اوباما ، رومنی اور پاکستان

نصرت جاوید  جمعـء 26 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میرے جیسے نام نہاد’’پڑھے لکھے مغرب زدہ‘‘لوگوں کو چھوڑ کر پاکستانی عوام کی اکثریت سچے اور سادہ لوگوں پر مشتمل ہے ۔

امریکا میں 6نومبر کو صدارتی انتخاب ہونا ہے ۔اس ملک میں روایت ہے کہ انتخاب کے قریبی دنوں میں صدارتی امیدوار ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھیں اور چند اہم ترین موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔گزشتہ پیرکی شب رومنی اور اوباما کو خارجہ امور کے بارے میں اپنی اپنی ترجیحات کا اظہار کرنا تھا ۔انتخابی مہم کی گہماگہمی میں یہ دونوں امیدوار ایک دوسرے کے ساتھ شدید نفرت کا اظہار کرتے پائے جارہے ہیں ۔امریکی اخبارات میں لکھنے والے بہت سارے مبصرین ان کے اس رویے پر بہت پریشان ہیں ۔ بار بار ان دونوں امیدواروں اور اپنی قوم کو یاد دلارے ہیں کہ ان کے ملک میں سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے کی ذات کے خلاف ایسی نفرت کا اظہار پہلے کبھی نہیں کیا، نہ ہی وہ رکیک جملے کسے جو آج کل بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں ۔

رومنی اور اوباما کے درمیان مباحثے کو غور سے سنتے اور دیکھتے ہوئے میں اس وقت بہت ہی حیران وپریشان ہوا جب ایک دوسرے سے اتنا شدید اختلاف رکھنے والے، یہ دونوں امیدوار پاکستان کے بارے میں تقریباََ سو فیصد متفق نظر آئے ۔جزئیات سے قطع نظر دونوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ پاکستان میں اصل قوت فوج کے پاس ہے ۔یہ ایک ’’خطرناک‘‘ ملک ہے جس کے پاس 100سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں ۔یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں ۔طالبان ہیں اور حقانی نیٹ ورک بھی ۔ان کے خیالات سن کر اینکر بالآخر یہ پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر پاکستان اتنا ہی خوفناک ہے تو ’’طلاق‘‘ دے کر اس سے جان کیوں نہیں چھڑالی جاتی ۔

دونوں نے فوراََ جواب دیا کہ پاکستان کو طلاق دینا اس ملک کو مزید’’خطرناک‘‘ بنادے گا ۔رومنی کا خیال تھا کہ امریکی امداد کے ساتھ کڑی شرائط لگاکر بتدریج پاکستان میں جمہوری نظام کو مستحکم بنایا جاسکتا ہے ۔اوباما اس معاملے میں زیادہ مایوس نظر آیا۔اس نے تو صاف لفظوں میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اسامہ کو ایبٹ آباد جاکر مارنے سے پہلے پاکستانی حکومت سے اس آپریشن کی ’’اجازت‘‘ مانگی جاتی تو شاید وہ امریکنوں کے ہاتھ ہی نہ لگتا۔کہیں اور فرار ہوجاتا۔

ان واضح الفاظ میں پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتائوں پر امریکی صدر کے عدم اعتماد کے باوجود مجھے ’’اندر کی خبر‘‘ جاننے کے دعوے دار وہ بہروپیے بالکل مسخرے لگنا شروع ہوگئے ہیں جو ہمارے بہت زیادہ ریٹنگ لینے والے اینکروں کے ساتھ پورے پروگرام میں اکیلے بیٹھ کر دعوے کیا کرتے ہیں کہ پاکستان کی منتخب حکومت یا عسکری قیادت کو 2مئی 2011کے آپریشن کا پہلے سے پتہ تھا ۔ اس سے کہیں زیادہ حیرت تو اس بات پر ہوئی جب خارجہ امور پر رومنی اور اوباما کے درمیان مباحثے کے بعد مختلف عالمی اداروں نے اپنے اپنے طورپر سروے کرواکر یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ملکوں کے شہریوں نے اس بحث سے کیا نتیجہ نکالا تو پاکستان کی اکثریت اوباما کے مقابلے میں رومنی کی حمایتی نکلی۔زیادہ حیران کن حقیقت تو یہ تھی کہ پاکستان وہ واحد ملک ٹھہرا جہاں کے شہری اوباما کے مقابلے میں رومنی کے خیر خواہ ثابت ہوئے ۔

جب سے اس سروے کے نتائج سامنے آئے ہیں، میں نے بڑے ہی کھلے ذہن اور بڑی بے تابی کے ساتھ رومنی اور اوباما کے درمیان ہونے والے مباحثے کو کم از کم پانچ مرتبہ دیکھا اور سنا ہے ۔دو مرتبہ میں نے وائٹ ہائوس کی طرف سے جاری کردہ اس مباحثے کا Transcriptبھی پڑھا۔سچی بات ہے کہ رومنی کے خیالات جان کر میرا تو دل کانپ اُٹھا۔فوراََ خیال آیا کہ اس سے تو اوباما ہی بہتر ہے ۔کم از کم اس کے چار سالہ دور اقتدار کے دوران ہماری ریاست کے کرتا دھرتا اتنا تو جان چکے ہیں کہ وہ ہم سے کتنی ’’محبت‘‘ کرتا ہے اور اس کا طریقہ واردات کیا ہے ۔

رومنی آیا تو اپنے مہرے لگاکر پتہ نہیں کون سی چال کے ذریعے کھیل کا آغاز کرے ۔میرے ذاتی اندیشوں کے برعکس حیرت اس بات پر بھی ہورہی ہے کہ ا پنے مضامین اور سوشل ویب سائٹس پر چند فقروں کے ذریعے امریکی سیاست کو خوب سمجھنے والا حسین حقانی بھی پاکستانی عوام کی اکثریت کی طرح رومنی کی حمایت کرتا محسوس ہورہا ہے ۔پاکستانی عوام کی اکثریت تو سچے اور سادہ لوگوں پر مشتمل ہے ۔مگر جس حسین حقانی کو میں جانتا ہوں ’’کچے‘‘ پر اکثر پائوں نہیں رکھا کرتا۔گرتا بھی ہے تو کچھ دیکھ کر گرتا ہے ۔اللہ خیر کرے ۔

رومنی اور اوباما کے درمیان پیرکی شب ہونے والے مباحثے کی طرف واپس لوٹتے ہوئے مجھے دُکھ اس بات پر بھی ہورہا ہے کہ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہماری ’’سیاسی تربیت‘‘ کرنے والے اینکر حضرات نے اس واقعے کو خاص اہمیت نہیں دی ہے ۔ ان کی اکثریت اب بھی سیاستدانوں کو اپنے ٹاک شوز میں بلواکر خوار کررہی ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی والوں سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایک ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آجانے کے بعد’’شیر‘‘ کیوں نہیں بن رہے ۔

اسلم بیگ اور اسد درانی کو گرفتار کرکے تفتیش کیوںشروع نہیں کی جارہی ۔چوہدری نثار علی خان کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ نون نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ ’’رحمن ملک کی FIA‘‘پر اعتماد نہیں کرتے ۔ہاں سپریم کورٹ ہی کوئی ’’آزاد کمیشن‘‘ بنادے تو اس کے سامنے پیش ہوکر دودھ کا دودھ کردیں گے ۔

ان حالات میں تحریک انصاف والوں کی لاٹری نکل آئی ہے ۔مسکرامسکرا کر قوم کو یاد دلارہے ہیں کہ سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں ۔عمران خان ہی وہ رہنما ثابت ہوا جس پر ’’ایجنسیوں‘‘ کی پشت پناہی کا کوئی داغ نہیں ۔اسی لیے تو ’’تبدیلی کا نشان‘‘ سمجھا جارہا ہے ۔’’آئو ہمارے ساتھ چلو‘‘۔میرا اپنا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلے ‘‘ کے بعد تحریک انصاف اپنی ریٹنگ کو شاندار طریقے سے بہتر بناسکتی ہے اگر ’’میں باغی ہوں‘‘ اسلام آباد آکر FIAکے ہیڈ کوارٹر کے سامنے للکار کر اپنی گرفتاری پیش کردے اور کسی ’’سیف ہائوس‘‘ میں ان سے جو سوال جواب ہوں ان کا اپنی روایتی بہادری سے سامنا کرے ۔

اگر وہ یہ کام عید سے پہلے کردے تو لطف دوبالا اور دشمن کا منہ کالا ہوجائے گا ۔ایسے میں عمران خان کا ملک میں نہ ہونا مجھے بہت کھل رہا ہے۔سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلے‘‘کے بعد رونق لگ جاتی اگر وہ سونامی لے کر رائے ونڈ پہنچ جاتے اور میاں نواز شریف کو چیلنج کرتے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کسی چھوٹے سوٹ کیس میں روزمرہ استعمال کے کپڑے اور سامان ڈالیں اور FIAکا رُخ کریں ۔رحمن ملک کی زیر نگرانی کام کرنے والے اس ادارے پر اعتبار نہیں تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو Faxکے ذریعے مطلع کریں کہ وہ ان کی جانب سے بنائے جانے والے کمیشن کے روبرو پیش ہونے کو ابھی اور اس وقت تیار ہیں ۔

مجھے لیکن بتایا جارہا ہے کہ عمران خان کو اس سے کہیں زیادہ ’’ضروری کام‘‘ آپڑے ہیں ۔لندن میں اپنے بچوں سے مل کر انھیں 26اکتوبر کو نیویارک جانا ہے اور پھر امریکا اور کینیڈا کے مختلف شہروں میں ان تقریبات میں شرکت کرنا ہے جو تحریک انصاف کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے منعقد کی جارہی ہیں ۔میں تو ان سب باتوں سے بہت مایوس ہوا ہوں۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے ’’تاریخ ‘‘ تو بنادی مگر عمران خان سمیت ہمارے سیاسی رہنما اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں اٹھاپارہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔