ایوان کا کارخیر ، مردم شماری کی ضرورت

شاہد سردار  اتوار 13 دسمبر 2015

وزارت سفیران کی دستاویز میں یہ انکشاف کہ پاکستان میں 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغانی موجود ہیں اور اس سے زیادہ یہ ہولناک سچائی ہمارے وزیر داخلہ کے حوالے سے سامنے آئی ہے کہ ہمارے معزز ایوان کے بعض ارکان نے غیر ملکیوں کو ’’نادرا‘‘ میں بھرتی کروا کے ان کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ شناختی کارڈ جن لوگوں کو جاری کیے وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں، محب وطن ہرگز نہیں ہوسکتے۔

گو اس سلسلے میں وزیر داخلہ نے بروقت کارروائی کرکے ایک لاکھ شناختی کارڈ بلاک کرا دیے ہیں اور نادرا کے دو سو سے زائد افراد کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔موجودہ حالات میں ’’نادرا‘‘ جیسے حساس ادارے میں غیر ملکیوں کو بھرتی کرنا بلکہ انھیں پلانٹ کرنا پاکستان کے ساتھ غداری نہیں توکم ازکم ’’سہولت کاری‘‘ ضرور ہے۔

دہشت گردوں کی مدد اور معاونت خود ارکان پارلیمنٹ کے بعض لوگوں کے ہاتھوں ہو تو پھر وطن کے قیام پر سوالیہ نشان نہ ابھرے تو پھر کیا واضح ہوگا؟ وہ ایوان جو ملک کی خودمختاری کی حفاظت کا کسٹوڈین ہے ، اگر اس کے کچھ ارکان ہی اس کی سالمیت کو سبوتاژ کرنے کے اقدامات کرنے میں ملوث ہیں تو اس پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر باڑھ باغ کو کھانے پر تل جائے تو پھرکیا ہوگا؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی کی ایک دن کی کارروائی پر قوم کے خون پسینے کی کمائی کے دس سے بارہ لاکھ روپے صرف ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اراکین سیکریٹریٹ کے معمول کے اخراجات اور ارکان کی تنخواہیں، الاؤنس اور مراعات ان اخراجات سے الگ ہیں۔

اس لیے قوم اپنے ارکان پارلیمان یا ایوان کے ارباب اختیار سے بجا طور پر یہ توقع کرتی ہے کہ وہ ان کے مسائل کو اولین ترجیح دیں گے یا وہ ان فرائض کو احسن طریقے سے انجام دیں گے، جن کے لیے انھیں منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجا گیا ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے ارکان اپنی تنخواہیں، الاؤنسز اور مراعات تو پوری طرح حاصل کر رہے ہیں لیکن ایوان کی کارروائی اور اپنے فرائض منصبی میں دونوں کی دلچسپی واجبی بھی نہیں۔

صرف ایک موقعے پر دونوں طرف کے ارکان کے درمیان یک جہتی نظر آتی ہے اور وہ موقع ہوتا ہے ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اور الاؤنسز بڑھانے کا۔ اس ایک موقعے کے سوا قومی اسمبلی کے تقریباً ہر اجلاس میں یہی منظر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے ارکان ڈیسک بجا کر اور نعرے لگا کر چلے جاتے ہیں اور اس کے جواب میں سرکاری بینچوں کی یہ کارکردگی سامنے آتی ہے کہ وزرا اور حزب اقتدار کے ارکان اسمبلی اپوزیشن پر تنقید کرتے اور ان پر تعاون نہ کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں مگر اپنا کورم پورا رکھنے کی ذمے داری بھی پوری نہیں کرتے۔

ہمارے وزیر داخلہ نے ہمارے ایوان کے ’’کارخیر‘‘ کو تو بتا دیا کاش کوئی اور ذمے دار اس بے خبر قوم کو یہ بھی بتا دیتا کہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان، وطن جنت نظیر کے اس ایوان کے ’’سہولت کاروں‘‘ کے اسم گرامی کیا کیا ہیں اور یہ کہ ان کا تعلق کس کس سیاسی جماعت سے ہے اور کیا ایسے لوگوں کو دوبارہ سے پارلیمنٹ میں گھسنے کی اجازت ہونی چاہیے؟

کون نہیں جانتا کہ ہمارا ملک جغرافیائی لحاظ سے چند دشمن ممالک کے پڑوس میں واقع ہے۔ حال ہی میں مختلف اور نامعلوم وجوہ کے باعث افغانستان میں 20 پاکستانیوں کو مار دیا گیا اور افغان سفارت خانے کی جانب سے ان کے بارے میں کوئی وضاحت بھی اب تک سامنے نہیں لائی گئی ہے۔ محکمہ خارجہ کے دفتری اعداد وشمار کے مطابق ہمارے ملک میں 14 لاکھ 50 ہزار رجسٹرڈ افغانی موجود ہیں اور ان کی رجسٹریشن بھی اس سال 31 دسمبر 2015 کو ختم ہوجائے گی۔

رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد بارہ لاکھ آٹھ ہزارکی تجدید کی گئی ہے جب کہ تین لاکھ اکیس ہزار پانچ سال سے کم عمر بچے والدین کے کارڈ پر رجسٹرڈ ہیں اور پاکستان بھر میں کیمپس میں موجود افغان پناہ گزینوں کی تعداد چار لاکھ چھیانوے ہزار نو سو سے زائد ہے جب کہ کیمپوں سے باہر دس لاکھ اڑتیس ہزار افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ یہ بھی آگاہی دی گئی ہے کہ اس سال کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔

بلوچستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی کی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور وہاں بھاری تعداد میں انڈین جاسوسوں کی موجودگی کا انکشاف ہوچکا ہے۔ کراچی، لاہور اور خیبر پختونخوا میں متعدد غیر ملکی لوگوں کی سرگرمیاں بھی ہماری خفیہ ایجنسی ظاہر کرکے ارباب اختیار کو ’’خبردار‘‘ کرچکی ہے۔ افسوس ہمارے معاشرے میں روایت کی جڑیں اکھڑ جانے کی وجہ سے ایک سطحی تموج پیدا ہوگیا ہے اور فکر و عمل میں وہ گہرائی نہیں رہی جسے ’’قدر‘‘ کا نام دیا جاسکے یہی وجہ ہے کہ انسان یا ادارے کا ہلکا پن جلد ہی نمایاں ہوجاتا ہے۔

ہماری دانست ہمارے خیال سے وطن عزیز کو اس وقت ’’مردم شماری‘‘ کی اشد ضرورت ہے اور حکومتی سطح پر اس حوالے سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک میں امن عامہ کی خراب صورت حال کے باعث مارچ 2016 میں ہونے والی مردم شماری ملتوی کی جاسکتی ہے (جب کہ ملک میں ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا لازمی ہوتا ہے)

ملکی تاریخ پر نگاہ کی جائے اور اہم کوائف کو جانچا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان کی صورتحال کی وجہ سے مردم شماری نہ کرائی جاسکی تو 1972 مین یعنی صرف ایک سال کی تاخیر سے کرادی گئی پھر 1991 کے بجائے 7 سال کی تاخیر سے 1998 میں کرائی گئی اصولاً اگلی مردم شماری 2008 میں ہونا تھی جسے سیاسی وجوہات کو جواز بناکر ٹال دیا گیا اب 17 سال کے طویل عرصے کے بعد آنے والے سال یعنی 2016 میں مردم شماری ہونا تھی جسے ایک بار پھر ملتوی کرنے کی ’’خوشخبری‘‘ بیورو کریسی کی طرف سے سنا دی گئی ہے جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔

کسی بھی ملک میں معیشت سمیت قومی زندگی کے تمام شعبوں میں ترقیاتی اہداف کے تعین اور مستقبل کی منصوبہ بندے کے لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ملک کی آبادی کتنی ہے اس کے بڑھنے کی رفتار کیا ہے اور آنے والے وقت میں اس کی ضرورتیں کیا ہوں گی۔ 1998 کی مردم شماری کے وقت ملک کی آبادی 13 کروڑ سے کچھ زائد تھی اس کے بعد ایک مفروضہ شرح کے مطابق آبادی میں اضافہ ظاہر کیا جاتا رہا اور اس وقت 19 کروڑ 17 لاکھ 57 ہزار ہے مگر ہمارے سیاست دان، ماہرین معیشت اور تجزیہ کار اپنی تقریروں اور تبصروں میں 18 کروڑ بتاتے رہتے ہیں یعنی عملاً کسی کو معلوم نہیں کہ پاکستان کی حقیقی آبادی اس وقت کتنی ہے؟

ظاہر ہے جب آبادی کے بارے میں ہی درست معلومات نہ ہوں تو پالیسی ساز ادارے اس کی ضرورتوں کا صحیح تخمینہ کیسے لگا سکتے ہیں؟ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ قوم کو تعلیم، صحت، زراعت، روزگار، انفرااسٹرکچر اور دوسرے شعبوں میں کس طرح کی اورکتنی سہولتیں درکار ہیں، ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ حکام مردم شماری کے جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتے، ان کی ’’غفلت شعاری‘‘ اس سے بھی عیاں ہے کہ قائمہ کمیٹی میں سابقہ اجلاسوں کی سفارشات پر بریفنگ بھی نہیں دے سکے۔

ہماری حکومت کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور مردم شماری ملتوی کرنے کے بجائے مقررہ وقت پر اس کے انعقاد کو یقینی بنانا چاہیے۔اس بات سے ہر ذی ہوش آگاہ ہے کہ اس مملکت خداداد (پاکستان) کو قدرت نے ہر طرح کی نعمتوں، سہولتوں، وسائل اور ہر طرح کے قدرتی خزانے سے نواز رکھا ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اور قدرتی وسائل کو ہمارے ارباب اختیار اور ہم سب ’’مس یوز‘‘ کر رہے ہیں یا اسے برباد کر رہے ہیں۔

اس سے بھی سبھی واقف ہیں۔ اصل میں ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں نے پاکستان کو رکھا ہی لوٹ مار کے لیے ہے، انھیں کوئی دلچسپی نہیں کہ ’’ارض پاک‘‘ کے ساتھ ہونے کیا جا رہا ہے۔ ناکامیوں اور بدنامیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔