نمائشی ضلعی حکومتیں واقعی عوام کا بھلا کر سکیں گی؟

رحمت علی رازی  اتوار 22 نومبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اس ملک کا ازل سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے ہر دور میں اسے ایک سیاسی تجربہ گاہ بنائے رکھا،پاکستان کے جملہ سیاستدانوں اور آمروں نے ریاست کے آئین کو سدا اپنے گھر کی لونڈی سمجھا اور از راہِ تفنن اس کے اعضائے آرائش چھید چھید کر اسے من بھاونے گہنے پہناتے اور جمہوریت کا نت نیا ناچ نچاتے رہے تا کہ ان کے ذوقِ تماش بینی کی تسکین ہوتی رہے۔

ملک میں ابتدائے مملکت سے ایک ہی آئین و قانون رہتا اور اسی کے تسلسل کو آگے بڑھایا جاتا تو آج ہمارے پاس ایک مضبوط عدالتی اور انتظامی ڈھانچہ موجود ہوتا،اور ہم کماحقہ ٗ اس قابل ہو چکے ہوتے کہ حالات کی بڑی سے بڑی للکار کا پامردی سے مقابلہ کر سکتے۔ آج ہمارا آئینی ڈھانچہ اس قدر زخم خوردہ اور اپاہج ہے کہ ہر دوسرے مسئلہ کے لیے ہمیں آئین میں ترمیم کا سہارا لینا پڑتا ہے،یہ ترامیم اب تک 21 ہو چکی ہیں (شاید 22 ویں بھی زیر عمل ہے) اور جس تیزی سے ہم مائل بہ ترامیم ہیں،کوئی بعید نہیں کہ آئندہ 21 سالوں میں مزید 21 ہزار ترمیمیں آئین میں ٹھونسنی پڑیں اور تاحال آنکہ ان ترمیموں کا پلندہ بلاشبہ اصل مسودئہ آئین سے 21 گنا ضخیم ہو چکا ہو گا۔ ایکٹ اور آرڈیننس کے اجراء میں تو ہمارے آفرین ہے کہ اس معاملہ میں ہم کوئی ثانی نہیں رکھتے۔

شریعت تو ہمیں اس اجتہادی رحجان و رویہ کی اجازت نہیں دیتی تاہم جمہوریت ہمیں یہ لائسنس ضرور پردان کرتی ہے کہ اپنے تغرض کے لیے ہم آئین کا بدنما چہرہ جس قدر چاہیں مزید بگاڑ لیں۔ اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں کو ’’کُھلے کھاؤ تے ننگے نہاؤ‘‘کا فتویٰ کیا تفویض کیا کہ ہر ایک صوبے نے من مرضی کے قوانین داغنے شروع کر دیے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ پرویز مشرف کے نظامتی ڈھانچہ کی خامیاں رفع کر کے اسے ملک بھر میں مستعد رہنے دیا جاتا،ایسا کرنے سے یقینی طور پر بلدیاتی نمائندے اپنی بھوک مٹ جانے کے بعد عوام کے صد فیصد نہیں تو کم و بیش 50 فیصد بنیادی مسائل ان کے قریب ترین فورم پر حل کر رہے ہوتے۔

مشرف دور کی مقامی حکومتوں کی معیاد 2009ء میں ختم ہوئی تو اپنے اجڑے چمن میں لوٹنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے جنوری 2010ء میں اس سیٹ اپ کے تیسرے غیر جماعتی انتخابات کروانے کو کبیرہ جمہوری گناہ تصور کیا اور اپنے پیروں کی مٹی مضبوط کرنے کے لیے کمشنری نظام کے اصطبل بند گھوڑوں کی پیٹھ جھاڑ کر اور زین و رکاب سربست کر کے انہیں واپس ان کے ریس کورس میں چھوڑ دیا۔ سامراجی عہد کی باقیات کمشنری نظام کو بحال کرنے کی پہل خیبرپختونخوا اور پنجاب نے کی،بعد ازاں بلوچستان اور سندھ نے بھی اس نیکی سے محروم رہنا گوارا نہ کیا۔

دنیا کی قابل مثال جمہوری ریاستوں میں سہ درجاتی طرزِ حکومت معاشرتی ارتقا کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی کے ساتھ ساتھ لوکل باڈیز کے نام سے جانے جانے والے مقامی حکومتوں کے ادارے بنیادی سطح کی اہم ترین عوامی تنظیموں کا درجہ رکھتے ہیں جو ضلع، تحصیل اور ذیلی علاقوں میں میونسپل سسٹم کو بااختیار بناتے ہیں تا کہ سماج کی ہر کمیونٹی کو قریبی یونین کونسلوں کے ذریعے اپنے مسائل کے بروقت حل کے مواقع میسر آ سکیں۔

2008ء کے انتقالِ اقتدار کے بعد مشرف کے رائج کردہ ضلعی نظام کو ظاہری طور پر غیر فعال تو بنا دیا گیا تاہم اس تنظیمی ڈھانچے کی حیثیت کو ختم نہیں کیا جا سکا،ان اداروں کی روح افسر شاہانہ جسم میں تاحال زندہ ہے تاہم ڈسٹرکٹ بیوروکریسی ضلعی حکومتوں کے اختیارات سے حسب منشاء اس لیے لطف اندوز نہیں ہو سکتی کیونکہ اٹھارہویں ترمیم نے قریب القریب تمام انتظامی طاقت صوبائی حکومتوں کے ہاتھ میں تھما دی ہے،اس کے باوصف بلدیاتی حکومتیں غیر عوامی نمائندوں اور وفاقی افسرشاہی کے روپ میں اپنا عمل جاری رکھے رہی ہیں کیونکہ اضلاع کے رقبہ و آبادی کے لحاظ سے ضلع ناظمین کو معہ عہدہ و اختیارات کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی کھال میں چھپا دیا گیا جو آج بھی 2001ء کے لوکل سسٹم کے تحت وضع کیے گئے متعدد محکموں اور شعبوں کی کمان کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر سول ڈیفنس، لاء اینڈ آرڈر، ریونیو کلیکشن، صحت، تعلیم اور ترقیات وغیرہ کے علیحدہ ضلعی اداروں کا انصرام عوامی نمائندوں کی بجائے کمشنر صاحبان کر رہے ہیں جسے ڈسٹرکٹ کوآرڈنیشن کی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا طرفہ تماشا ہے کہ پہلے توبلا توقف بلدیاتی انتخاب کروانے کی بجائے مقامی حکومتوں کے نمایندہ افسران کو جبراً غیر فعال کر کے ضلع ناظمین کے عہدوں پر سرکاری افسروں کو فائز کیا گیا اور اب بے اختیار بلدیاتی حکومتوں کو فرسودہ، کہنہ سال، مطلق العنان اور غیر نمایندہ کمشنریٹ سسٹم کی جوتی تلے رکھ دیا گیا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی بات کی جائے تو ان پر زیادہ عرصہ دو مہا کلاکار سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا ہی قبضہ رہا ہے۔

عوام نے انہیں جب جب لائقِ انتخاب جانا تب تب ہی انھوں نے کمال فنکاری سے انھیں دھوکہ دیا۔ پنجاب کے روحِ رواں شہباز شریف اور سندھ کے بے تاج بادشاہ آصف زرداری صوبائی تشنج میں مبتلا ہو کر اپنے تئیں اپنے اپنے صوبہ کے عوام کا روحانی پیشوا تصور کرتے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ان کے حُروں کا کہیں خواب میں بھی بھلا نہ ہو جائے۔ سندھ اور پنجاب میں بلدیات سے متعلق قانون سازی میں صوبہ گردی کی طلسمی ترمیم کے بعد دو اڑھائی سال دانستہ برباد کیے گئے اور علیٰ لآخر 2013ء میں جو ایل جی ایکٹس منظور کیے گئے ان میں عوامی فلاح و بہبود کے تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کیا گیا۔

پھر جب بلدیاتی الیکشن منعقد کروانے کے لیے معاشرے کے مختلف حلقوں سے احتجاجی صدائیں شد و مد سے بلند ہونا شروع ہوئیں تو 2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے لیے بیوروکریسی والے روایتی تاخیری حربے استعمال کر کے عوام کو مزید دو سال کے لیے تسلی کی پھکی وعدئہ فردا کی پڑیوں میں باندھ کر دیدی گئی۔ ہر بار مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی الیکشن سے صرف اس لیے فرار حاصل کیا جاتا رہا کہ مقامی حکومتوں کو خودمختار بنا دینے سے صوبوں کا حال بھی وہی ہو سکتا تھا جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کا ہوا ہے۔

مہذب معاشروں میں عدم مرکزیت کے نظریہ پر عمل پیرا ہو کر انتظامی اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کر کے عوام کے لیے حتیٰ الوسع آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں مگر ہمارے صوبائی حکمرانوں کو یہ ذرا بھی اچنبھے کی بات نہیں لگتی کہ وہ کلہم اختیارات کا تانا بانا اپنے گرد ہی بننے پر کمربستہ ہیں۔ ہم نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے ترمیمی آڈیننس 2015ء کی چیدہ چیدہ شقوں کا طائرانہ جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ایل جی ایکٹ اور ترمیمی آرڈیننس میں عامۃ الناس کے بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے نہ مقامی نمائندوں کے مطلوبہ انتظامی و مالی اختیارات انہیں تفویض کیے گئے ہیں۔

اور نہ ہی دیے گئے چند اختیارات کی مناسب حدبندی کی گئی ہے،بہ الفاظِ دیگر پی ایل جی ایکٹ 2013ء بشمول ترمیمی آرڈیننس 2015ء کو جنرل ایوب خان کے بی ڈی سسٹم اور جنرل ضیاء الحق کے ایل جی سسٹم کا چربہ کہا جا سکتا ہے اور بحیثیت مجموعی اسے 1979ء کی مقامی حکومتوں کے تسلسل کا درجہ بھی دیا جا سکتا ہے،اس کی مثال کچھ ایسی ہی ہے کہ پشاور سے کراچی جانے والی مسافروں سے بھری ٹرین کی ایک بوگی راولپنڈی میں چھوٹ گئی تھی اور اب یہ ٹرین راستے سے کچھ اور بوگیاں نتھی کرتی ہوئی صادق آباد پہنچ چکی ہے کہ اچانک اس کا ڈرائیور تبدیل ہوتا ہے جو پوری ٹرین کی بوگیاں کسی سنسان جگہ پر چھوڑ کر انجن بھگا کر واپس راولپنڈی پہنچ جاتاہے اور پیچھے چھوٹی ہوئی دونوں خالی بوگیوں کو جوڑ کر دوبارہ کراچی کے لیے خراماں خراماں نکل پڑتا ہے،اور ڈبوں کے دروازے کھڑکیاں مقفل کر دیتا ہے تا کہ راستے سے کوئی مسافر بھاگ کر بھی گاڑی میں سوار نہ ہو سکے۔

ہمارے خادمِ اعلیٰ کو بھی یہی فکر لاحق ہے کہ ان کے راج شاسن کا قلعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے اور جنتا بھلے جھونپڑوں میں رہے، فٹ پاتھوں پر سوئے، جاہلیت میں گھری رہی، بیماریوں سے ہلاک ہو جائے، تھانوں اور عدالتوں میں انصاف تلاش کرتے کرتے تھک جائے، بیروزگاری میں خودکشیاں کرتی رہے، غربت کی چکی میں پستی رہے اور غرضیکہ زندگی کی ہر بنیادی سہولت سے محروم رہ جائے مگر ان تمام مصائب اور سردردیوں میں حکومت اپنا وقت کس خوشی میں ضایع کرے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے کے انتظامی اختیارات کا محور اپنی ذات کو بناتے ہوئے پی ایل جی ایکٹ میں ایسا ’’مثالی‘‘کام لیا ہے اور مقامی حکومتوں کو جائز اختیارات دینے میں آخری حد تک ’’فراخ دلی‘‘کا مظاہرہ کیا ہے،اس پر مستزاد کہ اپنی طاقت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے اس سراب آمیز قانون کا ایک ترمیمی آرڈیننس بھی جاری کر دیا جسکا سیکشن 2، 4، 8 آئین کے آرٹیکل 140-A اور 25 سے صریحاً متصادم ہے۔

آرٹیکل 140-A ہر بالغ ووٹر اور امیدوار کو بلاواسطہ انتخابی عمل کا حصہ بننے کا حق دیتا ہے مگر پنجاب حکومت نے خواتین، اقلیتوں، کسانوں، مزدوروں اور نوجوانوں کو بالواسطہ انتخاب کا حصہ بنا کر ان کے ساتھ سیاسی امتیازی سلوک کیا ہے جس کی آئین کا آرٹیکل25 کسی صورت بھی اجازت نہیں دیتا،یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت کا لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مکمل بدنیتی پر مبنی ہے اور حکمران جماعت نے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا بے جا اور ناجائز استعمال کیا ہے۔

یہ بات یقینی ہے کہ اس آرڈیننس کی شق2، 4، 8 سے کرپشن اور خرید و فروخت کی منفی سیاست کا دَر کھلے گا اور خواتین، یوتھ، اقلیت اور کسان یا مزدور کی جن پانچ مخصوص نشستوں پر براہِ راست انتخابات سے گریز کا راستہ اختیار کیا گیا ہے،ان تمام نشستوں کے لیے چیئرمین، وائس چیئرمین اور 6 کونسلرز اپنے اقارب کا انتخاب کرینگے یا ان سیٹوں کی بولیاں لگیں گی یا پھر سیاسی شخصیات کے سفارشیوں کو منتخب کیا جائے گا۔

یہ ان افراد کے ساتھ ناقابلِ ازالہ قسم کی زیادتی ہے جو اِن مخصوص نشستوں کے لیے انتخاب لڑنا چاہتے تھے۔ آئین کا آرٹیکل25 ہر شہری کے ساتھ مساویانہ سلوک کی بات کرتا اور سوسائٹی کے کسی بھی طبقہ کے ساتھ سیاسی، سماجی اور معاشی امتیاز و استحصال سے روکتا ہے جب کہ اس اِن ڈائریکٹ الیکشن کے ذریعے خواتین، یوتھ، اقلیتوں، کسانوں، مزدوروں کے بنیادی سیاسی جمہوری حق سے انحراف کیا گیا ہے۔ ب

انیِ پاکستان نے11 اگست 1947ء کو پہلی قانون ساز اسمبلی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سوسائٹی کے کمزور طبقات جن میں اقلتیں بطورِ خاص شامل تھیں، کے حقوق کا تحفظ کیا جائے مگر افسوس کہ پنجاب کے حکمران قائد اعظم کے وژن اور فرمودات کے برعکس سوسائٹی کے کمزور طبقات کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق سلب اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے مختلف حیلوں، ہتھکنڈوں سے بلدیاتی اداروں کے آئینی اختیارات غصب کر رہے ہیں،اس پر غضب تو یہ ہے کہ کسی ماتحت یا اعلیٰ و ارفع عدلیہ نے ہنوز پی ایل جی آرڈیننس 2015ء کو کالعدم قرار نہیں دیا حالانکہ یہ آرڈیننس آرٹیکل 140-A اور 25 سے تو کیا آئین کے آرٹیکلز 4، 9، 14، 15، 16 اور 17 سے بھی متصادم ہے جو ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں،بے اختیار عوام اور بے اختیار بلدیاتی اداروں کے ساتھ مخصوص نشستوں کے امیدواروں کا اپنے حق سے محروم رہ جانا اس نام نہاد آرڈیننس کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت ہر یونین کونسل 13 منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے جن میں بالترتیب چیئرمین، وائس چیئرمین، 6 کونسلر حضرات، 2 خواتین کونسلرز جب کہ اقلیتوں، جوانوں اور مزدوروں یا کسانوں کا ایک ایک نمایندہ شامل ہے۔ اب اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی کہ پنجاب حکومت نے مخصوص نشستیں سمیٹنے کے لیے ترمیمی آرڈیننس 2015ء کا اجراء کیا جس کی رُو سے مخصوص نمائندوں کا انتخاب عوام کی براہِ راست رائے کی بجائے یونین کونسلوں کے نو منتخب چیئرمین، وائس چیئرمین اور 6 کونسلرز باہمی مشاورت سے کرینگے۔

پنجاب گورنمنٹ نے اپنے اس جغادری پن پر منطق یہ جھاڑی ہے کہ مخصوص نشستوں پر براہِ راست عوام کے ووٹوں سے انتخابات کرانے کے لیے بیک وقت 6 بیلٹ پیپرز کا استعمال ممکن نہیں اور ناخواندہ ووٹرز ایک ہی وقت میں 6 بیلٹ پیپروں پر مہریں ثبت کرنے کے عمل میں تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں اس لیے پانچ مخصوص نشستوں کے نمائندوں کو نو منتخب نمائندوں کے دائرہ انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم اس بھونڈی دلیل سے کیونکر اتفاق کر سکتے ہیں جب کہ 6 بیلٹ پیپروں کا استعمال بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ہو چکا ہے اور اس سے قبل مشرف دور کے 2001ء اور 2005ء کے دونوں غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات میں بھی یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا تھا اور کسی قسم کی تکنیکی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔

پنجاب حکومت کے اس غیر جمہوری اور آمرانہ رویے سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسے صرف پنجاب سے غرض ہے،پنجاب کے عوام سے نہیں۔ کسی شہری کو حق انتخاب یا حق رائے دہی سے محروم کرنا نہ صرف آئین پاکستان سے انحراف اور قانون کی نظر میں قومی جرم ہے بلکہ یہ ایک سیاسی جمہوری گناہ اور ریاست سے غداری کے بھی مترادف ہے جو اخلاقی اور سماجی بنیادوں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا دوسرا نام ہے۔

بڑا صوبہ ہونے کی حیثیت سے پنجاب پر لازم آتا تھا کہ وہ بلدیاتی نظام کا علمبردار بنتا اور وقتِ نو کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت اور تعمیری قانون سازی کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کا ایک ایسا نظام متعارف کرواتا جس میں انتظامی اختیارات اور علاقائی وسائل کا منبع و مرکز مقامی حکومتوں کے نمائندے ہوتے جو خودمختار حیثیت سے مقامی باشندوں کے بنیادی مسائل ان کے آبائی فورم پر ہی حل کرتے،پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ دیگر صوبے بھی پنجاب کو اپنا رول ماڈل مان کر اس کی تقلید میں ذرا بھی تأمل سے کام لیتے،مگر پنجاب نے اس نظریہ کے بالکل برعکس حکمتِ عملی اپنا کر مخصوص نشستوں کے متوقع امیدواروں کو براہِ راست انتخاب کے حق سے محروم کر کے مقامی سطح پر عوام سے دُور کر دیا ہے اور دوسرے صوبوں کے والیان کے لیے عملی نمونہ بننے کے بجائے تخت ِ لاہور کے مہاراجہ نے اُلٹا ان کی لکیروں کو شیوۂ فقیری بنا لیا ہے۔

مقامی حکومتوں کے زاویہ سے بشمول پنجاب تمام صوبوںکا تقابل کیا جائے تو ان کے منظور کیے گئے قوانین کے مطابق بھی تمام سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل و اختیارات کا مرکز وزیر اعلیٰ کی ذات ہے۔ مقامی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات کے حوالہ سے تمام صوبائی لوکل گورنمنٹ ایکٹس آمرانہ تھیوری پر مبنی ہیں جو وزرائے اعلیٰ کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنی صوابدید پر مقامی حکومت یا کونسل کے سربراہ کو برطرف اور نئے عہدیداروں کا تقرر کرے۔

پنجاب حکومت آٹھوں مقامی اہلکاروں کو 90 دن کے لیے، سندھ 6 ماہ اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومتیں 30 ایام کے لیے معطل کر سکتی ہیں،اس معیاد کے دوران یا بعد میں معطل حکام صوبائی حکومتوں کو نظرثانی پٹیشن بھیج سکتے ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان میں ضلع کونسلیں صوبائی حکومتوں کی ہدایات پر عمل کرنے کی پابند ہیں جب کہ خیبرپختونخوا اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کو مکمل خودمختاری حاصل ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کی ہر طرح سے نگرانی و معائنہ کر سکیں۔

صوبوں نے مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آنیوالے اہم خدمات کی فراہمی کے ادارے (کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ وغیرہ) بھی اپنی تحویل ہی میں رکھے ہیں۔ پنجاب ایل جی ایکٹ کے مطابق مقامی حکومت تعلیم و صحت کی نجی اتھارٹی تخلیق کر سکتی ہے تاہم اس میں مقامی کے ساتھ صوبائی نمائندوں، ٹیکنوکریٹس اور پرائیویٹ سیکٹر کا اشتراک بھی ناگزیر ہو گا اور وزیر اعلیٰ کو ان اداروں کے سربراہان کو برخاست کرنے اور اداروں کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔ مقامی حکومتوں کی ساخت اور حلقہ بندیوں کے سلسلہ میں بھی چاروں ایل جی ایکٹس میں کافی چیزیں مختلف ہیں اور جو ایک قدرِ مشترک ہے وہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی ہے۔

پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے دیہی علاقہ جات میں یونین اور ضلع کونسلیں اور شہری علاقوں میں یونین کونسلیں، کمیٹیاں اور میونسپل کمیٹیاں متعارف کروائی ہیں جب کہ خیبرپختونخوا نے دیہی سطح پر تحصیل اور دیہی کونسلیں اور شہری سطح پر ہمسایہ/متصلہ کونسلیں وضع کی ہیں۔ انتخابی سیاست میں حلقہ بندیاں اور علاقائی اتحاد کو برقرار رکھنا ایک سنجیدہ مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ اس عمل سے انتخابی ہیرا پھیری کا کافی حد تک امکان موجود ہے۔

پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کے مقامی قوانین صوبائی حکومتوں کو اس ہیرا پھیری کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی صوابدید سے کسی حلقہ کو تبدیل، بیدخل، داخل یا از سر نو متشکل کریں۔ پنجاب اور سندھ کے قوانین علاقائی سالمیت کے تحفظ پر بھی زور دیتے ہیں کہ ایک یوسی کی آبادی یکساں ہو اور کوئی یوسی ریونیو تعلقہ سے تجاوز نہ کرے۔ بلوچستان کا مقامی قانون صوبائی حکومت کو بااختیار کرتا ہے کہ وہ وارڈز کا تعین اور حدبندی کرے جب کہ خیبرپختونخوا کا قانون حلقہ بندی اتھارٹی کی تشکیل کی بھی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ اس کی ساخت اور رکنیت متوازن ہو۔

سندھ اور پنجاب کی حلقہ بندیوں کو سیاسی مخالفین نے بارہا تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں دھاندلی کا چینل قرار دیا اور سندھ و لاہور ہائی کورٹس کے فیصلوں میں ان حلقہ بندیوں کو غیر قانونی بھی قرار دیا گیا مگر اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے اس پر کوئی نقطہ اعتراض نہیں اٹھایا۔ انتہائی حیران کن بات تو یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کی معیاد کا تعین کرتے ہوئے ہر صوبہ نے متفرق پیمانہ اپنایا ہے،پنجاب نے لوکل گورنمنٹ کا عرصہ 5 سال، سندھ اور بلوچستان نے 4 سال جب کہ پختونخوا نے 3 سال معّین کیا ہے۔ انتخابی عمل بھی تمام صوبوں میں منفرد اور مضحکہ خیز ہے کہ پنجاب میں یونین کونسلوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب براہِ راست اور مخصوص نشستوں کا الیکشن بالواسطہ ہے جب کہ سندھ میں چیئرمین اور وائس کا انتخاب جنرل اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونیوالے 9 کونسلروں کا پینل کریگا،اسی طرح پنجاب اور سندھ دونوں میں ضلع کونسلوں کے سربراہوں کا انتخاب بھی تمام کونسلوں پر مشتمل ممبران کا الیکٹورل کالج کریگا۔

اس معاملہ میں صرف خیبرپختونخوا ہی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں دیہاتی اور ہمسایہ کونسلوں کی تمام مخصوص اور غیر مخصوص نشستوں کے ممبران کا انتخاب براہِ راست کیا جاتا ہے،بہ ایں ہمہ عورتوں، کسانوں، جوانوں اور اقلیتوں کی نشستوں کے لیے سیٹوں کی تعداد کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو بھی نمائندگی کے تناسب سے اپنے نمائندے لانے کا حق ہے۔ جہاں صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے دیگر معاملات میں گارڈین کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں وہاں مشاورت، ثالثی اور تصفیۂ تنازعات کے لیے بھی انھوں نے جج کا رول خود نبھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے ساتھ بیوروکریسی کو بھی ملوث کر لیا ہے،ایل جی ایکٹس کی رو سے تمام صوبے’’ لوکل گورنمنٹ کمیشن ‘‘(ایل جی سی) کی تشکیل کے مجاز ہیں جس کی سربراہی صوبائی وزراء برائے مقامی حکومت کرینگے جنہیں صوبائی اسمبلی کے ممبران، بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کی معاونت حاصل ہو گی۔

بلوچستان میں اس کمیشن کا نام ڈویژنل رابطہ کمیٹی رکھا گیا ہے۔یہ کمیشن مقامی حکومتوں کی جملہ کونسلوں کے معائنے، سوشل آڈٹ اور تنازعات کے حل کا ذمے دار ہو گا اور اپنی رپورٹس صوبائی حکومتوں کو پیش کریگا۔ علاوہ ازیں چاروں صوبوں کی جانب سے یونین کونسلیں، دیہات کونسلیں اور ہمسایہ کونسلیں مجاز ہونگی کہ وہ عدالت سے ہٹ کر تنازعات کے حل کے لیے کونسلرز کے پینل تشکیل دیں،اس سلسلہ میں پنجاب میں دیہی علاقہ کے لیے علاقہ معززین کی طرف سے نامزد کردہ 9 رکنی پنچایت اور شہری علاقہ کے لیے انجمن مصالحت کا وجود عمل میں لایا جائے گا جس میں پنجاب حکومت کی نامزد کردہ دو خواتین ارکان کی شمولیت بھی ضروری ہو گی۔

بلوچستان میں یہی انجمن ہائے مصالحت دیہی اور شہری دونوں علاقوں کے لیے بنائی گئی ہیں جب کہ خیبرپختونخوانے ازالۂ شکایات کے لیے یونین، ٹاؤن، تحصیل اور ڈسٹرکٹ کونسلرز کے بدست شکایات سیل قائم کر رکھے ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ضلعی یا مقامی پولیس لوکل گورنمنٹ کے ماتحت نہیں لائی گئی جب کہ پختونخوا میں دیہی اور ہمسایہ کونسلوں کو بھرپور اختیارات حاصل ہیں کہ وہ پولیس کی نگرانی کریں اور ان کی سفارشات مرتب کر کے ضلعی حکومت کو بھجوائیں۔ سیاسی اور انتظامی اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم کے حاشیہ بہ حاشیہ مقامی حکومتوں کا دامن مالی اختیارات سے بھی تہی رکھا گیا ہے۔ ایل جی ایکٹس کے مطابق صوبائی وزرائے خزانہ کی سربراہی میں چلنے والے ’’صوبائی فنانس کمیشن‘‘(پی ایف سی) مقامی حکومتوں کے مالی معاملات کے ذمے دار ہونگے اور لوکل کونسلیں اپنے مختص شدہ مالی حصص ’’صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈز‘،(پی ایف سی اے) کے ذریعے حاصل کر یں گی۔

خیبرپختونخوا نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے لوکل گورنمنٹ کو مکمل مالی خود مختاری فراہم کر دی ہے اور ولیج اور نیبرہُڈ کونسلوں کو بااختیار بنا دیا ہے کہ وہ اپنے حلقۂ اختیار کے اہلکاروں سمیت مقامی حکومتی عمال کی نگرانی رکھیں۔ چاروں لوکل گورنمنٹ ایکٹس آڈیٹر جنرل کے ذریعے لوکل کونسلوں کے آڈٹ کا تقاضا کرتے ہیں اور اس کا بھی پابند بناتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے فنڈز کا طریقۂ کار فنانس ڈیپارٹمنٹ اور صوبائی وزرائے خزانہ ہی کے ذریعے طے ہو گا۔ چاروں صوبوں کے لوکل گورنمنٹ قوانین کے چند اہم پہلوؤں کی تلخیص کے بعد ہم اسی نتیجہ تک آئے ہیں کہ موجودہ شکل میں ان غاصبانہ قوانین کی عملداری سے مقامی حکومتوں اور انہیں منتخب کرنے والے عوام کا کسی لحاظ سے بھلا ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی۔

صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کے اختیارات میں ڈنڈی مار کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم محض وفاق کو کمزور کرنے کا ایک ہتھیار ہے اور حقیقت میں صوبوں کے نفسِ عامہ کو اس سے کوئی فائدہ و فیض نہیں۔ تقابلی طور پر جائزہ لیا جائے تو کسی حد تک خیبرپختونخوا کی مقامی حکومت ہی معدوے چند اختیارات کی حامل نظر آتی ہے،دیگر تینوں صوبوں کی بلدیاتی حکومتیں تو ایوب خان اور ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام سے بھی ہزارہا درجے گئی گزری ہیں۔ مجموعی طور پر ہر صوبے نے لوکل کونسلوں کو انتظامی اختیارات، مالی معاملات، ریونیو، ٹیکس، پولیس اور خدمت گزاری کے سلسلہ میں انتہائی محدود خود مختاری فراہم کی ہے۔

اگر لوکل الیکشن کا کوئی موزوں مطلب نکلتا ہے تو صوبائی حکومتوں کو یہ امر یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نو منتخب لوکل کونسلوں کو خاطر خواہ وسائل و اختیارات مرحمت کیے جائینگے تا کہ وہ خدمتِ عامہ اور مقامی کمیونٹی کے ترقیاتی چیلنجز سے نمٹ سکیں۔ وفاق کے بے اختیار ہو جانے کے بعد صوبوں کو چاہیے کہ وہ مضبوط صوبائی فیڈریشن کا کردار ادا کریں اور اٹھارہویں ترمیم کی تمام خودمختاری اٹھا کر مقامی حکومتوں کی جھولی میں ڈال دیں کیونکہ خود مختار لوکل حکومتیں ہی گورننس اور خدمتِ عامہ کے معیار میں بہتری لا سکتی ہیں۔

منظور کردہ قوانین میں ترامیم اور نئے قوانین کے ذریعے صوبائی اور مقامی سرکاروں میں تقسیم اختیارات اور ضابطۂ عمل کو واضح کیا جائے،ان مبہم مقامی قوانین کی وجہ سے صوبائی و مقامی حکومتوں اور ضلعی بیوروکریسی کے مابین پائی جانے والی فضا انتہائی مکدّر اور غیر واضح ہے ۔

جس کے لیے طاقت کا توازن قائم کرنے اور صوبائی مقامی حکومتوں کے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر رولز آف لاء طے کرنے کی ضرورت ہے ورنہ بلدیاتی الیکشن کا فقط یہی تاثر لیا جائے گا کہ کہیں خانہ پری تو کہیں سپریم کورٹ کی نظر میں سرخرو ہونے کے لیے ان کا انعقاد کیا گیا ہے،دوسرے معانی اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بے اختیار مقامی حکومتیں عوام کا بھلا کرنے سے تو رہیں،ہاں ان کی شکل میں خادمِ اعلیٰ اور سائیں سرکار کو سرکاری بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ ایک پولٹیکل بیوروکریسی بھی ہاتھ لگ گئی ہے جو مقامی سطح پر بیٹھ کر صوبائی حکومتوں کے ہاتھ مضبوط کریگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔