عالمی طاقتیں پاک بھارت مسائل حل کرواسکتی ہیں

احسن کامرے  پير 7 دسمبر 2015
’’پاک بھارت تعلقات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

’’پاک بھارت تعلقات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان کی انتہا پسندانہ سوچ اوررویے کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ بھارت میں پاکستان مخالف قوتیں متحرک ہوچکی ہیں۔ ’’پاک بھارت تعلقات ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میںسیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (مرکزی رہنما جماعت اسلامی)

بھارت کا انتہاپسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے اور وہ پاکستان کی مخالفت میں کھل کرسامنے آگیا ہے۔ مسئلہ کشمیر سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ یہ تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ بن چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے وہاں پاکستان کا جھنڈا بھی لہرایا۔ اس کے علاوہ جموں کی عدالت کی طرف سے بھی کشمیریوں کے حق میں فیصلہ آیا اور صرف یہی نہیںبلکہ کشمیریوں نے مودی کے دورے کا بائیکاٹ بھی کیا اور ہرلحاظ سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں اور بھارت کے اٹوٹ انگ کا نعرہ محض ایک نعرہ ہے۔ بھارت کے ساتھ سیاچن ، سرکریک اور دریائی پانی کا بھی مسئلہ ہے۔ دریائی پانی کا مسئلہ ایسا ہے کہ ہر سال موسم برسات میں سیلاب کی وجہ سے اور موسم گرما میںخشک سالی کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری ڈیم نہ بنانے کی کوتاہی اپنی جگہ ہے مگر ہم نے بھارت کے ساتھ بھی اس مسئلے پر موثر آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔

بھارت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے جبکہ دہشت گردوں کے ساتھ بھی اس کے تعلقات ہیں۔ مشرقی پاکستان بھارتی مداخلت کی وجہ سے علیحدہ ہوا، اس نے نہ صرف مقتی بانی بنائی بلکہ اس کی فوج نے بھی علیحدگی میں کردار ادا کیا اور اس بات کا اعتراف خود مودی نے کیا اور بھارتی اعترافات کے حوالے سے بھارتی کتابیں بھی موجود ہیں۔ بھارت ہر لحاظ سے پاکستان میں تخریب کاری کررہا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری حکومت کے رویے بہت کمزور ہیں۔ بھارت نے ہمیں عالمی کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا ہے اور کوئی بھی چیز جو بھارت پر بھی ثابت ہوتی ہے، اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ ممبئی کے واقعات پر تو حکومتی سطح پر بہت سی باتیں اور جوابدہی ہوتی ہے لیکن سمجھوتہ ایکسپریس پر کوئی بات نہیں ہورہی۔ اس میں 550 پاکستانیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس واقعہ میں بھارت کے حاضر سروس کرنل پروہت شامل تھے اور اس واقعے کے تفتیشی کو بھی مار دیا گیا۔

ہماری حکومت نے سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے اس طرح آواز اٹھائی جس طرح بھارتی میڈیا ایسی چیزوں پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس کے ڈپٹی چیف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی فسادات بھارت نے کروائے۔ ابھی بھی بھارت پاکستان اور اسلام دشمنی کو فروغ دے رہا ہے لیکن بھارت کے معاملے میں ہماری حکومت کا رویہ نرم ہے۔ موجودہ حکومت نے جب مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں بات کی تو تمام پاکستانیوں سمیت حریت رہنماؤں نے بھی ان کی تعریف کی مگر اس سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ وزیراعظم نوازشریف، نریندر مودی کی تاج پوشی کی تقریب میں بھارت گئے اور مقبوضہ کشمیر کے لیڈروں سے ملے بغیر واپس آگئے جس سے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے احساسات مجروح ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے بھارت کو ساڑھیاں بھی بھیجیں۔

سفارتی آداب میں ایسا ہوتا ہے مگر برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک طرف سے لاشیں مل رہی ہوں اور دوسری طرف سے ساڑھیوں اور آموں کا تحفہ بھیجا جائے لہٰذا ایسے کمزور رویے پر سوائے احتجاج کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔بنگلہ دیش میں بھارت کے کہنے پر پاکستان سے محبت کی وجہ سے لوگوں کو سزائے موت دی جارہی ہے، اس مسئلے پر سہ فریقی معاہدہ موجود ہے لیکن بنگلہ دیش اس کی خلاف ورزی کررہا ہے لہٰذا پاکستان کو یہ کیس عالمی عدالت میں لیجانا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ کرکٹ کھیلنے میں ہم ناجانے کیوں بے تاب ہیں، وہ ہماری تزہیک کررہا ہے لیکن ہم منت سماجت سے کام لے رہے ہیں۔ میرے نزدیک ہمیںیہ موقف اپنانا چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ کھیلنا ہی نہیںچاہتے مگر سوال یہ کہ جو لوگ اس حوالے سے مذاکرات کررہے ہیں ان کے مفادات کیا ہیں؟

بھارت میں صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں نے مودی کی انتہا پسندی کی وجہ سے ایوارڈ واپس کیے ہیں جو خوش آئند بات ہے ، پاکستان کو اس فضا کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس وقت بھارت میں 85کروڑ لوگ نصف ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیں لیکن بھارت پر جنگی جنون سوار ہے اور اس نے اپنے دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ کیا ہے لہٰذا اس حوالے سے بھارت کے خلاف فضا بنائی جائے، امید ہے کہ بھارت کے اندر موجود اچھے لوگ اس میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ نظریہ پاکستان ہماری اساس ہے، حکومت کی طرف سے لبرل پاکستان کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہماری بقاء نظریہ پاکستان میں ہے اور ہماری اصل طاقت ایمان کی طاقت ہے۔

محمد مہدی (دانشور و رہنما پاکستان مسلم لیگ(ن))

پاکستان اور ہندوستان کے مسائل کی تاریخ پاکستان بننے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی اور اگر ہندوستان کے لوگوں کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ غلط نہ ہوتا تو شاید پاکستان بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ کانگریس کی تمام لیڈر شپ، مسلمانوں کے حوالے سے آئین میں کوئی پابندی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی جس کی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کو پاکستان کیلئے آواز اٹھانی پڑی اور پھر پاکستان بن گیا۔بدقسمتی سے ہندوستان کی برہمن قیادت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کو بطور ریاست قبول نہیں کیا اور یہی وہ مسئلہ ہے جو آج تک ان کے اندر سے نکل نہیں پارہا۔ 1971ء میں انہوں نے پاکستان کو دولخت کیا اور وہ آج بھی اس کا کریڈٹ لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان آج بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہاں کی قوم کس حد تک ان کے ساتھ ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہاں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان دشمنی کی لہر میں بہہ جاتا ہے اور یہ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ مہاراشٹرا میں گزشتہ کئی سالوں سے شیو سینا جیسی انتہا پسند جماعت کی حکومت ہے۔

روس میں پاک بھارت وزراء اعظم کی ملاقات میں خارجہ سیکریٹری سطح کی ملاقات طے ہوئی تھی مگربھارت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے خارجہ سیکریٹری کو پاکستان آنے سے روک دیا اور پھر جب پاکستان نے بھارت سے رابطہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارت میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی اور اسی کیفیت کی وجہ سے ہی اب مودی پیرس میں خود چل کر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس آئے۔ پاکستان نے ہمیشہ سے ہی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے چاہے کوئی بھی حکومت ہو۔ میاں نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان پیرس میں حالیہ ملاقات اسی پس منظر میں ہوئی۔ یہ ملاقات کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں تھی تاہم اگر اس سے حالات میں کوئی بہتری آتی ہے تو پاکستان ویلکم کرے گا۔ مودی جتنی انتہا پسندی کرسکتے تھے انہوں نے کرکے دیکھ لی۔ مودی کا رویہ بی جے پی اور خود مودی کی سیاست کے لیے نقصاندہ ہے اور اب وہاں کی ریاستیں بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں لہٰذا مودی کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا اور ان کی یہ پالیسی زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔

عالمی حالات میں خاص کر مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں جو صورتحال بن رہی ہے، اس کی وجہ سے دنیا میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے اور پیرس کے وزیراعظم نے بھی اس حوالے سے پاکستان کی تعریف کی اور کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے سیکھنا چاہیے۔ اب امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ بھارت کو قائل کریں کہ پاکستان کی کنٹرول لائن پر شر انگیزی نہ ہو اور اس صورتحال کو بہتر کیا جائے ۔ پاکستان کی ضرورت اس سے زیادہ ہے ۔ مسئلہ کشمیر کا حل تو سب سے پہلے ہے مگر پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اس سے بھی پہلے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو روکا جائے اورپاکستان نے بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو بھی دیے ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے ہی ایسا اقدام اٹھایا ہے اور ہم مسئلہ کشمیر پر بھی عالمی سطح پر ہر ممکن آواز اٹھا رہے ہیں۔

باقی مسائل کا تو مجھے عنقریب کوئی حل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان افغانستان میں سے جو چپقلش ہے، اسے تھوڑا ٹھنڈا کیا جائے، بلوچستان میں بھی اس کی مداخلت کو روکا جائے کیونکہ سی پیک منصوبے میں بھی بھارت وہ واحد ملک ہے جو کھلم کھلا اس کی مخالفت کررہا ہے۔ اگر پاک بھارت بات چیت آگے بڑھتی ہے تو فوری طور پر یہ ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی کسی جماعت نے عام انتخابات کے دوران بھارت کے خلاف ووٹ نہیں مانگا جبکہ بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص ان کی حکومتی جماعت نے پاکستان مخالف انتخابی مہم چلائی اور اب بہار کے مقامی انتخابات میں بھی ان کے رہنما لوگوں کو یہ ڈرا رہے تھے کہ اگر انہیں ووٹ نہ دیا گیا تو پاکستان آجائے گا۔ ماضی میں جب شارجہ میں پاک بھارت کرکٹ مقابلے ہوا کرتے تھے اور ہندوستان بدستور ہارے جارہا تھاتو اس وقت ہندوستان میں یہ سوچ چل پڑی تھی کہ اگر پاکستان سے جیتا نہیں جاسکتا تواسے پاکستان کے ساتھ کھیلنا ہی نہیںچاہیے۔

دراصل یہ خوف ہے جس کی وجہ سے بھارت،پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے پر رضامند نہیں ہورہا اور یہ ان کا نفسیاتی مسئلہ ہے جو حل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔پاکستان،سری لنکا میں بھی کرکٹ سیریز کھیلنے کے لیے تیار ہے تاہم اگر یہ سیریز ہوبھی جاتی ہیں تو مستقبل میں اس کا تسلسل دکھائی نہیں دیتا۔گزشتہ پندرہ سالوں کی تاریخ دیکھیں تو کوئی بھی پاکستانی لیڈر اقوام متحدہ میں جاکر مسئلہ کشمیر اور ہندوستان پر بات نہیں کرتا تھا مگر یہ تیسری مرتبہ ہوا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مسئلہ کشمیر پر بات کی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی وزیراعظم نے ہندوستان کے بارے میں ثبوت اور تجاویز کے ساتھ بات کی لہٰذا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت بات نہیں کرتی میرے نزدیک درست نہیں ہوگا۔

یہ بات طے ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو روکے بغیر بھارت کے ساتھ بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔اس خطے میں کوئی بھی ملک بھارت کے آگے بات نہیں کرسکتا۔ نیپال میں بھارت نے ناکہ بندی کررکھی ہے، اس کے علاوہ بھوٹان اور سری لنکا کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں تاہم پاکستان وہ واحد ملک ہے جو چھوٹا ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کررہا ہے اور اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ خطے کے مسائل پر بھی آواز اٹھا رہا ہے۔

ڈاکٹر فاروق حسنات (تجزیہ نگار)

انتہاپسندی، پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت مودی کا ایجنڈا ہے اور اسی ایجنڈے پر وہ ووٹ لے کر آئے ہیں۔ اب وہاں کا میڈیا بھی بی جے پی کے ساتھ چل پڑا ہے اور انہیں پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پیرس میں پاک بھارت وزراء اعظم کی دومنٹ کی ملاقات کے فوراََ بعد بھارتی وزیر خارجہ کا بیان آگیا کہ پاکستان سے ملاقات میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن بات صرف دہشتگردی پر ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعلقات بہتر کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ، پاکستان سے نفرت میں بہت آگے نکل چکا ہے، بھارتی حکومت نے لوگوں میں اتنا انتشار پیدا کر دیا ہے کہ اب ان کے لیے واپسی ممکن نہیں ہے۔ اسی زعم میں وہ نیپال کے ساتھ بھی الجھ پڑا ہے اور مودی اپنے نفرت کے اس ایجنڈے پر ڈٹا ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں ہونا یہ چاہیے کہ جو مسائل حل ہونے کے قریب ہیں پہلے انہیں حل کر لیا جائے تاکہ بات آگے بڑھے۔ سیاچن اور سرکریک کا مسئلہ تقریباََ حل ہوچکا ہے، سیاچن کا نقشہ بھی بن چکا ہے مگر بھارت نے اس پر دستخط نہیں کیے۔

سیاچن میں دونوں ممالک کا نقصان ہورہا ہے اور میرے نزدیک سیاچن اور سرکریک کے مسئلے پر بھارت کے اس رویے کے پیچھے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ دونوں نے آپس میں خود مسائل حل کیے ہوں۔ماضی میں پانی اور’’ رن آف کچھ‘‘ کا مسئلہ عالمی قوتوں نے حل کروایا لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں ہی پاک بھارت مسائل حل کروا سکتی ہیں۔2002 ء میں جب سرینگر اور دہلی کے پارلیمنٹ میں بم دھماکے ہوئے تو بھارت نے اپنی فوج بارڈر پر لگا دی اور پاکستان نے بھی اپنی فوج کو متحرک کردیا تھا۔ اس مسئلے کو حل کروانے میں امریکا کا ہاتھ ہے اور امریکا نے بھارت کو یہ وارننگ دی تھی کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر تلا ہوا ہے لہٰذا اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور پھر اچانک ہی بھارت نے اپنی فوج ہٹالی۔ اسی طرح کارگل کے معاملہ پر، تب بھی نوازشریف ہی وزیراعظم تھے، وہ واشنگٹن گئے تو بھارت پر کلنٹن کے دباؤ کی وجہ سے کشیدگی ختم ہوئی۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جس میں بھارت نے ہٹ دھرمی سے کام لیا مگر عالمی طاقتوں نے مسائل حل کروائے۔

امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے، امریکا نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ بھی کیا ہے لہٰذا بھارت کے موجودہ حالات کی وجہ سے امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے اس لیے اس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے مودی پر دباؤ ڈالا ہے اور پھر مودی پیرس میں خود چل کر وزیراعظم نوازشریف کے پاس گئے۔ اس سے کچھ ماہ قبل امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تھا کہ پاکستان اپنا نیوکلیئر پروگرام حد سے زیادہ بڑھا رہا ہے اور پاکستان نے جو ٹیکٹیکل نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کی ہے یہ ہمیں قابل قبول نہیں ہے لہٰذا اس ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اپنا میزائل پروگرام بھی روک دیں۔ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ نوازشریف جب امریکا جائیں گے تو اوباماان کے سامنے یہ دو چیزیں رکھیں گے۔ پھر پاکستان کی وزارت خارجہ سے ایک پیغام گیا کہ اگر امریکا نے یہ بات کی تو غالب امکان ہے کہ دورہ منسوخ کردیا جائے۔

اس طرح امریکا کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہم اس چیز پر بات نہیں کرسکتے۔ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتااور اس کے بغیر امریکی فوج کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ مودی کے ہوتے ہوئے پاک بھارت تعلقات نارمل ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی تاہم اگر صرف ٹینشن ہی ختم ہوجائے تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا ۔ میرے نزدیک پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت اور بہتر تعلقات کی باتیں کرنے کی بجائے ریجنل ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے چاہئیں ۔ ’’ای سی او‘‘ بالکل ڈیڈ پڑی ہے ، پاکستان کو اس میں جانا چاہیے اور پاکستان کو چاہیے کہ چین اور ایران کو شامل کرکے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

نریندر مودی کے دور حکومت میں ، پاک بھارت تعلقات میں بہتری یا اس کے اپنے رویے میں تبدیلی کی توقع خام خیالی ہے۔ مودی کی انتخابی مہم پاکستان مخالف تھی۔ قومی سطح پر مودی کے لیڈر بننے کے پیچھے ہندوآتہ اور پاکستان مخالف جذبات ہیں لہٰذا مودی کے ہوتے ہوئے مجھے حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ مودی نے عالمی دباؤ سے عارضی ریلیف حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان سے پیرس میں چند سیکنڈکی ملاقات کی لہٰذا اس سے بہتری یا تبدیلی کی توقع رکھنا درست نہیں ہوگا۔ مودی پر انتہاپسند جماعتوں کا دباؤ ہے،بہار میں شکست کے بعد ان پر اپنی جماعت میں سے بھی کافی تنقید ہوئی اور اب وہ اپنا دفاع کررہے ہیں۔ مودی کے انتہاپسندانہ رویے اور بھارت کے اندرونی حالات کی وجہ سے بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے، اس کی معیشت بھی خراب ہورہی ہے لہٰذا اس امیج سے باہر نکلنا مودی کے لیے بہت بڑا امتحان ہوگا اور اسے پاکستان کے ساتھ اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی۔

کشمیر کو بھارت میں شامل کرنا مودی کے انتخابی منشور کا حصہ تھا۔ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں، آرٹیکل 370کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کشمیر ہائی کورٹ کے احکامات اور دوبارہ اپیل کے بعد آنے واے فیصلے کی وجہ سے مودی کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور بھارت کا اٹوٹ انگ کا نعرہ دم توڑ گیا۔ اس فیصلے کے بعد دنیا کے سامنے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔ معیشت کی خرابی، بہار میں شکست،آرٹیکل370 اور کشمیر کے معاملے پر بھارتی حکومت کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ آنا بھارت کے لیے سیٹ بیک ہے اور بھارتی حکومت دباؤ میں آگئی ہے۔ پاکستان معاشی مسائل کا شکار ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے لیے ہماری زیادہ امیدیں پاک چین اقتصادی راہداری سے لگی ہوئی ہیں جس میں بہت سے سکیورٹی مسائل ہیں۔ بلوچستان میںبھارت کی مداخلت، افغانستان میں اس کا بڑھتا ہوا کردار اور طالبان کے ساتھ تعلقات اس منصوبے کی تکمیل میں ہمارے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ ہمارے سٹیکس زیادہ ہیں لہٰذا ہمیں بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے چاہئیں تاکہ ہماری معیشت مضبوط ہوسکے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک کیے بغیر ہمارے مسائل کا خاتمہ نہیں ہوگااور کسی دوسرے آپشن کو متبادل کے طور پر استعمال کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے عوام کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ بھارت کا رویہ اور پاک بھارت تعلقات میں خرابی ہے لہٰذا مودی کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ حکومت کی توجہ معاشی بہتری کی طرف ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوشش کررہی ہے، میرے نزدیک پاک بھارت سیریز ، سری لنکا میں کھیلنے پر رضامندی کا مقصد بھی یہی ہے کہ کسی طرح مذاکرات کا عمل شروع ہو۔ عالمی سطح پر پاکستان کی پزیرائی ہوئی ہے، ضرب عضب کو بھی سراہا گیا ہے لیکن ابھی بھی دنیا ہمیں بھارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور ہمارے خلاف بھارتی پراپیگنڈہ جاری ہے۔ امریکا داعش کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، اسے ڈر ہے کہ داعش افغانستان میں نہ آجائے۔ امریکا جانتا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس لیے وہ بھارت پر پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔