زیرزمین پانی کا استعمال: پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور نیا آبی تنازعہ!!!

شبینہ فراز  اتوار 6 دسمبر 2015
 ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے وفد کا حالیہ دورہ ہندوستان کیا ان تنازعات کے حل میں مدد دے گا؟ ۔  فوٹو : فائل

ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے وفد کا حالیہ دورہ ہندوستان کیا ان تنازعات کے حل میں مدد دے گا؟ ۔ فوٹو : فائل

پاکستان اور بھارت کے مابین مشترکہ آبی ذخائر پر تنازعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ دریاؤں میں پانی کی مقدار، ان پر تعمیر کردہ ڈیم اور بجلی گھروں کی تعمیر کے حوالے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نرمی گرمی آتی رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تعلقات میں بداعتمادی ایک اہم عنصر ہے۔ اکثر صورت حال اتنی خراب نہیں ہوتی ہے جتنی بداعتمادی کی فضا اور شکوک و شبہات اسے بنا دیتے ہیں۔

اسی ہفتے پاکستان اور ہندوستان کے وفد کی ’’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘‘ کے تحت ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات دہلی میں منعقد ہوئی تھی۔ وفد میں شامل ماہرآب و زراعت اور مشہور سائنس داں ڈاکٹر پرویز امیر جو اسی روز دہلی سے لاہور پہنچے تھے، ان کے مطابق اس ملاقات میں ایک نئے مسئلے پر بات چیت کی گئی، جسے اگر ابھی طے نہ کیا گیا تو شاید مستقبل قریب میں یہ ایک نیا مسئلہ بن کر سامنے آسکتا ہے۔ یہ مسئلہ زیرزمین موجود پانی کے استعمال کا ہے۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بھارت سرحدوں کے قریب زیرزمین پانی کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اور چوںکہ یہ پانی سرحدوں (تھرپارکر اور چولستان) کے قریب سے نکالا جارہا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ امکان ہے کہ سرحد کی دوسری جانب یعنی پاکستانی علاقے میں موجود زیرزمین پانی بھی کھینچ لیا جائے۔ ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق پاکستان کو اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ بھارت نے وسیع پیمانے پر زیرزمین کا سروے مکمل کرلیا ہے اور اس کے لیے وہ جرمن جیو ہیلی بورن (ہیلی کاپٹر) ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے، جو بہت زیادہ گہرائی تقریباً 1000 نیچے زیرزمین موجود پانی کا بھی سراغ لگا دیتی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے انتہائی خدشات کا شکار ہے۔ سرحدپار تعلقات بہتر رکھنے اور شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ مکمل ڈیٹا اور تمام اعدادوشمار کا تبادلہ کرے تاکہ صورت حال واضح ہو اور بداعتمادی کی فضا ختم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ دونوں جانب کے سائنس داں ایک دوسرے ممالک کا دورہ کریں اور صورت حال کا جائزہ لیں۔

پاکستانی وفد کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ چوں کہ ہمارے صحرا پہلے ہی بہت زیادہ ماحولیاتی شکستگی کا شکار ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے ضروری ہیں کہ زیرزمین پانی کے استعمال کے لیے کوئی قانون یا قواعد وضح کیے جاسکیں یا پھر دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود سندھ طاس معاہدہ(Indus Water Treary- IWT) کے تحت اس کا احاطہ کیا جائے۔ماہر ماحولیات حامد سرفراز آئی یوسی این اور کئی بین الاقوامی اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں، نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ ان کی تحقیق کی بنیاد پر آئیے ذرا تفصیل سے دونوں ممالک کے تنازعات اور اس سندھ طاس معاہدے کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت دو پڑوسی، اور پڑوسی بھی ایسے کہ صرف 1016 کلومیٹر سرحد ہی نہیں بل کہ زبان، خوراک، لباس، ثقافت اور رشتوں ناتوں کے ساتھ ساتھ ان کے آبی وسائل بھی مشترک ہیں۔ یہ پانی ایک دو نہیں بل کہ6 دریاؤں سندھ، جہلم، چناب، راوی ستلج اور بیاس اور ان کے بے شمار معاون دریاؤں کے ذریعے پاکستان اور بھارت کی ضروریات پوری کرتا ہے لیکن اب کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے مابین پانی کے حوالے سے تنازعات جنم لے رہے ہیں۔

ان آبی تنازعات میں دونوں ملکوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے ساٹھ سال میں دونوں ممالک میں آبادی میں اضافے سے پانی کی بڑھتی ہوئی طلب سے پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اگرچہ آبی وسائل کے تمام ممکنہ حَلوں پر محیط ایک معاہدہ آب یعنی سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) موجود ہے، لیکن ساٹھ سال گزرنے کے بعد شاید یہ معاہدہ بدلتے ہوئے حالات میں اب ازسرنو جائزے کا متقاضی ہے۔

دریائے سندھ کا آب پاشی نظام دنیا کے بڑے آب پاشی نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے، اس کا زیراثر رقبہ 20 ملین ہیکٹر اور اس کی سالانہ آب پاشی کی صلاحیت 12ملین ہیکٹر سے زیادہ ہے۔ دریائے سندھ کا شمار ان دریاؤں میں ہوتا ہے جن کا پانی کئی ممالک کو سیراب کرتا ہے۔ اس دریاکا منبع چین میں، ابتدائی پانی بھارت میں جب کہ بقیہ پانی پاکستان کو سیراب کررہا ہے۔

دریائے سندھ کے بیسن کا ایک لاکھ 138 ہزار 800 کلو میٹر حصے میں سے %52.84 پاکستان میں اور%33.65 بھارت میں ہے جب کہ باقی %13.87 چین، افغانستان اور نیپال میں ہے۔

1947 میں برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کا قیام دو علیحدہ ریاستوں کے طور پر عمل میں آیا، لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ دریائے سندھ کے مشترکہ پانی اور خاص طور پر دو بڑی نہروں سینٹرل باری دوآب اور دیبال پور کے حقوق کے بارے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ کئی سال کے تنازعات اور بدگمانیوں کے بعد عالمی بینک کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت سندھ طاس معاہدے پر متفق ہوئے جس پر 19ستمبر 1960کو دستخط ہوئے اور یہ یکم اپریل 1960سے موثر سمجھا گیا اور جنوری 1961کو معاہدے کی توثیق کی گئی۔

٭سندھ طاس معاہدہ موجودہ دور میں!
اگرچہ سندھ طاس معاہدے پر ابتدا سے ہی سوالات اٹھتے رہے لیکن اس سب کے باوجود یہ معاہدہ تقریباً نصف صدی سے نافذ العمل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ابتدا ہی سے الزامات اور تنازعات کی فضا کے باوجود سندھ طاس معاہدے کا قیام، اس کا برقرار رہنا اور اس پر کسی حد تک عمل درآمد اس معاہدے کے کارآمد ہونے کی دلیل ہے۔

یہ سندھ طاس معاہدہ ہی ہے جس کی بدولت دونوں ممالک کو اپنی اپنی حدود میں اپنے آبی مسائل دوستانہ انداز میں حل کرنے میں مدد ملی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سندھ طاس معاہدے کو پانی کے حوالے سے انتہائی کامیاب معاہدوں میں سے ایک تسلیم کیا گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جس کے تحت ملاقاتوں اور اجلاسوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ1965 اور 1971کی جنگوں کے درمیان بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

مندرجہ کچھ مثبت نتائج کی بنیاد پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ معاہدہ آج کے حقائق کے مدنظر موجودہ دور میں قابل عمل ہے؟ خاص طور یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ سندھ طاس معاہدہ بدلتے موسموں کے تناظر میں دریاؤں میں پانی کی غیر یقینی صورت حال میں کیا حل پیش کرتا ہے ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ موسموں کی بے ترتیبی دریاؤں میں پانی کی صورت حال بدل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبی آلودگی سے نمٹنے کی صلاحیت ناکافی ہوتی جارہی ہے۔

نصف صدی قبل کیے گئے اس معاہدے میں ماحولیاتی اثرات پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ دور میں دریا کی روانی اور بہاؤ میں غیرمتوقع تبدیلی، پانی کی مختلف مقدار کے ذخیرے کی ضرورت اور صلاحیت، گلیشیائی جھیلوں کا پگھلاؤ اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے دونوں ممالک کے مابین مزید تعاون کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے زیادہ واضح اثرات کرۂ ارض پر موجود دریائی نظام پر ہی مرتب ہوں گے۔ کئی دریاؤں میں ابتدائی طور پر گلیشیائی جھیلوں کے پگھلنے کی وجہ سے بہاؤ میں اضافہ نظر آئے گا، بعدازاں دریا میں پانی کی کمی واقع ہوجائے گی۔

دریاؤں کے ماحولیاتی نظام پر بدلتے موسموں کے اثرات کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر زرعی علاقے ریگستان میں تبدیل ہوجائیں، جس کے نتیجے میں خوراک کے عدم تحفظ اور ناکافی ذرائع پر تنازعات پیدا ہوں۔ موسم کی غیریقینی اور بدلتی صورت حال کے نتیجے میں دریاؤں کے بہاؤ پر یقیناً اثر پڑتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال دریائے ستلج کا سیلاب ہے۔ عام صورت حال میں یہ دریا خشک رہتا ہے جس کی وجہ سے لوگ دریا کے پاٹ میں رہنے لگتے ہیں۔

لیکن جب بارشیں زیادہ ہوجائیں تو بھارت اضافی پانی دریا میں چھوڑدیتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی حدود میں سیلاب آجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دریا کے کناروں پر موجود آبادی متاثر ہوتی ہے، املاک کا نقصان ہوتا ہے اور قریبی آبادیوں کے لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔ یہاں باہمی تعاون پر مبنی دریا میں پانی کی آمدورفت کی معلومات کے تبادلے کے ایک موثر طریقۂ کار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ایک ایسا طریقۂ کار جس سے معلومات کے بروقت تبادلے سے اس مسئلے سے بچا جاسکتا ہے۔

٭معاہدے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات!
اس عام تاثر کی نفی ضروری ہے کہ غیراستعمال شدہ پانی سمندر میں جاکر ضائع ہورہا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سمندر میں جانے والا پانی ساحلی آبادی اور ساحلی ماحولیاتی نظام کو نئی زندگی بخشتا ہے۔ مثلاً تیمرکا ماحولیاتی نظام، ڈیلٹا کے لاکھوں ماہی گیروں کی گزراوقات کا ذریعہ ہے، اس ابھرتے ہوئے تصور کو سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے ذخیرے، انتظام کاری اور نکاس میں سمونے کی ضرورت ہے۔

دونوں ملکوں کی 1961 کی 485ملین آبادی میں اب تین گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اب یہ بڑھ کر1,390 ملین ہوچکی ہے، جس کے تحت آب پاشی اور توانائی کی پیداوار میں اضافے کے لیے پانی کی طلب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

انڈس بیسن میں پانی کی کمی بیشی ایک مستقل عمل ہے، لہٰذا اب پانی کے تنازعات سے بچنے کے لیے انٹرا بیسن تعاون پر مبنی اشتراک اور انتظام ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں زیرزمین پانی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے دونوں ممالک میں پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔

یہ صورت حال زمین پر پانی کے وسائل اور اکثر اوقات سطح زمین پر موجود بہاؤ پر شدید دباؤ کا باعث بنتی ہے۔ اس کے ردعمل میں آبی وسائل پر قبضے اور کنٹرول جیسے اقدامات سامنے آتے ہیں۔ بھارت میں ڈیموں کی تعمیر میں اضافہ اس کی ایک مثال ہے۔ دریاؤں پر بہت زیادہ تعمیرات قدرتی طور پر بہنے والے پانی کی سمت میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں، اس کا اثر بین السرحدی یا دونوں ممالک پر ہوتا ہے۔ ربیع کی نئی فصل کی اقسام کے تعارف کے ساتھ زرعی پیداوار کے پھیلاؤ کے نتیجے میں آب پاشی کے پانی کی طلب بڑھ گئی ہے۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے جہاں موسم سرما میں دریائے سندھ کا بہاؤ 80فی صد ہوتا ہے، وہیں پاکستان کو سال بھر پانی کے انتظام کے لیے مزید پانی کے ذخیرے اور ریگولیٹری مکینزم کے لیے مزید آبی ذخائر کی ضرورت ہوگی۔

دونوں ملکوں کو بڑے پیمانے پر اپنے صنعتی سیکٹر چلانے، دیہی ترقی کو بڑھانے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کی ضروریات کے لیے بجلی کی ضرورت ہے۔ پن بجلی، بجلی کی پیداوار کے لیے سستا ترین انتخاب ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی بجلی کی طلب کی وجہ سے دونوں ملک پن بجلی کی ترقی کے منصوبے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ دونوں ملک توانائی کے حصول کے لیے بجلی کی پیداوار کے لیے موجود ذرائع سے فائدہ اٹھائیں، جیسا کہ بھارت اور بھوٹان میں ہورہا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ آب شرکت داری کے انتظام کے فریم ورک کے طور پر ہوا تھا، جس کے تحت مقامی آبادی کے لیے فوری طور پر پانی کے مطالبات پورے کرنے کے لیے مغربی اور مشرقی دریاؤں پر چند معمولی ایڈجسٹمنٹس کی ضرورت تھی۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ متنازع مسائل کی بڑی تعداد گذشتہ دہائی میں منظر عام پر آئی ہے۔ ماضی میں بھارت اور پاکستان نے متنازع مسائل دو طرفہ میکنزم استعمال کرتے ہوئے حل کیے۔

مزید یہ کہ حال ہی میں دونوں ملکوں نے سندھ طاس معاہدے کے دو طرفہ تنازعے کے حل کا ایک اور میکنزم تلاش کیا ہے اور تیسرے فریق کے ذریعے تنازعے کے حل کے میکنزم کو ترجیح دی ہے۔ تیسرے فریق کے ذریعے تنازعے کے حل کا نیا رجحان دو الگ الگ مقدمات میں دیکھا گیا۔ بگلیہار پن بجلی منصوبہ اور کشن گنگا پن بجلی منصوبہ جس کے لیے پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت آواز اٹھائی ۔

بگلیہار منصوبے کے معاملے میں آرٹیکل 9 کے تحت ایک غیرجانب دار ماہر سے رابطہ کیا گیا، جسے دونوں فریقوں نے قبول کرلیا۔ کشن گنگا منصوبے کے معاملے میں آرٹیکل 9 کے تحت ثالثی کی مستقل عدالت سے رجوع کیا گیا۔ 18 فروری 2013کو عدالت نے ایک جزوی حکم نامہ جاری کیا کہ بھارت کشن گنگا پن بجلی پلانٹ سے بجلی کی پیداوار کے لیے کشن گنگا یعنی دریائے نیلم کے پانی کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اس حکم نامے میں عدالت کی جانب سے پانی کا کم از کم بہاؤ برقرار رکھنے کا حکم بھی شامل ہے۔

ان تبدیلیوں کی روشنی میں اور سندھ طاس معاہدے کے تفصیلی مطالعے کی بنیاد پر پانی کے بین الاقوامی قانون کے نقطۂ نظر سے اگر جائزہ لیں تو سندھ طاس معاہدہ آج بھی متعلقہ اور پانی کی انتظام کاری کے حوالے سے قابل عمل ہے۔ مزید بہتری کے لیے مندرجہ ذیل سفارشات مرتب کی گئی ہیں:

ماہرین کے مطابق نصف صدی گزرنے کے باوجود سندھ طاس معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے، لیکن بدلتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر اس میں کچھ خاص تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک کام یاب دستاویز ہے، جس کے تحت پانی کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت جاری ہے اور 50 سال کے دوران صرف 2 منصوبوں کے حل کے لیے تیسرے فریق سے رابطہ کیا گیا۔

٭معاہدے میں ترمیم کی گنجائش!
سندھ طاس معاہدہ اپنی تمام کامیابی کے باوجود آج کے حالات کے حوالے سے ترمیم کی گنجائش رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ ایسی شراکت داری کا منصوبہ نہیں تھا جو یو این واٹر کمیشن کے مطابق پانی کی منصفانہ اور مناسب استعمال کی سہولت دے سکتا ہو۔ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں غیریقینی اور غیرمتوقع صورت حال پر اس معاہدے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔

سندھ طاس معاہدہ ٹرانس باؤنڈری انوائرنمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے حوالے سے بھی خاموش ہے ۔ جیسا کہ 1972 کے اسٹاک ہوم ڈیکلریشن کے اصول 21 میں متعارف کیا گیا ہے ۔ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان یو این واٹر کمیشن کی روشنی میں سندھ طاس معاہدے کا دوبارہ جائزہ لیں۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ آرٹیکل ’’7‘‘ کے تحت موسمیاتی تبدیلی، ہائیڈرولوجی، گلیشیو لوجی اور جیوانفارمیٹک کے شعبوں میں مشترکہ تحقیقات کریں۔معلومات کے حصول کے لیے سائنسی طریقۂ کار مثلاً GIS کی بنیاد پر ڈیٹا جمع کرنے اور اشتراک کے نظام کو مربوط بنانا چاہیے، انڈس کمیشن کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے تاکہ مذکورہ تمام سرگرمیاں اس کے احاطہ کار میں سماسکیں۔

بگلیہار معاملے میں ماہرین کے مطابق بھارت کو پن بجلی منصوبوں کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت دی گئی، جس سے دریا کے بہاؤ میں مختلف موسمی حالتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں فصلوں کے لیے پانی کی دست یابی پر بڑا اثر ہوا۔ اس قسم کے تنازعات سے بچنے کے لیے باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے بھارت اور پاکستان کا آب پاشی اور توانائی کی پیداوار کے لیے پانی کی دست یابی کے لیے ٹائم فریم پر متفق ہونا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے انتہائی نقصان کا خدشہ ہے، چناںچہ انہیں اضافی پانی اور پانی کی فراہمی میں کمی کے اثرات کی تلافی کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جو تحقیق کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کی ہر پیش گوئی کے ساتھ دونوں ملکوں کو اس فارمولے پر متفق کرے جو پانی ذخیرہ کرنے کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھے اور دوسروں کو زائد پانی استعمال کرنے کی اجازت دے۔

حالیہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی میٹنگ میں اٹھائے جانے والے نکات کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ اب دونوں ممالک ماحولیاتی تحفظ برقرار رکھتے ہوئے مغربی اور مشرقی دریاؤں کے پانی کا استعمال جانچیں۔ اب اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ بھارت کے لیے مشرقی دریاؤں اور پاکستان کے لیے مغربی دریاؤں کو مقرر کرنے والے فارمولے میں تھوڑی ترمیم کی جائے، جس کے مطابق پاکستان میں راوی ایک بہتا ہوا نکاس آب کا ذریعہ اور ستلج ایک مٹی کا دریا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتی ہوئی صنعتوں کی وجہ سے دونوں ممالک کو آب پاشی اور توانائی کی وجہ سے توانائی کے حصول کے لیے پانی درکار ہے۔ اسی لیے دونوں ملک کے پاس بہت زیادہ منصوبے ہیں۔ زیادہ توانائی کے حصول کے لیے مشترکہ آبی وسائل کی پائے دار بنیادوں پر ترقی وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دونوں ممالک کے مابین ایک اعتماد کی فضا بھی ضروری ہے جس میں عوام اور میڈیا کا اعتماد بھی حاصل کیا جائے۔ اس قسم کے مشترکہ اقدامات سے دونوں ممالک پائے دار ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اس حوالے سے سیاسی آمادگی اور لگن بھی موجود ہو۔

اوپر دی گئی سفارشات کو ممکن بنانے کے لیے دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتماد کی بحالی کے لیے بین الاقوامی حکمت عملی کی ٹریک 2ڈپلومیسی کے تحت روابط مسلسل بحال رکھیں اور زیرزمین پانی کے استعمال کو کسی قاعدے قانون یا پھر سندھ طاس معاہدہ آب کے دائرہ کار میں لے آئیں، تاکہ مزید تنازعات سے بچا جاسکے۔ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک یواین واٹر کمیشن تک رسائی کے لیے بات چیت شروع کریں، تاکہ دونوں ملکوں کو اپنے ٹرانس باؤنڈری آبی مسائل کے حل کے لیے ایک بارڈر فریم ورک دست یاب ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔