نوازشریف کی مسکراہٹوں اور اداسیوں کا تصویری جائزہ

محمد عثمان فاروق  جمعرات 10 دسمبر 2015
ہمارے سرتاج عزیزاگر ہندوستان جائیں تو کیا نریندر مودی اُن کو شرف ملاقات بخشیں گے؟ فوٹو: ایکسپریس

ہمارے سرتاج عزیزاگر ہندوستان جائیں تو کیا نریندر مودی اُن کو شرف ملاقات بخشیں گے؟ فوٹو: ایکسپریس

ایک وقت تھا کہ ہم اپنے وزیراعظم نواز شریف کا سنجیدہ قسم کا رُخ زیبا دیکھتے تو سوچتے کہ ہمارے وزیراعظم کتنے بردبار ہیں، اور پھر 23 مارچ کی پریڈ تو آپکو یاد ہوگی اس میں تو نوازشریف صاحب اتنے اداس نظر آئے کہ لگتا تھا پورے پاکستان کا غم وزیراعظم صاحب کے چہرے پر سمٹ آیا ہے۔ مگر گزشتہ روز ہندوستانی خارجہ امور کی وزیر سشما سوراج پاکستان آئیں تو اُن سے ملتے وقت وزیراعظم کے چہرے پر جو خوشی کی بہاریں دیکھیں تو دل کیا کہ سشماجی سے کہوں کہ اے معمر خاتون تیرے آنے سے ہمارے وزیراعظم کا چہرہ کھل اٹھتا ہے تو روز آیا کر بلکہ صبح وشام آیا کر۔

یہ اور بات ہے کہ اس کام میں پروٹوکول کی دھجیاں اُڑ جائیں کیونکہ ہمارے سرتاج عزیزاگر ہندوستان جائیں تو کیا نریندر مودی اُن کو شرف ملاقات بخشیں گے؟ ہرگز نہیں تو پھر سشما سوراج جو کہ ایک وزیر ہیں اُن سے ملاقات بھی کسی وزیر یا ہم منصب کی ہونی چاہیئے تھی مگر اُن سے ہمارے وزیراعظم خود بنفس نفیس مل رہے ہیں۔

بہرحال اِس وقت ہمارا مقصد یک نکاتی ایجنڈے پر غور و خوص کرنا ہے اور وہ نوازشریف صاحب کے چہرے کا جائزہ لینا ہے کہ کن مواقعوں اور لوگوں سے ملتے وقت نواز شریف صاحب کے چہرے کی خوشی چھپائے نہیں چھتی اور کن سے ملتے وقت نوازشریف صاحب کے چہرے کی خوشی دکھائے نہیں دکھتی۔

یہ تصویر نمبر 1 ہے۔ ذرا غور کیجئے۔ یہ 23 مارچ کی تقریب کی تصویر ہے اس دن سارے پاکستانیوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی کیونکہ دہشتگردی کے سبب معطل ہونے والے پریڈ سات سال بعد منعقد ہورہی تھی، مگر اِس اہم ترین موقع پر ناجانے ہمارے وزیراعظم کو کیا غم کھائے جارہا تھا؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے چند لمحوں بعد انکو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا جانا ہو۔

تصویر نمبر 2 میں ہمارے وزیراعظم جنرل راحیل شریف کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کے چہرے کے تاثرات دیکھئے ایسے لگ رہا کوئی اسکول کا بچہ سبق یاد کرکے نہیں آیا اور ٹیچر اسے سزا دینے والے ہیں۔

یہ تصویر نمبر 3 ہے۔ یہ تصویر اُس وقت کی ہے جب نوازشریف نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ذرا اپنے وزیراعظم صاحب کا چہرہ دیکھئے، گرم جوشی، اخلاص، چاہت غرض کہ محبت اور خوشی کے جتنے نام ہیں وہ آپکو وزیراعظم کے چہرے پر نظر آئیں گے۔

تصویر نمبر4 میں وزیراعظم صاحب جرمن وزیر دفاع کے ساتھ نظر آرہے ہیں اور انکے چہرے پر موجود خوشی کے رنگ بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔

تصویر نمبر 5 اور 6 کو دیکھئے، اِس تصویر میں وزیراعظم صاحب کے ساتھ ’’ہم سفر‘‘ راحیل شریف ہیں اور وزیراعظم صاحب کے چہرے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دل ہی دل میں راحیل شریف کو یاد کرتے ہوئے مسلسل عابدہ پروین کی غزل کا وہ شعر گنگنا رہے ہیں کہ

’’وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی، دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی‘‘۔

تصویر نمبر 7 ہارٹ آف ایشا کانفرنس کی ہیں۔ اِسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کو بیڑیاں پہنا کر کھڑا کیا گیا ہے۔

تصویر نمبر 8 اشرف غنی کے ساتھ وزیر اعظم صاحب دل پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں اور پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا جارہا ہے جبکہ وزیراعظم صاحب کا چہرہ دیکھ کر لگ رہا ہے ان پر نزع کا عالم طاری ہے۔

ٓتصویر نمبر 9 میں وزیراعظم صاحب زرداری سے مل رہے ہیں اور خوشی کے سمندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے انکے چہرے سے عیاں ہیں۔

انسانی چہرے کے تاثرات اسکی اندرونی کیفیت کے ترجمان ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے ہمارے وزیراعظم کا چہرہ صرف آصف زرداری یا پھر ہندوستان کے حکمرانوں سے ملتے وقت ہی باغ و بہار ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے قومی دنوں یا مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت سے ملتے وقت انکے چہرے پر غم کی کالی گھٹائیں چھا جاتی ہیں؟

کیا آپ بلاگر کی جانب سے پیش کیے گئے تصویری جائزے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔