پینتالیس ارب ڈالر کی بیٹی

جاوید قاضی  ہفتہ 5 دسمبر 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں تو بیٹیاں ہرگھر میں ہوتی ہیں، امیر کے بھی غریب کے بھی۔ بادشاہ کے بھی گداگر کے بھی۔ اب کے یہ نوید فیس بیک کے بانی ومالک مارک زکربرگ کے گھر آئی، نام اس کا مارکس رکھا اور اسی دن اعلان کردیا کہ وہ اپنے 99 فیصد کے فیس بک کے حصص سے ملی رقم یعنی پینتالیس ارب ڈالر فلاحی کاموں کے لیے وقف کرے گا۔

زکربرگ کی عمر مشکل سے 26 سال ہوگی۔ بچپن میں مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس سے بہت متاثر رہا۔ بل گیٹس جس نے فلاحی کاموں کے لیے دی ہوئی رقم میں ایک نام کمایا اور یہ سلسلہ بہت سی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نئے امیروں نے اپنے ہاتھ لیا ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ اس سے امریکا کے ٹیکس نظام کے تحت ٹیکسوں کی مد میں بہت چھوٹ مل جاتی ہے۔

مگر ایسی جرأت کرنے کے لیے بہت بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ ایک سوچ کی ضرورت ہے وہ اگر یہاں کے کسی نواب زادے کی آنکھ سے دیکھا جائے تو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشی میں یہ انعام یا تو اپنی بیوی کو دیتا یا بیٹی کے لیے مخصوص کردیتا کہ آنے والے دنوں میں اس کو یہ پیسے کام آئیں اور اگر وہ یہاں کے فرسودہ رواج کا قائل ہوتا تو بیٹی کے پیدا ہونے پر ماتم کرتا۔ کیونکہ بیٹیاں پیدا ہونا کوئی نوید وغیرہ نہیں مگر زکربرگ کی یہ پہلی اولاد تھی اور وہ بھی بیٹی۔ ایک ایسا باپ جو بیٹے اور بیٹی کی تمیز سے بڑا تھا۔

وہ زکربرگ بہت بڑا انسان تھا۔ وہ محلوں اور گاڑیوں کی فلیٹ رکھنے والوں سے بڑا تھا۔ وہ فقیر منش تو نہ ہوگا مگر نوابوں اور شہزادوں کے نسلوں و نسب کے امتیاز سے بڑا تھا۔ اس نے ایک ایسی دنیا کی سوچ رکھی ہوئی تھی جہاں ماحولیاتی آلودگی نہ ہو وہ ان پیسوں سے شمسی توانائی کے نئے پراجیکٹ متعارف کروانا چاہتا ہے۔ اور بھی بہت کچھ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کرنا چاہتا ہے جس طرح بل گیٹس کے پیسے تیسری دنیا کی طرف آئے۔

اس طرح زکبرگ کے یہ پیسے تیسری دنیا کی طرف سفر کریں گے۔ یہ پیسے کہاں جائیں گے، کہاں نہیں جائیں گے یہ اہم نہیں ۔ بس ایک سوچ ایک فیصلہ اہم ہے۔

یہ وہ سوچ ہے دنیا کے سارے بچے میرے بچے ہیں ، وہ بچے جن میں کروڑوں بچے ایسے ہیں جو اسکولوں میں داخل نہیں، بھوک اور افلاس میں رہتے ہوئے ماں باپ پھر ان بچوں کو بیچ دیتے ہیں۔ بہت سے بچے میرے سندھ اور جنوبی پنجاب سے عرب ممالک بھیجے جاتے ہیں اور ان کو اونٹوں کی خطرناک ریس میں ڈال کر اونٹوں کو دوڑایا جاتا ہے تاکہ وہ ڈریں، دوڑیں۔ بہت سے بچے ہیں جن کے گردے نکال کر بیچے جاتے ہیں۔ آپ نے ان بچوں کی رقت آمیز تصاویر تو دیکھی ہوں گی جو شام کے مجاہدین کے ترکی سے گزر کر یونان کو جاتے ہوئے ڈوب کے مرجاتے ہیں۔ کتنے بچے ہیں شام کے جو لیبیا میں سالوں سے کیمپوں میں رہتے ہیں اور مزدوریاں کرتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ دنیا بچوں کی جیسے قتل گاہ ہو۔ اس لیے کہ یہ بچے نوابزادوں و طرم خانوں کی اولادیں نہیں ہوتیں۔ دنیا کے 90 فیصد بچے اس شجرۂ نسب میں نہیں آتے۔ ان کے پاس تو خواب بھی نہیں ہوتے۔ اڑنے کے خواب، تتلیوں و پرندوں سے باتیں کرنے کے خواب، پائلٹ بننے کے خواب، ڈاکٹر بننے کے خواب۔

زکربرگ کی یوں تو یہ خبر جوکہ بیٹی کی نوید کے حوالے سے جو اس کے گھر آئی ہے بڑی خبر تو نہ ہوئی مگر اپنی ساری دولت فلاحی کاموں کے لیے وقف کر کے اس نے انسان کی سوچ کو بدلنے کی دعوت دی ہے۔

یہ دعوت کہ ہم اس دنیا کے شہری ہیں یہ دھرتی ماں ہے اور ہم بس صرف انسان ہیں۔ رنگ و نسل سے پہلے انسان ہیں۔ دنیا و مذہب سے پہلے انسان ہیں۔ شجر و نسب سے اونچ و نیچ سے بالاتر ہوجائیں۔ یہ نہ تیرا ہے نہ میرا ہے۔ اسی تیرے اور میرے کے فرق کو مٹائیں۔ بٹوارے، جائیداد تقسیم کو مٹائیں۔ یہ سب سماج کا ہے۔ اس کو سماج کی فلاح و بہبود کے لیے رکھو اور بچوں کو ایک ایسی دنیا دو جہاں ماحولیاتی آلودگی نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں، دنیا کے سارے بچے اسکول جائیں علم حاصل کریں۔ اور ایک ایسی تعلیم جس میں مذہب کے نام پر نسل کے نام پر، رنگ کے نام پر نفرت نہ پڑھائی جائے۔

آج سے دس سال پہلے میں نے ایک شخص کی جو زکربرگ کی طرح حیران کن فیصلہ کرتا ہے مگر بہت مختلف بھی کی سچی کہانی اکنامسٹ برطانیہ کے جریدے میں پڑھی تھی وہ جو بہت امیر تھا۔

اسے دنیا تیاگنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جو دنیا گھومنا چاہتا تھا۔ جاتے ہوئے وصیت یہ کی اس کی ساری جائیداد کو ٹرسٹ بنا کے اس میں ملی ہوئی رقم سے ان کے بچوں کو تعلیم دی جائے اور وہ تعلیم کچھ اس طرح کی ہو۔ اس تعلیم میں موسیقی کو بھی حصہ بنایا گیا۔ وصیت کے آخر میں لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ اس تعلیم کے حصول کے بعد میرے بچے اچھے انسان بن جائیں گے اور پھر بہترین انسان کو جائیداد ان کے حوالے کی جائے تاکہ بڑھاپے میں ان کے کام آسکے۔

پیسوں کی مدد سے ، شجرہ نسب کی مدد سے کوئی بلاول بھٹو تو بن سکتا ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ صرف ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ہی بن سکتا ہے۔ فقیر منش ذوالفقار جونیئر جو کیمرا لے کے کبھی اس نگر کبھی اس نگر نکل پڑتا ہے۔ آج جب شاہ سائیں کا 276 واں عرس تھا تو مجھے شاہ سائیں کا بچپن یاد آگیا وہ اپنے ابا شاہ عبدالکریم بلڑی والے کا شاید اکلوتا بیٹا تھا۔

سب سے مختلف سب سے نرالا۔ بیٹے کی سیلانی طبیعت نے اسے بہت پریشان کردیا۔ ایک مرتبہ جب وہ ہنگلاج کے سفر سے واپس جو لوٹا تو ابا سے رہا نہ گیا اور اپنے بیٹے شاہ لطیف کو کہا ’’تمہارے سامی جھوٹے ہیں، ان کے سارے یہ سفر جھوٹے ہیں، خدا تو ہر جگہ موجود ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے ہنگلاج میں دیکھا‘‘ تو جواب میں بیٹے نے کہا ’’ابا سچے ہیں، میرے سامی، سچے ہیں ان کے یہ پا بجولاں کے سفر بھی ۔ ہاں خدا تو ہر جگہ موجود ہے پر انھوں نے اسے ہنگلاج میں دیکھا تھا۔‘‘

یہ دنیا ایک ہے اس کے دیکھنے کے آپکے زاویے مختلف ہیں اور جب تک آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تو یہ آپ کا حق ہے آپ کی فریڈم ہے۔ آپ آزاد ہیں اپنے سوچ میں اپنے خیال میں اور اس آزادی سے آپ ایک ایسی دنیا کی تکمیل کرنے جا رہے ہیں، وہ دنیا جو سب کی دنیا ہوگی۔ بچوں کی دنیا ہوگی، بچے ہوں گے جو دنیا کے فیصلے کریں گے۔

میری کوئی بیٹی نہیں، ایک خلش سی رہ گئی ، کتنی ضروری تھی ایک بیٹی میرے گھر میں۔ میں یقیناً اپنی بیٹی کو ایک آزاد دنیا کا شہری بنانے کی امید میں اس کی دیکھ بھال کرتا اسے پڑھاتا۔ وہ جو بھی کچھ بھی بننا چاہتی میں اس کی مدد کرتا۔ وہ جسے بھی چاہتی اس کے بیچ رکاوٹ نہ بنتا۔ بے نظیر بھٹو جیسی بیٹی، عاصمہ جہانگیر جیسی بیٹی، ارون دھتی رائے جیسی بیٹی، زکربرگ کے گھر آئی نئی نوید میکس مارک زبرگ جیسی بیٹی، زلیخا کی بیٹی، یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی۔غالب نے چیخ کر یہ صدا بلند کی تھی۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔