ذیابیطس کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے!!

احسن کامرے  پير 30 نومبر 2015
ماہرین امراض ذیابیطس کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ماہرین امراض ذیابیطس کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ذیابیطس، دیمک کی طرح انسانی جسم کے اندرونی اعضاء کو چاٹ جاتا ہے اور اگر اس کے بارے میں بروقت معلوم نہ ہوسکے تو یہ بینائی سے محرومی سے لے کر گردوں کے فیل ہونے اور دیگر لاتعداد طبی مسائل کا سبب بنتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں بڑی تعداد میں لوگ اس مرض کا شکار ہورہے ہیں اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ذیابیطس کے شکار ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔ اس مرض کی موجودہ صورتحال، اس کی علامات، علاج اور احتیاطی تدابیر جاننے کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ذیابیطس کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امراض ذیابیطس نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے ۔

ڈاکٹر محمد رزاق (ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹر ہیلتھ سروسز پنجاب)

ہسپتالوں میں شوگر کا علاج تو کیا جاتا ہے مگر اس کی روک تھام کے لیے کبھی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہر مرض کے دو پہلو ہوتے ہیں، علاج اور روک تھام۔ ہمارے ہاں علاج تو ہوتا رہا ہے مگر اس کی روک تھام پر توجہ نہیں دی گئی۔ ذیابیطس کے حوالے سے لوگوں کا طرز زندگی قابل غور ہے۔ ہمارے دیہات میں شوگر کے مریضوں کی تعداد شہروں کی نسبت کم ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں جسمانی مشقت زیادہ ہے اورلوگ ورزش بھی کرتے ہیں جبکہ شہروں میںزندگی قدرے مختلف ہے لہٰذا یہ رسک فیکٹر ہے۔لوگوں نے کبھی بیماری کے رسک فیکٹر پر توجہ نہیں دی اور نہ لوگ متوازن غذا کھاتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ڈینگی، ٹی بی اوردیگر بیماریوں کے حوالے سے حکومت نے پروگرام شروع کررکھے ہیں لیکنnon communicable disease کے حوالے سے ماضی میں کوئی پروگرام نہیں تھا۔ پنجاب حکومت نے 2012ء میںسب سے پہلے اس حوالے سے پروگرام کا آغاز کیا۔ یہ پائلٹ پراجیکٹ پنجاب کے پانچ اضلاع میں شروع کیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت کے سپانسر کرنے پر ’’پی ایم آر سی‘‘ نے اس حوالے سے ریسرچ کی جس کی بنیاد پر پروگرام سٹریٹجی ترتیب دی گئی اور پھر یہ پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ہم اس پروگرام کو پرائمری ہیلتھ کیئر تک لے کر گئے ہیں اور تمام پرائیویٹ پریکٹیشنرز کو تربیت بھی فراہم کی ۔ ہم نے اس کی گائڈ لائن بنوا کرڈاکٹروں کو دی کہ مریض کو صرف ادویات نہ دیں بلکہ اس کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر بھی بتائیں۔ اس طرح مریضوں کی تعداد میں کمی آئے گی ا ور ہسپتالوں میں رش بھی کم ہوگا۔ ہم نے اس پائلٹ پراجیکٹ کے نتائج کی روشنی میں2015-20ء کے لیے ’’ پی سی ون‘‘ تیار کیا ہے جس کی منظوری کے بعد پنجاب کے تمام اضلاع میں ذیابیطس کے حوالے سے پروگرام کا آغاز کیا جائے گا۔ ذیابیطس کی روک تھام مجموعی کوشش سے ممکن ہوسکتی ہے، اس کے لیے سکولوں میں تعلیم دی جائے، میڈیا میں اشتہارات دیے جائیں اور لوگوں کو آگاہی دی جائے۔

لوگ متوازن غذا نہیں کھاتے اور نہ ہی سبزیاں کھاتے ہیں بلکہ خوارک زیادہ کھاتے ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں جن پر لوگوں کی توجہ نہیں ہے لہٰذا اگر ان پر قابو پالیا جائے تو کافی حد تک ایسی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ ’’پی سی ون‘‘ میںnon communicable disease کے حوالے سے بہت سی تجاویز ہیں جن پر عمل کیا جائے گا۔وفاقی سطح پر نیشنل ہیلتھ سروسز اتھارٹی موجود ہے تاکہ تمام صوبے آن بورڈ آجائیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ ہم non communicable disease کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی معاونت بھی کررہے ہیں۔ ذیابیطس کے حوالے سے اس وقت پاکستان کی عالمی رینکنگ 7ہے جو افسوسناک ہے ، اس مرض کے تدارک کے لیے کام ہورہا ہے لہٰذاوہ وقت دور نہیں جب ہم اس مرض کے حوالے سے متاثرین کی تعداد کم سے کم کرلیں گے۔

ڈاکٹر محمود ناصر ملک (جنرل فزیزیشن)

کسی بھی بیماری کے حوالے سے سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ ہوتی کیسے ہے اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ انفرادی سطح پر اور کمیونٹی کی سطح پر کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا اس میں لائف سٹائل کا عمل دخل تو نہیں؟ اس کے علاوہ حکومتی اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کی سطح پر کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ لہٰذا شوگر کے معاملے میں اس حوالے سے بہت ساری خالی جگہیں ہیں جنہیں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کا رویہ یہ ہے کہ اول تو وہ ذیابیطس کے بارے میں مانتے نہیں اور اگر مان لیں تو پھر چاہتے ہیں کہ سب کچھ ڈاکٹر کرے ، انہیں کچھ نہ کرنا پڑے اور شوگر کا خاتمہ بھی ہوجائے حالانکہ مریض نے خود شوگر کنٹرول کرنا ہوتی ہے۔ میرے نزدیک شوگر کو بیوی نہیں بلکہ گرل فرینڈ کی طرح لینا چاہیے کہ جس کے سارے ناز نخروں کا خیال کرنا پڑتا ہے اور اس کی کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی۔ شوگر کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ لیٹے ہوئے جس شخص کا پیٹ اس کی چھاتی سے اوپر ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ ذیابیطس اس کا تعاقب کررہا ہے اور اگر کمر کا سائز 40سے اوپر ہے تو شوگر کا خطرہ موجود ہے۔ اسی طرح بلڈ پریشرزیادہ ہے تو پھر بھی شوگر کاخطرہ ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں چھوٹے بچوں میںموٹاپا بڑھ رہا ہے، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر توجہ نہ دی گئی تو یہ ذیابیطس کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے لیے سکول کی سطح پر اس بیماری سے آگاہی کے لیے کام کرنا چاہیے اور فزیکل ایجوکیشن پر توجہ دینی چاہیے۔ سکولوں میں جو بچے موٹاپا کا شکار ہیں ان کو بھی ایجوکیٹ کرنا چاہیے تاکہ انہیں علم ہو کہ ان کا یہ وزن آگے چل کر بہت سی قباہتوں کا سبب بنے گا جن میںسے ایک شوگر بھی ہے۔ذیابیطس ڈائنامائٹ اور آئس برگ ہے، آئس برگ کا 90فیصد حصہ پانی میں ہوتا ہے لہٰذا بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے پیچھے پیچھے شوگر چل رہی ہوتی ہے اور وہ عمر کے کسی حصے میں آکر اس کا شکار ہوجاتے ہیں لہٰذا بہت سارے ایسے عوامل ہیں جن پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ جنہیں یہ مرض لاحق ہوچکا ہے ان کے لیے احتیاط بہت ضروری ہے اورانہیں چاہیے کہ ہر طریقے سے خود پر توجہ دیں۔ جن کا وزن زیادہ ہے وہ اپنا وزن کم کریں، اپنی خوارک پر توجہ دیں اور اس کے بعد ادویات کی طرف جائیں۔ اس مرض کے علاج کے حوالے سے ڈاکٹر اور مریض دونوں کو مل کر چلنا ہوتا ہے اور مریض کو اپنی سطح پر زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات اہم سمجھی جاتی ہے کہ علاج گاہیں بنا لیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ سکول، کالج اور کمیونٹی کی سطح پر ذیابیطس سے آگاہی پروگرام شروع کرنے چاہئیں اور ’’Stop diabetes‘‘ کا نعرہ بلند کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے سینٹرز قائم کرنے چاہئیں جہاں اسے ابتدائی مراحل میں پکڑا جاسکے۔

ڈاکٹر صداقت علی (سربراہ ڈائی بیٹیز انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان)

میری والدہ، چار خالہ ،پانچ ماموں اور ایک بھائی ذیابیطس کا شکار ہیں اس لیے اس بیماری میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی۔1984ء میں جب میرے بڑے بھائی نے بتایا کہ وہ ذیابیطس کا شکار ہوگئے ہیں تو میں نے یہ تصور کرلیا تھا کہ اب میری باری آگئی ہے لہٰذا میں نے اس سے بچاؤ کا منصوبہ بنایا اور پہلے سے ہی وہ لائف سٹائل اپنا لیا جو ایک ذیابیطس کے مریض کے لیے ضروری ہے۔ پھر میں نے ہر اس تدبیر پر عمل کیا جو ذیابیطس کے شکار لوگ کرتے ہیں۔میں نے چینی کا استعمال ترک کردیا، اپنی صحت کا خیال رکھنا شروع کیا، ورزش کو معمول بنایا اور اپنے معالج کی ہدایات پر عمل کیا۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ذیابیطس کے شکار لوگ بلاوجہ ٹینشن لیتے ہیں ، اداس رہنے لگتے ہیں ، انہیں صدمہ ہوجاتا ہے اور کئی سال بعد بھی وہ اسی حالت میں رہتے ہیں۔اس مرض کو قابو کرنے کے لیے بہت سی ادویات موجود ہیں مگرادویات اور انسولین سے زیادہ کردارمریض نے خود ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ اپنا لائف سٹائل تبدیل کرکے اس مرض پر قابو پاسکتا ہے۔ ہم جو ڈائٹ لیتے ہیں یہ انسانوں کے لیے کارآمد نہیں ہے کہ سارے دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا اور بے پناہ کھانا۔ اس کے علاوہ چینی کا استعمال بہت زیادہ کرنا۔ میرے نزدیک انسانی جسم کی بناوٹ کے لحاظ سے اس میں چینی کا کردار نہیں ہے۔

یہ چینی جب انسانی خون میں شامل ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم میں انسولین کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسولین اثر کرنا چھوڑ جاتی ہے جو ذیابیطس کی دوسری قسم ہے۔ ذیابیطس کی پہلی قسم چھوٹی عمر میں ہوتی ہے اور اس میں جسم اپنے ہی انسولین پیدا کرنے والے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور انسولین کی پیداوار کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جو آہستہ آہستہ رک جاتی ہے اور یہ کام تیزی سے بھی ہوسکتا ہے۔سو سال قبل اس مرض کا کارآمد علاج نہیں تھا، جب انسولین اور گولیاں ایجاد ہوگئیں تو لوگوں نے ادویات کا استعمال شروع کردیا اور غذا میں پرہیز، ورزش اور ذہنی دباؤ سے بچنے پر توجہ چھوڑ دی۔ ادویات اور انسولین کا استعمال صحیح مقدار میں اور سوچ سمجھ کر کیا جائے تو اس کا فائدہ ہوگا لیکن اگر زیادہ مقداراستعمال کریں تو اس کا نقصان ہوگا۔چھوٹی عمر کے بچے بھی ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں، چونکہ یہ لائف ٹائم بیماری ہے اس لیے ان کی کاؤنسلنگ کرنی چاہیے اورانہیں اس سے نمٹنے کے لیے ماہر بنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیاتی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور سکولوں میں ذیابیطس کے حوالے سے تعلیم دینی چاہیے۔ بہت سے ایسے مشہور لوگ ہیں جو ذیابیطس کا شکار ہیں مگر وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وسیم اکرم کو ذیابیطس کا شکار ہوئے پندرہ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ آج بھی جسمانی طور پر مضبوط ہیں۔ اس بیماری کے علاج کے حوالے سے پہلا نمبر غذا کا ہے۔

آج کل لوگ دیر سے اٹھتے ہیں، ناشتہ نہیں کرتے اور دوپہر کے کھانے کو ناشتہ قرار دیتے ہیں۔ عموماََ لوگ شام چھ بجے سے رات بارہ بجے کے درمیان زیادہ کھاتے ہیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کھانے کا سارا پریشر ان اوقات میں ڈال دیں اور ایک ذیابیطس کے مریض کی زندگی کے لیے تو یہ کسی بھی طور موثر نہیں ہے۔ کھانے کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کردیں، ناشتے کے دوحصے کرلیں، اسی طرح دوپہر کا کھانا کھائیں اور شام کو سنیکس لے لیں۔ میرے نزدیک اس طرح دن میں 6مرتبہ کھانا کھانا چاہیے اور کھانا اتنا ہی کھایا جائے جتنا اگلے چارسے پانچ گھنٹوں کے لیے جسم کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو ذیابیطس ہے یا وہ اس سے بچنا چاہتا ہے تو یہ طریقہ اس کے لیے کارآمد ہے۔ ہمارے جسم میں کھانا سٹور کرنے اور اسے خارج کرنے کا نظام موجود ہے لیکن یہ عمل عادت بنانے کے لیے نہیں بلکہ ایمرجنسی کے لیے ہے لہٰذا اگر ہم اسے عادت بنا لیں گے تو اس کا نقصان ہوگا اور جسم اپنے اندر کھانا سٹور کرلے گا۔ میرے نزدیک متوازن غذا کھانی چاہیے جس میں پروٹین کا جزو ہونا چاہیے، نشاستہ ہونا چاہیے اور نشاستہ ایسا ہو جسے شوگر میں بدلنے کے لیے کافی وقت درکار ہو۔

گندم، چاول، سبزیاں کھائی جاسکتی ہیں لیکن براہ راست شوگر اور جوس پینے سے پرہیز کریں تاہم پھل کھایا جاسکتا ہے لیکن اس میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر انگور کھا رہے ہیں تو پانچ دس منٹ کے بعد ایک دانہ کھائیں تو شاید آپکو نقصان نہ دے۔ اسی طرح اگر آم کھارہے ہیں تو مرزا غالب کے پیچھے نہ چلیں بلکہ اعتدال سے کام لیں۔پانی پیاس لگنے سے پہلے پئیں اور نیند ضرور پوری کریں ورنہ آپ کی قوت ارادیت میں کمی آجائے گی۔اسے بہتر کرنے کے لیے ورزش کریں، نیند پوری کریں اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ ورزش کے لیے ضروری نہیں کہ جم جایا جائے بلکہ سارے دن میں ورزش کو اس طرح حصہ بنا لیں کہ ورزش بھی ہوتی رہے اور آپ کو علم بھی نہ ہو۔اس کے لیے لفٹ کی بجائے سیڑھیوں کا استعمال کریں، پیدل چلنے کو ترجیح دیں اور ہر گھنٹہ دو گھنٹے کے بعد فزیکل ایکٹیویٹی کریں۔ نیند کا آٹھ گھنٹے کا بنیادی اصول ہے، رات کو نیند پوری کریں اور رات کو رات رہنے دیں جبکہ دن کو دن سمجھ کر کام کریں۔ ذیابیطس کے حوالے سے حساب کتاب کو اپنے حق میں کیا جاسکتا ہے۔ اگر بلڈ شوگر زیادہ ہے تو اس کے نمبر کو ٹھیک کریں۔

HPA1C ہر تین مہینے بعد ہوتا ہے جو گزشتہ تین ماہ کے بلڈ شوگر کے حالات کا جائزہ لیتا ہے، اسے صحت مند لوگوں کی طرح 5.5رکھیں۔ بلڈ پریشر اگر بڑھا ہوا ہے تو سمجھیں کے شوگر اس کے پیچھے آرہی ہے اور اسی طرح اگر شوگر بڑھی ہوئی ہے تو بلڈ پریشر اس کے پیچھے آتا ہے۔ اگر کولیسٹرول زیادہ ہے تو سمجھیں کہ دل کی بیماری آرہی ہے اورا سے آپ کنٹرول کرسکتے ہیں ۔ اپنا وزن چیک کریں اورمیڈیکل سائنس کے مطابق وزن قائم رکھیں کیونکہ جن کا وزن زیادہ ہوتا ہے وہ خوش نہیں رہ سکتے اور جن کا وزن کم ہوتا ہے وہ بے چین رہتے ہیں لہٰذا اگر آپ پرسکون رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو وزن بھی نارمل رکھنا پڑے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے حساب کتاب کو اپنے کنٹرول میں کرکے بیماریوں سے بچاجاسکتا ہے۔ جب آپ یہ سب کر لیں تو اس کے بعد آخری نمبر ادویات کا ہے۔ اگر ڈاکٹر انسولین کہتا ہے تو لگوا لیں اور اس کے مشورے کو خوش دلی سے قبول کریں اور ڈاکٹر پر غلط فیصلہ کرنے کے لیے دباؤ نہ ڈالیں۔

ڈاکٹر امتیاز حسن (میڈیکل ڈائیریکٹر ڈائی بیٹیز انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان)

ذیابیطس آج کل پوری دنیا میں وباء کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 387ملین لوگ اس مرض کا شکار ہیں جبکہ 2030ء تک اس میں دو سو پانچ ملین متاثرین کا اضافہ ہوگا جو بہت تشویشناک بات ہے۔ آبادی کے تناسب کے حوالے سے دیکھیں تو دنیا کی 8.3فیصد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے جبکہ پاکستان کی 11 فیصد سے زائد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے اور تقریباََ 50فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ مرض لاحق ہے مگر وہ اس سے لاعلم ہیں۔ ڈاکٹر صداقت علی ایسے مریضوں کو ذیابیطس کے گمشدگان کہتے ہیں اور اس مرض سے لاعلمی بہت خطرناک ہے۔پاکستان میں اس مرض کے علاج کا خرچ 55 ڈالر فی کس ہے لہٰذا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 6.7ملین مریضوں کے علاج کے لیے کتنے وسائل درکار ہیں۔ ذیابیطس خود شاید زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر اس سے جڑی ہوئی پیچیدگیاں خطرناک ہیں اور ان کا نقصان بھی زیادہ ہے۔

ہم ان پیچیدگیوں کے علاج کی طرف توجہ دے رہے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ دل کی بیماریوں کے علاج کے لیے کارڈیک سینٹر ہوں جیسے پنجاب کارڈیالوجی سینٹر ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سرجری کے لیے سینٹر ہوں لیکن ہم ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے کام نہیں کررہے۔ذیابیطس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لہٰذا ہمارے جیسے ممالک کے لیے اس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ہمارے ملک میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو ذیابیطس کا شکار ہیں جبکہ دوسرے وہ جو عنقریب اس کا شکار ہونے والے ہیں لہٰذا اہم یہ ہے کہ اس مرض کا شکار ہونے سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور اس میں کتنی تاخیر کی جاسکتی ہے۔ وہ لوگ جن کے خاندان کے کسی ایک فرد کو ذیابیطس ہے ،جو لوگ زیادہ بیٹھنے کا کام کرتے ہیں یا جو لوگ موٹاپا کا شکار ہیں انہیں اس مرض کا خطرہ ہے۔ ایسی خواتین جن کو حمل کے دوران ذیابیطس ہوجاتا ہے وہ بعدازاں بھی اس کا شکار ہوسکتی ہیں۔

ایسے افراد جنہیں بظاہر ذیابیطس نہیں ہے لیکن وہ اس کا احساس کرلیںتو اس کو روک سکتے ہیں اور اس کو روکنا بہت آسان ہے۔ میرے نزدیک اگر اپنا لائف سٹائل تبدیل کرلیا جائے تو اس مرض سے بچا جاسکتاہے۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ 150منٹ فی ہفتہ کے لحاظ سے ورزش یا کوئی بھی جسمانی مشقت کرنے سے ذیابیطس کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو اپنے موجودہ وزن کا سات فیصد کم کرلیںتو ذیابیطس کے خطرے کو کافی حد تک ٹال سکتے ہیں۔ ذیابیطس کے علاج کے حوالے سے جسمانی ورزش پہلے، لائف سٹائل میں تبدیلی اور خوراک دوسرے جبکہ ادویات تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس لیے اپنا لائف سٹائل تبدیل کرکے اس مرض پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ ذیابیطس کے علاج کے لیے انسولین و دیگر ادویات مارکیٹ میں موجود ہیں۔ امریکہ میں سونگھنے والی انسولین ایجاد ہوچکی ہے ، یہ بہت بڑی بات ہے کہ سوئی کے بغیر انسولین جسم میں داخل کی جائے گی۔

یہ انسولین اگلے دو سالوں میں پاکستان میں بھی دستیاب ہوگی۔ ماضی میں بھی اس طرح کی انسولین ایجاد کی گئی تھی مگر اس میں کچھ مسائل تھے، حالیہ ایجاد میں بھی کچھ پیچیدگیاں ہیں لہٰذا اس پر مسلسل کام ہورہا ہے۔ پاکستان کے حالات دیکھیں تو یہاں ذیابیطس کو روکا جاسکتا ہے، امریکا میںڈائی بیٹیز ایسوسی ایشن، ’’سٹوپ ڈائی بیٹیز‘‘ کے نام سے مہم چلا رہی ہے۔پاکستان میں ڈینگی سے 200 اموات ہوئیں تو ہر طرف شور برپا ہوگیا ،ذیابیطس سے ہر 7سیکنڈ کے بعد ایک مریض کی موت ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے موثر کام نہیں ہورہا لہٰذا ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں فوڈ سٹریٹس اور کورٹس میں اضافہ ہورہا ہے لیکن کھیل کے میدان اور جم وغیرہ نہیں بنائے جارہے لہٰذاحکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔