فیض میلہ سے گورمانی مرکزِ ادب تک

انتظار حسین  پير 23 نومبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

فیض فیسٹیول کہو‘ فیض میلہ کہو‘ دونوں جائز ایک فرق کے ساتھ۔ ہمارے میلے بالعموم دیہاتی کلچر میں رچے بسے ہوتے ہیں۔ فیض میلہ کا رنگ ذرا مختلف ہے۔ فیض کی شاعری کا رشتہ بیشک عوامی زندگی سے جڑا ہوا ہو۔ مگر فیض کے رسیا شہری رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑھ کر وہ نوجوان مخلوق ہے جو ابھی یونیورسٹیوں کالجوں کی فضا میں سانس لے رہی ہے یا ابھی ابھی وہاں سے فارغ ہوئی ہے اور وہاں کی علمی تعلیمی فضا اپنے ساتھ ساتھ پھرتی ہے۔ شعر و ادب سے اس کا رشتہ زندہ و تازہ ہے۔ اور اگر کوئی شاعر اپنی شخصیت شاعری کے علاوہ اپنے ساتھ ایک گلیمر بھی لائے تو سبحان اللہ۔ چپڑی اور دو دو۔

تو صاحب آپ ذرا لاہور آرٹ کونسل میں قدم رکھ کر دیکھئے۔ اگر قدم رکھنے والا کوئی ادیب ہے اور ’’فیضیات‘‘ کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے آیا ہے تو قدم قدم پر پکڑا جائے گا۔ کیمروں سے مسلح ٹولیاں قدم قدم پر اس کا رستہ روکیں گی۔ ان کے ساتھ تصویر کھنچواؤ اور آٹو گراف سے نوازو۔ پھر آگے جانے کا رستہ ملے گا۔

فیض صاحب ایک تہہ والے شاعر تو نہیں تھے۔ شاعری تہہ دار۔ شخصیت رنگ برنگی۔ شاعری سے مختلف فنون سے رشتہ استوار۔ سو یہاں ادب کے نقادوں‘ دانشوروں سے ہٹ کر فلمی شخصیتیں بھی نظر آئیں گی اور موسیقی کے ہنر مند بھی اور مصوری کے شناور بھی۔

فیض صاحب کی شخصیت کے گلیمر کے آپ کشتہ ہیں تو پھر آپ زہرا نگاہ کے پروگرام میں جائیے۔ انھیں فیض صاحب کے سلسلہ میں چہکتے دیکھئے۔ فیض صاحب کو ہمارے زمانے کے کتنے بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں نے دیکھا ہے۔ ان کی اپنی اپنی یادیں ہیں مگر زہرا نگاہ کو اس باب میں دو طرح کا امتیاز حاصل ہے۔ ایک تو یہ کہ فیض صاحب نے خوشگوار زمانوں کے ساتھ سختی کے زمانے بھی تو دیکھے ہیں۔ سختی کے زمانوں میں کتنا بہت سا وقت لندن میں گزارا ہے اور وہاں بالعموم زہرا نگاہ کے مہمان رہے۔ ایک جونیئر شاعرہ ایک ایسے شاعر کو جو کتنے خوشگوار اور ناخوشگوار موسموں کو سہ چکا ہے اب یہاں اپنے شب و روز گزارتے دیکھ رہی ہے۔

اس کا اپنا مشاہدہ دوسروں سے بہت مختلف ہونا چاہیے۔ اور پھر اس کے بیان کا اپنا انداز۔ ذکر فیض صاحب کا اور پھر بیان زہرا نگاہ کا۔ نسوانی رنگ میں رنگی ہوئی بیان کی چاشی۔ اس میں ہلکا ہلکا مزاح کا رنگ۔ فیض صاحب کی سادگی‘ معصومیت اور اس کے ساتھ بڑے شاعروں والی ان کی لٹک‘۔ ارے انھیں ان کیفیتوں کے ساتھ زہرا نگاہ سے بڑھ کر اور کس نے جانا اور بیان کیا ہے اس نشست پر موقوف نہیں۔ کتنی بار انھیں ہم نے غیر رسمی صحبتوں میں فیض صاحب کے بارے میں رواں دیکھا ہے۔ ایسی فضا پیدا کرتی ہیں اور بیان اس طرح باندھتی ہیں کہ فیض صاحب جیتے جاگتے آپ کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ اور یادیں ان کے پاس اتنی ہیں کہ وہ ایک پورا یادنامہ مرتب کر سکتی ہیں۔ کوئی ادارہ‘ کوئی ناشر ان کو اس حوالے سے چھیڑ کر دیکھے تو سہی۔

یہاں ان نشستوں میں فیض صاحب کی فلم سے دلچسپی کا بھی ذکر آیا۔ ایک فلم بھی تو ان سے یاد گار ہے۔ جاگو ہوا سویرا۔ خوب فلم تھی۔ پاکستانی فلم تو اپنی بلند آہنگی سے جانی جاتی ہے۔ یہ دھیمے آہنگ کی فلم تھی۔ سو اسے مارکیٹ میں تو کیا کامیاب ہونا تھا۔ وقتاً فوقتاً سننے میں آیا کہ فیض صاحب کے پیش نظر کسی فلم کا منصوبہ ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ کسی ایسے ہی منصوبے میں ایک موقعہ پر ہم نے بھی انھیں غلطاں دیکھا۔ اس زمانے کا ذکر ہے جب انھوں نے گلبرگ میں اپنا ایک دفتر بنا رکھا تھا۔ جانے کس تقریب سے ہم ان کے اس دفتر میں گئے۔ اس وقت وہ اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ جانے سچ مچ فلم کا کوئی منصوبہ پیش نظر تھا یا بس کوئی ایسی ہنڈیا کھدبد کر رہی تھی۔ ہم سے پوچھنے لگے کہ ارے بھئی کوئی ایسی کتاب بھی ہے جس میں دلی کی تہذیب کے ساتھ خصوصیت سے اس تہذیب کے کھانوں وانوں کا بھی ذکر ہو۔

ہم نے عرض کیا کہ فیض صاحب دلی کے کھانوں کے دو ذائقے ہیں۔ ایک ذائقہ تو جامع مسجد کی سیڑھیوں سے منسوب ہے ان سیڑھیوں پر تو دیگیں، دیگچیاں چڑھتی تھیں ان کا اور ان کے ماہرین کا ذکر تو تفصیل سے اشرف صبوحی نے کر رکھا ہے۔ باقی رہا لال قلعہ کا دستر خواں تو اس کا ذکر تو پوری تفصیل کے ساتھ تو ایک بزرگ فیض الدین نے اپنی کتاب ’بزم آخر‘ میں کر رکھا ہے کہ شاہی روٹیاں بھی گن رکھی ہیں۔ پھلکے‘ پراٹھے‘ بیسنی روٹی‘ غوصی روٹی‘ پستے کی روٹی‘ بادام کی روٹی وغیرہ وغیرہ

’’یہ کتاب کہاں ملے گی بھئی‘‘۔

’’ہم نے کہا کہ وہ تو دلی کی اردو اکیڈمی نے شایع کی ہے‘‘۔

’’تو بھئی کہیں سے ذرا ہمارے لیے فراہم کرو‘‘۔

ہمارے پاس خیر سے اس کے دو آڈیشن موجود تھے ایک نسخہ فیض صاحب کو نذر کر دیا۔ مگر پھر اس کے بعد کسی ایسے فلمی منصوبے کا ذکر فکر ہمیں نہیں سنا۔ پھر فیض صاحب سے بھی پوچھنے کا خیال نہیں آیا کہ یہ کیا منصوبہ تھا۔ اور کس مرحلہ میں ہے۔

ارے ہاں اسی میلہ میں شرکت کے لیے ہندوستان سے شمس الرحمن فاروقی بھی تو آئے ہوئے ہیں۔ ویسے ان کے میزبان دو ہیں۔ ادھر وہ لمز میں گورمانی مرکز زبان و ادب کے مہمان ہیں ادھر فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے مہمان ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہاں کی پوری ادبی دنیا کے مہمان ہیں۔ ارے ایسے موقعے کب کب کے آتے ہیں کہ ادھر ہندوستان میں اردو کے جو افتاب و ماہتاب ہیں ان میں سے کوئی ادھر آ نکلے پھر تو یہاں کی ادبی دنیا کے لیے عید ہے۔ اور شمس الرحمن فاروقی کا معاملہ ہے کہ وہ پہلے نئے افسانے اور نئی شاعری کے مائی باپ بنے ہوئے تھے۔ مگر پھر ہوا یہ کہ انور سجاد کو انھوں نے تجریدی افسانے کے پہلوان کی حیثیت سے شاباشی دی اور خود سیدھے سچے رنگ میں ایک معرکۃ الارہ ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ لکھ ڈالا اور داستان امیر حمزہ کے سمندر کے شناور کی حیثیت سے نامور ہوئے اور پھر کلاسیکی عہد کی شاعری اور زبان و بیان پر مستند ٹھہرے۔

اب یہاں آئے ہیں تو کہاں کہاں بلائے جا رہے ہیں کہ ہمیں بھی کچھ عطا ہو۔ لمز میں ایک لیکچر بعنوان ’’ادب کیوں‘‘ دے چکے ہیں۔ دوسرا لیکچر بعنوان ’’اردو غزل کی تہذیب‘‘ کے عنوان سے دیں گے۔ فیض فاؤنڈیشن کی تقریب میں ایک بحث اس پر کر چکے ہیں کہ فیض صاحب کی قبول عام کے اسباب کیا ہیں۔ اور اب کچھ میرؔ کے حوالے سے بولیں گے اور ادھر حلقہ ارباب ذوق میں ان کا انتظار ہو رہا ہے مطلب یہ کہ یاران ادب اتنا کچھ ان سے سن چکے ہیں اور کتنا کچھ سننا باقی ہے اور کتنا کچھ باقی ہے تو یوں سمجھو کہ

سفینہ چاہیے اس بحر بیکران کے لیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔