کیا ایران صورتِ حال سے نبردآزما ہو پائے گا؟

غلام محی الدین  جمعـء 26 اکتوبر 2012
 ایرانی صدر نے حال ہی میں تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اِس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کا ایٹمی جوہری پروگرام طے شدہ ہدف کے مطابق مکمل کیا جائے گا. فوٹو: فائل

ایرانی صدر نے حال ہی میں تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اِس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کا ایٹمی جوہری پروگرام طے شدہ ہدف کے مطابق مکمل کیا جائے گا. فوٹو: فائل

اسلام آباد: آئندہ سال نئے ایرانی صدارتی انتخابات سے پہلے ایران کی صورت حال کیا ہو گی؟ کیا اس پر ملٹری جارحیت ہو چکی ہو گی؟

اِس بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہے لیکن اِس وقت ایران پر اقتصادی پابندیوں کے جو منفی اثرات دکھائی دے رہے ہیں ان سے یہ اشارے ضرور ملتے ہیں کہ نئے صدارتی انتخابات سے قبل یورپی یونین اور امریکی انتظامیہ ایسا کچھ نہ کچھ کر چکی ہو گی جس سے موجودہ قدامت پسند حکم رانوں کی جگہ اعتدال پسندوں کی حکومت بنانے کے لیے راہ ہم وار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایران کی موجودہ اقتصادی حالت زار پر خود ایرانی صدر نے حال ہی میں تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اِس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کا ایٹمی جوہری پروگرام طے شدہ ہدف کے مطابق مکمل کیا جائے گا لیکن دوسری جانب ایران میں ابھی سے دکھائی دینے والی عوامی سطح پر بے چینی، امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ، ایرانی کرنسی کی گرتی چلی جاتی ساکھ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایران سے سرمایہ نکالنے کا عمل اس بات کا غماز دکھائی دیتا ہے کہ ایران کے گرد گھیرا روز بہ روز تنگ ہو رہا ہے اور سام راجی طاقتوں نے ایرانی جوہری پروگرام کو تاحال سرفہرست رکھا ہوا ہے تاکہ اِس کو ہر قیمت پر روکا جا سکے۔

اِس منصوبے میں ایران اور ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ بھی شامل ہے گو ابھی تک امریکا کسی نئے جنگی محاذ پر الجھنے کو اپنے لیے مناسب خیال نہیں کر رہا جب کہ دوسری جانب اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ ایران پر ملٹری جارحیت جتنی جلد ممکن ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ امریکا کی ہچکچاہٹ اس لیے بھی ہے کہ خود امریکی تھینک ٹینکس نے اپنی حکومت کو یہ باور کرایا ہے کہ ایران پر ملٹری حملے سے کبھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے البتہ ہو گا یہ کہ عالمی سطح پر ایران کو ہم دردیاں حاصل ہوں گی مگر اسرائیلی موقف یہ ہے کہ ایران پر زمینی حملوں کے بجائے فضائی حملوں سے کام لیا جائے تاکہ درست نشانوں کے ذریعے یورینیئم کی افزودگی کے کارخانوں کو جلد از جلد ختم کیا جا سکے۔

عالمی سطح پر تیزی سے اور مسلسل بدلتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین نے جو اندازے لگائے ہیں اُن کے مطابق ایران کے صدارتی انتخابات سے پہلے امریکی ملٹری جارحیت کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اگر ملٹری جارحیت نہ بھی ہوئی تو قدامت پسند حکم رانوں کی جگہ اعتدال پسند گروپوں کی راہ ہم وار کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے خلاف عوامی سطح پر بغاوت کو ہوا دی جا سکتی ہے، امریکی اور مغربی میڈیا کی یلغار کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایران کے ایٹمی سائنس دانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی شدت آ سکتی ہے۔ ابتدائی طور پر امریکا نے جس دیدہ دلیری کے ساتھ ایران کی ایک انتہا پسند تنظیم ’’مجاہدینِ خلق‘‘ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کیا ہے، اُس پر پوری دنیا حیران ہے مگر سب خاموش ہیں۔

عالمی مبصرین نے یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ سال 2013 میں ایران کے صدارتی انتخابات میں اعتدال پسند گروپ کے امیدوار کی کام یابی سے ایران خود بخود اپنے جوہری پروگرام سے دست بردار ہو جائے گا مگر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اس منطق کو ماننے کے لیے تیار نہیں، فرماتے ہیں کہ ایران اپنا ایٹمی ہدف حاصل کرنے کے لیے صرف چھے سے آٹھ ماہ کی دوری پر ہے اگر دسمبر 2012 تک ایران کو بھرپور طاقت کے ساتھ نہ روکا گیا تو عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا کیوںکہ ایران کا اصل نشانہ اسرائیل ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے خوف کی یہ کڑیاں کسی جامع اطلاع یا قیاس پر مبنی ہیں، اِس ضمن میں امریکی اور مغربی میڈیا نے گل افشانی نہیں کی البتہ اتنا ضرور کہا ہے کہ پابندیوں کے ذریعے ایران کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جا سکتا ہے، اور اس امر کا بھی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ ایران کا موجودہ اقتصاد اور کتنے دن اپنے پائوں پر کھڑا رہ سکتا ہے، اس بارے میں اقتصادی پابندیوں کے مختلف پہلوئوں پر تحقیقی انداز میں جو سروے اور رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں او ر اعداد و شمار بھی سامنے لائے جا رہے ہیں وہ نہ صرف دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں بل کہ سماجی میڈیا پر بھی اچھالے جا رہے ہیں۔

مغربی اور امریکی میڈیا نے کبھی کبھار ایسی خبریں اور رپورٹیں جاری کرنے کا بھی سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے یہ تاثر بنے کہ امریکا، ایران کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے، یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے، اس سے ایک عام آدمی مغربی میڈیا کی دیانت کو شک و شبہے سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق مجاہدین خلق اور جنداللہ کے ارکان کو امریکی انٹیلی جنس اپنی ریاست نِواڈا کے کسی دور دراز مقام پر جنگی تربیت دے رہی ہے، بحوالہ (The World Duntome)، اِسی طرح این بی سی نیوز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی سیکرٹ سروس، امریکی خفیہ ادارے کے ساتھ مل کر ایرانی ایٹمی سائنس دانوں کو ہلاک کرانے کی سازش میں ملوث ہے مگر جس طرح ایرانی عوام کو غیر ملکی کرنسی بالخصوص ڈالر خریدنے کی ترغیب دی جا رہی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ ایرانی کرنسی کے بدلے ڈالر کی خریداری کے خلاف گو ایرانی حکومت نے سخت ایکشن لیا ہے لیکن اِس کے مثبت اثرات ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔

امریکا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کی داستان نئی نہیں لیکن اِس تناظر میں یہ سوال اہمیت کا حامل ضرور ہے کہ مسلم ممالک میں پاکستان کے بعد عراق، ایران اور لیبیا کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کی جو حکمت عملی کئی سال پہلے وضع کی گئی تھی اس کا مقصد کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو ایٹمی طاقت اِس لیے نہیں بننے دیا جائے گا کہ عالمی سطح پر تیل کے وسائل سے لے کر ترسیل کے عمل تک، اِن اسلامی ایٹمی قوتوں کی مکمل اجارہ داری نہ قائم ہو جائے، اِس خوف نے شاید امریکا سمیت دیگر مغربی اور بڑی طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہو۔

ایران کے حق میں خاموشی مزید پراسرار خاموشی میں جس طرح بدلی ہے وہ قابل غور ہے۔ ماضی میں کیا پاکستان کو اِس لیے ایٹمی طاقت بننے دیا گیا تھا کہ یہاں تیل اور گیس کے وسیع خزانے نہیں تھے لیکن اِس کے باوجود پاکستان کی ایٹمی قوت کو متنازع بنا کر کم زور کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں تاکہ کل کلاں کو پاکستان بھی مطلوبہ وسائل کے استحصال کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

ایران کی جانب سے آب نائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی سے تیل کا عالمی بحران پیدا ہونے کا خدشہ تو اپنی جگہ مگر دوسری جانب خلیج فارس کی ریاستوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی معطل کی جا سکتی ہے کیوںکہ سعودی عرب، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بیش تر حصہ آب نائے ہرمز کے راستے ہی درآمد کیا جاتا ہے۔ اِس دھمکی کے بعد اِن ممالک میں پانی ذخیرہ کرنے کے میگا پاجیکٹس پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ کچھ مبصرین کے مطابق اِن منصوبوں کی تکمیل تک ایران پر پابندیاں تو جاری رکھی جائیں گی مگر فوجی جارحیت کا خطرہ امریکا اور خطے کے دیگر ممالک مول نہیں لیں گے۔

ایران کا ناطقہ بند کرنے کے لیے ایران پر یہ تازہ الزام بھی عائد ہو رہا ہے کہ خلیجِ فارس میں کام کرنے والی تیل اور گیس کمپنیوں پر ایران کے ہیکر سائیبر حملے کر رہے ہیں تاکہ ان کمپنیوں کے کام میں خلل ڈال پڑے اور وہ پریشان ہوں۔ امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق لے اون پنیٹا (Leon Panetta) نے نیو یارک میں امریکی کاروباری اداروں کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ سائیبر حملوں میں معاونت سے متعلق امریکا نے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں۔

ایران کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ امریکا نے سائیبر حملوں کی شناخت سے متعلق ایک ایڈوانس تکنیک وضع کر لی ہے جس کے تحت مجرموں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی، انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما کو اِس ضمن میں تمام امور سے آگاہ کر دیا گیا ہے، تحقیق کو فی الوقت آشکار نہیں کیا جائے گا، تاکہ امریکی مفادات کا تحفظ بہتر طریقہ سے کیا جا سکے۔

یاد رہے خلیج میں کام کرنے والی سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو (Aramco) اور قطر کی ’’نیچرل گیس پروڈیوسر کمپنی‘‘ راس گیس (Ras Gas) کی ویب سائٹس پر جس کمپیوٹر وائرس سے حملہ کیا گیا تھا اس کی شناخت ’’شامون‘‘ کے نام سے کرلی گئی ہے، ان کے مطابق یہ وائرس نیٹ ورک کے ذریعے پھیلایا گیا ہے جس سے کمپیوٹر فائلز ’’اوور رائیٹنگ‘‘ کرنے لگ جاتی ہیں۔

پینٹاگون نے اس وائرس حملے کو براہ راست ایران کی شرارت قرار دے دیا ہے اور تشویش بھی ظاہر کر دی کہ ایران کی اِس صلاحیت کا اندازہ لگایاجا رہا ہے اور اس پس منظر میں روس اور چین کی معاونت کے خیال کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کمپنیوں پر امریکی پرچم کو جلتے ہوے دکھانے، فائل کی اوورائیٹنگ اور 30 ہزار کمپیوٹر ناکارہ ہونے کے الزام میں ایران کا مزید احتساب کس طرح کیا جائے گا، یہ آنے والے دن بتائیں گے۔

ایران اقتصادی پابندیوں سے کس طرح نبردآزما ہوتا ہے؟ اس بارے میں موجودہ ایرانی حکومت کے موقف کو اور یورپی یونیئن اور امریکا کے سخت اقدامات کو گہری نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیوںکہ خطے میں ایران پر عسکری جارحیت کے بالواسطہ اور بلاواسطہ منفی اثرات پاکستان پر بھی بہ ہرحال مرتب ہوں گے جس کا پاکستان ہرگز متحمل نہیں کیوںکہ یہاں بھی نئے انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور امریکا کے عمل دخل کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

کیا ایران صورتِ حال سے نبردآزما ہو پائے گا؟

ایران پر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، آیت اللہ خامنائی کا عزم

اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کے بعد ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنائی نے اپنے ایک بیان میں پھر کہا ہے، ایران کے دشمنوں کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بیرونی حملے یا جارحیت کے عمل کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہے، یہ بیان انہوں نے شمال مشرقی علاقے میں واقع ایک فوجی اڈے پر ایرانی جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ایران کی گرتی ہوئی تیل برآمدات، کرنسی کی قدر میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، صنعتی ڈھانچے کی بدحالی، پیداوار میں کمی اور تیزی سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کا بھی ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ اقتصادی صورت حال میں حالیہ ابتری ہمیشہ قائم نہیں رہے گی، ہم ایٹمی قوت بننے کی قیمت چکا رہے ہیں، ہمیں اس کا علم ہے۔

اقتصادی پابندیوں کے بعد ایرانی تجارت سے متعلق تازہ حقائق

اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ایران پر اقتصادی پابندیوں کے جو منفی اثرات اب سامنے آنے لگے ہیں، ان میں سب سے نمایاں ایرانی عوام کی سماجی اور مالی سطح پر بگڑتی ہوئی حالت زار ہے، کیوں کہ پابندیوں کے بعد ایران کی برآمدات بہت بڑی مقدار میں کم ہو چکی ہے، خوراک کی کمی اور صارفین کے زیراستعمال مصنوعات کم ہونے کی وجہ سے وہ انتہائی مہنگی ہو گئی ہیں۔ ایرانی بندرگاہوں پر بحری جہازوں اور کینٹینرز کی آمد نصف کے برابر ہو گئی ہے، جس پر تجزیہ نگاروں نے رائے دے دی ہے کہ اگر صورت حال اِسی طرح جاری رہی تو ایران اقتصادی سطح پر دیوالیہ ہو جائے گا۔

گزشتہ چند ہفتوں میں ایرانی کرنسی کی قدر جس طرح کم ہوئی ہے، اُس سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے عوامی سطح پر حکم رانوں کے خلاف غم و غصہ بڑھ گیا، ایران میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے جس تیزی سے ایران سے سرمایہ نکالنا شروع کیا ہے وہ بھی ایران کی معیشت اور کاروبار زندگی کے لیے ایک سخت دھچکا ہے، گو کہ ابھی تک امریکا اور یورپی یونین نے ایران کے ساتھ غذا سے متعلق برآمدات اور درآمدات کو ہدف نہیں بنایا ہے اور لیٹرز آف کریڈٹ کے عمل میں تعطل پیدا نہیں کیا مگر جب یہ بھی ہوگا تو صورت حال مزید بگڑ جائے گی…

میری ٹائم انٹیلی جنس پبلشرز کی طرف سے جاری کردہ چند اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اکتوبر تک ایرانی بندرگاہوں پر آنے والے جہازوں کی تعداد 980 ہے، جب کہ اسی عرصہ کے دوران، سال 2011 میں یہ تعداد 2740 اور سال 2010 میں 3407 تھی، رواں سال صارفین کی اشیاء ضروریہ، غذا اور گھریلو مصنوعات سمیت کپڑوں اور کھلونوں کے کنٹینرز کی تعداد صرف 86 رہی جب کہ اکتوبر 2011 اور 2010 میں یہ تعداد بالترتیب 273 اور 378 تھی۔

ایران کو ایک دھچکا اُس وقت بھی لگا جب دنیا کی سب سے بڑی کنٹینرز فرم (Maersk) نے اکتوبر 2012 میں ایرانی بندرگاہوں پر اپنا کام بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ جب کہ اس سے قبل بھارت کے ساتھ کنٹینرز کے ذریعے تجارت کے مشترکہ عمل میں بھی ایران کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اِن حالات کے باوجود امریکہ اور یورپی یونین نے کہا ہے کہ پابندیاں مزید سخت کرکے ایران کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔