کرکٹ پھر سہی

ایاز خان  اتوار 13 دسمبر 2015
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

کرکٹ سیریز کی قربانی دے کر پاکستان اور بھارت میں کمپری ہنسو ڈائیلاگ کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ ٹوٹا تھا تو انھیں کمپوزٹ ڈائیلاگ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

یہ انگریزی کے الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ ہمارے جیسے اردو میڈیم کے لیے ان کا نام پہلے بھی جامع مذاکرات تھا اور اب بھی ’’جامع‘‘ ہی ہے۔ ویسے سیانے کہتے ہیں نام میں کیا رکھا ہے۔ نام کی لاج تو کام نے رکھنا ہوتی ہے، کام اگر ٹھیک ہے تو پھر نام کوئی بھی رکھ لیں، فرق نہیں پڑے گا۔ آپ کو یاد ہو گا آخری جامع مذاکرات نومبر 2008ء میں ہوئے تھے۔ سات سال سے زیادہ کے تعطل کے بعد اب جنوری 2016ء میں پھر سے ان کا آغاز ہو رہا ہے۔

مذاکرات کی بحالی کے لیے کرکٹ سیریز کی قربانی کیوں دینا پڑی، اس کی وجوہات کا مجھے علم نہیں ہے، حکومت پاکستان کافی عرصہ پہلے اس سیریز کی باضابطہ اجازت دے چکی تھی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئیں تو کرکٹ کے کروڑوں شائقین کو امید تھی کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے کرکٹ سیریز کی بحالی کا اعلان کریں گی۔

ان کی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی، مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے مذاکرات ہوئے لیکن شائقین کرکٹ کے لیے ان ملاقاتوں اور مذاکرات سے کچھ برآمد ہوا نہ بھارتی وزیر خارجہ کی میڈیا کے ساتھ ڈھائی منٹ کی گفتگو سے کچھ حاصل ہو سکا۔ سرتاج عزیز سے پوچھا گیا کرکٹ سیریز کا کیا ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز نے کرنا ہے، حکومتوں نے نہیں۔ حیرت ہے اگر حکومتوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا تو پھر وزیر اعظم پاکستان نے اس سیریز کی منظوری کیوں دی تھی؟ بھارتی بورڈ بار بار یہ کیوں کہتا رہا کہ حکومت اجازت دے گی تو آگے بڑھیں گے۔

دونوں ملکوں میں کرکٹ کا کتنا کریز ہے اس کا اندازہ عمران خان کی جمعہ کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات اور اس کے بعد ایک پروگرام میں شرکت سے لگایا جا سکتا ہے۔ عمران نے مودی سے 10 منٹ کی ملاقات میں بھی کرکٹ تعلقات کی بحالی کا مطالبہ کرنا ضروری سمجھا۔ ملاقات کے بعد کپتان نے بتایا کہ ان کے مطالبے پر بھارتی وزیر اعظم مسکرا کر خاموش ہو گئے۔

اس مسکراہٹ میں ہاں تھی یا ناں، عمران بھی نہیں سمجھ پائے۔ کپل دیو کے ساتھ جس پروگرام میں عمران خان شریک تھے، وہاں موجود لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دونوں ملکوں میں کرکٹ سیریز کا انعقاد چاہتے ہیں تو 90 فیصد نے ہاتھ اٹھا کر اس کے حق میں اپنی رائے دی۔ شائقین پاکستانی ہوں یا انڈین ان کی خواہش اپنی جگہ، اصل بے چینی اگر دونوں طرف کسی میں مسلسل نظر آتی رہی (پریشان تو وہ اب بھی ہیں) تو وہ صرف چیئرمین پی سی بی شہر یار خان ہیں۔ وہ ابھی تک ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔

ان کا بس چلے تو کل ہی دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو اکٹھا کریں اور میدان میں اتار دیں۔ گزرے چند دنوں میں ان کے مختلف بیانات بھی ان کی بے چینی کی گواہی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’اچھی خبر آنے والی ہے، دو دن اور انتظار کر لیں، آج شام تک جواب نہ ملا تو سیریز ختم، جائلز کلارک کوشش کر رہے ہیں، وقت گزر گیا، اب انتظامات نہیں کر سکتے، ابھی سیریز کا امکان ہے‘‘۔

موصوف نے اور بھی بہت کچھ کہا لیکن فی الحال ان کے اس ڈائیلاگ پر بات ختم کرتے ہیں کہ اب سیریز نہ ہوئی تو پھر ایک سال انتظار کرنا پڑے گا۔ شہر یار خان ٹھیک کہتے ہیں رواں سال میں تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ یکم جنوری سے نیا سال شروع ہو جائے گا۔ ظاہر ہے 31 دسمبر کے بعد اگر سیریز ہوتی ہے تو وہ ایک سال بعد ہی ہو گی۔ شہر یار خان صاحب کا قصور نہیں ہے، وہ عمر کے جس حصے میں ہیں، کرکٹ کا بوجھ اٹھانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

شہر یار خان چیئرمین پی سی بی بنے تو سمجھا گیا اب پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ موصوف چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی بھی کرتے رہے ہیں اس لیے نواز شریف حکومت نے اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ خاں صاحب نے بھارت کے چکر تو بہت لگائے مگر تاحال اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کی فی الوقت آخری بھارت یاترا کو تو بھلا دینا ہی بہتر ہے۔

جامع مذاکرات کے لیے کرکٹ سیریز کی قربانی کیوں دی گئی، یہ سوال اہم ہے۔ بظاہر تو بڑا آسان تھا کہ جامع مذاکرات کے ساتھ ہی کرکٹ سیریز کرانے کا اعلان بھی کر دیا جاتا۔ توقع تو یہ تھی کہ سشما سوراج کرکٹ سیریز کی بحالی کا اعلان کر کے واپس چلی جائیں گی۔ انھوں نے جب جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تو پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے دو ہفتے پہلے کوئی یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ دونوں ملکوں میں اچانک اتنی قربتیں بڑھ جائیں گی کہ مذاکراتی عمل پھر سے ٹریک پر آ جائے گا۔

اب لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ اتنا بڑا قدم اٹھا لیا گیا تو پھر کرکٹ کے شائقین کو مایوسی میں کیوں رکھا گیا۔ میرے خیال میں یہ طے پایا ہے کہ فی الحال کرکٹ نہ کھیلی جائے، ابھی بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کو مذاکرات کی بات ہضم ہو جائے تو کافی ہے۔ ذرا سوچیں اگر سیریز مذاکرات کی بیٹھک سے پہلے ہو جاتی ہے اور پاکستانی ٹیم بھارت کو شکست دے دیتی ہے تو پھر انتہا پسند ہندوؤں کا ردعمل کیا ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ مذاکرات کے عمل کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے کرکٹ کی قربانی دی گئی ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے شیڈول کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔ 8 مارچ سے بھارت میں شروع ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک ہی پول میں رکھی گئی ہیں۔ گرین شرٹس سیمی فائنل میں پہنچ گئے تو ممبئی کے بجائے دہلی میں کھیلیں گے۔ فائنل کولکتہ میں ہونا ہے اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ انتہا پسند ہندو پاکستان کا بھارت میں کھیلنا اور دونوں ٹیموں کا آپس میں مقابلہ کیسے برداشت کر پائیں گے۔

سری لنکا میں مجوزہ پاکستان بھارت سیریز اب نہیں ہو گی، ہوٹلوں میں بکنگ بھی کینسل ہو چکی ہے۔ پی سی بی کے حکام کے دوروں کو بھی بریک لگ جائے گی۔ ان کی آنیاں جانیاں قابل دید تھیں۔ اب اس سیریز کا امکان اگلے سال کے وسط یا ستمبر، اکتوبر میں ہے۔ پاکستان کو جون کے آخر میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی سیریز کھیلنے انگلینڈ جانا ہے۔ یہ دورہ ستمبر تک جاری رہے گا۔

پاکستان انگلینڈ سیریز کے آغاز سے قبل، اس کے اختتام پر یا درمیان میں بھارت کے ساتھ گوروں کے میدانوں میں میچ ہو سکتے ہیں۔ وہاں کراؤڈ کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔ پاکستان یا انڈین ٹیم جب انگلینڈ کے کسی میدان میں گوروں کے خلاف بھی اترتی ہے تو ان کے شائقین کی اتنی بڑی تعداد ہوتی ہے کہ گورے اقلیت میں بدل جاتے ہیں۔ فی الحال جامع مذاکرات پر گزارا کریں، کرکٹ کا کیا ہے وہ پھر کبھی کھیل لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔