اورکیا لکھوں

منظور ملاح  منگل 8 دسمبر 2015
mallahmanzoor73@gmail.com

[email protected]

بچپن سے صحرائے تھر سے میرا ایک تعلق رہا ہے، اس لیے وقت بوقت آنا جانا رہتا ہے۔ جب بھی صحرائے تھر میں جاکرخیمے گاڑتا ہوں، وہاں کے حالات دیکھ کر چبھن سی محسوس ہوتی ہے یا دماغ کی کھڑکی کھل جاتی ہے، پھرکچھ نہ کچھ لکھ لیتاہوں، چاہے وہ آرٹیکل ہو یا افسانہ،اس بار بھی یہاں آکر سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں۔ان این جی اوز پر لکھوں، جنہوں نے تھرکی غربت کو مذاق بنا کروہاں اپنا جال بچھا رکھا ہے، جوکچھ سرگرمیاں کرکے باقی مال ہضم کرلیتے ہیں، یا اس پر لکھوں کہ یہاں کے وڈیروں نے ووٹ نہ دینے پر صدیوں سے آباد لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کررکھا ہے۔

نسلوں سے آباد ان لوگوں کو زمین کے کسی ٹکڑے پر بھی دعوے کا حق نہیں۔ اس پر لکھوں کہ غریب اقلیتوں کی عورتوں کوکسمپرسی کی آڑ میں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، بلکہ کچھ عورتیں رکھیل بنائی جاتی ہیں۔ بقول لطیف سائیں کوئی رکاوٹ نہیں، ہرکوئی محبوب کو ملتا ہے۔ ان لوگوں پر لکھوں جوکہ دور ٹیلوں پر آباد ہیں، جنھیں پینے کا پانی نہیں ملتا، جو پانی کے لیے زیر زمین ہینڈ پمپ کے لیے بھی سیاستدانوں اور منتخب نمایندوں کے دردرکی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔

جہاں سے ہفتے میں کوئی ایک کھٹارہ گاڑی ریتی کو چیرکرکسی چھوٹے سے شہر پہنچتی ہے اور ان میں سے اکثرصرف شہرکو دیکھنے آتے ہیں، جن کے جیب میں پیسوں کی بجائے جوئیں لڑتی رہتی ہیں۔ جن کے لیے لال مرچ کوٹ کر پانی میں بھگوکرکھانا دنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔ تھرکے غریب لوگوں پر لکھوں جو میلے کپڑوں، غمگین آنکھوں سے امداد کے لیے راہیں تکتے رہتے ہیں۔

ان پر لکھوں جہاں کوئی اسکول نہ اسپتال،کئی راستے میںآتے ہوئے مرجاتے ہیں اورکئی علم کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ان عورتوں کے چہروں پر موجودغم کی ریکھاؤں پر لکھوں، جن پر جوانی آنے سے پہلے ڈھل جاتی ہے، جو پانی کی ایک بوند کی تلاش میں سر پر گھڑا اٹھاکریا گدھوں پر ڈبے لادکر صبح نکلتی ہیں اور سورج ڈھلنے تک واپس پہنچتی ہیں۔ پیچھے باقی گھر والے روزے پر رہتے ہیں۔ جن کی چھاتی میں دودھ کی بجائے خون بھی نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے اکثر شیر خوار بچے یہ دنیا دیکھنے سے پہلے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوجاتے ہیں۔

ان بچوں پر لکھوں ، جوراستے سے گذرتے کسی اجنبی کو دیکھ کر ایک روپے کی بھیک مانگتے ہیں اور ایک روپیہ ملنے پر دنیا جہان کی خوشیاں اپنی جھولی میں آتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔ان کے سر پر کپڑا لپیٹے، ضعیف العمر لوگوں پر لکھوں جو ایک صدی کے قریب اپنی زندگی کا سفر اپنے پاؤں تلے کرچکے ہوں، آج بھی ان کے آگے گدھ، جس پر لدی لکڑیاں اور سر پر سامان اٹھاکر سفرکرتے رہتے ہیں، جو ہرے درخت کے کٹاؤکو زندگی کا قتل سمجھتے ہیں۔

ان نوجوان مردوں اور عورتوں پر لکھوں جو مکئی، باجرہ یا گوارکی فصل ساون کی برساتوں میں اللہ کے آسرے پر بیچتے ہیں، سردیوں کی شروعات میں پکنے پر سورج کے سایے تلے بیج نکالنے کے لیے کوٹتے رہتے ہیں، بھوک کا پتہ نا پیاس کی خبر۔ ان کھیتوں میں کھیلتے کودتے بچوں پر لکھوں، جنھیں اپنے مستقبل کا پتہ نہیں، جن کے لیے کل کائنات وہ ہی کچھ ہے ، جو انھیں نظر آتا ہے یا ان بچوں پر لکھوںجوتربوز ے اورکچریاں بیچنے کے لیے راستوں پر صبح سے شام تک بیٹھے ہر آنے جانے والے کوافسردہ آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی خریدار ہو اور دو چار روپے مل جائیں، جن کی نم آنکھوں میں کئی امیدیں ڈیرہ ڈالے نظر آتیں ہیں، لیکن ان مستقبل کے معماروں کا کوئی مستقبل نہیں ہے ان بھیک مانگتے خانہ بدوش قبائل پر لکھوں، جن کے پاؤں چل چل کر سوج جاتے ہیں۔

جن کی عورتوں کی گود میں موجود شیرخوار بچے وقت کی سردیاں گرمیاں جھیل کر بڑے ہوتے ہیں، گرم ہواؤں میں ریتی پھکتے رہتے ہیں اور پھر وہی سفر وہی راستے۔ ان مکینوں پر لکھوں جو تنکوں کے گھروں میں ریتی پر سوتے ہیں اور کوئی پتہ نہیں کہ کبھی کوئی بلا یا سانپ ان کی زندگی کا دیا بجھا دے ۔ان بکریاں، بھیڑیں،گائے اور اونٹ چراتے لوگوں پر لکھوں، جن کا سب کچھ یہی ہے، جومال کے چارے کی تلاش میں سارا سال جوتے ہاتھوں میں پکڑے سرگرداں رہتے ہیں۔ جوکبھی بیراجی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور ساون برسنے پر واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ان شاہ بیگڑے کی بنی، بھوڈیسر تالاب کے کنارے اجڑی مسجد اور تباہ حال قدیم جین دھرم کے مندروں پر لکھوں، جو وقت کے ساتھ شکست وریخت کاشکار ہو چکے ہیں۔

اس تاریخی قلعہ عمرکوٹ پر لکھوں جو دن بدن تباہ حال ہورہا ہے، جس کی اینٹیں اکھڑ اور گل کر زمین دوز ہورہی ہیں لیکن کوئی بھی کان نہیں دھرتا، پورا سماج بے حس ہوچکا ہے۔ ان غریب مریضوں پر لکھوں، جن کے قابل علاج امراض بھی موت کا سبب بنتے ہیں، جہاں پرہر گھر میں کوئی نہ کوئی مریض موجود ہے۔ ان بھوکے پیٹ لوگوں پر لکھوں، جنہوں نے نسلوں سے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، جو ساری عمر زندگی سے لڑ کر آخر کار تھک ہارکر چلے جاتے ہیں۔

ان لوگوں پر لکھوں جو فطرت پرتکیہ کیے ہوئے ہیں، جن میں موجود قدرتی جبلتیںانھیں سختی کا عادی بنالیتی ہیں۔ جہاں زندگی ٹیلوں پر روتی، چلاتی نظر آتی ہے۔ کچھ سال پہلے گوادر میں، میں نے ایک عام بلوچ سے پوچھا تھا کہ کوسٹل ہائی وے بننے سے آپ کوکوئی فائدہ تو انھوں نے بغیر لگی لپٹی کے جواب دیا کہ پہلے ہم راستے میں مر جاتے تھے، اب کراچی کی اسپتالوں میں پہنچ کر دم دیتے ہیں، بس یہی فرق ہے۔

لیکن جب میں صحرائے تھر کو دیکھتا ہوں تو بلوچ پھر بھی مجھے خوش قسمت لگتے ہیں، یہاں تو کئی لوگ اسپتال کا منہ دیکھے بغیر زندگی سے جھگڑ کرکوچ کرجاتے ہیں۔ میں کیا لکھوں، ان لوگوں کے دردوں،مشکلات، استحصال، غربت، جہالت پر، لکھنے بیٹھا تو قلم ٹوٹ جائے گا، انگلیوں سے خون نکل آئے گا لیکن میں یہ فرض پورا نہیں کرسکتا۔

ہاں البتہ اگر چند الفاظ لکھنے بیٹھوں تو وہ یہ ہیں کہ صحرائے تھر ایک فطرتی میوزیم ہے، جہاںبڑے بڑے درخت، پھیلی ہوئی بیلیں، گھومتے پھرتے پرند، چرند، مور، اونٹ، بکریاں، انسانوں سے بھی زیادہ آزاد ہوتے ہیں، جہاں بڑے بڑے ریتی کے ٹیلے ، ان کے عقب میں ہوا کے دوش پر باجرہ اور گوار کے دانے صاف کرتی عورتیں، اوپر تنکھوں کے گھر فطرتی خوبصورتی کا شاہکار ہیں، جہاں شہد کی مکھیاں اور تتلیاںپودوں سے کھیلتی ہیں۔

جہاںسانپ اور حشرات انسانی ظلم سے مبرا ہیں۔ جہاں روہیڑے کے سرخ پھول جھومتے ہیں، جہاں عمر ماروی اورسدھانت سارنگا کے رومانوی داستانیں سرد راتوں میںآگ کے مچ پر سننے کو ملتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن کیا لکھوں یہاں انسانیت کا قتل عام دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بس اورکیا لکھوں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔