زندہ رہنا ملتوی نہ کریں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 12 دسمبر 2015

آپ اور کچھ نہ کریں صرف ان صاحب کا جو آٹھ دس سال بعد امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا یا یورپ کے کسی بھی ملک سے چند روز کے لیے دوبارہ پاکستان آئے ہوئے ہوں کا پاسپورٹ کسی بھی طرح سے اپنی حراست میں لے لیں، آپ جیسے ہی پاسپورٹ کو اپنی حراست میں لیں گے تو آپ کو ان صاحب کا اپنے پاسپورٹ کے لیے گڑگڑانا ، تڑپنا، بلکنا اور سسکنا دیکھا نہیں جائے گا۔ اس وقت آپ ان سے جو کہیں گے وہ کرنے کے لیے وہ صاحب بے تاب نظر آئیں گے کیونکہ پاسپورٹ نہ ملنے کی صورت میں انھیں دوبارہ پاکستان میں رہنے کی سزا جو ملنے والی ہوگی ۔

آئیں ! اس بات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آٹھ دس سال باہر رہنے کے بعد آخر کیوں ان صاحب کا دوبارہ اپنے ملک میں جہاں ان کے پیارے ان کے دوست و احباب ، ملنے جلنے والے رہتے ہیں وہ گلیاں ، محلے اور شہر جہاں ان کا بچپن اور نوجوانی گذری ہے اور جس کی یادیں آج بھی اس کی آنکھوں میں بند ہیں۔

محال ہو رہاہے وہ آخر کیوں دوبارہ اجنبیوں میں جانے کے لیے تڑپ رہاہے ۔ اصل میں سیدھی سادی سی بات ہے باہر جانے سے پہلے اسے علم ہی نہ تھا کہ زندگی کیسے جی جاتی ہے اسے معلوم ہی نہ تھا کہ حقوق کیا ہوتے ہیں، زندگی کے تقاضے کیا ہوتے ہیں، عزت کس چڑیا کا نام ہے بجلی ، پانی اور گیس کی فراوانی کیسے ہوتی ہے، صفائی ستھرائی کیا ہوتی ہے، ملاوٹ سے پاک اشیاء کیسی ہوتی ہیں ، ملاوٹ سے پاک رشتے کیسے ہوتے ہیں ۔

بے غرضی کس بلا کا نام ہے روزگار پر لگے رہنا کیسا ہوتا ہے، میرٹ کیا ہوتی ہے انصاف ، برداشت اور رواداری کسے کہتے ہیں ۔کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری سے پاک معاشرہ کیسا ہوتا ہے جمہوریت کسے کہتے ہیں ووٹ کی طاقت کسے کہتے ہیں وہ ان سب بلاؤں سے لاعلم تھا اور باہر رہ کر اسے جیسے ہی ان تمام باتوں کی لذت کا علم ہو اور اس نے یہ تمام باتیں اپنی آنکھوں سے حقیقت ہوتے ہوئے دیکھ لیں تو وہ آخر دوبارہ سزا کاٹنے کے لیے یہاں رہنے کے لیے کیوں تیار ہوگا ۔

وہ آخر دوبارہ دوزخ میں رہنے کے لیے کیوں راضی ہوگا ہمارے ہاں تو لوگ اس طرح جیتے ہیں جیسے یہ کوئی عادت ہو جیسے کوئی سزا ہو ہم تو بس پیدا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں، بیچ میں سناٹا ہی سناٹا ہے گھپ سیاہ اندھیرا ہے ہمارے پاس آنکھیں ہیں لیکن ہم اندھے بنے ہوئے ہیں ہمارے پاس کان ہیں لیکن بہرے بنے ہوئے ہیں ہمارے پاس زبان ہے لیکن گونگے بنے ہوئے ہیں ہمارے پاس ہاتھ اور پاؤں ہیں لیکن اپاہج بنے ہوئے ہیں ۔

ہم تعداد میں 20 کروڑ ہیں لیکن چند سو بنے ہوئے ہیں ایسی قابل رحم قوم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی ہے جس کے لیے ہر دن ایک جیسا ہو ہر رات ایک جیسی ہو جن کے پاس نیندیں تو ہوں لیکن خواب نہ ہوں جن کے پاس دل تو ہوں لیکن احساسات اور خواہشیں نہ ہوں ، جن کی سانسیں تو چل رہی ہوں پر زندہ نہ ہوں جن کے لیے تمام لذتیں حرام قرار دی جا چکی ہوں۔

ہمارے علاوہ دنیا بھر کے لوگ جی رہے ہیں خدا کی نعمتوں اور زندگی کی رعنائیوں سے بھر پور لطف اندوز ہورہے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ زندگی انھیں صرف ایک بار ہی جینے کے لیے ملی ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ80 سال کے لیے اس لیے وہ ایک ایک لمحے کو جیتے ہیں اگر ہم ہزاروں سال کے لیے دنیا میں آئے ہیں تو پھر الگ بات ہے بہت وقت پڑا ہے ابھی نہیں تو آگے جی لیں گے لیکن اگر ہمارے پاس بھی زیادہ سے زیادہ وقت 80سال کا ہوا تو پھر کیا ہوگا۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 30 سال قبل رومی شاعر ہوریس نے کہا تھا ’’ انسانی فطرت کا سب سے بڑا المیہ جو میں جانتا ہوں یہ ہے کہ ہم سب زندہ رہنے کو ملتوی کرتے رہتے ہیں اپنی کھڑکیوں سے باہر جوگلاب کے پھول کھل رہے ہیں، ہم آج ان سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گلابوں کے کسی طلسمی باغ کے متعلق خواب دیکھتے رہتے ہیں۔

ہم اس قدراحمق کیوں ہیں، اس قدر المناک حد تک احمق ‘‘ سٹیفن لی کاک لکھتا ہے ہماری زندگی کا چھوٹا سا جلوس کتنا عجیب وغریب ہے بچہ کہتا ہے ’’جب میں ذرا بڑا ہوجاؤں گا توکیا ہوگا ‘‘بڑا ہوکر لڑکا کہتا ہے ’’جب میں جوان ہوجاؤں گا ‘‘ اور جوان ہو کر وہ کہتا ہے’’جب میں شادی کروںگا ‘‘ لیکن شادی کے بعدکیا ہوتا ہے، اس وقت خیالات تبدیل ہوجاتے ہیں’’جب میں بوڑھا ہوجاؤں گا ‘‘ اور پھر جب بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے تو وہ گذرے ہوئے مناظر کو دیکھتا ہے اور اسے ایک سرد و یخ ہواچلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے وہ سب کچھ کھوچکا ہے اور ہر چیز اس کے اختیار سے نکل چکی ہے ۔‘‘

آپ اور ہم اس وقت دو ابدتیت کے مقام اتصال پر کھڑے ہیں ہمارے ایک طرف لامحدود ماضی ہے، جو ازل سے جاری ہے اور دوسری طرف مستقبل ہے جو ابد تک جاری رہے گا۔ ہم امکانی طور پر ان دو ابدتیتوں میں سے کسی ایک میں بھی نہیں جاسکتے، نہیں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ۔ اگر ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم اپنے جسم اور دماغ دونوں کو تباہی کے غار میں دھکیل دیں گے پھر کیوں نہ ہم اسی وقت میں زندہ رہنے پر قناعت کریں جتنا عرصہ ہم زندہ رہ سکتے ہیں ۔

مجھے لگتا ہے ہم سب بے وقوف ہیں اس لیے کہ اگر آپ کم جانتے ہیں تو آپ جاہل ہیں اس لیے آپ عمل نہیں کرتے اور اگر آپ زیادہ جانتے ہیں اور عمل نہیں کرتے تو آپ بے وقوف ہیں اور ہم قطعاً معاف کیے جانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ سب جانتے ہوئے بھی ہم نے اپنی کیسی درگت بنا رکھی ہے یہ دوزخ ہمارا اپنا انتخاب ہے ایسی زندگی ہماری اپنی خواہش ہے۔

ہمیں مظلوم بننے کا خود شوق ہے، ہم خود ترستی کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں ہمیں درد میں ہی تسکین ملتی ہے ہمیں دکھوں میں ہی مزا آتا ہے ہمیں ماتم میں ہی ذلت ملتی ہے ورنہ کسی نے ہمیں روکا ہے اور کو ئی ہمیں روک بھی کیسے سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے آج کو بدل ڈالیں ہم بھی جینا شروع کردیں، اگر پوری دنیا اپنے آج کو بدل سکتی ہے توہم بھی اپنے آج کو بدل سکتے ہیں۔ آئیں! آج ہی سے جینا شروع کردیں اور زندہ رہنے کو ملتوی کرنا بند کردیں کیونکہ زندگی صرف اور صرف ایک دن کے لیے بسر کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ یاد رہے آج کبھی واپس آنے والا نہیں ہے اور یہ زندگی بھی نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔