کراچی کا میئر کون ہوگا؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 30 نومبر 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

مغرب کے پروپیگنڈہ بازوں اور اشتہاری کمپنیوں نے ماہرین نفسیات کی تحقیقات سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اپنے پیغامات کے ذریعے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے پر (غیر شعوری طورپر) مجبور کیا، مثلاً ایک تحقیق کے مطابق انسانی شعور کو تین حصوں Id, ego, supper ego میں تقسیم کرکے مثال پیش کی گئی کہ ایک ماں اپنے بچے کو کہتی ہے کہ ’بیٹا میں پڑوس میں جارہی ہوں، فریج میں چاکلیٹ رکھی ہے، جب تم ہوم ورک مکمل کرلو تو کھالینا‘ بچہ فوراً رونا شروع کردیتا ہے کہ نہیں، نہیں میں پہلے چاکلیٹ کھاؤںگا، یہ مرحلہ idکا ہے۔ دوسرا مرحلہ egoکا ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو کہتی ہے کہ ’بیٹا میں پڑوس میں جارہی ہوں، فریج میں چاکلیٹ رکھی ہے، جب تم ہوم ورک مکمل کرلو تو کھالینا، بچہ اب کچھ سمجھ دار ہوچکا ہے لہٰذا وہ دل میں سوچتا ہے کہ جب ماں چلی جائے گی تو پھر فوراً چاکلیٹ کھا لے گا، ماں کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔

تیسرے مرحلے supper ego میں جب ایک ماں اپنے بچے کو کہتی ہے کہ ’بیٹا میں پڑوس میں جارہی ہوں، فریج میں چاکلیٹ رکھی ہے، جب تم ہوم ورک مکمل کرلو تو کھا لینا، بچہ شعوری طور پر پختہ ہوچکا ہوتا ہے اور وہ ماں کے پیٹھ پیچھے بھی چاکلیٹ نہیں کھاتا کہ ایسا کرنا غلط بات ہے۔مغرب کے پروپیگنڈہ بازوں اور اشتہار بازی سے تعلق رکھنے والوں نے اس انکشاف کے بعد سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے پیغامات کو اس قدر جاذب اور پرکشش بنادیں کہ جب پیغام کسی شخص تک پہنچے تو وہ باشعور شخص نفسیاتی طور پرsupper ego کی سطح سے نیچے id کی سطح پر آجائے اور ان کی منشا کے مطابق فیصلہ کرے۔ چنانچہ آج یہ تکنیک تقریباً تمام ہی ابلاغی ادارے اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جس کے نیتجے میں ایک باشعور شخص بھی اپنی ’خواہش‘ کو ’ضرورت‘ محسوس کرنے لگتا ہے اور تنگدستی کے باوجود وہ قیمتی اشیاء بھی خرید لیتا ہے جو اس کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر ٖضرورت نہیں۔

یہ صورتحال دیکھتے ہوئے سیاستدانوں نے بھی ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس تکنیک کو اپنانا شروع کردیا اور اس کا عملی مظاہرہ امریکا کے صدارتی انتخابات میں بھی آتا ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بھی نظر آتا ہے۔ مرحوم صدر ضیاالحق پٹھانوں کے روایتی لباس میں سرحد کے صوبے میں عوام سے خطاب کرتے نظر آتے تھے، سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو پنجاب میں کسی روایتی چوہدری کی طرح پگڑی باندھے عوام سے خطاب کرتے نظر آتے تھے، آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ اس عمل کا ایک مقصد یہ ظاہر کرنا بھی ہوتا ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ ان ہی میں سے ہیں اور ان کی شناخت و پہچان کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ یقیناً اس طرح ان کے ووٹ کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ آیئے اس تناظر میں سندھ میں متحدہ کی ووٹر قوت کے حوالے سے ایک جائزہ لیں۔کراچی کے گزشتہ ضمنی انتخابات میں متحدہ کی کامیابی پر ایک بڑا اہم سوال یہ ابھرا کہ تمام متحدہ مخالف قوتوں کی کوششوں کے باوجود ووٹرز نے متحدہ ہی کو کیوں ووٹ دیے؟ یہی سوال ایک مرتبہ پھر حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ کی جیت کے بعد ابھر کر سامنے آیا۔

راقم نے عوامی رائے جاننے کے لیے بہت سے شہریوں سے رائے لی جن میں ہمارے ایک کالم نگار دوست بھی شامل تھے۔ ان تمام افراد سے کی گئی گفتگو کے مطابق متحدہ کے ووٹ بینک کم نہ ہونے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ایک وجہ یہ کہ اب تک کسی بھی جماعت خاص کر جماعت اسلامی نے لفظ ’مہاجر‘ کو قبول نہیں کیا، حالانکہ یہ لفظ اردو بولنے والوں کی شناخت بن چکا ہے، لہٰذا جب آپ کسی قوم کی شناخت ہی قبول نہیں کریں گے تو وہ آپ کو ووٹ کیسے دے گی؟ ایک صاحب کا خیال تھا کہ حالیہ ضمنی انتخاب کے ایک بڑے جلسے میں پشتو زبان سے تعلق رکھنے والے امیر جماعت اسلامی اپنے خطاب میں حدیث سناکر یہ پیغام دے رہے تھے کہ اسلامی نقطہ نظر سے مہاجر کون ہوتا ہے۔ ان صاحب کے مطابق اس عمل سے مہاجروں کے ووٹ کم تو ہوسکتے تھے بڑھ نہیں سکتے تھے اور واقعتاً بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک اور صاحب کا خیال تھا کہ عمران خان کی جماعت کا بھی رویہ کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں تھا لہٰذا ان دونوں جماعت کا اتحاد مہاجروں کے ووٹ حاصل نہیں کرسکتا۔

ایک اور خیال یہ بھی تھا کہ دیگر جماعتوں میں موجود اردو بولنے والوں کو اگر آگے لاکر کام کیا جائے تو صورتحال میں تبدیلی آسکتی ہے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا، تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں میں موجود اردو بولنے والے فرنٹ پر نہیں مثلاً عارف علوی کی بھی تحریک انصاف میں وہ حیثیت نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ متحدہ کی بھی کچھ حکمت عملی ایسی رہی ہے کہ کسی دوسری جماعت میں اردو بولنے والے متبادل قوت نہ بناسکیں یوں اس پس منظر میں اردو ووٹرز ازخود دیوار سے لگ گئے کہ ان کے پاس متبادل راستہ نہیں۔کئی لوگوں کا مشترکہ موقف تھا کہ دیگر جماعتیں مہاجروں کے مسائل کو حل کرنے میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں، مثلاً حیدرآباد میں مہاجروں کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ رہا ہے کہ ایک یونیورسٹی قائم کی جائے جو کہ خالص تعلیمی اور جائز مطالبہ ہے۔ اسی طرح کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ ہے مگر مہاجروں کے ان مسائل پر کتنی جماعتوں نے اپنے سنجیدہ ردعمل کا اظہار کیا؟

اسی سلسلے میں ایک صاحب نے کہا کہ تقریباً تمام جماعتیں ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کی حمایت کرتی ہیں مگر سندھ کے بارے میں ان کا موقف کچھ اور ہوجاتا ہے، ایسی دوعملی پر مہاجروں کے دل کیسے جیتے جاسکتے ہیں؟ہمارے ایک کالم نگار دوست کا کہنا ہے کہ ابتدا میں لفظ مہاجر کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں نواب یامین اور رئیس امروہوی جیسے لوگ بھی تھے، الطاف حسین تو بعد میں آئے، نیز مہاجروں کی شناخت اور مسائل حقیقت ہیں، لہٰذا کوئی جماعت اگر یہاں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تو اس کا نعرہ ہونا چاہیے کہ ’متحدہ مہاجروں کے مسائل حل کرانے میں ناکام رہی ہے، ہم مہاجروں کے مسائل حل کرائیںگے۔‘ ورنہ متحدہ مہاجر کارڈ کا استعمال باآسانی کرتی رہے گی اور اس کا حالیہ نعرہ ’’میئر تو اپنا ہونا چاہیے‘‘ کام کر دکھائے گا۔

واضح رہے کہ اس کالم میں راقم نے اپنا نہیں دیگر لوگوں کا نکتہ نظر پیش کیا ہے، راقم کا ذاتی خیال یہ ہے ووٹر کو اپنا ووٹ دیتے وقت دو باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ امیدوار باکردار ہو، دوسرے یہ کہ آپ کا ووٹ کمپیٹیشن یعنی مقابلے کو سخت کرے، کسی کو بہت زیادہ فرق سے کامیاب نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مقابلے کی فضا جس قدر کانٹے کی ہوگی، عوام کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی اور عوامی مسائل اتنے ہی زیادہ حل ہوں گے، یکطرفہ ووٹ ڈالنے سے منتخب نمایندے عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے، کراچی شہر میں لیاری کا حلقہ اس کی ایک بڑی واضح مثال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔