ایک جان حزیں اور دو موتیں

انتظار حسین  جمعـء 11 دسمبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

جب مشرقی پاکستان کا زوال ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تو ادھر سے مختلف ذرایع سے، جن میں سب سے موثر ذریعہ افواہیں تھیں، کتنے دانشوروں کے متعلق پتہ چلا کہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان میں ایسے صحافی اور ادیب بھی تھے جو ادھر مغربی پاکستان میں بہت جانے پہچانے تھے۔ سو ان کے انتقال کی خبریں شایع ہوئیں‘ تعزیتی کالم لکھے گئے۔

مگر پھر کتنی مشکلوں سے بچتے بچاتے وہ ادھر آئے اور تعزیتی کالم لکھنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ پھر وہ وقت گزرنے کے ساتھ طبعی موت مرے مگر پھر شاید ہی کسی کے بارے میں تعزیتی کالم لکھا گیا ہو۔ بہر حال ان کی تقدیر میں دو موتیں لکھی تھیں۔ ان سے انھیں مفر نہیں تھا۔ ان میں اس زمانے کے مشہور و معروف صحافی اور شاعر صلاح الدین محمد بھی تھے جو ادھر صحافتی اور ادبی حلقوں میں بہت جانے پہچانے جاتے تھے۔

ان کے انتقال پُر ملال پر تو کالم ہم نے بھی لکھا تھا۔ مگر مہینوں بعد وہ ادھر پاکستان میں زندہ نمودار ہوئے۔ تعزیتی کالم لکھنے والوں کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ادھر ہم نے اپنے تعزیتی کالم کی تردید میں اب یاروں کو ان کے زندہ ہونے کی خوش خبری سنائی۔ مگر اب وہ سچ مچ انتقال کر گئے ہیں اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب اس خبر کی تردید کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک کتاب زین پبلی کیشنز کراچی نے ’صلاح الدین محمد۔ شخصیت اور شاعری‘ کے عنوان کے تحت شایع کی ہے۔ احمد زین الدین نے اسے مرتب کیا ہے۔ اس کے بڑھ کر اور کیا تصدیق ہو گی۔

7 اکتوبر2011ء کو ڈینگی بخار چڑھا اور وہ چٹ پٹ اس دنیا سے سدھار گئے۔ ان کی پہلی موت کا کتنا چرچا ہوا تھا اور کتنے تعزیتی کالم لکھے گئے تھے۔ اب جو سچ مچ دنیا سے سدھارے تو کسی کو خبر ملی کسی کو نہ ملی وجہ اس کی یہ کہ اب وہ صحافت کے پیشہ سے وابستہ نہیں تھے۔ ادبی اور صحافتی حلقوں سے دور تھے۔ انھیں پھر ایسے پیشوں سے وابستہ ہونا پڑا جس کے لیے وہ بنے نہیں تھے۔

اصل میں صلاح الدین محمد بائیں بازو والوں کے رفیق کار تھے۔ ڈھاکا میں پاکستان ابزرور سے اور مختلف اوقات میں مختلف اخباروں سے وابستہ رہے۔ صحافی کی حیثیت سے بہت نمایاں تھے۔ مشرقی پاکستان کی جرنلسٹس یونین کے صدر رہے۔ پھر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

رائٹرز گلڈ وجود میں آیا تو اس واسطہ سے ادبی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ آخر وہ شاعر بھی تو تھے۔ اور اپنے وقت کے ممتاز شاعروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ بالعموم ان کی نظمیں اس زمانے میں فنون لاہور میں شایع ہوا کرتی تھیں بیان میں اختصار اور سادگی تھی۔ سادگی ہی سادگی میں کیسی کیسی بات کہہ جاتے تھے۔ ایک نظم ملاحظہ فرمائیے۔

اب تن کے تین ہی رنگ ہیں
ان میں لال لہو کا رنگ ہے
سادہ رنگ کفن کا ہے
اور کالا رنگ اندھیرے کا ہے
اب گویائی کے مقتل میں
آنکھیں مقتل ہیں
دل دوزخ ہے
ایک نظم ہے ’ناخدا‘ وہ بھی سن لیجیے؎
ناخدا کشتی کے بدلے
شہر میں رہنے لگے ہیں
اسلحے پتوار ان کے
لوگ موجوں کی طرح ہیں
ضرب ان کے اسلحوں کی
لوگ پھر سہنے لگے ہیں
ناخدا کشتی کے بدلے شہر میں رہنے لگے ہیں
نظم ’بیداری‘ اس طرح ہے؎
وہ بیداری کیسے آئے
جب ساری بیدار نگاہیں
مستقبل کے آئینے میں
سب سے پہلے
خود اپنا مستقبل دیکھیں
درد سے پہلے
درد کا اپنے حاصل دیکھیں

اپنی فکر و نظر اور اپنی روشن خیالی کے واسطے سے دانشوروں کے حلقوں میں بہت مقبول تھے مگر جب مشرقی پاکستان میں ہوا کا رخ بدلا اور حالات خراب ہوئے تو یہ مقبولیت ان کے کام نہ آئی۔ مکتی باہنی کی ہٹ لسٹ میں ان کا بھی نام درج ہوا۔ ایسے نازک وقت میں ان کے کچھ بنگالی دوستوں نے دوستی کا حق ادا کیا اور کسی نہ کسی طرح ڈھاکا سے ان کی روانگی کا بندوبست کر دیا۔

پاکستان پہنچے تو اب ان کی وہ پہلی والی حیثیت نہیں تھی۔ صحافی کی حیثیت سے جو ان کا نام اور کام تھا اس کی قدر اب کون پہچانتا۔ بھٹو صاحب سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تو تھی مگر بے نتیجہ رہی۔ حالات نے ان پر عجب اثر کیا کہ ادبی اور صحافتی حلقوں سے بے تعلق ہو کر گمنامی کی زندگی گزارنے لگے۔ یاروں نے اڑتی اڑتی یہ خبر سنی کہ وہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں سے کپڑے خرید کر بڑے پیمانے پر دوسرے شہروں میں اس کی سپلائی کرتے ہیں۔ مگر کچھ دنوں کے بعد خبر سنی گئی کہ اس کاروبار میں وہ چل نہیں سکے۔ تو اس کام کو تیاگ کر چین چلے گئے ہیں۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تو یار احباب کے خیالوں سے بھی نکل گئے۔ ان کے ایک دوست انور فرہاد کا ایک مضمون اس کتاب میں شامل ہے۔ وہ حیران و پریشان یوں رقم طراز ہیں۔

’’یہ بات کسی کو معلوم نہ ہو سکی کہ پاکستان پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ جوش و جذبے کا پیکر جیسے بُجھ کر رہ گیا ہو۔ نہ صرف اس نے سیاست سے منہ موڑ لیا۔ بلکہ صحافت سے بھی رشتہ توڑ لیا۔ اور پھر شاعری جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی اسے بھی چھوڑ دیا۔ اسی طرح یہ بات بھی سمجھ میں نہ آئی کہ انھوں نے لاہور میں مستقل سکونت کیوں اختیار کی جب کہ ان کے سارے عزیز رشتہ دار اور بے شمار دوست احباب کراچی میں تھے‘‘۔

لاہور میں سکونت اختیار کی مگر وہ لاہور میں کس سے ملتے تھے اور کہاں نظر آتے تھے۔ بس ایک مرتبہ ہم نے انھیں دیکھا تھا لیکن وہ ملاقات عجب تھی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ ہم ایک ڈیڑھ دوست کے ساتھ ٹی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ اچانک صلاح الدین محمد نمودار ہوئے۔ ہم حیران ہوئے کہ کتنے زمانے کے بعد نظر آئے ہیں مگر بہت پریشان تھے۔ ہم نے ٹٹولا تو رفتہ رفتہ کھلے کہ قاسمی صاحب کے دفتر سے اٹھ کر آ رہے ہیں۔ وہاں علی عباس جلالپوری سے ان کی مڈھ بھیڑ ہوئی۔ وہاں جانے کیا واقعہ ہوا اور علی عباس جلالپوری نے کیا سلوک کیا کہ بہت گریاں نظر آ رہے تھے۔ یہ پتہ فتح محمد ملک کو ہو گا کیونکہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد وہ ٹی ہاؤس میں نمودار ہوئے۔ وہ بھی اسی دفتر سے اٹھ کر آ رہے تھے۔ انھوں نے کتنی دلجوئی کی اس عزیز کی مگر ع

ایسی باتوں سے کہیں درد جگر جاتا ہے

بس پھر اس شہر میں رہتے ہوئے ہم نے صلاح الدین محمد کو کسی تقریب میں کسی ادبی صحافتی حوالے سے یا یوں ہی چلتے چلتے کسی موڑ پر کبھی نہیں دیکھا۔ جیسے دنیا جہاں سے روٹھ کر گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ پھر خبر ملی کہ وہ تو سچ مچ اس دنیا سے روٹھ کر اگلے جہان کو سدھار گئے۔

اسے کہتے ہیں نیرنگی زمانہ۔ جب شرفا پر ایسی افتاد پڑے اور ایسی قیامت سے انھیں گزرنا پڑے تو زمانہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے اور حساس روحوں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے ؎
خدا رحمت کند آن عاشقان پاک طنیت را

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔