بیس کروڑ انسانوں کی صدائیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 2 دسمبر 2015

عظیم طنزنگار عزیز ناسن ہیں تو ترکی کے لیکن ان کی کہانی چارہ گر پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے پاکستان کے20 کروڑ عوام کے حالات وواقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہانی لکھی ہے۔

آئیے۔ اس کہانی کے چند اقتباسات پڑھتے ہیں ’’کسی زمانے میں کرہ ارض کے کسی حصے میں ایک ایسا ملک آباد تھا جس کا ذکر آج نہ جغرافیے کی کسی کتاب میں ملتا ہے نہ تاریخ میں سنتے ہیں ایک وقت ایسا آیا جب دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کے تمام باشندوں کی جسمانی ساخت میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں پہلے تو لوگوں کے سر پچکنے شروع ہوئے اور پچکتے پچکتے کندھوں کے درمیان اتنے دھنس گئے کہ گردنیں بالکل ناپید ہو گئیں، پھر ہر شخص کی کمر میں کبڑا پن نمودار ہونے لگا جس نے بڑھتے بڑھتے ساری قوم کی کمریں دہر ی کر کے رکھ دیں۔ بالآخر لوگوں کے لیے قدم اٹھا کر چلنا دوبھر ہو گیا اور انھوں نے زمین پر پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا شروع کر دیا یا دیکھنے والوں کو یوں لگتا جیسے ساری آبادی کسی غیر معمولی بوجھ تلے دبی جا رہی ہے اور لوگوں کے پاؤں بھاری بھرکم زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں۔

زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ہر چھوٹے بڑے، مرد و عورت نے کراہنا شروع کر دیا سب کے منہ سے یہ ہی جملے سنائی دیتے ’’اف اب نہیں کھینچ سکتے، ہائے اب نہیں اٹھا سکتے‘‘ پھر یہ جملے آہ و بکا میں بدل گئے جب حاکم وقت کے کانوں تک بھی یہ درد بھری آوازیں پہنچیں اس نے برہم ہو کر مصاحبوں سے دریافت کیا، ہماری میٹھی نیند میں خلل ڈالنے والی یہ مکروہ صدائیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ عرض کیا سرکار عالی! یہ آپ کی رعایا کی پکار ہے اگر حضور اجازت فرمائیں تو ہر فرد کے گلے کے چند صوتی تار کاٹ دیے جائیں تا کہ لوگوں کی بلند چیخ و پکار حضور کو بے آرام نہ کر سکے۔

حاکم وقت نے ڈانٹ کر کہا ہم قرون وسطیٰ کے نہیں دورجدید کے باشندے ہیں تم لوگ گزرے ہوئے کل کی بات نہ کرو آج کا دن آتے ہی کل کا دن دفن ہو جاتا ہے۔ ملک میں منادی کروا دو کہ ساری رعایا بڑے میدان میں جمع ہو جائے تا کہ ما بدولت عصر جدید کی روایات کے شایان شان اپنی رعایا سے خطا ب کر سکیں۔

اگلے روز رعایا میدان میں جمع ہوئی تو حاکم وقت نے پہلی بار عوام کے کندھوں میں دھنسے ہوئے سر اور خمیدہ پشتیں دیکھیں۔ اس نے متعجب ہو کر پوچھا بتاؤ تم لوگوں کو کیا تکلیف پیش آ رہی ہے۔ حاضرین نے یک زبان ہو کر وہی جملے دہرائے ’’اب ہم نہیں کھینچ سکتے اب ہم نہیں اٹھا سکتے‘‘ حاکم وقت نے رعایا میں سے چند دانشوروں کو قریب بلا کر پوچھا۔’’ صاف صاف بتاؤکیا بات ہے تم لوگ کیا نہیں کھینچ سکتے کیا نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ دانشوروں نے جواب دیا۔ ’’ہم خود سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمیں کیا ہوتا جا رہا ہے یوں لگتا ہے ہمارے پاؤں میں بھاری زنجیریں ڈال دی گئی ہیں۔‘‘

حاکم وقت مسکرا کر بولا۔ ’’اچھا تو اب سمجھا یہ لوگ کیا نہیں کھینچ سکتے، مگر تم لوگ ایک دوسرا نعرہ بھی تو لگاتے رہتے ہو وہ کیا چیز ہے جو تم لوگوں سے اٹھائی نہیں جاتی جناب عالیٰ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے سر پر ایک پر اسرار قسم کا بو جھ لاد دیاگیا ہو یہ سن کر حاکم وقت رعایا سے یوں گویا ہوا۔ ’’میرے ہم وطنو تم بالکل فکر مت کرو ہم آج ہی اپنے قابل ترین ماہرین کی ایک کمیٹی مقررکر رہے ہیں، جو اس بات کی تفتیش کرے گی کہ تم لوگوں کے پاؤں کی زنجیریں اور تمارے سروں کا یہ پراسرار بوجھ کیا ہے کمیٹی کی رپورٹ آتے ہی تم سب معمول کے مطابق دوبارہ وزن اٹھانے اور زنجیریں کھینچنے کے قابل ہو جاؤ گے۔‘‘

عوام کے چہروں پر رونق آ گئی سب لوگ خوش خوش پاؤں گھسیٹتے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ ادھر حاکم وقت نے اسی روز چالیس منتخب سرکاری ماہرین اکٹھے کیے اور ان سے کہا ’’ہماری رعایا مشکل سے دوچار ہے اس قسم کے غیرمعمولی حالات کا مقابلہ کرنے کی خاطر مابدولت نے سالہا سال سے تم جیسے ماہرین کی پرورش کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔

لہذا اس بوجھ کو ہلکا کرنے کا کوئی حل تجویز کرو۔‘‘ ماہرین نے جواب دیا۔ ’’آپ کا حکم سرآنکھوں پر سرکار ہماری بس ایک درخواست ہے اور وہ یہ کہ آپ ہمیں چالیس دن کی مہلت دیں، ان چالیس دنوں میں ہمیں چالیس بوریاں کشمش اور بادام کھلائیں تا کہ ہمارے دماغ روشن ہو جائیں ۔‘‘ حاکم وقت نے یہ شرط منظورکر لی اور ان سب کو محل کے ایک بہت بڑے کمرے میں بند کر کے باہر سے تالا لگوا دیا ادھر ماہرین کشمش اور بادام کھا کھا کر بندکمرے میں ہنسی خوشی اپنا وقت گزار رہے تھے ادھر رعایا کی چیخ و پکار دوبارہ حاکم وقت کے کانوں تک پہنچنے لگی وہ بے چین ہو کر بند کمرے کی ایک دیوارکے چھوٹے سے سوراخ سے اندر جھانکتا تو سب ماہرین کشمش اور بادام کھانے میں مصروف نظرآتے۔

آخر اکتالیسویں روز بادشاہ نے ماہرین کو کمرے سے نکالا سب سے بڑا ماہر حاکم وقت سے یوں مخاطب ہوا ۔ ’’جناب عالیٰ ہم نے چالیس دن اور چالیس رات کی انتھک محنت اور دماغ سوزی کے بعد رعایا کی تکلیف کی نوعیت کا پتہ چلا لیا ہے۔ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ اس ملک کے ہر فرد کو جو پر اسرار بوجھ تنگ کر رہا ہے وہ دراصل اس کے اپنے سائے کا بوجھ ہے لوگوں کا سایہ کسی صورت میں ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہر وقت ان کے پاؤں سے چمٹا رہتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ آسانی سے قدم نہیں اٹھا سکتے سایہ لوگوں کو جتنا زمین کی طرف کھینچتا ہے، انھیں اتنا ہی اپنی کمر کا بوجھ بھاری محسوس ہوتا ہے اور یہ ہی وہ ناقابل برداشت بوجھ ہے جس کے تلے آپ کی رعایا اپنے آپ کو پستا محسوس کر رہی ہے۔ ‘‘

آج جب تم غور سے پاکستان کے 20 کروڑ انسانوں کی زرد، پیلی اور اجڑی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو گے تو تمہیں ان آنکھوں میں سے ایک شور اٹھتا سنائی دے گا وہ چیخ چیخ کر تم سے وہ ہی کہہ رہی ہو گی ’’اب ہم نہیں کھینچ سکتے اب ہم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ عوام کو بے روزگاری کی زنجیریں پہنا دی ہیں اور ان کی پیٹھ پر ان کے خوابوں، تمناؤں،آرزؤں،خواہشوں کی قبریں بنا دی ہیں اور وہ یہ صدائیں دیتے پھرتے ہیں ’’اب ہم نہیں کھینچ سکتے، اب ہم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔