زراعت کا مستقبل

سید بابر علی  اتوار 29 نومبر 2015
گرین اور پنک ہائوسز بنی نوع انسان کو بھوک کے عفریت سے بچاسکتے ہیں ۔  فوٹو : فائل

گرین اور پنک ہائوسز بنی نوع انسان کو بھوک کے عفریت سے بچاسکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

بھوک اور افلاس انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے سائنس دانوں کو فارمنگ کے ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے جنہیں استعمال کر کے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جائے بل کہ زرعی زمین کے لیے مختص زمین کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہم سطح زمین کا چالیس فی صد حصہ باغات، کھیت کھلیان اور مویشیوں کی گلہ بانی کے لیے مختص کرچکے ہیں۔ اگر اجناس کے حصول کے لیے اسی طرح زمین استعمال کرتے رہے تو پھر مستقبل میں انسانوں کے لیے قابل رہائش جگہ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اقوام متحدہ کے محکمہ معاشی اور سماجی امور کے مطابق 2050تک دنیا کی آبادی 9ارب60 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت کے مطابق مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے ہمیں خوراک کی پیداوار کو بڑھا کر 70فی صد تک لے جانا ہوگا۔ لیکن اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے زمین درکار ہے اور ہم (انسان) پہاڑوں کی چوٹیوں، برفانی علاقوں اور صحراؤں کو چھوڑ کر زمین کا ممکنہ حد تک رقبہ استعمال کر چکے ہیں۔

اب ہمارے پاس صرف جنگلات ہی باقی بچے ہیں۔ لہٰذا ہمیں فارمنگ کے طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بہ ظاہر تو یہ بات ناممکن لگتی ہے لیکن ماضی میں یہ ناممکن کام ممکن ہوچکا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کچھ لوگ نارمین بورلاگ (نوبیل انعام یافتہ امریکی ماہر حیاتیات) کے نام سے واقف ہو، لیکن اگر ہم زراعتی انقلاب کی بات کریں تو غالباً نارمین ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔

یہ 1940کے وسط کی بات ہے جنوب وسطی میکسیکو میں آبادی کے بڑھنے سے اناج کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ نارمین نے زیادہ پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیج کسانوں میں تقسیم کیے۔ کسان اُس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے بورلاگ کے بیج کو نائٹروجن کھاد کے ساتھ استعمال کیا اور فصل پہلے سے کہیں زیادہ آئی۔

نارمین کے اس طریقۂ کار کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور 1963تک میکسیکو میں پیدا ہونے والی گندم کی فصل میں 95فی صد بیج نارمین کے استعمال ہونے لگے۔ 1944 سے 1963کے عرصے میں میکسیکو میں گندم کی پیداوار چھے گُنا بڑھ چکی تھی۔

1960کے وسط میں نارمین نے جنوب ایشیائی خطے کا رُخ کیا، جو بڑھتی ہوئی آبادی اور پیداوار میں عدم توازن کے سبب غذائی قلت کا سامنا کر رہا تھا۔ نارمین نے اپنے ری انجنیئر کیے گئے بیج یہاں (جنوبی ایشیا) میں متعارف کروائے۔ ان بیجوں سے پیدا ہونے والی فصل کے نتائج بہت ہی حیرت انگیز تھے۔ محض پانچ سال بعد ہی انڈیا اور پاکستان میں گندم کی پیداوار دگنی ہوچکی تھی۔ 1974تک یہ دونوں ممالک اناج کی پیداوار میں خود کفیل ہوچکے تھے۔

بورلاگ کا طریقۂ کار جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی تیزی سے پھیل گیا۔ نارمین نے مونوکروپنگ (ایک ہی زمین پر سال ہا سال ایک ہی فصل اُگانا) اور نائٹروجن کھاد کے زیادہ استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔ ان دونوں سے مختصر مدت کے لیے زیادہ فصل تو حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن طویل عرصے ان کا استعمال زمین کی زرخیزی کو کم کر دیتا ہے۔ قحط سے تحفظ کے لیے بورلاگ کی توجہ چاول اور بھٹے پر رہی۔

اسی وجہ سے نارمین نے اُن اجناس کو نظر انداز کردیا جن کے بارے میں اب ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ پُرغذایت (زیادہ کیلوریزوالی) ہیں اور ان اجناس (آلو اور شکر قندی) سے کم رقبے پر زیادہ کیلوریز حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب فارمنگ کے طریقۂ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے، اب ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے اسی قطعۂ زمین پر 70فی صد زیادہ کیلوریز پیدا کر سکتے ہیں۔

فوڈ ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق اسپین کے جنوبی صحرا تیبرناس کا شمار یورپ کی خشک ترین جگہ میں ہوتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ جگہ ویران، بیاباں مناظر کی عکس بندی کرنے والے فلم سازوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل تھی ۔ لیکن پھر اس زمین پر شگوفے کِھلنے شروع ہوئے اور آج یہ بنجر صحرا نصف سے زاید یورپ کے لیے تازہ سبزیاں اور پھل پیدا کر رہا ہے۔ اس کا سہرا گرین ہاؤسز (شیشے سے بنی ہوئی عمارت جس میں پودوں کو موسمی تغیرات سے بچاتے ہوئے اگایا جاتا ہے) کے سر ہے۔ اس کی ابتدا 1963میں اسپین کے ایک ادارے Instituto Nacional de Colonización نے کی اور زمین کی تقسیم کے ایک منصوبے کے تحت کچھ گرین ہاؤسز تیار کیے۔

ان گرین ہاؤسز میں اُگنے والے صاف ستھرے پھل اور سبزیوں نے اسپین کے صوبے المیریا کے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور لوگوں نے تیبرناس میں گرین ہاؤسز کی تعمیر میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ آج گرین ہاؤسز تیبرناس صحرا کے 50 ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور المیرا اسپین کی معیشت میں ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ اضافہ کررہا ہے۔

تیبرناس میں پھیلے گرین ہاؤسز صرف ایک معاشی معجزہ نہیں بل کہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ وہ ایک خیال کو حقیقت میں ڈھالنے کا عملی ثبوت ہیں۔ ماحول اور زمین کو کنٹرولڈ ماحولیاتی فارمنگ کے لیے استعمال کرنا ایک بے حد اچھا خیال ہے۔ گرین ہاؤسز میں میں پھل اور سبزیوں کی فی ایکٹر پیداوار باہر اُگنے والی فصل کی نسبت بہت زیادہ اور صحت بخش ہے۔

صرف اپنی فصل کے گرد چھت اور دیواریں بنائیں اور موسم کی سختی، فصل کے لیے مضر کیڑوں کی وجہ سے ہونے والی مشکلات سے نجات حاصل کریں۔ گرین ہاؤسز کے ساتھ ساتھ زرعی سائنس داں ہائیڈرو پونک (ایک طریقۂ کار جس میں مٹی کو ہٹا کر ریت، بجری اور نیوٹریشنز کے مرکب میں پودے اُگائے جاتے ہیں) طریقۂ کار بھی استعمال کر رہے ہیں جس میں زیادہ فصل حاصل ہوتی ہے۔

اگر آپ پیداوار کو مزید بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ’ہائیڈروپونک رِگ‘ استعمال کریں۔ اس میں آپ ایک ہی رقبے پر کئی منزلوں پر اپنی فصل کاشت کر سکتے ہیں۔ ہائیڈروپونک طریقۂ کار کو کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈکسن ڈیسپومیئر نے چار سال قبل اپنے ’ورٹیکل فارم‘ کے تصور میں بیان کیا تھا۔ ڈکسن کے مطابق ’’کثیر المنزلہ ہائی ٹیک گرین ہاؤسز پر مشتمل ورٹیکل (عمودی) فارم بہت سیدھا اور بہترین طریقۂ کار ہے، تاہم ابھی اس میں کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں۔ مثال کے طور پر فصل کو بیماریوں اور حشرات الارض سے بچانے کے تمام پودوں پر یکساں اور مناسب روشنی فراہم کرنا تاکہ وہ اچھی طرح نشوونما پاسکیں۔ اس طرح کے دیگر مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمیں انجینئرنگ اور تیکنیکی امور میں نہایت مہارت کی ضرورت ہے۔

2011میں جاپان میں آنے والے سونامی سے پیدا ہونے والی طوفانی لہروں نے نہ صرف فوکو شیما تباہی (سونامی نے دنیا کے سب سے بڑے جوہری پاور پلانٹس میں سے ایک فوکو شیما کے چار جوہری ری ایکٹر کو نقصان پہنچایا، جس میں سے تین کو بند کردیا گیا، جب کہ ایک پلانٹ میں ہائیڈروجن گیس سے ہونے والے دھماکے کے بعد آگ لگ گئی تھی۔ اس حادثے سے جاپان کو ڈیڑھ سو ارب یورو کا نقصان ہوا) ہوئی بلکہ سیلابی پانی اور فوکوشیما سے خارج ہونے والی تاب کاری نے جاپان کے سب سے بڑے شمالی جزیرے ہونشو کی ساحلی پٹی کے ساتھ موجود زرعی زمینوں کو بنجر کردیا تھا۔

اس حادثے کے بعد جاپانی حکومت نے ورٹیکل فارم  بنانے کا فیصلہ کیا۔ چار سال کے بعد جاپان میں سیکڑوں کثیرالمنزلہ ورٹیکل فارمز، گرین ہاؤسز قائم ہوچکے ہیں، جہاں پودوں کو سورج کی روشنی پہنچانے کے لیے روزانہ اُنہیں مختلف سمتوں میں گھُمایا جاتا ہے۔ ان عمارتوں میں پودوں کی نمو پانی اور غذائی اجزا میں ڈوبی ہوئی کھُلی جڑوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ جاپان میں ہائیڈرو پونک ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایرو پونک طریقۂ کار بھی کم وقت میں زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

ہائیڈروپونک طریقۂ کار میں پودوں کی جڑوں کو غذائی محلول میں ڈبویا جاتا ہے، جب کہ ایروپونک طریقۂ کار میں پودوں کی جڑوں کو ہوا میں دانستہ کھُلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایروپونک نظام پودوں کی نشوونما کے لیے درکار ضروری محلول دُھند کی شکل میں فراہم کرتا ہے۔

ڈیسپو میئر کے مطابق ’’اس طریقۂ کار میں جڑوں کا نظام بہت لمبا ہوجاتا ہے، کیوں کہ انہیں غذا جذب کرنے کے لیے سطحی رقبے میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ جاپان کو دیکھتے ہوئے اب سنگاپور، سوئیڈن، جنوبی کوریا، کینیڈا، چین اور ہالینڈ بھی کثیرالمنزلہ فارمز تعمیر کر رہے ہیں، جب کہ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں کنٹرولڈ انوائرمنٹ فارمز تعمیر کیے جا رہے ہیں، لیکن اس وقت زیادہ تر لوگوں کو ورٹیکل فارمز کے قیام میں روشنی کے مسئلے کا سامنا ہے۔

ٹاورز کو اتنا تنگ ہونا چاہیے جن سے آنے والی سورج کی روشنی تما م پودوں پر یکساں پڑے یا بلڈرز کو نمو پذیر پودوں کو روٹیٹ (گھمانے) کا ایسا طریقہ دیکھنا ہوگا جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ تما م پودے صحت مند بڑھوتری کے لیے مناسب مقدار میں سورج کی روشنی حاصل کرسکیں یا غالباً اس کا سیدھا سا طریقہ یہ بھی ہے کہ سوج کی روشنی کو مصنوعی متبادل توانائی سے تبدیل کردیا جائے۔ اس کے لیے ایل ای ڈیز (لائٹ ایمیٹنگ ڈائیوڈز) بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

ڈیسپو کا کہنا ہے ہے کہ برطانیہ، ہالینڈ اور ٹیکساس میں گرین ہاؤسز کو ’پنک ہاؤسز‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پنک ہاؤسز میں ہلکی نیلی اور گلابی روشنیوں کے امتزاج کو پودوں کی نمو کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ روایتی طریقۂ کار میں پودے جذب کی گئی روشنی کا زیادہ سے زیادہ آٹھ فی صد استعمال کرتے ہیں، جب کہ پنک ہاؤسز میں موجود پودے 15فی صد روشنی کو بڑھوتری کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

اس طریقۂ کار میں روشنی، درجۂ حرارت اور ہوا میں موجود نمی کو جتنی اچھی طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے وہ سورج کی روشنی پر انحصار کرنے والے جدید ورٹیکل فارمز اور گرین ہاؤسز میں ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنک ہاؤسز میں پودوں کی نشوونما کُھلے رقبے میں کاشت ہونے والے پودوں کی نسبت بیس فی صد زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔ یہ پودے روایتی طریقۂ کار کے برعکس 91فی صد کم پانی استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں جڑی بوٹی مار، کیڑے مار ادویہ کے اسپرے کی ضرورت پڑتی ہے۔

فی الوقت پنک ہاؤسز کی تعمیر میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ایل ای ڈیز کی لاگت ہے تاہم اگلے پانچ سالوں میں ان کی قیمت میں نصف سے زاید کمی کا امکان ہے۔

اس بارے میں یونیورسٹی آف ایری زونا کے اسکول برائے حیاتیاتی سائنس کی پروفیسر چیری کیوبوٹا کا کہنا ہے کہ خوب صورتی انسان کی کم زوری ہے اور ہر خوب صورت شے چاہے وہ جان دار ہو یا بے جان انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، لیکن بنی نوع انسان کی یہی جبلت ہر سال سیکڑوں ٹن پھلوں اور سبزیوں کے زیاں کا سبب بھی ہے۔

صرف امریکا میں ہی ہر سال چالیس فی صد پھلوں، سبزیوں کو بدصورتی کی بنا پر خریدنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکان دار بدشکل یا ٹیڑھے میڑھے پھل اور سبزیوں کو خریدنے سے انکار کردیتے ہیں، کیوں کہ خوب صورت شکل وصورت پھل یا سبزیاں فروخت کرنے پر انہیں نہ صرف بھاری منافع ملتا ہے بل کہ وہ اپنا مال بھی جلد ہی فروخت کردیتے ہیں۔ انسان کی حُسن پرستی نے ہی بوسٹن کے پنک ہاؤسز سے المیرا کے گرین ہاؤسز تک کو خوب صورت پیداوار پر مجبور کردیا ہے۔

پروفیسر چیری کا کہنا ہے،’’اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کہ گرین ہاؤسز کی وجہ سے صارفین کو تازہ پھل اور سبزیاں مل رہی ہیں اور صرف امریکا کی دکانوں میں فروخت ہونے والے چالیس فی صد تازہ ٹماٹر ان گرین ہاؤسز ہی سے آتے ہیں، لیکن کنٹرولڈ انوائرمنٹ فارمنگ نے کم منافع بخش اجناس، چاول، گندم یا بھٹے کو نظر انداز کردیا ہے اور یہی اجناس دنیا بھر میں مطلوبہ کیلوریز کا 50 فی صد فراہم کرتی ہیں۔ سرمایہ کار صرف وہ پھل اور سبزیاںگرین یا پنک ہاؤسز میں اُگا رہے ہیں جن پر اُن کے منافع کی شرح زیادہ ہے۔‘‘

سابق امریکی سیکریٹری زراعت ڈین گلک مین کا اس بابت کہنا ہے کہ نو ارب ساٹھ کروڑ لوگوں کا پیٹ بھر نے کے لیے اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لیے ہمیں ایسے شان دار گرین ہاؤسز کی ضرورت نہیں ہے جو خلا سے بھی ہمیں دکھائی دیں۔ زراعت کے طریقۂ کار کو بہت ہی سادہ طریقے سے مکمل طور پر جدید بنایا جاسکتا ہے۔

بہت سے ترقی پذیر ممالک میں آج بھی کسان کھیتی باڑی کے لیے قبل مسیح کے زمانے کے طریقے اپنائے ہوئے ہیں، وہ آج بھی ہل چلانے کے لیے بیلوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم دنیا بھر میں صرف کھیتی باڑی کے جدید طریقے اپناکر بھی زیادہ اجناس حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کراپ روٹیشن (ایک زمین پر مختلف فصلیں اُگانا، تاکہ اسے بنجر ہونے سے بچایا جاسکے) سے زراعت کے میدان میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے۔

بنا کسی تعطل کے ایک ہی زمین پر مسلسل ایک ہی فصل اگانے سے پودے مٹی میں موجود تمام نائٹروجن کھا کر زمین کو بنجر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے کہ یا تو زمین کو کھاد کی شکل میں زیادہ سے زیادہ نائٹروجن فراہم کی جائے یا پھر زمین پر اَگلی فصل اُس وقت تک کاشت نہ کی جائے جب تک مٹی دوبارہ جان نہ پکڑ لے۔ ان دونوں طریقوں سے زیادہ اچھی فصل پیدا ہوگی، تاہم فرٹیلائزر استعمال کرنے کا طریقۂ کار دیہی علاقوں میں کاشت کاری والے چھوٹے کسانوں کے لیے تھوڑا منہگا ہوگا۔ ماہرزراعت جوئیل بورنے کے مطابق گندم، چاول اور بھٹے کی فی ایکٹر پیداوار سے ہمیں بالترتیب 30 لاکھ،74لاکھ اور 75لاکھ کیلوریز حاصل ہوتی ہیں، دوسری جانب اگر ہم شکرقندی اور آلو کی فصل کاشت کرتے ہیں تو ان سے حاصل ہونے والی فی ایکٹر پیداوار مذکورہ اجناس سے کہیں زیادہ ہے۔ شکرقندی ایک کروڑ تین لاکھ اور آلو92 لاکھ کیلوریز فی ایکٹر فراہم کرتے ہیں اور ان کی فصل بے جان مٹی اور موسمی حالات برداشت کرنے کی بھی اہل ہوتی ہے۔

یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد بڑھتی آبادی کی غذائیت پوری کرنے کے لیے ایک طویل عرصے تک شکرقندی کو بنیادی اناج کے طور پر فراہم کیا گیا۔ شکر قندی اور آلو کی انہی خصوصیات کی بنا پر چینی حکومت نے آلو کو قومی غذا کا حصہ بنانے اور 2008میں اسے مستقبل کی غذا قرار دیا گیا تھا اور اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ بھی مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں آلو کی کاشت کرنے والے کسانوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق دنیا بھر میں اجناس کے ساتھ ساتھ گوشت کی طلب میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر کی زرعی زمین کا ایک چوتھائی حصہ جانوروں کی غذا پیدا کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گوشت کا شمار منہگی خوراک میں ہوتا ہے اور گوشت کی طلب میں اضافہ ہونے کی وجہ سے چین اور بھارت جیسے ملکوں میں غریبوں کی اکثریت گوشت سے محروم ہے۔ ایف اے او کی پیش گوئی کے مطابق اگلے چالیس سال میں دنیا بھر میں گوشت کی طلب بڑھ کر دگنی ہوجائے گی۔

گوشت کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے سائنس داں مصنوعی طریقے سے بننے والے گوشت کی تیاری پر بھی کام کر رہے ہیں۔ 2013 میں پولینڈ کی Maastricht یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی گوشت تیار کرنے کا کام یاب تجربہ کیا۔ ڈچ سائنس دانوں نے گائے کے اسٹیم سیل کو استعمال کرتے ہوئے ’’ان وائٹرو میٹ‘‘ کے نام سے گوشت بنایا۔ گذشتہ سال بھی لندن میں مصنوعی طریقے سے بننے والے گوشت کے برگر کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا، جب کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ایک سروے سے بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ گائے کے اسٹیم سیل سے بننے والا مصنوعی گوشت ماحول کو بھی بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا، کیوں کہ اس سے توانائی اور پانی کا استعمال کم اور گرین ہاؤسز گیسوں کے اخراج میں بھی کمی ہوگی۔

اس مطالعے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں مصنوعی گوشت بنانے سے مویشیوں کے لیے مختص کی جانے والی زمین کسی دوسرے مقصد میں استعمال کی جاسکے گی، بل کہ ’’ان وائٹرو میٹ‘‘ میں چربی اور دیگر غذائی اجزا کی مقدار میں ضرورت کے مطابق کمی بیشی کی جاسکے گی۔ ’’ان وائٹرو میٹ‘‘ تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک پوسٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ ایسا مصنوعی گوشت بنانا چاہتے ہیں جو شکل اور ذائقے میں اصل گوشت کی طرح ہی ہو۔

تاہم ہمیں امید ہے کہ جلد ہی قدرتی ذائقے سے بھرپور سینتھیٹک (Synthetic ) گوشت بڑے پیمانے پر بنی نوع انسان کی غذائی ضروریات پوری کرے گا۔ اگر ہم نے ٹیکنالوجی کو بہتر طریقے سے استعمال کیا تو دنیا بھر میں زراعت اور کیٹل فارمز کے لیے مختص 20ارب اسکوائر میل سے زاید رقبہ ہمارے استعمال کے لیے موجود ہوگا اور اس زرعی زمین پر گرین ہاؤسز تعمیر کرکے بڑی مقدار میں غذائیت سے بھرپور اجناس کی کاشت کی جاسکے گی۔ اور اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر وہ دن دور نہیں جب لوگ ایک وقت کی خوراک کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم کردیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔