نادرا جیسے حساس ادارے کو فوج کے حوالے کیوں نہیں کر دیا جاتا

رحمت علی رازی  اتوار 29 نومبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

متحدہ ہندوستان میں شخصی شناخت کا کوئی باقاعدہ مجرب نظام موجود نہ تھا،ذاتی پہچان کے لیے ضمانتی بندوبست ہی سے کام چلایا جاتا تھا،اگر کسی فرد کی شناخت پذیری مطلوب ہوتی تو اس کے واقف کار یا محلے دار ہی ضمانت دیتے تھے کہ یہ شخص فلاں کا بیٹا،فلاں کا پوتا یا فلاں کا پڑپوتا ہے اور اس کا خاندان اتنی پشتوں سے اس علاقے میں آباد ہے،ضمانتی حضرات ضمان الیہ کے اجداد کا شجرہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کردار و اطوار کی سند بھی فراہم کرتے تھے جسے آج کے ترقی یافتہ دور میں کریکٹر سرٹیفکیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے شخصی نظامِ شناخت ’’پی آئی ایس‘‘(پرسنل آئیڈنٹٹی سسٹم) کا افتتاح کیا جسکا کام پاکستان کے ہر شہری کے لیے شناختی کارڈ کا اجراء تھا۔ ادارہ قومی شناختی کارڈ مغربی و مشرقی پاکستان اور مہاجرین کی شناختی سہولت کے لیے عمل میں لایا گیا تھا،اس ادارے کی طرز پر بھارت ہزارہا کوششوں کے باوجود ’’راشٹریہ پہچان پتر وِبھاگ‘‘کا قیام عمل میں لانے سے تاحال قاصر ہے لہٰذا انڈیا کا ہر خاندان آج بھی اپنے راشن کارڈ کو کنبے کے تمام افراد کے لیے مجموعی قومی شناختی کارڈ کے طور پر استعمال کرتا ہے،پاسپورٹ جیسی اہم ترین دستاویز بھی اسی راشن کارڈ کی بنیاد پر ہی بنتی ہے۔

اس راشن بک میں کسی غیر شخص کا نام خاندانی افراد میں داخل کروانا رامائن میں ترمیم کرنے کے مترادف ہے جب کہ ہمارے ہاں پی آئی ایس کی تشکیل سے لے کر 2000ء تک (قریباً 52 سال) قومی شناختی کارڈ آلو پیاز کے بھاؤ سبزی کی دکانوں پر فروخت ہوتے رہے ہیں،یہ دھندہ آج بھی جاری ہے مگر آج یہ بھاؤ سونے سے بھی چڑھ چکا ہے۔ شروع کے سترہ سالوں میں شخصی نظامِ شناخت کو سالڈویسٹ مینجمنٹ سے زیادہ اہمیت حاصل نہ رہی تاہم 1965ء میں اس ادارے میں بڑی تبدیلی الیکشن کمیشن کی طرف سے لائی گئی تا کہ صدارتی انتخابات کی ’’منظم تیاری‘‘کی جا سکے۔ 1970ء تک اس ادارے میں انتخابی سرگرمیوں کی وجہ سے خاطرخواہ تبدیلیاں لائی گئیں اور اسے ’’بنیادی جمہوریت‘‘کا ’’ماں صدقے ادارہ‘‘بنا دیا گیا۔

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بنگالیوں کی ایک کثیرتعداد پاکستان کا رُخ کرنے لگی جس کی ڈھال لے کر بہت سے برمی اور انڈین بھی کراچی اور جنوبی پنجاب میں آ کر بسنے لگے،ایسی صورتحال میں ایک سادہ سے ڈیٹا بیس نظام کی اشد ضرورت تھی جس میں پاکستانی شہریوں کے متعلق تمام معلومات محفوظ کی جاتیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی اس ہجرت کو ہجرتِ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے،بہ ایں ہمہ 1947ء کی ہجرتِ اول کا سلسلہ بھی کم و بیش 1971ء اور اس کے بعد تک موسمی پرندوں کی مانند جاری رہا۔ 1972ء میں ایک غیرملکی کمپنی نے ذوالفقار علی بھٹو کو تجویز پیش کی کہ وہ پاکستان کے شہریوں کا ڈیٹابیس اکٹھا کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہے۔

یہ وہ دور تھا جب اطالوی انجینئر ’’پیروتو‘‘کے وضع کردہ پہلے کمرشل ’’ڈیسک ٹاپ پرسنل کمپیوٹر‘‘نے ڈیجیٹل سائنسی دنیا کا آغاز کر دیا تھا اور امریکا، برطانیہ اور روس نے اپنے سائنٹفک اور ملٹری آپریشن متذکرہ کمپیوٹر کے پروگرام 101 کے ذریعے انجام دینا شروع کر دیے تھے۔ چاند پر اترنے کا مشن ’’اپالو دوئم 1969ء‘‘اور ’’ویت نام جنگی آپریشن‘‘بھی اسی کمپیوٹر کے مرہونِ منت تھے۔ 1968ء تک روس بھی 21 ویں صدی کی پہلی ای میل اور ویڈیو کانفرنسنگ پر تجربہ کر چکا تھا،مغرب کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس طلسمی مشین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے ممالک کے اسکولوں، اسپتالوں اور سرکاری دفاتر میں کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے لیے پرائیویٹ انجینئرنگ کمپنیوں کے روپ میں ٹھیکے حاصل کرنے کا کام شروع کر رکھا تھا۔

ایسی ہی ایک کمپنی نے حکومتِ پاکستان کو بھی اپنے مردم شماری نظام اور نیشنل ڈیٹابیس سروس کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا مفت مشورہ کیا دیا کہ 1973ء میں بھٹو نے شہریوں کے بنیادی کوائف اکٹھے کرنے اور رجسٹریشن کا کام صدقہ جاریہ سمجھ کرکرنا شروع کر دیا،شاید اسی لیے انھوں نے ایک بار کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’درست قومی اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک تاریک دور سے گزر رہا ہے‘‘۔ وہ باوجوہ چند مجبوریوں کے زیادہ تو کچھ نہ کر پائے،بس 1973ء کے آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعے پاکستانی شہریت کے لیے ایک سادہ سا ڈیٹا بیس ضرور بنا دیا۔

وہ نجی انجینئرنگ کمپنی اسلیے بھی پاکستان میں داخلے سے محروم رہی کیونکہ اس کے انگریز ملازمین میں دو انجینئر بھارتی نژاد بھی تھے جس کی وجہ سے مقتدرہ حلقوں کے دباؤ پر حساس اداروں کی طرف سے کلیئرنس کا ایشو کھڑا ہو گیا تاہم 1996ء میں بینظیر دورِ حکومت میں پاکستان نے امریکا سے آئی بی ایم بائیو میٹرک سسٹم کے لیے معاہدہ کیا جو پاکستان کی شہری معلومات اور شناخت کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی طرف پہلا قدم تھا۔

اس طرح ذوالفقار بھٹو کا متشکل کیا گیا دستی ڈیٹا بیس سسٹم شناخت کے جدید حیات پیمائی نظام تک آ پہنچا جسے انٹرنیٹ سے مربوط کر کے 1998ء میں قومی سطح پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ ریگولیشن اتھارٹی (ادارہ برائے قومی شناخت و تسجیل) یعنی نادرا قیامِ عمل میں لایا گیا جسکے ذریعے جدید شمارتی نظام سے مربوط کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) کا اجراء یقینی بنانے کے لیے ہر پاکستانی شہری کی ذاتی معلومات کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کو جدید زندگی کا واحد ذریعہ قرار دیا گیا۔

بالآخر نادرا نے مشرف دور میں عملی مظاہرہ کرتے ہوئے 2000ء میں شہریوں کے کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس کا باضابطہ آغاز کر دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئی ٹی سیکٹر میں انقلاب برپا کرنیوالے ہندوستان کی سوا ارب آبادی آج کے معلوماتی اور ڈیجیٹل دور میں بھی راشن کارڈ جیسے پہچان پتر پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہے اور بھارت نے شہریوں کے قومی ڈیٹا بیس کا کوئی کمپیوٹرائزڈ یا آن لائن سسٹم وضع نہیں کیا لیکن پاکستان نے بنیادی سہولیات کے اعداد و شمار پر مبنی ایک مربوط نظام بنانے کے بجائے سارا زور شخصی نظامِ شناخت کو جدید ترین بنانے میں صرف کر دیا ہے۔ اس وقت نادرا گلوبل آئیڈنٹی فکیشن سیکٹر سے پلُو گانٹھ چکا ہے اور اس نے ملٹی بائیومیٹرک قومی شناختی کارڈ (ایم بی این آئی سی) اور ملٹی بائیومیٹرک ای پاسپورٹ کا ٹارگٹ بھی حاصل کر لیا ہے۔

یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جس پر اتنا غرور پا ہوا جائے بلکہ یہ وہ خوفناک پیشرفت ہے جس پر اہل بینش کو بہرکیف تحفظات ہی ہو سکتے ہیں۔ اپنے شہریوں کی ہڈیاں، خون اور خلیے تک سکین کر کے سربازار مشتہر کر دینا اور عالمی سوداگروں کے ہاتھ اپنوں کے ڈی این اے تک کو بصد افتخار بیچ ڈالنا کونسی ترقی کا ثبوت ہے۔ ہماری تشویش نے اس وقت انگڑائی بھری جب سابق چیئرمین نادرا طارق ملک نے 2012ء میں اسمارٹ قومی شناختی کارڈ (ایس این آئی سی) کا منصوبہ پیش کیا۔ اسمارٹ کارڈ نادرا کے گزشتہ کام کا تسلسل اور ملک کی اہم ضرورت بتایا گیا اور اس کے ڈیزائن میں 36 سیکیورٹی فیچر داخل کیے گئے۔

جن میں حامل کا اے ٹی ایم معہ بینک ریکارڈ، این ٹی این، ڈرائیونگ لائسنس، اسکول کارڈ، میڈیکل کارڈ، جم کی ممبر شپ، اسلحہ لائسنس، الیکٹرانک ووٹنگ، موٹروے/ ہائی وے پر ٹول کے لیے ای ٹیگ، قدرتی آفات میں ایمرجنسی ریلیف اور لائف انشورنس (حادثاتی موت پر 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے) وغیرہ کے علاوہ بھی اور بیسیوں فیچرز ہیں جو اس اسمارٹ ای شناختی کارڈ پر لگی چِپ میں ڈالے گئے اور ان تمام کا تعلق حامل کے ذاتی و خاندانی کوائف (معہ تصاویر و دیگر نجی معلومات و تفصیلات) سے ہے جن کا اظہار تعارفی مہم میں صرفِ تذکرہ کر دیا گیا۔

عوام کی توجہ مبذول کروانے کی غرض سے نادرا کی ویب سائٹ اور میڈیا پر پرکشش اشتہارات چلائے گئے اور اس مشن کے پراکسی طارق ملک نے اسمارٹ اِی کارڈ کی تعریف میں بیشمار قصیدے عام کیے،ان کا تفصیلیہ تھا کہ ’’موجودہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ میں محدود سیکیورٹی فیچرز کی گنجائش ہے اور اس کے ذریعے شہریوں کی بیرونِ ملک سے تصدیق بھی نہیں ہو سکتی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ موجودہ سی این آئی سی میں ڈیٹا محفوظ کرنے یا ڈیٹا بیس کی ترمیم کا کوئی آسان طریقہ نہیں،لہٰذا یہ تمام سیکیورٹی خدشات دُور کرنے کے لیے 36 سیکیورٹی فیچرز والا نیا ذہین اِی شناخت نامہ متعارف کروایا گیا ہے جس سے یہ دُنیا کا محفوظ ترین کارڈ بن گیا ہے،اب دُور بیٹھے (یعنی کسی بھی ملک سے بیٹھ کر) پاکستان کے دُور اُفتادہ اور پسماندہ ترین علاقوں کے شہریوں کی تصدیق بھی ممکن ہو سکے گی‘‘۔

چیئرمین نادرا نے اپنے ہی بنائے ہوئے جدید شناختی کارڈ کی یہ نفی بھی کر ڈالی کہ ’’سی این آئی سی ان ہزاروں فراڈ میں سے ایک ہے جو ممکنہ طور پر عام شناختی کارڈ سے کیے جا سکتے ہیں،پہلے پہل اسمارٹ کارڈ کی خدمات شاید گراں محسوس ہوں لیکن جب لوگوں کے پاس یہ کارڈ آ جائے گا تو یہ ایک بہتر سہولت تصور کی جائے گی،بالآخر ہر فرد کو یہی کارڈ بنوانا ہے،یہ کارڈ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے معیار کے عین مطابق ہے اور اسے سفری دستاویز یعنی پاسپورٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکے گا،کوئی بھی شہری گھر پر ایک سے زیادہ کارڈ بنوا کر رکھ سکتا ہے اور ایک کارڈ گم ہونے کی صورت میں دوسرا کارڈ استعمال کر سکتا ہے‘‘۔

محترم طارق ملک نے اس ذہین کارڈ کے بڑے سحرانگیز خواص گنوائے ہیں جب کہ ہماری ابتدائی معلومات کے مطابق یہ ایک بائیو کارڈ ہے جس میں شہری کی ساری زندگی کی تفصیل اور عائلی کوائف محفوظ ہونگے جن تک سی آئی اے اور MI-6 کے مدر ہیڈ کوارٹر اور برطانیہ کے کمیونیکیشن گیٹ وے ایکسچینج کو انٹرنیٹ اور سکائی نیٹ ورک کے ذریعے رسائی حاصل ہو گی۔

اجمال اس حقانیت کا یہ ہے کہ پاکستان کے اسمارٹ شناختی کارڈ کا معاہدہ انگلینڈ کی ایک (بظاہر) نجی کمپنی کے ساتھ طے پایا تھا جس کی ذمے داری پاکستان کے نیشنل ڈیٹا بیس کے انصرام کی تھی جسکے دائرہ کار میں حساس اور اعلیٰ عسکری، سرکاری اور سیاسی اداروں کے تمام خاص و عام افراد بھی آتے تھے جن کی مکمل و تفصیلی معلومات کے لیے اس نام نہاد برطانوی کمپنی پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ دراصل یہ نجی کمپنی اسی غیر ملکی کمپنی کی اگلی نسل ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو 1972-73ء میں پاکستانی شہریوں کے میکانکی ڈیٹا بیس کی ترتیب و نگہداشت کے لیے مشینری و عملہ کی آفر دی تھی تاہم یہ بھی حقیقت تھی کہ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے کارن یہ کام ایک محدود پیمانے پر ہی ہو سکتا تھا۔

سابق چیئرمین نادرا نے خود اقرار کیا ہے کہ اسمارٹ کارڈ نادرا کے گزشتہ کام کا تسلسل ہے،یقینا یہ وہی کڑیاں ہیں جو ذوالفقار بھٹو اور بینظیر سے ہوتی ہوئی آصف زرداری تک پہنچ کر ایک زنجیر کی شکل اختیار کرنا چاہ رہی تھیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری کی حب الوطنی سب پر عیاں ہے،انھوں نے آٹھ سال جیل کاٹنے کا میٹھا انتقام اس ملک سے جس انداز میں لیا ہے وہ اب آہستہ آہستہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ مستانوں کو مستانے مل ہی جاتے ہیں،زرداری کی رحمان ملک سے اس وقت سے نبھتی آ رہی ہے جب آخرالذکر 1993ء میںڈی جی ایف آئی اے بنائے گئے تھے۔ پاکستان کو جتنا نقصان زرداری دور میں پہنچا یا گیا، شاید ہی کسی اور دور میں پہنچا ہو۔ انھوں نے خود تو جو تاریخی کارنامے انجام دیے سو دیے،داخلہ جیسی حساس اور اہم ترین وزارت پر ایک ایسے شخص کو براجمان کر دیا جسے ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے کبھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا اور جس پر بدیشی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کے متعدد بار الزامات لگ چکے ہیں۔ رحمان ملک نے امریکا کی سیکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر کے سیکڑوں کارندوں کو سفارتی ویزوں پر یاجوج ماجوج کی طرح پاکستان میں داخل کروایا،وہ خود بھی برطانیہ میں بلیک واٹر طرز کی ایک ذاتی سیکیورٹی ایجنسی کے مالک ہیں۔

اسمارٹ شناختی کارڈ کا پراجیکٹ بھی ان ہی کی وساطت سے پاکستان میں داخل ہوا جس کے لیے انھوں نے زرداری کو شریک ٹھہرا لیا اور اس کی ڈیزائننگ کے لیے اپنے معتمد خاص چیئرمین نادرا طارق ملک کو دن رات ایک کر دینے کی تلقین کی۔ نومبر 2012ء میں جب نادرا نے اسمارٹ کارڈ متعارف کروایا تو پہلا کارڈ صدر زرداری کو جاری کیا جنھوں نے پاکستانیوں کو یہ طمع دیکر اسمارٹ کارڈ بنوانے پر مائل کیا کہ اس ہمہ جہتی سہولتوں کے حامل کارڈ میں بیمہ کا  فیچر بھی رکھا گیا ہے اس لیے حادثاتی موت کی صورت میں حاملِ کارڈ ہذا کے لواحقین کو 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے دیے جائینگے۔

شروع شروع میں سندھ پولیس کے ملازمین نے دھڑا دھڑ اسمارٹ کارڈ بنوانے شروع کیے،بعدازاں اور بھی متعدد لوگوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ‘پھر دفعتاً ایک خاص کمیونٹی کے احتجاج پر نادرا کی طرف سے اس فیصلے پر عملدرآمد وقتی طور پر روکدیا گیا،یہ احتجاج کس نے کروایا تھا یہ آپ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ نادرا نے تو اسمارٹ کارڈ کو دُنیا کا محفوظ ترین کارڈ کہا مگر یہ دُنیا کا غیرمحفوظ ترین کارڈ تھا جسکے ذریعے پاکستانی شہریوں کی نجی معلومات کا سودا کر لیا گیا ،دوسرا رسک اس کا یہ تھا کہ بینک اکاؤنٹ کی معلومات کا  فیچر ہونے کی وجہ سے تمام شہریوں کی پاکستان اور بیرون ملک پڑی بینک رقوم پر ایک جھٹکے میں ہاتھ صاف کیا جا سکتا تھا،اور پھر سب سے زیادہ خطرہ یہ کہ غیرملکی ایجنسیاں جس پاکستانی کو چاہتیں۔

اس کے ڈیٹا کا غلط استعمال کر کے اسے دہشت گردی یا کسی بھی جرم میں پھنسا سکتی تھیں۔ اسمارٹ کارڈ میں لگی چپ آف لائن کام کرنے کی خصوصیت سے بھی مزین تھی اور اسی چِپ کے ذریعے کسی بھی پاکستانی کو ڈرون یا مستقبل کی سیٹلائٹ کمبیٹ ٹیکنالوجی کے میکرو میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ اس کارڈ کی اور بھی بیشمار بدعتیں تھیں جنہیں شمار کرنے کے لیے پورا ایک کالم درکار ہے۔

اسمارٹ کارڈ مشکوک ہو جانے کے بعد فروری 2013ء میںزرداری نے ایس ایم ایس کے ذریعے شناختی کارڈ کی تصدیق کی ٹیکنالوجی متعارف کروا دی جس سے فائدہ اٹھاکر کوئی بھی شخص کسی کا بھی شناختی کارڈ نمبر داخل کر کے 7000 پر ایک ایس ایم ایس کے ذریعے اس کی بنیادی معلومات حاصل کر سکتا تھا،قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو یہ پیغام 70001 پر بھیجنا ہوتا تھا جنہیں عام آدمی سے زیادہ معلومات حاصل ہو سکتی تھیں۔ اسی سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی بینکوں اور ٹیلی کام کمپنیوں کے پاس بھی ہے جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا سیکیورٹی رسک ہے۔ نادرا حکام نے بظاہر تو اس تصدیقی پیغام کی سہولت کا تاثر یہی دیا کہ وہ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ ملکر موجودہ ملکی حالات پر قابو پانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں مگر اہلِ نظر کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس سروس سے بھی بہتری کا امکان کم اور ابتری کے خدشات زیادہ تھے۔

رحمان ملک کے پراجیکٹس کے بعد اب شنید ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر نادرا ایک آن لائن ڈی این اے لیب بنانے کی تیاری میں ہے،علاوہ ازیں میرج اور برتھ سرٹیفکیٹ کا اجراء اور شناختی کارڈ کی تصدیق بھی آن لائن کی جائے گی،اس سب کے لیے 13 نیکسٹ جنریشن بزنس سینٹر بھی قائم کیے جائینگے۔ وزیر داخلہ کے اس اقدام سے واضح ہے کہ رحمان ملک کے پراجیکٹس ختم نہیں ہوئے۔

یہ اَمر انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ایک مخصوص مافیا 1996ء میں بھی امریکا سے بائیومیٹرک معاہدہ کے وقت سے یہ منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ پاکستانی شہریوں کا پرانا شناختی مواد ضایع کر دیا جائے اور ہرشہری کو ایک نئی شناخت پریڈ سے گزار کر اسے ایک نیا شناختی نمبر الاٹ کیا جائے مگر زہے نصیب کہ اُس سال تحلیلِ حکومت کا واقعہ رونما ہو گیا اور نو آمدہ حکومت بھی نادرا کی تشکیل کے باوجود کمپیوٹرائزڈ ڈیٹابیس کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ یکم جنوری 2004ء کوبھی جب پرانے شناختی کارڈ نمبرز منسوخ کیے گئے تو کسی سچے پاکستانی کی حب الوطنی ہی کام آ گئی جسکے دھیان دلانے پر نئے کمپیوٹرائزڈ کارڈ میں پرانے کارڈ کا نمبر درج کرنا بھی ضروری قرار دیا گیا جو تاحال برقرار ہے۔ پرانا ڈیٹا ضایع کرنے کی سازش پاکستان کے لیے اتنی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی کہ اس کا خمیازہ ہر آنیوالی نسل کو بھگتنا پڑتا۔

سابقہ شناختی ریکارڈ نہ ہونے کے باعث اولاً تو طاقتور سیاسی حکومتیں ہر نئے انتخابات پر جعلی اور گھوسٹ ووٹر بریگیڈ تیار کر لیتیں جو اُن کی جیت میں ہر ممکن ممد ثابت ہوتا اور ثانیاً غیر ملکی افراد جب چاہتے نیا شناختی کارڈ بنوا کر ملک کے کسی بھی اہم سے اہم سرکاری و عسکری ادارے میں دخول پا سکتے تھے۔ پرانا شناختی نمبر برقرار رکھنے کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوا کہ نئے کارڈ کا 13 ہندسی نمبر بوقت پیدائش ہی (راشن کارڈ کے اندراج کی طرح) ہر اس پاکستانی بچے کو دیدیا جاتا ہے جب اس کے والدین اس کی پیدائش سے متعلق ضروری سرکاری کاغذی کارروائی انجام دیتے ہیں،اسے آر جی۔2 یا ب فارم بھی کہا جاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ نادرا ملازمین سب سے زیادہ رشوت خوری اور چور بازاری اسی ب فارم کے اجراء کی آڑ میں شہریوں کو خوار و زبوں کر کے کرتے ہیں۔ ب فارم اور سابقہ شناختی نمبر کا تحفظ ہونے کے باوجود اصل تحفظات اپنی جگہ برقرار ہیں کہ نادرا کے نئے سی این آئی سی کارڈ میں بظاہر تو کئی ایسی خصوصیات شامل ہیں جو اس کارڈ کی معلومات کو مستند اور درست بنانے کے ساتھ ساتھ جعلسازی کی روک تھام میں بھی معاون ہیں اور اس کارڈ کی بناوٹ میں کئی تہوں کا استعمال بھی ہوتا ہے جسکے نتیجہ میں کارڈ کی جعل سازی ناممکن لگتی ہے لیکن بااوصافِ کُل،تشویشناک پہلو یہ ہے کہ شخصی شناختی نظام کے لیے نادرا کے ساتھ کئی بین الاقوامی مالیاتی اور کارپوریٹ کاروباری اداروں کا الحاق ہے۔

اور کارڈ کی تصدیق کے لیے استعمال کی جانیوالی مشینوں کی صنعت سازی ان ہی اداروں کی زیرنگرانی ہوتی ہے جس میں نادرا کے کچھ اہم عہدیدار بھی برائے نام شریک ہوتے ہیں۔ یہ عالمی مالیاتی اور کاروباری ادارے دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک کو اہم دستاویزات اور نوٹ بنانے کی مشینیں بنا کر دیتے ہیں،یہ اپنے گاہک کو عمومی طور پر یہی تاثر دیتے ہیں کہ اس کے نمائندوں کی موجودگی میں مطلوبہ مشینیں بنائی جاتی ہیں مگر دراصل ان کے پاس اس طرح کی اور بھی کئی مشینیں ہوتی ہیں جو وہ بدنامِ زمانہ جعلسازوں اور کسٹمر ممالک کی مخالف ایجنسیوں کو اربوں کھربوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔ اب تو نوٹ اور سیکیورٹی دستاویزات چھاپنے والی مشینیں دُنیا کی عام منڈیوں میں بھی دستیاب ہیں۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے سب سے زیادہ افغانستان اور بھارت میں جعلی کرنسی، پرائزبانڈ سیونگز سرٹیفکیٹ اور اسٹامپ پیپر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

مگراس سے بھی زیادہ یہ مکروہ دھندہ پاکستان کے علاقہ غیر اور کراچی میں نصف صدی سے ہو رہا ہے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے شروع کے ادوارِ حکومت میں یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ افغانستان اور فاٹا کے خطرناک اسمگلروں نے باجوڑ ایجنسی میں جعلی کرنسی کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں جن میں ڈالر سے لے کر دُنیا کے ہر ملک کی کرنسی چھاپی جاتی ہے اور پاکستانی کرنسی کو نقل بمطابق اصل بنانے کے لیے باڑے کی ایجنٹ مافیا نے پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کے کچھ ملازمین کے ساتھ انتہائی خفیہ طریقے سے ملی بھگت کر رکھی ہے جو نوٹ چھاپنے کے کاغذ اور سیاہی کے اصل نمونے اسے کروڑوں روپے کے عوض بیچتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ موسمِ گرما میں تین تین مرتبہ سوات، کالام اور چترال میں تعطیلات منانے کے بہانے علاقہ غیر کی جعلی مشینوں پر کام کرنے کے لیے وہاں کے جعلساز عملہ کو تکنیکی تربیت بھی دیتے ہیں اور انہیں سیکیورٹی تھریڈ، واٹر مارک، لیٹنٹ امیج، آپٹیکل ویری ایبل اِنک (او وی آئی)، سی تھرو امیج اور مائیکرو پرنٹنگ کے گُر بھی سکھاتے ہیں۔ ان میں سیکیورٹی پیپرمِل اور اِنک فیکٹری کے ملازمین کراچی میں نصب کرنسی نوٹ پرنٹنگ کی افغانی و بھارتی مشینوں کے لیے بھی چوری چھپے کام کرتے رہے ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قوم پیسے کی خاطر ملک و مذہب اور دین و ایمان کا بھی سودا کر سکتی ہے۔ ورلڈ بینک کے پالے ہوئے یہ مغلوف گماشتے نہ صرف وطن مخالف جعلسازوں کے بھاگیدار بنے ہوئے ہیں بلکہ بڑے بڑے بینکوں میں بیٹھ کر جعلی کرنسی کی ترسیل کا کام بھی ببانگِ دہل اور بے دھڑک چلا رہے ہیں۔

اس عیدالفطر اور عیدالاضحی پر سٹیٹ بینک کے کیشئرز نے ہزار، پانچ صد اور سو روپے کے لاکھوں جعلی نوٹ اصل نوٹوں میں مدغم کر کے چلائے۔ آجکل یہ وباء ہر بینک کو لگ چکی ہے،آپ خواہ کسی بھی بینک سے لین دین کر کے دیکھ لیں،ہر ٹرانزکشن میں دوچار جعلی نوٹ ضرور ہونگے۔ الحفیظ و الامان! جب بینکوں کا یہ حال ہے تو پھر تاجروں اور عام کاروباری حضرات کا تو تذکرہ ہی فضول ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سٹیٹ بینک کے اہلکار برائے فروخت ہیں تو پھر نادرا کے ملازمین کون سے عسکری اداروں سے وابستہ ہیں۔ شومیٔ قسمت کہ نادرا کے اہم عہدوں پر فائز ریٹائرڈ فوجی افسران بھی جعلی شناختی کارڈ سکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں۔

رواں سال اگست میں آئی ایس آئی نے چیئرمین نادرا کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کے چالیس اہلکاروں کی فہرست شامل تھی،رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نادرا کے یہ اعلیٰ افسران دہشت گردوں کو قومی شناختی کارڈ کے حصول میں مدد فراہم کرتے رہے ہیں جن میں حیرت انگیز طور پر ریٹائرڈ آرمی افسران کے نام بھی شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد نادرا میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔ مذکورہ فہرست میں جنرل منیجر پراجیکٹس،ڈپٹی جی ایم آپریشنز اور ڈپٹی جی ایم آپریشنز بھی شامل ہیں جو دیگر کئی نادرا افسران واہلکاران کے ساتھ دہشت گردوں اور شرپسندوں کے شناختی سہولت کار ہیں۔

ان کے نام اس وقت سامنے آئے جب سیکیورٹی فورسز کو کئی ملکی و غیرملکی دہشت گردوں کے قبضے سے پاکستانی پاسپورٹس اور قومی شناختی کارڈ برآمد ہوئے،گزشتہ برس جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے سینئر القاعدہ رہنما و امریکی شہری عدنان الشکری جمعہ کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی تھا جس میں اس کا نام شاہ زیب خان ولد اکبر خان درج تھا جب کہ کارڈ کا نمبر 121015-9547114-7 تھا۔ اس کے علاوہ افغان طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے سابق سربراہ طیب آغا کے دو بھائی محمدطاہر اور محمدیونس بھی نادرا کا کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جن کی اس عمل میں محمد یونس کے سسر مولانا محسن اور نادرا کے کچھ اہلکاروں کی جانب سے مدد کی گئی تھی۔

قطر میں 2013ء میں بینک ڈکیتی میں گرفتار تین ازبک باشندے بھی پاکستان کے قومی شناختی کارڈ کے حامل تھے اور ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ بھی موجود تھے جن میں ان کے نام شہزاد خان (17201-1006340-3)، انعام (17301-5839120-7) اور عثمان راشد (17301-5215412-3) درج تھے۔ تعجب تو یہ ہے کہ ماسوائے غیرقانونی شناختی کارڈ منجمد کرنے کے قومی ایکشن پلان کے تحت متعلقہ عملہ کو گرفتار تک نہیں کیا گیا نہ ہی ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ایسے حالات میںہم سمجھتے ہیں کہ نادرا ایک انتہائی حساس ادارہ ہے جو اس وقت انتہائی غیرمحفوظ ہاتھوں میں ہے۔

یہ ایک سرکاری آرگنائزیشن ضرور ہے مگر اس کے عوامی ملازمین کی وجہ سے ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے،کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ حکومت دیگر اہم محکموں کی طرح آج یا کل اسے بھی نجکاری کی بھینٹ چڑھا دے۔ ہماری تجویز ہے کہ اسے ہنگامی طور پر فوج کے حوالے کر دیا جائے اور آئی ایس آئی کی سخت نگرانی لازمی قرار دیدی جائے،اس کے علاوہ اس کی تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں کے لیے حاضر سروس فوجیوں کو منتخب کیا جائے اور نادرا کو عالمی سطح کے معلوماتی اداروں سے فی الفور غیر مربوط کر کے آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔ نادرا کی کارگزاریوںاور لاکھوں جعلسازیوں  پربحث کے لیے اگلے کالم میں ملاقات ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔