زوال پذیر سندھی سیاسی تحریک

جاوید قاضی  ہفتہ 28 نومبر 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

صحیح کہتے تھے بزرگ ۔ بس سماج ٹھہرتے نہیں، یا تو وہ آگے کو جاتے ہیں، یا پھر پیچھے کو، اور جب پیچھے لوٹنا شروع کریں تو پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ سماج دہائیوں کا سفر پیچھے کی جانب کر نکلتے ہیں۔ ذہن بھی سماج کی مانند ہے، اسے ہے سوچنے کی عادت، اچھا ہو یا برا، جس طرف لگاؤ چل پڑتا ہے، سماج کی ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھتی ہے حکومت۔ حکومت جو اشرافیہ کا مجموعہ ہوتی ہے۔

وہ اشرافیہ انتخابات ہوں تب بھی وہی ہوتی ہے اور اگر انتخابات نہ ہوں تو بھی (اگر پاکستان کی مثال خاص طور پر سامنے ہو) سوائے کراچی کے باقی سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوگئے، اس بار یہ دنگل پہلے بلدیاتی انتخابات کی طرح غیر سیاسی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ مگر غیر سیاسی ہوتا تو بھی یہی وڈیرے دنگل لڑتے اور اب جب سیاسی ہے تو بھی یہ وڈیروں کے بیچ دنگل تھا۔ فرق اتنا تھا کہ اس بار وڈیروں کے کمدارکھڑے تھے اورکمداروں کے پیچھے وڈیرے تھے۔ سندھ کے گبر سنگھ (جان کی امان پاؤں) ذوالفقار مرزا بالآخر اس دنگل میں اسی انداز سے اترے جس طرح کا بھیس یا دیس تھا۔ ایک بغل میں ان کے ارباب تھے تو دوسری بغل میں رباب تھا، یہ اور بات ہے کہ سندھ کی سیاست میں وہ باتیں جو غیر شائستہ سمجھی جاتی تھیں اب کے یہ رسم و روایت آپ نے چھوڑ دی۔

پیپلز پارٹی جیتی اس بار یہ کام پٹواریوں کی محنت سے انجام پایا نہ کہ تیر سے۔ یہاں پھر بھی کچھ جگہ عورتوں کے بیلٹ باکس پر اب بھی عورتوں نے اپنے مردوں کا کہا نہیں مانا۔ نقاد کہتے ہیں اس میں بھی تیر نہیں بلکہ زر تھا جو زرداری صاحب نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیا تھا۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ عورتوں میں اب بھی تیرکی شناخت میں بے نظیر کا پس منظر موجود ہے۔سندھیوں میں پی ٹی آئی پھر سے اترگئی، وہی گلے سڑے نظام کی وہی اشرافیہ جسے عام لغت میں وڈیرے کہتے ہیں، اس بازار میں اترے ہیں عمران خان ، مگر وہ بھی جانتے ہیں اقتدار کے دھاگے نئی بنائی کڑائی میں، اگر تیر نہیں زرداری صاحب نے بھٹو صاحب کے بعد وڈیروں میں نئی جان پھونکی ہے۔بھٹو نے عوام اور وڈیروں کو ساتھ ساتھ چلایا۔ اس نے اگر روٹی کپڑا اور مکان نہیں دیا تو چھینا بھی نہیں۔ جب کہ زرداری جب مال غنیمت میں کچھ نہ بچا تو غریبوں کے اسکول و اسپتال چھین کر، گلی، محلوں کی صفائی کے پیسوں سے وڈیروں کو آباد رکھا اور عوام کو برباد۔

سندھیوں میں دوسری بڑی پارٹی پہلے سے کچھ بہتر انداز میں ابھر کے فنکشنل لیگ آئی۔ پیر صاحبان کی یہ پارٹی ہے اس پارٹی کے بڑھنے کی وجہ، پیپلز پارٹی کے اندر وڈیروں کے خلاف وڈیروں کا اتحاد ہی ہے۔دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ مگر تیر غائب۔ دل سے ووٹ دینے کی رسم تمام ہوئی۔ چاہے پیپلزپارٹی ہی کیوں نہ بلدیاتی انتخابات میں ابھر کے آئی ہو۔ بغیر پٹواریوں کے، تھانے داروں کے اب کی بار پارٹی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

مگر اس سارے دنگل میں جو افسوس ناک بات ہے وہ یہ ہے کہ سندھی سماج کے اندر جو جمہوری شعور تھا وہ جو ان سے ایم آر ڈی جیسی تحریکیں چلواتا تھا وہ جو ان کی قسم کھائی ہوئی تھی کہ ’’ووٹ بے نظیر جو‘‘ اب تاریخ ہوا۔ اب وہ سماج تاریخ ہوا۔

اس بلدیاتی نظام میں لیکن ہے کچھ بھی نہیں جو مشرف کے زمانے میں تھا ، مگر پھر بھی اتنا برا بھی نہیں اور اس طرح پاکستان میں جمہوریت کے لبادے میں بیٹھی اشرافیہ کو سپریم کورٹ نے مجبور کیا کہ وہ آئین کی پاسداری کرے۔

جب آمر آئے تو بلدیاتی نظام کا لالی پاپ دے دیا اور جب جمہور کے نام پر سول قیادت آئی تو کیا ’’ہم ہیں ناں‘‘ اس اگر مگر میں دہائیاں گزرگئیں اور ان دہائیوں میں ملک کا پہیہ بیٹھ گیا اور اب کی بار لینن کے انقلاب کے دو نکتے تو موجود ہیں مگر تیسرا نکتہ غائب ہے۔ ایک یہ کہ حکمراں حکومت کر نہ سکے دوسرا یہ کہ عوام ان سے بیزار ہو اور تیسرا جو نکتہ موجود نہیں وہ یہ کہ ایسا ہراول دستہ جو انقلاب کو منطقی انجام تک پہنچا سکے۔ سب کچھ ہے مگر اس اشرافیہ کا متبادل کوئی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف فنکشنل ابھر کے آئی تو ہے مگر ان کے پاس دینے کو کوئی پروگرام نہیں۔ جمہوریت کتنی بھی بری مگر اچھی آمریت سے بھی لاکھوں درجے بہتر ہوتی ہے۔

بہرحال بیلٹ باکس کا سکہ اب جم گیا ہے۔ اب کوئی عزیز ہم وطنو کی بازگشت نہیں سنی جائے گی یہ اور بات ہے کہ ڈیفیکٹو طاقت وہی رہیں گے اور ہیں بھی۔بے چارے سندھی قوم پرست عوام سے کٹ گئے اور اگر جب ہوش بھی آیا کہ اب انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور اس طرح قوم پرست جوکہ کلاس کے حساب سے سندھی مڈل کلاس کی دین تھی وہ ویسے بھی اس وڈیروں والی سندھ میں ابھر نہ سکی تھی اور جو ابھر بھی سکی وہ اپنی سوچ میں نقص کی وجہ سے جڑ نہ پکڑ سکی۔ چلتے چلتے یہ بھی یہاں کہہ دوں کہ سائیں جی ایم سید کے تین سیاسی پہلو ہیں۔ ایک تو اس نے الگ وطن کی بات کی، دوسری انتخابات کا بائیکاٹ اور تیسرا یہ کہ وہ سیکولر سندھ کی بات کرتے تھے۔ جی ایم سید کا تیسرا پہلو بہت شاندار ہے۔ پہلے پہلو میں ترمیم کی ضرورت اور اب پاکستان کے اندر رہ کے سندھ کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور ان کا دوسرا پہلو انتخابات کا بائیکاٹ وقت کے ساتھ اب بالکل بے معنی ہوگیا ہے۔زرداری صاحب بھی کہتے ہونگے کہ سندھی قوم پرستوں جیسا سیاسی حریف تو اللہ کسی کو دے۔ ان سے ان کو کوئی ڈر نہیں۔ ڈر ان کو فنکشنل لیگ سے ہے باقی PTI کی گاڑی کا اب کسی کو پلیٹ فارم پر انتظار بھی نہیں وہ بہت لیٹ ہوگئی ہے اور لوگوں نے دوسری گاڑیوں میں نشست پکڑ لی جس طرح غالب کہتے ہیں ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔

کل جس سندھ میں غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے بڑے جاگیرداری بت بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے تو عام ورکر کلاس بھی بے تحاشا وارد ہوئی تھی۔ پر جوش تھے۔ وہ ایک پارٹی میں رہتے ہوئے آپس میں تضادات رکھتے تھے، لیکن اب کی بار جاگیرداری بت تو پارٹی میں ہونے کے تمام ریکارڈ توڑ گئے ۔ کل رسول بخش پلیجو کی بھرپورعوامی تحریک تھی لیکن آج اس جگہ کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے، کل جی ایم سید تھے لیکن 90 کی دہائی والا جی ایم سید اور 70 یا 80 کی دہائی والے جی ایم سید میں فرق آگیا تھا۔ کل سندھیوں میں بھرپورکمیونسٹ پارٹی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں 70 کی دہائی میں دہقانوں کی بھرپور تحریک تھی کامریڈ حیدر بخش جتوئی، قاضی فیض محمد، کامریڈ غلام محمد لغاری جیسے دہقانوں کے لیڈر تھے آج ایک واضح خلا موجود ہے۔ کل طلبا کی تحریک تھی سندھ یونیورسٹی اس شاگردوں کی تحریک کا محور تھا۔ کل ترقی پسند سندھی مہاجر کے فرق سے بالاتر ہوکر آپس میں بیٹھتے تھے۔ رواداری تھی ، آج یوں تو 30 ستمبر کے واقعے نے دیہی سندھ اور اربن سندھ کے درمیان دراڑیں ڈالیں، وہ تو پر ہوئیں مگر کوئی ایسی مکمل پورے سندھ کی عکاس تنظیم تھیں، تحریک نہیں ۔ ہاں لیکن کل کے سندھ میں اتنا بھرپور سندھی میڈیا نہ تھا جو آج ہے، کل کے سندھ میں سوشل میڈیا نہ تھا۔

یہ اتنا بڑا خلا ایک نئی جہد کو دعوت دے رہا ہے ایک نئی تحریک کو دعوت دے رہا ہے۔ ہوا میں اس نئے موسم کی مہک میرے وجود کی حساسیت کو چھو رہی ہے۔ یہ وہ سندھ ہے جو اب کے بار زرداری صاحب کے وڈیروں کے وجود میں پناہ لینے والے طوق توڑ کے دم لے گا۔ اور اس طرح اس ملک میں ابھرتے نئے تضادات میں رہبری کرے گا جس طرح جنرل ضیا کی آمریت کے زمانوں میں کی تھی۔

جیسا بھی ہو یہ بلدیاتی الیکشن، اس کو اچھا قدم ہی سمجھنا چاہیے۔ قصور اس الیکشن کا نہیں، اس نے ایک دھندلی سی سندھ کی تصویر کو اور واضح کردیا۔ ہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ اس نچلی سطح والے انتخابات میں ویسے بھی برادری والا رویہ و رجحان کچھ زیادہ ہوتا ہے، لیکن حیدرآباد کے شہر میں سندھ یونائیٹڈ پارٹ کے ایک اہم رہنما کا قتل، پیپلز پارٹی کو اور عیاں اور بے نقاب کردیتا ہے کہ یہ اب دہشت کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔بدنصیب لیاری کے بعد زرداری صاحب اب یہ رسم اور جگہوں پر بھی متعارف کروا رہے ہیں۔ سندھ کی اس پسماندہ تصویر میں وڈیروں کا بڑا دخل ہے اور اب یہ اپنی ماہیت میں اور سائنٹیفک ہوکر نیو فیوڈل کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور آگے جا کے سجادہ نشینوں سے اپنا تعلق توڑ کر مدرسوں سے جوڑیں گے، اس کے ساتھ ساتھ سندھ میں جمعیت العلما اسلام اور پیپلزپارٹی کا اتحاد ہے۔ اب دیکھئے کیا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔