جب تک بددیانتی ختم نہیں ہوتی!

تنویر قیصر شاہد  بدھ 9 دسمبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

محمد منصور کاظم ہماری بیوروکریسی کا ایک سینئر نام رہا ہے۔ وہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان اور آزاد کشمیر میں بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ساٹھ کے عشرے کے دوران انھوں نے مشرقی پاکستان میں آٹھ سال گزارے۔ وہاں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے فرائض بھی انجام دیے، کئی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے اور مشرقی پاکستان کے سیکریٹری داخلہ تھے کہ بنگلہ دیش بننے کا زخم بھی سہا۔ مملکت خداداد کے دو لخت ہونے کے بعد بقیہ پاکستان میں آگئے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری کے بلند عہدے تک پہنچے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد MY  STORY  کے زیرِ عنوان ایک شاندار کتاب لکھی جو ذاتی تجربات و مشاہدات پر مبنی ایک معرکہ آرا کتاب ہے۔ اب یہ مارکیٹ بھارت کے ہاتھوں میں جا چکی ہے اور وہ اس اسلامی ملک کو سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کے چاول فروخت کرتا ہے۔ ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے اعلیٰ افسر ہونے کے ناتے ہی جناب محمد منصور کاظم ایک بار کچھ مہینوں کے لیے جاپان بھجوائے گئے۔ ٹریننگ کے اس پروگرام کو اقوامِ متحدہ نے سپانسر کیا تھا۔ دیگر کئی ممالک کے بھی کئی سرکاری لوگ اسی پروگرام کے تحت جاپان آئے تھے۔

کاظم صاحب اس حوالے سے اپنی مذکورہ کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم سب لوگ جاپان کے جس شہر کی عمارت میں قیام پذیر تھے، وہ رہائشگاہ پانچویں منزل پر تھی۔ جاپان میں چونکہ زلزلوں کا سلسلہ عموماً جاری رہتا ہے، اس لیے جاپان کے سبھی شہروں میں وضع کردہ سخت قوانین کے تحت ایسے تعمیراتی اصولوں کے مطابق عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ وہ زلزلوں کا زیادہ سے زیادہ مقابلہ کرسکیں اور جانی نقصان بھی کم ہو۔ ایک شام ہم سب غیر ملکی پانچویں منزل پر واقع اپنے اپنے کمروں میں تھے کہ زلزلہ آگیا۔ عمارت ایسے جھولنے لگی جیسے پنڈولم دائیں بائیں جھولتا ہے۔

گھبرا کر ہم سب کمروں سے باہر نکلے اور لفٹ کی طرف بھاگے۔ لفٹ چلانے والے شخص نے مگر لفٹ کا دروازہ کھولنے سے انکار کردیا اور شائستہ لہجے میں ہم سے بولا: پلیز، بھگدڑ نہ مچائیں اور آپ سب اپنے اپنے کمروں میں واپس جائیں۔ ہم خوف کے مارے لفٹ آپریٹر سے لفٹ کا دروازہ کھولنے پر اصرار کرتے رہے لیکن وہ انکار کرتا رہا۔ آخر ہم سب ڈرتے ڈرتے اپنے اپنے کمروں میں واپس آگئے۔ تھوڑی دیر بعد زلزلے کے جھٹکے رک گئے۔ دوسرے روز معمول کے مطابق ٹریننگ کے لیے اپنے سینٹر پہنچے تو ہمارے جاپانی رابطہ کار نے ہم سے شکایت کی کہ گذشتہ شام ہم لوگوں نے خواہ مخواہ شور مچا کر باقی لوگوں کو بھی پریشانی اور ہیجان میں مبتلا کیا۔ اس نے بتایا کہ دوسری عمارات کی طرح آپ لوگوں کی عمارت بھی زلزلہ پروف ہے۔ انھیں اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ زلزلے کی شدت برداشت کرسکیں۔

اس کے باوجود اگر زلزلہ غیر معمولی اور توقعات سے زیادہ ہوتو ایک خود کار نظام کے تحت ساری عمارت کی تمام لفٹیں ازخود کام کرنا شروع کردیتی ہیں اور ہر کمرے میں یہ اعلان بھی گونجنے لگتا ہے کہ باہر نکل آئیں۔‘‘ محمد منصور کاظم لکھتے ہیں کہ یہ بات سن کر میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش، ہمارے ملک میں بھی سخت قوانین کے تحت انجینئر ایسی ہی زلزلہ پروف عمارتیں بنا سکتے اور ان میں اسی طرح کا خود کار نظام بھی وضع ہوسکتا تاکہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جاسکتا۔ حال مگر یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں بددیانتی کا ارتکاب کرکے ایسی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں جو زلزلے کے پہلے شدید جھٹکے ہی میں زمیں بوس ہوجاتی ہیں۔ یہ سانحات ہم نے 8اکتوبر 2005ء میں بھی دیکھے اور 26اکتوبر 2015ء کو بھی ملاحظہ کیے۔

دونوں زلزلوں میں ہزاروں انسانوں کی جانیں ضایع ہوگئیں اور اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم بددیانتی اور غفلت شعاری سے باز نہیں آئے۔تازہ ترین سروے میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں 85فیصد سرکاری اور غیر سرکاری عمارتیں زلزلے کا مقابلہ کرنے والے بنیادی تعمیراتی اصولوں سے انحراف کرکے بنائی گئی ہیں۔ جب بددیانتی اور امانت میں خیانت ہڈیوں میں گُودے کی طرح رَچ بَس جائے تو قومی سطح پر ایسے ہی تباہ کن المئے جنم لیتے ہیں۔

مصنف محمد منصور کاظم نے اپنی کتاب ’’مائی اسٹوری‘‘ میں ہماری بددیانتیوں کے بارے میں کئی انکشاف کیے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مَیں جاپان ہی میں تھا کہ ایک دلدوز واقعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک پاکستانی انجینئر ٹریننگ کے لیے جاپان آیا ہوا تھا۔ اس نے ایک ایسے جاپانی کے گھر میں ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا جس کا کاروبار دودھ فروشی تھا۔ جاپانی نے اس سلسلے میں شہر کے مضافات میں گائے اور بھینسوں کا ایک باڑہ بنا رکھا تھا۔ ایک صبح پاکستانی کرایہ دار اپنے کمرے سے نیچے اترا تو دیکھا کہ مالکِ مکان جاپانی بہت پریشان اور افسردہ بیٹھا ہے۔

وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ اس کی چند گائیں بیمار پڑ گئی ہیں اور وہ بیمار گایوں کا دودھ گاہکوں کو فروخت نہیں کرسکتا، اس لیے پریشان ہوں کہ دودھ کم ہونے کی وجہ سے اپنے گاہکوں کے گھروں میں دودھ کیسے پہنچا سکوں گا؟ پاکستانی کرایہ دار نے یہ بات سنی تو جاپانی سے کہنے لگا: تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ تم سیکڑوں کلو دودھ بیچتے ہو اور اگر اس میں پندرہ بیس کلو پانی ملا دو تو بھلا کیا فرق پڑے گا، کسی کو معلوم ہی نہ ہوگا۔ جاپانی نے یہ ’’شاندار‘‘ مشورہ سنا تو سہی مگر خاموش رہا۔ گزشتہ روز اس نے پاکستانی کرایہ دار انجینئر کو ایک خط بھجوایا جس میں لکھا گیا تھا کہ تمہارا مشورہ سن کر دلی رنج ہوا کہ تم نے مجھے ملاوٹ کا مشورہ دے کر بددیانتی پر اکسانے کی کوشش کی، مَیں ایسے بددیانت ذہن رکھنے والے کرایہ دار کو مزید برداشت نہیں کرسکتا، اس لیے یہ مہینہ ختم ہوتے ہی میرا گھر خالی کردو۔‘‘

یہ واقعہ پڑھ کر مجھے ہنسی آگئی۔ اس میں پاکستانی کرایہ دار انجینئر کا بھلا کیا قصور تھا؟ ہم پاکستانی جنہوں نے زندگی بھر کبھی ملاوٹ سے پاک دودھ دیکھا ہے نہ پیا ہے، وہ بھلا ایسا مشورہ نہ دیتا تو کیا کرتا؟ وہ ایسا ہی مشورہ دے سکتا تھا کہ اس کی تربیت و پرداخت ایسے ہی بددیانت ماحول میں ہوئی تھی اور اس کا تعلق ایسے سماج سے تھا جہاں دودھ میں غلیظ جوہڑوں کا پانی تک ملایا جاتا ہے اور ایسے دودھ سے مینڈک بھی نکل آتے ہیں لیکن ہمارے منہ سے صرف ہنسی ہی نکل سکتی ہے۔ ہم بے بسی اور بے کسی میں کچھ اور کر ہی نہیں سکتے۔ جب تک بددیانتی ختم نہیں ہوتی، ہمیں اندرون و بیرون ملک ایسی ہی ذہنی اذیتوں اور بے عزتیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔