شبلی، مکاتیب کی روشنی میں

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 3 دسمبر 2015

معین الدین احمد انصاری نے علامہ شبلی نعمانی کے خطوط سے ان کی سرگزشت مرتب کی ہے۔ ان کی سیرت اور اخلاق و کردار کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے خیالات و نظریات، خدمات اور مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’شبلی، مکاتیب کی روشنی میں‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’شبلی کے خطوں کے اقتباسات کو اس طرح مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ان کی خودنوشت سوانح بن جائے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ مستند ہے کیونکہ اس کی تصدیق خود ان کی تحریروں سے ہوتی ہے۔‘‘

شبلی کے اردو خطوط کا آغاز 1882ء میں ہوا جب وہ 25 سال کے تھے اور 1914ء میں ان کے انتقال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس لیے 1882ء سے پہلے کے حالات اس کتاب میں موجود نہیں ہیں۔ اس سے شبلی کے خطوط کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ معین الدین انصاری کہتے ہیں کہ شبلی کے خط اگرچہ مختصر ہوتے تھے لیکن اس اختصار میں بھی وہ سب کچھ کہہ جاتے تھے جو وہ کہنا چاہتے تھے۔

ان کے خطوط میں سادہ اور موزوں عبارتیں ہیں، چوٹیں اور طنزیاتی فقرے بھی ملتے ہیں۔ اپنے دور سے مایوسی کا اظہار اور قوم کی بدمذاقی کا ماتم بھی پایا جاتا ہے۔ اپنے کاموں کی اہمیت، مقاصد کی برتری اور اپنی عظمت کا احساس بھی ظاہر ہوتا ہے، تنقید کے نمونے ملتے ہیں، علمی اور اصلاحی مشورے بھی نظر آتے ہیں اور قومی و ملکی مسائل کا ذکر بھی ہے۔

شبلی کے خطوط کی روشنی میں ان کی سیرت کا جائزہ لینے سے پہلے معین الدین احمد انصاری نے ان حالات اور اس ماحول کا جائزہ لینا ضروری سمجھا ہے جس کا مولانا کی زندگی اور ان کے تصورات پر گہرا اثر پڑا۔ وہ لکھتے ہیں ’’شبلی کی زندگی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انھیں زندگی بھر کبھی ذہنی سکون میسر نہ آیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کی پیدائش کی گھڑی ہی کچھ ایسی تھی۔‘‘ درحقیقت اس بے سکونی کی وجہ یہ تھی کہ جہاں شبلی میں کام کرنے کا جوش اور ولولہ اور قومی اور مذہبی مقاصد کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے کا سچا جذبہ اپنی انتہا کو تھا وہاں ان کی طبیعت کی جذباتیت اور زود حسی ان کا دامن نہ چھوڑتی تھی۔

وہ معمولی معمولی باتوں پر سخت برہم ہو جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ انھوں نے اپنے ایک شاگرد اور عزیز کو چاہا کہ وہ ندوۃ العلما میں آ کر پڑھائیں۔ جب وہ اپنی کسی مجبوری کے باعث مولانا کی خواہش پوری نہ کر سکے تو مولانا نے انھیں خط میں لکھا ’’تم سے جو امیدیں تھیں ان کا خاتمہ ہو چکا۔ افسوس جن کو میں عالی ظرف اور بلند ہمت سمجھتا تھا، ان کا یہ حال ہے تو دوسروں کا کیا ذکر۔‘‘

شبلی کی بے سکونی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ندوہ کی جسے وہ ایک مثالی درسگاہ بنانا چاہتے تھے، نصاب تعلیم کمیٹی میں ان کو شریک نہیں کیا گیا۔ ندوہ کے رسالے میں بھی انھیں دخل نہیں دینے دیا گیا۔

معین الدین انصاری لکھتے ہیں۔ ’’شبلی کی زود حس طبیعت سے ان کے رقیبوں اور مخالفوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ان کو طرح طرح سے پریشان کرنا شروع کیا۔ طبیعت کی زود رنجی نے بھی لوگوں کو موقع دیا کہ طرح طرح کے الزام ان پر تراشیں۔ ندوہ کے لڑکوں کی عدم پابندی مذہب کی ذمے داری بھی ان پر تھوپی گئی۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ندوہ سے مولانا شبلی کا تعلق جب تک رہا شرپسند طبیعتوں نے ہمیشہ ان کی مخالفت کی۔ یہ ان کے لیے سوہان روح تھا۔ وہ اپنے مقاصد میں مخلص تھے اور اپنے اصولوں کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ ان میں خود داری کا بڑا جذبہ تھا۔ معین الدین انصاری لکھتے ہیں ’’قومی کاموں کے سلسلے میں اگر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے تو وہ کبھی اس میں پس و پیش نہ کرتے لیکن جہاں تک خانگی اور ذاتی معاملات کا تعلق تھا انھوں نے کبھی بھی پسند نہ کیا کہ کسی کا احسان لیا جائے۔ اس لیے کہ ایسا کرنا خود داری کے خلاف ہے۔‘‘

افسوس یہ ہے کہ ان کی تمام تر احتیاط کے باوجود لوگوں نے انھیں غلط سمجھا اور یہ رائے قائم کر لی کہ شبلی قومی اور مذہبی خدمت کے نام سے جو کچھ کرتے ہیں وہ نام و نمود کی خاطر اور اپنی شہرت کے لیے کرتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں مولانا شبلی لکھتے ہیں ’’قوم میں جب نیک و بد کی تمیز ہوتی ہے تو وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتی۔ جب علم نہیں رہتا اور رشک و حسد کے سوا اور کوئی جوہر موجود نہیں ہوتا تو لوگ اس قسم کی باتیں کہہ کر اپنا دل خوش کرتے ہیں اور لوگوں کو بدگمان بناتے ہیں۔‘‘

معین الدین لکھتے ہیں کہ زمانے کی مخالفتوں کی وجہ سے علامہ شبلی کا دل ٹوٹ گیا تھا لیکن انھیں اپنی عظمت کا پورا احساس تھا۔ اس کے اشارے ان کے خطوط میں کثرت سے ملتے ہیں۔ وہ اپنی قومی خدمات کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے، خاص طور پر سیرت النبی پر وہ جو کام کر رہے تھے۔

اس کی قدر و قیمت کا انھیں خوب اندازہ تھا۔ انھیں رسول اللہ سے بہت محبت تھی۔ انیس برس کی عمر میں وہ حج اور زیارت سے مشرف ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ کی حاضری نے دل میں عشق محمدی کی آگ کو اور تیز کر دیا تھا۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں ’’میں نے جناب سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح عمری لکھنی شروع کی ہے جو سعادتِ دارین کا ذریعہ ہے۔‘‘

علامہ شبلی سیرت النبی پر پورے انہماک کے ساتھ کام کرتے رہے اور اس کام میں ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود ہمت نہیں ہارے۔ پھر ان پر ایک ناگہانی مصیبت ٹوٹ پڑی۔ ان کے بھائی محمد اسحاق کا جن سے انھیں حد درجہ محبت تھی انتقال ہو گیا۔ معین الدین انصاری لکھتے ہیں ’’شبلی نے اس حادثے کے باوجود کام کو روک نہیں دیا لیکن جب دل و دماغ متاثر ہو تو تازہ توانا آدمی بھی مجبور ہو جاتا ہے۔

شبلی تو پھر بیمار تھے اور اس پر کمزور بھی اور معذور بھی اور پھر دنیا بھر کی فکروں اور الجھنوں میں گرفتار۔ اس سب کے باوجود انھوں نے سیرت کے کام کو پورا کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ ان کی تمنا تھی کہ ’’سیرت پر خاتمہ ہو جائے تو یہ حسنِ خاتمہ ہے، لیکن آخر زمانے میں وہ بالکل ناامید ہو گئے تھے۔ انھیں یقین ہو گیا تھا کہ سیرت اب مکمل نہ ہو سکے گی۔ غالباً انھیں اپنی موت قریب نظر آ رہی تھی۔ اپنے انتقال سے ایک ماہ پہلے وہ مولوی حمید الدین کو لکھتے ہیں ’’افسوس یہ ہے کہ سیرت پوری نہ ہو سکی۔‘‘ اس کے چند روز بعد ہی انھیں مرض الموت نے آ گھیرا اور سیرت کی ناتمامی کی خلش دل میں رہ گئی۔‘‘

کتاب ’’شبلی۔ مکاتیب کی روشنی میں‘‘ کے ایک باب میں شبلی کی زندگی کے پرلطف دور کا احوال بھی ہے۔ معین الدین انصاری لکھتے ہیں ’’مولانا شبلی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہ ایک عالم بھی تھے اور مذہبی خیالات کے حامل بھی، لیکن ان کی زندگی کا کچھ زمانہ ایسا بھی گزرا جسے ہم دلچسپ، پرلطف اور رنگین کہہ سکتے ہیں۔

شاید لوگ اسے رنگین اس وجہ سے سمجھتے ہوں کہ مولانا کی زندگی کا دوسرا رخ نسبتاً خشک تھا۔ ان کی شاعری میں یہ وہ دور تھا جب ان کے دل میں محبت کے جذبات کی کارفرمائی نظر آتی ہے، رومانی فضا مہکتی ہے اور شوخی کی رنگینی جھلکتی ہے۔ یہ شبلی کے دل کی دنیا میں کسی کی آمد کا فیض تھا کہ انھوں نے غزل کو اپنے محبوب کی تعریف کا ذریعہ بنایا اور مکتوب کو اظہار دل کا واسطہ۔ اگر عطیہ بیگم فیضی کے نام ان کے یہ خطوط شایع نہ ہوتے تو اس بات کا پتہ مشکل ہی سے چلتا کہ بمبئی میں ان کی دلچسپیوں کا مرکز کون تھا۔‘‘

معین الدین انصاری نے صحیح کہا ہے کہ ’’اگر یہ خط منظر عام پر نہ آتے تو اصلی شبلی ہم سے پوشیدہ ہی رہتے۔ ہم صرف ان کے تقدس کا احترام کرتے لیکن دل میں ان کے لیے وہ جگہ نہ بنتی جو آج ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔