ایک اور پل ٹوٹ گیا

عمر قاضی  جمعرات 26 نومبر 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

افسوسناک حالات میں بسنے والے ہم لوگوں کے لیے ایک اداس کر دینے والی خبر جمیل الدین عالی کے بچھڑنے کی بھی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے ہمارا ساتھ اس عمر میں نہیں چھوڑا جس عمر کا تذکرہ کرتے ہوئے، ہم کہتے ہیں کہ ان کے جانے کی یہ عمر تو نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی بھرپور انداز کے ساتھ اچھے دوستوں اور بہت اچھی کتابوں کے درمیاں گزاری۔ انھوں جتنا علم پڑھا، اس علم سے انھوں نے معاشرے میں شعور کے چراغ روشن کیے۔

انھوں نے ہمارا بہت بڑا ساتھ دیا۔ انھوں نے ہماری بڑے عرصے تک رہنمائی کی۔ ان کے لکھے اور کہے ہوئے الفاظ ستاروں کی مانند ہمارے سر پر چمکتے رہیں گے اور جب بھی ہم کہیں پر بھی راستہ بھولے تو تو ہماری رہنمائی کریں گے۔ اس لیے محبت کی اور بات ہے لیکن ہمیں اپنے بزرگ عالم اور ادیب دوست کی الوداع پر مادی حوالے سے مایوسی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، مگر ہم مجبور ہیں۔ کیونکہ ہم جس معاشرے میں بستے ہیں، وہ معاشرہ ایسے انسانوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے جو انسان لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ یہ سیاستدان جو بقول ن م راشد کے

’’انسان کم ہیں اور منفی زیادہ‘‘

وہ سیاستداں مستقل طور پر معاشرے میں بسنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کر رہے ہیں۔ لوگوں کے درمیاں تعلقات ٹوٹ رہے ہیں۔ وہ جو اعتبار کا رشتہ تھا۔ وہ جو پیار کا رشتہ تھا۔ وہ جو اعتماد کا بندھن تھا وہ کس طرح ٹوٹ رہا ہے؟ کبھی اس کے بارے میں کسی نے سنجیدگی کے ساتھ سوچا ہے؟ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں اس ملک کے طبی ہی نہیں بلکہ معاشرتی معالج حکیم سعید کے حوالے سے کچھ لکھ رہا تھا، تو مجھے بار بار ایک ہی خیال آ رہا تھا کہ حکیم سعید جیسے انسان کسی بھی معاشرے میں پُل کی طرح موجود رہتے ہیں۔ جس طرح ایک پل دریا کے دو کناروں کو جوڑتا ہے، ویسے حکیم سعید جیسے انسان معاشرے میں موجود انسانوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ ان کی معرفت لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور جب میں نے یہ خبر سنی کہ اردو زباں کے عظیم ادیب اور عالم جمیل الدین عالی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ تب میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ بیخودی کے ساتھ آئے کہ ’’ایک اور پل ٹوٹ گیا‘‘

جمیل الدین عالی کا قلم اور ان کی شخصیت ایک پل کی طرح تھی۔ انھوں نے سندھ میں اردو اور سندھی زباں میں لکھنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس بات کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ سندھی زبان کے عظیم شاعر شیخ ایاز کے قریبی دوست تھے۔ ہماری ان سے جب بھی ملاقات ہوئی شیخ ایاز کے فلیٹ پر ہوئی۔ جب شیخ ایاز اور جمیل الدین عالی آپس میں محو گفتگو ہوتے تھے تب محسوس ہوتا تھا کہ دو بادل آپس میں مل رہے ہیں اور ان کے ملنے سے صحرا جیسے ماحول میں بسنے والے لوگ علم و عرفان سے مستفید ہو رہے ہیں۔

مجھے اس بات ہمیشہ حیرت ہوئی کہ وہ شیخ ایاز سے کچھ بھی نہیں چھپاتے تھے۔ ان کی شیخ ایاز سے گفتگو سن کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ منہ سے نہیں بلکہ اپنے من سے بات کر رہے ہیں۔

وہ ایاز کے ساتھ اس طرح بات کرتے تھے جیسے کوئی شخص اپنی ذات سے بات کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے اپنے سینیٹر ہونے کے حوالے سے ناخوش ہونے کی بات کی۔ یہ بات سن کر ایاز نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو معلوم بھی تھا کہ اس دور کی ایسی سیاست میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے آپ افسوس محسوس کریں گے تو پھر آپ نے یہ عہدہ قبول کیوں کیا؟ اس بات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’’ایاز! کچھ کام انسان خود نہیں کرتا بلکہ وہ ہو جاتے ہیں اور انسان بے بسی کے ساتھ تماشہ دیکھتا ہے۔‘‘

ان کی یہ بات سن کر ایاز کے ہونٹوں پر ایک اداس مسکراہٹ بکھر جاتی۔

ان کے حوالے سے اب تو بہت بڑے انکشافات ہو رہے ہیں مگر جس بات کی انھوں نے اپنی زندگی میں تصدیق نہیں کی اس بات کو ان کی ذات کے ساتھ کس طرح منسوب کیا جائے؟ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلامی سربراہی کانفرس کا ٹائٹل سانگ عالی صاحب نے تخلیق کیا۔ وہ ٹائٹل سانگ بھٹو نے ان کو فون کر کے خود کہا تھا کہ ’’یہ ایک تاریخی کانفرنس ہے اور یہ کام صرف آپ ہی کر سکتے ہیں‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب ہمیشہ شاعروں اور ادیبوں کو خاص اہمیت دیا کرتے تھے کیونکہ انکو معلوم تھا کہ یہ طبقہ اس قوم کے لیے نجات دہندہ ہے۔

مجھے یاد ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ شیخ ایاز کے وفات کی بات سن کر جو چند لوگ ان کے گھر پر پہنچے ان لوگوں میں جمیل الدین عالی بھی تھے اور مجھے حیرت ہوئی تھی کہ اس عمر اور دسمبر کی سردی میں اپنے دوست کی اس خواہش کی یاد آ گئی کہ ایاز نے کراچی میں سمندر کے قریب دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

اس وقت وہاں پر موجود لوگوں کے لیے یہ مشکل بات تھی کہ کراچی کی انتظامیہ سے کون بات کرے؟ اس وقت جمیل الدین عالی نے سب کو خاموش کروایا اور سب سے کہا کہ وہ گورنر سندھ سے خود بات کریں گے اور شیخ ایاز کی اس وصیت کے پیچھے ایک حکمت ہے جو میں جانتا ہوں۔ اس لیے مجھے گورنر سے بات کرنے دیں۔ مگر شیخ ایاز کے نام نہاد بزرگ دوستوں نے ضد کی اور ان کی تدفین شاہ لطیف کی نگری بھٹ شاہ میں ہوئی۔

شیخ ایاز کے بعد مجھے جب بھی ان کی ادبی اور علمی گفتگو کی کمی محسوس ہوتی تب مجھے عالی صاحب بہت یاد آتے۔ کیونکہ جب شیخ ایاز اور جمیل الدین عالی صاحب آپس میں محو کلام ہوتے تو مجھے ایک چیک شاعر کے یہ الفاظ یاد آ جاتے تھے کہ:

’’صرف پہاڑ ہی پہاڑ کی چوٹی کا مشاہدہ کر سکتا ہے‘‘

اس لیے ان دونوں عظیم ذہنوں کی ملاقات ہمارے لیے ادب اور علم کی برسات ثابت ہوتی تھی۔ ہمیں اس بارش میں بھیگنا اچھا لگتا تھا۔

اب جب وہ چلے گئے تب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ایک عرصے تک علم اور ادب کے حوالے سے صحرا کے باسی بنے رہیں گے۔ کیوں کہ اس قسم کے لوگ ہر دن پیدا نہیں ہوتے۔

’’مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں‘‘

وہ ایسے تھے مگر انھوں نے اپنے بارے میں ایسا کبھی نہیں کہا۔

ان کے علم میں رعب نہیں تھا۔ وہ ایک معصوم عالم تھے!

ان سے مل کر دل میں اچھائی کا احساس کروٹ لے کر جاگ اٹھتا۔ کیونکہ وہ مثبت سوچ کے مالک تھے۔ اس منفی معاشرے میں انھوں نے کتنی تکلیف برداشت کی؟ اس بات کا انہو ں نے کبھی اشاروں میں بھی اظہار نہیں کیا مگر جاننے والوں کو جاننا چاہیے کہ منفی حالات اور منفی واقعات کو برداشت کرنے والے شخص کے دل پر بیتتی ہے؟ لیکن انھوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ انھوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ انھوں نے ہمیشہ چاہا کہ وہ اعتماد کے بحرانی دور میں ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں اور منتشر ہوتے ہوئے معاشرے کو جوڑ کر رکھیں۔

اب وہ ہم میں نہیں۔ اب ان کے الفاظ؛ ان کے افکار ہمارے معاشرے کو منتشر ہونے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ شیخ ایاز اور جمیل الدین عالی جیسے انسان اپنی ذات کو الفاظ اور افکار کی صورت میں لازوال بناتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ نہ ہوں تب بھی لوگ ان کی شعوری روشنی حاصل کر پائیں اور ان کے افکار اور اخلاص سے بنے ہوئے پل پر چل کر ایک دوسرے سے مل آئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔