بلدیاتی انتخابات، فرائض اور اختیارات

شاہد سردار  اتوار 29 نومبر 2015

عوام کو اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی اور عوامی حلقوں کے قیام کا آخری مرحلہ پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین شہر کراچی میں شروع ہونے والا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے بھانت بھانت کے نعرے لگا کر اپنے اپنے گلے بٹھائے جا رہے ہیں۔ مثلاً ’’5 دسمبر کو شہر کراچی میں انصاف کا سورج طلوع ہوگا، اندھیروں میں ڈوبا ہوا شہر ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن جائے گا، لسانیت کے نام پر سیاست کرنیوالوں نے اہل کراچی سے چین اور سکون چھین کر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔

شہر کراچی کو بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے تحفے دینے والوں کا وقت ختم ہوچکا ہے، آؤ بدلیں اپنا کراچی، کراچی کو اس کے سلب کیے گئے اختیارات واپس دلوائیں گے اور بااختیار بلدیاتی ادارے بنائیں گے، شہر قائد کو ایک بار پھر امن و سکون کا گہوارہ بنائیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔دیکھنے میں آرہا ہے کہ ’’بلدیاتی روایتی نرسری‘‘ جزوی طور پر ’’نئے پودوں‘‘ سے پُر ہوگی جن میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’درخت‘‘ کی صورت اختیارکر جائیں گے۔ پچھلے انتخابات میں سیاست دانوں کی بڑی تعداد بلدیاتی انتخابات کے پلیٹ فارم سے سیاست میں وارد ہوئی تھی۔

گزشتہ تقریباً تمام سیاست دانوں کی بڑی تعداد گزشتہ تقریباً تمام بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ہی سیاست کے مرکزی دھارے میں آئی ہے، جو بعدازاں قومی اور صوبائی قانون ساز اداروں کے لیے منتخب ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں آنیوالے ارکان نے اپنے کیریئر کا آغاز بلدیاتی کونسلوں کے ذریعے ہی کیا تھا۔بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کے لیے سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے، شہر میں مسلم لیگ (ن) کے ناراض ارکان ٹکٹ نہ ملنے کے سبب متعدد حلقوں میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں، سب سے زیادہ ضلع غربی میں سیاسی جماعتوں کے امیدوار اور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ کراچی کے 6 اضلاع میں 209 یونین کمیٹیوں، 38 یونین کونسلوں کے نمائندوں کی تعداد 2717 ہے۔

5 دسمبر کو 1520 جنرل نشستوں میں سے 1472 کے لیے پولنگ ہوگی، جب کہ  48 نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ 1472 نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 5483 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوگا۔ 1520 جنرل نشستوں پر عوامی نمائندوں کا انتخاب براہ راست لوگوں کے ذریعے جب کہ  1235 مخصوص نشستوں پر عوامی نمائندوں کا انتخاب مخصوص طریقہ انتخاب کے ذریعے ہوگا۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابی سرگرمیاں تیز کردی ہیں گھر گھر، گلی کوچے میں کارنر میٹنگ اور امیدوار اپنے منشور کے ساتھ وارد ہو رہے ہیں، متعدد علاقوں میں انتخابی دفاتر قائم کردیے گئے ہیں بڑے جہازی سائز کے پینا فلیکس اور ہورڈنگ لگا دیے گئے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم حقیقی، جے یو آئی، اے این پی، مسلم لیگ (ن)، جے یو پی اور دیگر جماعتیں، آزاد امیدوار عوام سے رابطوں میں مشغول ہیں۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مل کر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، دونوں جماعتوں کے درمیان 80 فیصد نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ان کے مابین یہ بھی طے پایا ہے کہ انتخابات میں زیادہ سیٹیں جیتنے والی پارٹی سے میئر منتخب کیا جائے گا جب کہ ڈپٹی میئر دوسری جماعت سے ہوگا۔کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی اپنے کمزور تشخص کے ساتھ پوری قوت سے سرگرم ہے جس کے کراچی میں حمایت کے حوالے سے مخصوص علاقے موجود ہیں اور ماضی میں ٹاؤن ناظمین کے علاوہ ایک سے زائد بار اس کا ڈپٹی میئر منتخب ہوتا رہا ہے۔

جاری کراچی آپریشن اور دو جماعتوں کے ساتھ آپریشنل حکام کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ان کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کیونکہ وہ بلدیاتی اداروں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتی ہے۔’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ الطاف حسین کے شعلہ بیان خطابات کی عدم موجودگی میں اس کی انتخابی مہم کی باگ ڈور کراچی کے سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستار کے ہاتھ میں ہے، جوکہ خود بہت سخت جان مہم جو ہیں۔ ’’ایم کیو ایم‘‘کی اصل حریف جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے انتخابی اتحاد کرکے مقابلے کو اور سخت بنادیا ہے، بہرحال الطاف حسین کی سحرانگیزی اب بھی باقی ہے یا کسی حد تک اس میں کمی واقع ہوچکی ہے اس کا فیصلہ بھی 5 دسمبر کو ہوجائے گا۔ منتخب حکومتوں نے جو بلدیاتی الیکشن کروائے وہ بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے اور جو جیت جاتا تھا (ماسوائے چند ایک کے استثنیٰ کے) وہ حکومت کے ساتھ شامل کرلیا جاتا تھا۔

ماضی کے ان بلدیاتی انتخابات سے جمہوریت کو بحیثیت مجموعی فائدہ نہیں نقصان پہنچا، برادریاں، متعصب گروہ اور پرتشدد متضاد خیالات پروان چڑھے، تقسیم زدہ قوم مزید تقسیم ہوگئی۔ بہرحال اس بار جماعتی طور پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتیں وارڈ اور یونین کونسل کی سطح تک منظم ہوجائیں گی۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں مقامی حکومتوں کا نظام بہت مضبوط ہوتا ہے اور مقامی حکومتیں انتہائی بااختیار ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں حقیقی حکمران اشرافیہ نے جمہوریت کو کبھی پروان  نہیں چڑھنے دیا۔ غیر جمہوری حکومتوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے انتخابات کی ہمیشہ مخالفت کی لیکن انھوں نے بلدیاتی اداروں (مقامی حکومتوں) کے انتخابات کرائے۔

یہ انتخابات اس لیے نہیں کرائے گئے تھے کہ وہ حکمراں جمہوریت چاہتے تھے بلکہ انھوں نے مقامی حکومتوں کو اپنے غیر جمہوری مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام ہمارے ہاں نافذ کیا اور مقامی حکومتوں کے منتخب عہدے داروں کو اپنے صدارتی انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج کے طور پر استعمال کیا۔ اس طرح جنرل ضیا الحق نے بھی بلدیاتی اداروں کے ذریعے متبادل سیاسی قیادت پیدا کرنے اور پہلے سے موجود حقیقی سیاسی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں مقامی حکومتوں کا جو نظام نافذ کیا اس میں وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو غیر موثر بنادیا گیا۔کون نہیں جانتا کہ بلدیاتی انتخابات دراصل وفاقی اور صوبائی حکومت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ مارشل لا کا راستہ مکمل طور پر بند نہیں کرتے تو اس میں رکاوٹیں ضرور ڈالتے ہیں۔

اقتدار سے وابستہ لوگوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی جمہوریت اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ اگر آج امریکا اور بھارت دنیا کی مانی ہوئی جمہوریت شمار ہوتی ہیں، تو اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں پر ہر عہدے کے لیے عوام سے براہ راست منتخب ہونے کا نظام ہے۔ اپنے ملک میں ہم نظام کو ٹھیک تو نہیں کرسکتے مگر جو نظام چل رہا ہے اس کو تہس نہس کردیتے ہیں۔  آج بھی اگر ملک کے دو اہم صوبوں میں مقامی انتخابات منعقد ہوئے ہیں تو اس کا کریڈٹ کسی سیاسی جماعت یا حکومت کو نہیں بلکہ ملک کی عدلیہ کو جاتا ہے جس کے غیور اور ثابت قدم ججز نے مسلسل 6 سال تک لوکل باڈیز کیس کی سماعت کر کے وفاقی و صوبائی حکومت کو پابند کیا کہ وہ آئین کی روح کیمطابق مقامی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں۔

بلدیاتی انتخابات کا اہم ترین مسئلہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور فرائض کے حوالے سے ہے اور بلدیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ ’’مالیاتی اختیارات‘‘ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرسکیں۔ اس وقت ملک کے تمام بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہیں کرسکتے۔

باقی کاموں کے لیے وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں ان کے وسائل میں اضافے سے وہ نہ صرف بلدیاتی امور انجام دینے میں زیادہ موثر ہوجائیں گے بلکہ بہتر منصوبہ بندی بھی کرسکیں گے۔ ہمارے شہروں، دیہات اور قصبوں کی حالت بہت خراب ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں شہری زندگی کا شعور ہی نہیں ہے۔ لوگ شہری سہولتوں سے محروم ہیں۔ جمہوری حکومتیں مقامی حکومتوں کو طاقتور اور بااختیار بناکر ایک قابل فخر مثال قائم کرسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔