی چاندی تو ہونی ہی تھی اور انھوں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معصوم انسانوں میں نفرت کا تیزاب بھرنا شروع کردیا اور انھیں اپنا ایندھن بنانا شروع کردیا اورجس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔

داعش کا پیرس کے معصوم انسانون پر حملہ اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم انسانوں کی ہلاکت ایک ظاہری پہلو ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس حملے کا ایک دوسر ا پہلو بھی ہے جو ظاہری پہلوکے مقابلے میں زیادہ ہولناک اوردہشت ناک ہے۔ یہ حملہ اصل میں یورپ ، برطانیہ ، امریکا ، جاپان ،آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر اجتماعی خود کش حملہ ہے اور جس کے نتیجے میں وہ تباہی اور ہولناکی پھیلے گی جو ہمارے تصور سے باہر ہے اور جس کے نقصانات کی طرف ہمارا بھی دھیان نہیں جارہا ہے لیکن اگر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں اور مذہبی انتہاپسندوں اور دہشتگردوں کی کارروائیوں کو باریک بینی کے ساتھ دیکھیں تو ہمیں یہ فوراً پتہ چل جائے گاکہ ان دہشتگردوں کا نشانہ اصل میں مسلمان خود ہیں یہ مسلمانوں کے علاوہ کسی اورکوکوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ سارا کا سارا نقصان اسلام اور اس کے امیج اور اس کے پیرو کاروں کو ہو رہاہے کیاہم پہلے کم بدنام تھے کیا پہلے ان خطوں میں آباد مسلمانوں کے لیے کم پریشانیاں تھیں جو اب رہی سہی کسر پیرس حملوں نے پوری کردی ہے، اگر دہشتگرد یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ان کی اسی طرح کی بزدلانہ اور وحشیانہ کارروائیوں سے ڈر جائے گی تو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔

خدا کے واسطے کوئی یہ تو بتائے کہ معصوم انسانوں کی ہلاکت سے کیا فائد ے ہوسکتے ہیں ۔ یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ پوری دنیا سے لڑائی لڑلو اور یہ کہنے میں بھی کوئی پیسے نہیں لگتے ہیں کہ پوری دنیا مسلمانوں کی دشمن بن گئی ہے ، تم معصوم لوگوں کو مارتے پھرو اور یہ بھی چاہتے رہو کہ وہ پھر بھی تم سے نفرت نہ کریں تو پھر تم ہی بتاؤ یہ اندازگفتگوکیاہے ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی آج تک پہچان نہیں ہوسکی ہے جس کا جب جی چاہتا ہے وہ اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کبھی مذہب کے نام پر کبھی رنگ و نسل کے نام پر استعمال کر لیتا ہے اور ہم خوشی خوشی باآسانی استعمال ہونے کے لیے دستیاب ہوجاتے ہیں۔

یاد رہے زندگی امن میں ہے جس کے ہم سب حقدار ہیں امن ایک ذہنی کیفیت ہے، ایسی کیفیت جس میں ممالک ، سماج اور افراد اتفاق رائے اور مصلحتوں سے نہ کہ دھمکیوں ، دباؤ اور تشدد سے اپنے اختلافات ختم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ امن ایک ڈھانچہ بھی ہوتا ہے ایسا ڈھانچہ جس کے اپنے ضوابط ، قوانین اور رسم ورواج ہوتے ہیں ہم سمیت دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں ۔

جس میں امن فروغ پاسکے، جس ماحول میں مفلسی اور محرومیوں کا راج ہووہاں امن فروغ نہیں پاتا جہاں تعلیم کی اور آگاہی کی کمی ہو وہاں امن فروغ نہیں پاتا، جبر وتشدد ، ناانصافی اور استحصال امن کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں۔ پہلے پہل اس کی طرف دھیان دینا اشد ضروری ہے ، زندگی جڑنے کا نام ہے تقسیم ہونے کا نہیں زندگی ساتھ مل کر گذارنے کا نام ہے کٹ کر جینے کا نام نہیں زندگی محبت ہے نفرت نہیں۔ آیے! ہم اپنے آنے والے کل کوسنوارنے کے لیے اپنے امن کے لیے اور پوری دنیا کے امن کے لیے ایک ساتھ مل کر جدوجہد کریں اس کے علاوہ باقی تمام راستے ہماری مکمل تباہی کی جانب جاتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔