آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

اوریا مقبول جان  جمعـء 27 نومبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

وہ جو گزشتہ ایک صدی سے اس بات پر دلائل کے انبار اکٹھا کیے کرتے تھے، جن کے قلم ہر وقت دو قومی نظریے کو باطل ثابت کرنے میں مصروف رہے، جو گفتگو کرتے ہوئے طعن و طنز کے تیر مسلمانوں بلکہ مسلم تشخص کے علمبرداروں کی جانب برساتے اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ اصل میں نفرت کا بیج تو تم بوتے ہو، ورنہ دو قومی نظریے کی تو کوئی اساس ہی نہیں۔ یہ ایک غیر فطری تقسیم ہے جو انگریز نے اپنے مفادات کے لیے کی، لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول کو نافذ کیا۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے قوموں کی تخلیق پر یقین رکھنے والے آج صرف نریندر مودی کے وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد کس طرح گنگ ہیں، ایسے خاموش ہیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، یوں لگتا ہے ذہن ہی نہیں جسم بھی سن ہو چکے ہیں۔

جرأت ِ اظہار اور آزادیٔ افکار کے علمبردار کس قبرستان میں جا کر دفن ہو گئے ہیں۔ اب کوئی بولتا کیوں نہیں کہ یہ ہندو مسلم کی تقسیم جو علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد سے پیدا ہوئی اور قائدِاعظم نے جسے ایک ملک کی تخلیق کے ذریعے تاریخ بنا دیا یہ سب مصنوعی، جعلی اور باطل ہے۔ دو قومی نظریہ نام کی کوئی چڑیا وجود نہیں رکھتی۔ سب پنجابی، بنگالی، سندھی، گجراتی، مراٹھی اور دیگر قومیں ہیں جو صدیوں سے ایک ہندوستان میں رہ رہی ہیں۔ ان کی ثقافت ایک، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، گیت غزلیں، شادی بیاہ، سب ایک ہیں۔ ناک نقشے ایک ہیں، زبان ایک جیسی ہے، یہ بھلا دو قومیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی تخلیق جیسی حقیقت کے باوجود اور دس لاکھ شہداء کے خون کی لکیر کے باوصف یہ لوگ گزشتہ 67 سال سے یہی کہتے چلے آئے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر یہ تقسیم غلط ہے۔ انھیں خوب اندازہ تھا کہ مسلمانوں کا جینا متحدہ ہندوستان میں کس قدر دو بھر ہو گیا تھا کہ انھوں نے علیحدہ وطن کے مطالبے پر لبیک کہہ دیا۔

ان لوگوں نے برِصغیر کی تاریخ کا بھی خوب مطالعہ کیا تھا اور وہ ہندو مذہب کے اساتیر سے بھی واقف تھے۔ انھیں خوب اندازہ تھا کہ جس مذہب میں شودر اور برہمن ایک ساتھ نہیں رہ سکتے وہاں مسلمان اور ہندو کیسے ایک قوم کہلا سکتے تھے۔ انھیں اس تعصب کا بھی بخوبی اندازہ تھا جس کا شکار اس وقت پورے ہندوستان میں مسلمان ہو رہے تھے۔ کیا انھوں نے ریلوے اسٹیشن پر “ہندو پانی” اور “مسلم پانی” کی الگ الگ صدائیں نہیں سنی تھیں۔ دفتروں، کھیتوں، کھلیانوں، گھروں اور آبادیوں میں انگریز کی سرپرستی میں جو سلوک ہندو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے تھے، ان کو یا ان کے اکابرین کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ لیکن پاکستان کے حقیقت بن جانے کے باوجود ان کی انا اسے تسلیم کرنے سے روکتی رہی۔ ان کے دلوں کا بغض و کدورت اس بات کی امید لگائے بیٹھا رہا کہ کب یہ نوزائیدہ ملک اپنی حیات کے دن پورے کرتا ہے اور ہم کلکتہ سے پشاور تک دوبارہ ایک ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں خرابیاں ہوتی ہیں، آمریتیں برسرِاقتدار آتی ہیں، لوگ مفلوک الحال ہوتے ہیں، ایک خطے کے لوگ زیادہ خوشحال اور دوسرے خطے کے لوگ بدحال ہوتے ہیں لیکن اس بنیاد پر کبھی ملک کی سالمیت اور بقا پر سوال نہیں اٹھایا گیا۔

افغانستان میں اس کی تخلیق یعنی احمد شاہ ابدالی کے زمانے سے لے کر اب تک بدترین آمریتیں چھائی رہیں، عدالتوں کا کوئی نظام رائج نہ تھا۔ انصاف اور امن کا تھوڑا بہت تصور صرف طالبان کے پانچ سالہ دور میں نظر آتا ہے ورنہ خانہ جنگی، غربت و افلاس اور بدترین شہنشاہیت۔ کابل کا شہر پورے افغانستان کے بدحال اور غربت زدہ معاشرے سے بالکل مختلف تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی کسی شخص نے وہاں یہ نعرہ بلند نہیں کیا کہ افغانستان ٹوٹ جائے گا۔ اس کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔ یہ پشتونوں، ازبکوں، تاجکوں، ترکوں اور دیگر قومیتوں کا ملک ہے اور ہر قومیت کے اپنے اپنے زخم ہیں۔ یہ سب علیحدگی مانگتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا اور آج تک 25 سالہ جنگ کے باوجود بھی کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا۔ روس حملہ آور ہوا ہو یا امریکا تمام لوگوں نے بلکہ تمام قومیتوں نے مل کر ان دونوں طاقتوں کو مشترکہ دشمن سمجھا اور لڑائی کی۔ کسی نے اپنی نفرتوں کو بیرونی حملہ آوروں کی آڑ نہ بننے دیا۔

لیکن پاکستان کی تاریخ وہ بدقسمت تاریخ ہے کہ جس کی تخلیق کے ساتھ ہی اس ملک کے عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مخصوص زاویۂِ نظر والے سیاستدانوں نے اس خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ یہ ملک جلد ٹوٹ جائے گا۔ پہلے چوبیس سال انھوں نے اس پراپیگنڈہ میں لگائے کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کا استحصال کر رہا ہے۔ اس وقت کسی کو پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، سرائیکی یا د نہ آئے، کیونکہ ایک نعرہ بلند کر کے لوگوں کو اس پاکستان سے متنفر کرنا تھا۔ اس کے لیے بنگالی قوم کو تختۂ مشق بنایا گیا۔ پراپیگنڈے کا طوفان، الیکشنوں کا شور، آمریت کے ڈونگرے یہ سب تھے، ہر کوئی اپنی مطلب براری کے لیے اس ملک اور اس کے عوام کو تختہء مشق بنا رہا تھا۔ اس سب کے باوجود اگر بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ نہ کرتا تو میرے ان عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مخصوص زاویۂ نظر رکھنے والے سیاستدانوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔ بنگلہ دیش بن گیا لیکن اس کی قیمت معصوم بنگالیوں نے کس طرح ادا کی وہ انتہائی دردناک ہے۔ انھیں کہا گیا کہ تمہارا استحصال ہو رہا ہے۔ وہ آزاد ہو گئے لیکن آزادی کے بعد ان پر کیا بیتی یہ ایک تکلیف دہ باب ہے۔

1971ء سے پہلے کوئی ایک بنگالی بھارت میں چھوٹی موٹی ملازمت کرنے گھر سے بے گھر نہیں ہوا تھا۔ آج تقریباً ایک کروڑ بنگلہ دیشی بھارت میں مزدوری کر کے رزق کما رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد پر باڑ لگی ہوئی ہے۔ اسے عبور کرنے کی کوشش پر دوسرے دن کوئی نہ کوئی بنگلہ دیشی بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے۔ 1971ء سے پہلے ایک بنگالی عورت دنیا کے بازاروں میں ایسے نہیں بکی تھی کہ ان کی منڈیاں لگی ہوں۔ اس وقت دنیا بھر میں دس لاکھ بنگلہ دیشی عورتیں دنیا کے بازاروں میں بیچی جا چکی ہیں۔ کلکتہ کے بازارِ حسن میں ستر فیصد عورتیں بنگلہ دیشی ہیں۔ نوے کی دہائی تک دنیا کی مارکیٹ میں بنگلہ دیشی عورت کی قیمت 25 ہزار روپے سے زیادہ نہ تھی۔ 1971ء سے پہلے مغربی پاکستان میں خانساماؤں کی اتنی بڑی تعداد مشرقی پاکستان سے یہاں نہیں آتی تھی، حالانکہ یہ ملک بھی ایک تھا۔ اس وقت تقریباً بیس لاکھ کے قریب بنگلہ دیشی بلوچستان کے بے آب و گیاہ علاقوں سے لے کر گلگت بلتستان کی پہاڑیوں تک سب جگہ رزق کی تلاش میں دربدر ہیں۔ کراچی میں موجود بنگالی تو اپنے محبوب وطن واپس نہیں جانا چاہتے، سو طرح کے حیلوں بہانوں سے پاکستان کے شناختی کارڈ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بنگالیوں نے ایک بنگلہ قوم اور زبان کے نعرے پر پاکستان سے علیحدگی اختیار کی لیکن دو قومی نظریہ پھر زندہ ہوا۔ کہا تم مسلمان ہو، ملیچھ مسلمان، اپنا الگ ملک بناؤ، کلکتہ کے بنگالیوں کے ہم پلہ ہونے کے خواب کبھی نہ دیکھنا۔ لیکن میرے ملک کے ان عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مخصوص سیاست دانوں کا تعصب، بغض اور نفرت ختم نہیں ہوتی۔ یہ آج بھی بنگلہ دیش کے فاریکس ریزرو کی بات کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کا کھاتے ہیں، یہاں کے عوام سے عزت و توقیر حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بچے یہاں عزت سے زندگی گزارتے ہیں لیکن ایک ایسی جنگ میں تمغے اور ایوارڈ حاصل کرتے ہیں جو بھارت نے 1971ء میں جیتی تھی۔ کیا کبھی کسی جرمن نے برطانیہ سے ایوارڈ حاصل کیا جس نے ان کی فوج کو شکست دی تھی۔ جرمن قوم پر بھی ہٹلر جیسا ڈکٹیٹر صفت جمہوری طور پر منتخب حکمران مسلط تھا لیکن پوری جرمن قوم میں سے کوئی ایک ایسا غدار صفت شخص پیدا نہ ہو سکا جو برطانیہ سے اس بنیاد پر ایوارڈ وصول کرتا کہ اس نے جرمنوں کو ہٹلر سے نجات دلوائی تھی۔

یہ وہ طبقہ ہے جو گزشتہ 67 سال سے پاکستان اور بھارت کی اس سرحد پر دیے روشن کرتا ہے جس پر دس لاکھ مسلمانوں کے لہو کی لکیر کھینچی گئی تھی۔ یہ پھولوں کے ہار لے کر وہاں جاتا رہا ہے۔ وہاں سے آنے والوں کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈالتا رہا ہے اور کہتا رہا ہے یہ لکیر تو ہم نے غلط کھینچی تھی۔ 67 سال ان کی نفرت کا نشانہ وہ لوگ بنے جو اسلام کی بنیاد پر قومیت کی بات کرتے تھے۔ جو آج بھی مسلمانوں کی شناخت کی بات کرتے ہیں۔ یہ انھیں فرسودہ، بے کار، دقیانوسی اور متعصب گردانتے ہیں۔ یہ کہتے تھے کہ بھارت تو امن چاہتا ہے وہ تو سیکولر اخلاقیات کی بنیاد پر سب سے برابری کا سلوک کرتا ہے لیکن پاکستان میں بیٹھے کچھ لوگ نفرت پھیلاتے ہیں۔ لیکن تاریخ شاید ایک بار خود کو دہرا رہی ہے۔

نریندر مودی نے وہ کام کر دکھایا ہے جو برِصغیر کے مسلمان گزشتہ 67 سال سے نہ کر سکے۔ اس نے دو قومی نظریے کوایک بار پھر زندہ کر دیا، اس میں نئی روح پھونک دی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ مسلمان بنگالی، مراٹھی، گجراتی، اردو یا ہندی بولے وہ صرف اور صرف مسلمان ہے، قابلِ نفرت ہے، واجب القتل ہے۔ وہ شاہ رخ کی طرح گھر میں پوجا کا استھان بنائے یا عامر خان کی طرح سیکولر ازم کے پرچار کے لیے “پی کے” جیسی فلم بنائے۔ مسلمان ہے تو پھر ہم میں سے نہیں۔ وہی تصور جو 1947ء میں ہم نے دیا تھا اور تجربے کی بنیاد پر قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ ہندو ناقابلِ اصلاح قوم ہے۔ آج اسے نریندر مودی نے سچ ثابت کر دیا۔ آج بھارت کی یاترا کرنے والے ادیب ہوں یا بنگلہ دیش سے بھارتی فتح کی یاد میں ایوارڈ لینے والے دانشور، سب مسلمان ہیں سب قابلِ نفرت، لیکن لگتا ہے ان سب کو سانپ سونگھ چکا ہے، ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ یہ بولتے نہیں۔ ان کی 67 سال کی محنت پر صرف چند دنوں میں نریندر مودی نے پانی پھیر دیا۔ بولو، لکھو، کچھ منہ سے پھوٹو

جون ایلیا نے کہا تھا

تم مرا ساتھ کیوں نہیں دیتے
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔