تجزیے کا فالج

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 25 نومبر 2015

وارنر ہرڈ نے کہا تھا ’’سچائیاں آپ کو بالاخر آزاد کر دیں گی لیکن پہلے یہ آپ کو جی بھر کے تڑپائیں گی‘‘ اور مہاتما بدھ نے کہا ہے ’’تمام انسانی دکھ سچائیوں کا سامنا نہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں‘‘ کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتی، یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں، چنانچہ کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں۔

زندگی پہلے ہی سے دیکھی گئی فلم کا نا م نہیں ہے کہ آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ اگلے سین میں کیا ہونے والا ہے جب کہ اصل میں زندگی ایک دم حیران، پریشان اور سکتہ طاری کر دینے والے لا تعداد سین پر مشتمل فلم کا نام ہے یہ آپ کے رویے آپ کا ویژن اور آپ کی سمجھ بوجھ ہی ہوتی ہے، جو ان سین کے اچانک آنے پر آپ کو ایک دم سے ان کے مطابق فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور یہ عمل ساری زندگی اسی طرح چلتا رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کامیابی یا ناکامی، خوشحالی  یا بد حالی سکھ یا غم ہمارے مقدر بنتے رہتے ہیں۔

مستقبل کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جس میں آپ داخل ہو جائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جسے ہمیں بنانا پڑتا ہے، ہم سب کی زندگیوں کو روز نئے نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ زندگی مسائل کی موجودگی کا نام ہے، غیر موجودگی کا نہیں۔ ہم اپنے اپنے رویوں، سمجھ، بوجھ، ذہانت کے حساب سے انھیں حل کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں، اگر ہم یہ روز کی جدوجہد نہیں کریں گے تو وہ مسائل اگلے روز سے گلنے اور سڑنے شروع ہو جائیں گے اور پھر چند روز ہی میں ان میں اتنی شدید بدبو پیدا ہو جائے گی کہ ہمارا سانس لینا محال ہو جائے گا ۔

سو ایسا ہی حال ہمارا ہو کے رہ گیا ہے، ہمارے 68 سال کے جمع کردہ مسائل سے اس قدر شدید بدبو آ رہی ہے کہ ہر سمجھ دار، عقل و دانش رکھنے والوں کو سانس لینا محال ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت جھوٹ کے قیدی بن کر رہ گئی ہیں وہ کسی بھی سچائی یا مسائل کو ماننے یا اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو مجرم ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے معاشرے کی تمام خرابیاں اور برائیاں یا تو زمین پھاڑ کر نکل آئی ہیں یا غیر ملکیوں نے ان کے جراثیم ہمارے ملک میں چھوڑ دیے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ تو انھیں خرابیاں اور برائیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اسی لیے بحیثیت قوم کے ہمارے بنیادی مسائل بہت الجھ کر رہ گئے ہیں یا الجھا دیے گئے ہیں کیونکہ ان مسائل پر ہم بری طرح تقسیم نظر آتے ہیں۔

جیسے کہ مذہبی انتہاپسندی کا معاملہ ہے یا مدارس کی بدنظمی اور بدانتظامی کا مسئلہ ہے یا کرپشن، لوٹ مار کا معاملہ ہے یا تعلیمی نصاب کا مسئلہ ہے یا قرارداد مقاصد کا مسئلہ ہے یا لبر ل ازم اور سیکولر ازم کا مسئلہ ہے۔ یا قدامت و بنیاد پرستی اور روشن خیالی کا معاملہ ہے کوئی اگر ان معاملوں پر ہمیں سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف فتوؤں کی ایسی بارش شروع ہو جاتی ہے اور اس قدر طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ اس کو اپنی جان بچانا مشکل ہو جاتی ہے اور کبھی تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

ان مسائل پر عوام تو اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہی وہ بنیادی تنازعات ہیں جن کا فوری حل تلاش کرنا ضروری ہے لیکن ہماری بعض قومی سیاسی قیادت تو ان تنازعات پر بات ہی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ اگر وہ ان تنازعات کے وجود کو تسلیم کر لیں گے تو پھر ظاہر ہے انھیں ان کا حل بھی تلاش کرنا پڑے گا تو حل میں تو خود ان کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ مسائل اور تنازعا ت بھوت اور جِن بن کر رہ گئے ہیں یعنی کچھ لوگ تو ان کے وجود تسلیم کرتے ہیں اور کچھ لوگ بالکل انکاری ہیں کیسا عجیب رویہ ہے ۔

رابرٹ فلٹن نے بھاپ سے چلنے والی کشتی ایجاد کی تھی۔ اس نے اپنی نئی ایجاد کا مظاہرہ دریائے ہڈسن میں کیا تماشائیوں میں بعض قنوطیت پسند اور تشکیک پسند لوگ بھی تھے انھوں نے کہا یہ کشتی نہیں چلے گی تاہم کشتی دریا میں تیرنے لگی اب قنوطیت پسندوں نے شور مچا دیا کہ یہ چل تو گئی ہے لیکن رک نہیں سکے گی۔

سو وہ ہی حال ہمارا ہے ہم پہلے روز سے نامعلوم منزلوں کے مسافر بنے ہوئے ہیں جو مسلسل سفر میں تو ہیں لیکن انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ انھیں جانا کہاں ہے ان کی منزل کیا ہے۔ بس صرف سفر میں ہیں جو جہاں جانے کا کہہ دیتا ہے اسی طرف سب چل پڑتے ہیں نہ ہماری اپنی کوئی مرضی ہے اور نہ ہی کوئی ہم سے ہماری مرضی پوچھتا ہے۔ آج جو دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور خوشحال ترین ممالک ہیں کیا وہ ہمیشہ ہی سے ایسے تھے کیا انھیں ہماری طرح کے سنگین مسائل اور تنازعات کا سامنا نہیں تھا لیکن وہ ہماری طرح بدنصیب نہیں تھے کیونکہ ان ممالک کے لوگوں اور ان کی قومی سیاسی قیادت نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں اپنے بدترین حالات کو شکست دینی ہے۔

ہمیں اپنے نصیب بدلنے ہیں اور ہمیں ان عذابوں سے جان چھڑانی ہے جنہوں نے ہمیں جکڑ رکھا ہے اور انھوں نے یہ کر دکھایا یہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ انھوں نے سب سے پہلے اپنے سچ کو تسلیم کیا اپنے عذابوں کے وجود کو تسلیم کیا اور ان کی قومی قیادت نے ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دی اور آج بھی انھیں اگر کوئی مسئلہ درپیش آتاہے تو ان کی قومی سیاسی قیادت اپنے اختلافات اور ذاتی مفاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان مسئلوں کا فوری حل ڈھو نڈ نکالتے ہیں۔

لیکن ہم کیا کریں ہماری قومی سیاسی قیادت68 سال بعد بھی بالغ نہیں ہو سکی ہے۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر آج بھی ملک و قوم کے مفادات کو خطروں میں ڈال دیتے ہیں، ہماری قیادت آج تک گلی کوچوں اور محلوں کی سیاست سے باہر نہیں نکل پائی ہے نہ تو انھیں خطے کے بحرانوں سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی انھیں تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات سے کوئی دلچسپی ہے نہ ہی ان کے رویے مثبت ہیں اور نہ ہی ان کی سمجھ بوجھ اور ویژن اس قابل ہیں کہ و ہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنا مثبت کردار اد اکریں کیونکہ ان کی ذہنی سطح کونسلر کی سطح سے آج تک بلند ہی نہیں ہو سکی ہے۔ اصل میں یہ سب کے سب تجزیے کے فالج کا شکار ہیں انھیں بہانوں کا سرطان لاحق ہو گیا ہے۔

فرینکلن نے کہا ہے ’’ تم جو کام آج کر سکتے ہو اسے کل پر مت ڈالو‘‘ یاد  رکھو کبھی بھی ساری بتیاں ہری نہیں ہونگی۔ اس لیے آئیں مل کر سب سے پہلے 68 سال سے جمع مسائل کے کوڑے کو ملک سے اٹھا کر باہر پھینک دیں ملک اور قوم کو لاحق تمام مسائل اور تنازعات کو ذاتیات سے بالا تر ہو کر تمام تر خو ف اور ڈر کو ختم کر کے اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا حل ڈھونڈ نکالیں تا کہ ہمیں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سکون، امن، یکجہتی اور خوشحالی نصیب ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔