عہد وفا

ایم جے گوہر  جمعـء 4 دسمبر 2015

پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان نے قومی خدمت اور لہو کی قربانیوں کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ یہ اعزاز کسی اور سیاسی فیملی کو حاصل نہیں ہوسکا یہی وجہ ہے کہ چار دہائیاں گزرنے کے باوجود شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تمام تر مصائب و آلام اور مشکلات و پریشانیاں جھیلنے کے باوجود آج بھی قومی سیاست میں اہم مقام کی حامل اور ملک کے کروڑوں غریبوں، ہاریوں، مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور پسماندہ طبقات کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھی جاتی ہے۔ ملک میں آمریت کے خلاف جدوجہد اور جمہوریت کی بحالی و سیاسی استحکام کے لیے پارٹی کے شہید قائدین اور کارکنوں نے جو کردار ادا کیا اس کی ایک دنیا معترف ہے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پارٹی کے 48 ویں یوم تاسیس کے موقع پر بجا طور پرکہا کہ یہ کارکنوں کی قربانیوں ہی کا ثمر ہے کہ وطن عزیز میں آمریت کو پنپنے کا موقع نہ مل سکا۔انھوں نے مزید کہا کہ بھٹو ازم ایک نظریے کا نام  ہے اور یوم تاسیس اسی نظریے کی تجدید کا دن ہے۔

شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے 30 نومبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسین کی رہائش گاہ پر ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ بھٹو پسماندہ طبقات کی آواز بن کر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے سیاسی افق پر پوری طرح چھا گئے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد انھوں نے اقتدار سنبھالا تو قوم کے اندر مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ مستقبل کی فکر دامن گیر تھی لیکن بھٹو نے اپنی ذہانت وکرشماتی شخصیت کے سحر سے عوام  کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کردیے اور چاروں صوبوں کے عوام بھٹو کی طلسماتی سیاست کے گرویدہ  ہوگئے۔

بھٹو سانحہ بنگال کے عوامل و اسباب کا پورا ادراک رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا اور دشمن سے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کردیا۔ بھٹو پاکستان کو عالمی برادری میں ایک طاقتور و باوقار مقام دلانے کے لیے کوشاں رہے وہ ملک کو ایٹمی قوت بناکر بھارت کے مقابل پورے قد کے ساتھ کھڑے ہونے کے خواہاں تھے لیکن عالمی سیاست کے ’’چوہدری‘‘ امریکا کو یہ قطعی طور منظور نہ تھا اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے شہید بھٹوکو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی اور بالآخر ایک فوجی آمرکے ذریعے نہ صرف بھٹو کے اقتدارکا خاتمہ کیا، بلکہ انھیں تختہ دار تک پہنچادیا گیا۔

بھٹوشہید کے بعد ان کی بہادر بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے قومی مشن کو آگے بڑھانے کا پرچم اٹھایا وہ دو مرتبہ اقتدار میں آئیں اور ملک کو میزائل ٹیکنالوجی کی طاقت دی قبل اس کے کہ وہ ملک و قوم کی مزید خدمت کرتیں، انھیں دونوں مرتبہ پس پردہ سازشوں کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا اور وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں، تاہم آمریت کے خاتمے، بحالی جمہوریت اور عوام کی خدمت کا جنون ان پر طاری رہا اور جنرل مشرف کے دور میں انھوں نے لاکھ رکاوٹوں، جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ 18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کراچی پہنچیں تو لاکھوں افراد نے ان کا تاریخی استقبال کیا۔

ان کا استقبالی جلوس رواں دواں تھا کہ کارساز کے مقام پر بم دھماکہ کرکے بے نظیر کو خوفزدہ کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن وہ پرعزم رہیں اور عوام سے ملنے راولپنڈی کے لیاقت باغ پہنچ گئیں۔ تاریخ ساز جلسے سے خطاب کیا پھر وہ لمحہ آگیا جو قوم کی بہادر بیٹی کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں ملک کے18 کروڑ عوام کو سوگ وآنسوؤں میں ڈبوگیا۔ بے نظیر بھٹو شہید اور چاروں صوبوں کی زنجیر ٹوٹ گئی۔

ایک طرف اپنے دو عظیم قائدین کی جدائی کروڑوں غریب عوام اور پیپلز پارٹی کے لیے گہرے صدمے اور نقصان کا باعث تھی تو دوسری جانب قومی سیاست کے لیے بھی بڑا دھچکا تھا پھر آصف علی زرداری نے قیادت سنبھالی اور پیپلز پارٹی 2008 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے چوتھی مرتبہ اقتدار کے ایوانوں پر پہنچ گئی اور قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل اور نئے انتخابات کے ذریعے پرامن طریقے سے جمہوری انداز میں نئی سیاسی قیادت کو اقتدار منتقل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

توقع یہ کی جا رہی تھی کہ 2013 کے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی نمایاں کامیابی حاصل کرے گی لیکن غیر متوقع طور پر دہشت گردی کے خوف نے پارٹی کی انتخابی مہم کو بری طرح متاثر کیا بالخصوص پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا ایک طوفان برپا ہوا۔

عمران خان کی دھاندلی کے خلاف دائر درخواست پر جوڈیشل کمیشن نے بعض انتظامی نااہلیوں کی نشاندہی کرکے مجموعی طور پر انتخابات کو’’کلیئر‘‘کردیا۔ پیپلزپارٹی کے لیے حالیہ بلدیاتی انتخابات ایک کڑی آزمائش ثابت ہوئے تمام ترکوششوں کے باوجود پی پی پی پنجاب میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ البتہ سندھ میں اس نے برتری ثابت کردی۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق پی پی اپنے اندرونی اختلافات وانتشار کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور اقتدار میں کرپشن و بدعنوانی کے حوالے سے جو خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اور پارٹی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا اندراج اور جوکارروائیاں ہو رہی ہیں، اس نے پیپلز پارٹی کی مجموعی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بعض حلقے یہ پیش گوئیاں بھی کر رہے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مزید رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب قومی سیاست میں پیپلز پارٹی کے 48 سالہ سیاسی کردار پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی جڑیں عوام میں ہیں اور یہ ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے اور اگر بلاول بھٹو زرداری پوری طرح متحرک ہوجائیں اور عوام سے رابطوں میں تیزی پیدا کریں تو ناراض کارکنوں اور عوام کو دوبارہ پارٹی کی جانب راغب کرکے 70 جیسی مقبولیت کے مقام پر پارٹی کو لے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ نوجوان و جوشیلے اور ایک مقبول سیاسی جماعت کی وراثت کے امین ہیں۔

ان کے اندر بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسا قومی خدمت کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ اپنے والد آصف علی زرداری کی سیاسی سرپرستی اور سینئر پارٹی رہنماؤں کا تعاون انھیں حاصل ہے۔ اگر پیپلز پارٹی 2018 میں کامیابی کی خواہاں ہے تو تمام سینئر و جونیئر رہنماؤں اور جیالوں کو بلاول بھٹو کے ساتھ ’’عہد وفا‘‘ نبھانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔