دہشت گردی کا بڑھتا ہوا مظہر

مقتدا منصور  پير 23 نومبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب، پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ نے پوری دنیا کو سراسیمہ کر دیا ہے۔ ان حملوں میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد جاں بحق اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ 9/11 کے بعد غالباً یہ دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ تھا، جس نے غیر جانبدار حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ جس پر غور اشد ضروری ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پیرس میں ہونے والا سانحہ خلیجی ممالک بالخصوص شام و عراق پر مغربی دنیا کے نئے حملے کا جواز ہے۔ دوسرا حلقہ اس خدشہ کا اظہار کر رہا ہے کہ اس سانحہ کے بعد مغرب اور مسلمانوں کے درمیان پہلے سے موجود خلیج مزید گہری ہو جائے گی۔ جس کے نتیجے میں دنیا ایک نئی قطبیت (Polarization) کا شکار ہو سکتی ہے۔ تیسرے حلقے کے خیال میں اس سانحہ نے مسلمانوں اور مسیحی کمیونٹی کے درمیان نفرتوں کی فصیل کھڑی کر دی ہے، جو دنیا میں تیزی کے ساتھ مقبول ہوتی سیکولر معاشرت کے خلاف گہری سازش ہے۔

لوگوں کی آرا اپنی جگہ، لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے ان مظاہر کا پس منظر کیا ہے؟ اور تیزی کے ساتھ پھیلنے کے اسباب کیا ہیں؟ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، تو اقوام متحدہ ابھی تک اس کی کوئی واضح تعریف نہیں کر سکی ہے۔ البتہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کارروائی، جس میں معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جائے، دہشت گردی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی ایک پیچیدہ مظہر ہے، جس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔

دہشت گردی کی تاریخ تو اتنی ہی پرانی ہے، جتنی انسانی معاشروں کی تشکیلات کی تاریخ ہے۔ لیکن دنیا بھر میں دہشت گردی کی موجود لہر کا سبب دنیا کے بیشتر خطوں میں جاری نوآبادیاتی نظام حکمرانی اور محکوم اقوام کے ساتھ توہین آمیز استحصالی رویہ ہے۔ مسلم دنیا میں یورپ و امریکا کے خلاف عمومی جذبات اس وقت بھڑکے، جب 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ آرتھر جیمز بالفور نے برطانوی یہودی کمیونٹی کے رکن والٹر روتھ چائلڈ کو خط کے ذریعے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرائی۔ مگر 31 برسوں کے دوران فلسطینی مسلمانوں نے بھی کم غلطیاں نہیں کیں۔ نتیجتاً برطانوی چالبازیوں اور فلسطینیوں کی حماقتوں کے باعث 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی موجودہ ریاست وجود میں آ گئی۔ اس ریاست کے قیام نے خلیج کے علاقے میں ایک نئی متشدد سیاسی کشمکش کو جنم دیا۔ فلسطینی عوام نے اپنے علاقوں پر عیاری سے قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا، جسے کچلنے کے لیے نومولود اسرائیلی ریاست نے بھی تشدد کی راہ اپنائی۔ یوں دونوں جانب سے دہشت گردی کی ان گنت وارداتیں ہوئیں، مگر دہشت گردی کا یہ مظہر فلسطین کی سرزمین تک محدود رہا۔

مگر 1979ء میں افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے اثرات پوری مسلم دنیا پر براہ راست مرتب ہوئے۔ کیونکہ افغانستان میں ایک ایسی جنگ شروع کی گئی، جس میں اسلام کے تصور جہاد کو ایک نئی تفہیم کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی ایک انوکھی جنگ تھی، جس میں دنیا بھر سے بھرتی کیے گئے جنگجو جہاد کے نام پر حصہ لے رہے تھے۔ امریکا سرمایہ اور ہتھیار، جب کہ پاکستان جنگجوؤں کو عسکری تربیت اور رسل و رسائل کی سہولیات فراہم کر رہا تھا۔ اس سے قبل علما کی واضح اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ صرف اسلامی ریاست ہی جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ 1948ء میں کشمیر میں قبائلیوں کی کارروائی کو بیشتر علما نے جہاد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن انھی علما اور ان کی جماعتوں نے افغانستان میں برسرپیکار جنگجو جتھوں کی گوریلا کارروائیوں کو جہاد تسلیم کر لیا۔

افغانستان میں سوویت فوجوں اور جنگجوؤں کے درمیان تقریباً ساڑھے آٹھ برس تک جنگ جاری رہی۔ جنگ کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ہر قسم کے رسد کی فراہمی کا مرکز بنا دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جنیوا میں شروع کردہ مذکرات بالآخر کامیاب ہوئے اور 14 اپریل 1988ء کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ معاہدے کی رو سے سوویت افواج کو مئی 1988ء سے فروری 1989ء کے دوران افغانستان سے نکل جانا تھا۔ جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوئے، امریکا اس خطے کے معاملات سے بے نیاز گیا۔ اس نے ان جنگجو جتھوں کو بھی فراموش کر دیا، جنھیں جہاد کے نام پر دنیا بھر سے پاکستان کے قبائل علاقوں میں جمع کیا گیا تھا۔ نہ ان کے لیے روزگار کے متبادل ذرایع کا انتظام کیا اور نہ ہی ان کی عسکری قوت کو Defuse کرنے کا کوئی اہتمام کیا۔ اس کے برعکس پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی دفاعی امداد بند کر دی اور 1990ء کے دسمبر میں کویت پر حملہ کو بہانہ بنا کر عراق پر چڑھائی کر دی۔

یہ دونوں واقعات افغانستان میں ملنے والی کامیابی کے نشے میں چور جنگجو جتھوں کی عزت نفس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھے۔ ان کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ ہو چکا تھا کہ اپنے علاقوں اور عز و وقار کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کے سامنے واحد راستہ عسکری قوت کے استعمال کا ہے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ افغانستان میں ان کی یہ کامیابی دراصل ایک سپر پاور کی امداد کی مرہون منت تھی، جو دوسری سپرپاور کے خلاف انھیں استعمال کر رہی تھی۔ اس زمانے کے اخبارات اور رسائل پر نظر ڈالی جائے تو شایع ہونے والے مختلف مضامین اور اظہاریے ان دعوؤں سے بھرے نظر آئیں گے کہ جس طرح مسلمانوں نے جہاد کی قوت سے سوویت یونین کو شکست دی اور اسے پارہ پارہ کر دیا، اسی جذبہ سے امریکا کو بھی ملیامیٹ کیا جا سکتا ہے۔ اسامہ بن لادن مرحوم جو کبھی امریکا کی ایما پر سوویت یونین کے خلاف استعمال ہونے والے جنگجو جتھے تیار کیا کرتے تھے، عراق پر امریکی حملے اور سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ممالک میں امریکی فوجوں کی کیمپنگ کے سبب اس کے مخالف ہو گئے تھے۔ انھوں نے القاعدہ کے نام سے عسکریت پسند تنظیم قائم کر لی جس کا مقصد مغربی ممالک کو زچ کرنے کے لیے ان کے سفارت خانوں پر حملے کرنا تھا۔ اسی دوران 9/11 ہو گیا اور عالمی سطح پر ایک نیا سیاسی تنازعہ پیدا ہو گیا، جو دنیا بھر میں پھیلے عام مسلمانوں کے لیے نئے مسائل کا باعث بنا۔

گو ابھی تک یہ معاملہ سربستہ راز ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک پر ہونے والے حملوں کے پس پشت کون سے عوامل اور عناصر کارفرما تھے؟ مگر چونکہ حملے میں حصہ لینے والے تمام افراد عرب تھے اور القاعدہ نے ذمے داری بھی قبول کر لی تھی، اس لیے دنیا بھر میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ مسلم شدت پسند تنظیموں کی کارروائی تھی۔ ردعمل میں پہلے افغانستان اور پھر عراق پر امریکی حملے نے مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو مزید گہرا کر دیا۔ اسی دوران پروفیسر ہنٹنگٹن کی ’’تہذیبوں کا ٹکراؤ‘‘ نامی کتاب منظرعام پر آئی، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نتیجتاً ہر چھوٹے بڑے مسلم ملک میں شدت پسند مسلمان مجتمع ہونے لگے۔ پاکستان اور افغانستان میں پہلے سے موجود جنگجو جتھوں کو ایک نیا مشن ہاتھ آگیا۔ لیکن اس دوران مسلم دنیا جو فقہی بنیادوں پر ڈیڑھ ہزار برس سے منقسم چلی آ رہی تھی، علاقائی سیاسی برتری کی ایک نئی متشدد تقسیم سے دوچار ہو گئی۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ نے پوری مسلم دنیا میں بالعموم جب کہ خلیجی ممالک میں بالخصوص اس تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔

امریکی منصوبہ سازوں کی کوتاہ بینی اور عجلت پسندی کی وجہ سے دنیا ہر چند برس بعد ایک نئے بحران سے دوچار ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ عرب دنیا میں ہوا، جہاں شخصی آمریتوں کی چیرہ دستیوں کے خلاف عوامی احتجاج کی امریکا اور یورپ نے سرپرستی شروع کر دی۔ لیکن یہ سوچنے اور سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ مضبوط سول سوسائٹی کے بغیر جمہوریت کے پودے کا پنپنا ممکن نہیں ہوتا، بلکہ شدت پسند اور فاشسٹ قوتیں پیدا ہونے والے انتشار کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ تیونس سے شروع ہونے والی ’’عرب بہار‘‘ جلد ہی ’’خزاں‘‘ میں بدل گئی۔ مصر میں اخوان جیسے مذہبی شدت پسند عناصر جب اقتدار میں آئے، تو انھیں ہٹانے کے لیے ایک بار پھر فوج کا سہارا لینا پڑا۔ کرنل معمر قذافی کے باغیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد لیبیا بے امان ہو گیا۔ یمن کی خانہ جنگی دو مسلم ممالک کی سیاسی بالادستی کی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ شام اس سے بھی ابتر صورتحال کا شکار ہو گیا۔ جہاں سیاسی کشمکش نے عقیدے کی شکل اختیار کر لی اور داعش جیسی تنظیموں کو ابھرنے اور عوام میں قبولیت حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ سیاسی و سماجی مدبرین جو عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور مسلمانوں میں اثر و نفوذ رکھنے والے علما اور مشائخ ہر قسم کی مصلحت کو پس پشت ڈالتے ہوئے جرأت کے ساتھ سامنے آئیں اور پوری دنیا کے مسلم عوام کو یہ باور کرائیں کہ جدید ٹیکنالوجی پر قدرت حاصل کیے بغیر مغرب کے ساتھ تصادم خود مسلمانوں کے اپنے وجود کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انھیں یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو کمیونٹی خود آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہو، وہ کس طرح دوسری کمیونٹیز کی قوت کو چیلنج کر سکتی ہے۔ ان کے متشدد طرز عمل کے ردعمل میں دنیا ان کے خلاف مجتمع ہو سکتی ہے، جو عالمی سطح پر ان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے انھیں فکری و تہذیبی نرگسیت سے باہر نکل کر حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، جو اس کرہ ارض پر نسل انسانی کی بقا کا واحد راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔