روشن سفر کے 100سال

ناصر ذوالفقار  اتوار 13 دسمبر 2015
 آئن اسٹائن اور ان کا عمومی نظریہ اضافیت، جس نے ایک صدی مکمل کرلی فوٹو : فائل

آئن اسٹائن اور ان کا عمومی نظریہ اضافیت، جس نے ایک صدی مکمل کرلی فوٹو : فائل

07 نومبر1919 ء کا دن، جب برطانیہ کے سب سے بڑے اخبار ’’د ی ٹائمز ‘‘ کی شے سرخی میں نمایاں طور پر درج تھا:
“Revolution in Science:New Theory of The Universe-Newtonian Ideas Overthrown!”

’’سائنس میں انقلاب: نیا کائناتی نظریہ۔ نیوٹن کے خیالات تہہ و بالا!‘‘
26 سالہ نوجوان کے تحریر کردہ وہ چار تحقیقی پرچوں نے کائنات کو جاننے کے بارے میں صدیوں پرانے تصوّرات کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کاغذات میں اس نوجوان سائنس داں نے اپنے نظریات کا خاکہ پیش کیا، اس میں روشنی کا ’’کوانٹم نظریہ‘‘ اور ’’نظریہ اضافیت ‘‘ اہم ترین تھے۔

اس کی تمام سوچوں کا محور آزادانہ وقت کے مطابق تھا اور نظریہ اضافیت ہی نے غیرمعروف نوجوان سائنس داں کو آئن اسٹائن بنایا۔ آئن اسٹائن برن، سوئزرلینڈ میں واقع سوئس پیٹنٹ آفس ہاؤس میں پیش کیے جانے والے معاملات کی جانچ پڑتال پر مامور تھے۔ اس کام میں آئن اسٹائن جیسے ذہن شخص کے لیے بہت زیادہ دماغی صلاحیت کی ضرورت نہ تھی۔ انہوں نے اس ملازمت کے دنوں میں کائنات کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اس کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے سوچ بچار میں مشغول رہے۔

آئن اسٹائن کی زندگی کا حاصل ہے کہ سب سے زیادہ انہوں نے اپنی ذات سے سیکھا۔ روشنی کے متعلق اس کی ماہیت اور ترکیب سمجھنے میں انسان کو صدیاں لگیں جب کہ روشنی کا آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت سے ملاپ کو ایک صدی سے زاید وقت ہوچکا ہے۔ اگرچہ ان کا ’’خصوصی نظریہ اضافیت‘‘ (Special Theory of Relativity) 1905 ء میں منظر عام پر آچکا تھا۔ تاہم اسے وقت کی مناسبت سے ہم آہنگ کرنے میں انہیں 10 سال لگے اور 1915 ء میں آئن اسٹائن کا عمومی اضافیت کا نظریہ (Genearl Theory of Relativity) سامنے آیا، جس نے فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔

اس طرح عمومی اضافیت کے نظریہ کو رواں سال(1915-2015) 100 برس مکمل ہوگئے ہیں اور یہ ایک صدی کا اہم ترین قصّہ بن چکا ہے جو کوئی پل دو پل کی بات نہیں! ابتدائی سطور میں دی گئی ’’دی ٹائمز‘‘ کی شے سرخی آئن اسٹائن کی اس پیش گوئی کے پورے ہونے کے بعد لگائی گئی تھی جو کہ انہوں نے عمومی نظریہ اضافیت کی رو سے 1911 ء کے ریاضیاتی عمل کی بنیاد پر کی تھی کہ ’’روشنی جو کسی دوسرے ستارے سے ہم تک آرہی ہو تی ہے وہ سورج کی کششِ ثقل (گریویٹی) کے زیراثر بَل (خم) کھا جاتی ہے۔‘‘

چناںچہ 29 مئی 1919 ء میں اس پیش گوئی کو درست ثابت کردیا گیا جب سورج گرہن کے دوران ماہرطبیعات سر آرتھر ایڈینگٹن نے اس کا مشاہدہ کرلیا تھا اور یہ غیرمعمولی مشاہدہ میڈیا کی زینت بنا، جس نے آئن اسٹائن کو عالمی شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ سر ایڈینگٹن وہ ہی شخص ہیں جن کے بارے میں 100 سالوں پہلے یہ قول مشہور تھا کہ دنیا میں ’’نظریہ اضافیت‘‘ کو سمجھنے والے محض دو آدمی ہیں جن میں آئن اسٹائن کے بعد وہ دوسرے شخص تھے۔
زندگی اور سائنسی کیریر:
دنیا کے سب سے ذہین انسان اور 20 ویں صدی کے عظیم ریاضی داں اور ماہرطبیعات آئن اسٹائن 14 مارچ 1879 ء میں جرمن امپائرالم (Ulm) میں پیدا ہوئے تھے جو کہ ’’Kingdom of Württemberg‘‘ میں واقع ہے۔ 76 سال کی عمر میں پرنسٹن یونیورسٹی، نیوجرسی، امریکا میں انتقال ہوا۔ انہوں نے دو شادیاں کیں ان کی پہلی شریک حیات ملوا میرک (Mileva Maric) تھیں جن سے ان کے دو بیٹے ہینز البرٹ اور اِیڈوُرڈ البرٹ پیدا ہوئے تھے۔ میرک کو 1919 ء میں طلاق ہوئی تھی اور آئن اسٹائن کی دوسری شریک حیات ان کی فرسٹ کزن ایلسالو ونتھیل(Elsa Löwenthal) تھیں جوکہ بیماری کے سبب 1936 ء میں فوت ہوگئیں جب کہ دونوں بیٹے ہینز(1973) اور اِیڈوُرڈ(1965) جنہیں آئن اسٹائن پیار سے’’ Tete ‘‘کہتے تھے، بھی انتقال کرچکے ہیں۔

آئن اسٹائن کی ایک پوتی ایولین آئن اسٹائن ابھی حیات ہیں۔ ان کے والد ہرمنِ آئن اسٹائن ایک الیکٹریکل انجینئر تھے اور بھائی کے ساتھ بجلی کے سامان کا کاروبار کرتے تھے لہذا انکی فطری خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی الیکٹریکل انجنیئر بنے، لیکن آئن اسٹائن نے ایک نظریاتی طبیعات داں بننا پسند کیا اور فزکس میں ہزاروں، لاکھوں لوگو ں کے لیے نئی راہیں ہموار کیں۔

بچپن کے ابتدائی ایام میں جب کہ انہوں نے عام بچوں کے برعکس بولنا دیر سے شروع کیا تھا۔ ان کے بارے میں یہ حقیقت ہے کہ ان کی نشوونما میں بڑی محنت ومشقت کارفرما رہی اور ان کے والدین اپنے بچے کے سیکھنے کی صلاحیتوں پر حیران و پریشان ہوجاتے تھے۔ آئن اسٹائن اپنے ساتھی طالب علموں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے والے تھے اور اسکول میں ہم جماعتوں پر سبقت لے جانے والے نہ تھے۔

اپنی بات پر اَڑ جانے والا ایک ثابت قد م بچّہ تھا، جس کے بارے میں یہ خیال عام رہا ہے کہ وہ اسکول میں ریاضی میں نکمے تھے، جب کہ سچائی یہ ہے کہ انہیں حسابی مشقوں کو سنجیدگی سے حل کرتے ہوئے دیکھا جاتا تھا، لیکن وہ علامتی اور روایتی تعلیمی استعداد رکھنے والے بوگس ٹائپ اسکول سے کراہیت محسوس کرتے اور سخت نفرت کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اساتذہ سے ان کی ان بن رہی اور تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ۔ اسی لئے وہ کہ 15 سال کی عمر میں اسکول سے فارغ کردئیے گئے۔ اس کے استادوں کو اعتراض تھا کہ وہ ایسے الٹے سیدھے سوالات کرتا ہے جس سے کلاس کی فضاء خراب ہوتی ہے اور وہ کبھی کچھ نہ بن پائے گا ۔

1897 ء کا سال ہے، جب نوجوان لڑکے نے میونخ میں اسکول کو خداحافظ کہنے کے بعد اپنے دماغ کو مشاہدے کے لیے آزاد چھوڑ دیا اور وہ جنوبی اٹلی میں ’’وینچی‘‘ کی سڑکوں پر گشت کرتا رہا۔ آئن اسٹائن کچھ عرصہ اٹلی میں رہے، پھر اٹلی سے زیورخ کا رخ کیا اور خواہش کے مطابق زیورخ کالج میں داخلے کا رحجان ٹیسٹ دیا اور داخلے کی کوشش کی مگر وہ اس امتحان میں ناکام ہوگئے۔ یہاں بھی ان کے بارے میں ایک خیال ہے کہ وہ شاید حساب میں کم زور تھے، جب کہ ریاضی میں فیل ہونا ایک افسانوی کہانی ہی لگتا ہے۔

اصلیت میں یہ ان کے تعلیمی کیریر کا نقطہ آغاز بننے جارہا تھا۔ وہ بانٹی، زولوجی اور لسّانیات والے سیکشن میں ضرور فیل ہوئے تھے مگر ریاضی اور فزکس میں اچھے گریڈ سے پاس تھے۔ اس کے بعد اس غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طالب علم نے کتابوں کو مات دی، ان کا دوبارہ امتحان لیا گیا جس میں وہ کام یاب ہوچکے تھے۔ آئن اسٹائن اب بھی سارے کالج میں کندذہن طالب علم سمجھے جاتے تھے، جس نے کئی کلاسیں چھوڑیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک کاز سے پڑھائی چاہتے تھے جس کے باعث وہ اپنے استادوں سے نالاں رہے اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، حتٰی کہ انہیں گریجویشن کے بعد تک اپنی ملازمت کے حصول میں بھی دقت اٹھانی پڑی تھی۔

ان منفی ریمارکس کی وجہ سے جو کہ ان کے ڈوکومینٹس میں قلم بند کیے تھے۔ حیرت انگیز طور پر آئن اسٹائن جیسے ذہین شخص نے ملازمت کی تلاش میں دو مایوس کن سال گزارے تھے۔ بالآخر ان کے والد کے قریبی دوست نے آئن اسٹائن کے لیے ایک دفتری ملازمت کے حصول کو ممکن بنایا۔ اس ملازمت کے دوران ہی آئن اسٹائن نے اپنے تحقیقی پرچوں کو ترقی دے کر حتمی شکل دی جو کہ ایک عظیم کام کی صورت دنیا کے سامنے آیا۔ آئن انسٹائن کے یہ تحقیقی پرچے آنس میرِابلسِ کے نام سے منظرِعام پر آئے تھے، جو چار مضامین (آرٹیکلز) پر مشتمل تھے۔1 ۔فوٹو بجلی اثر(Photo Electric Effect) 2 ۔ براؤنی حرکت(Brownian motion) 3۔ خصوصی نظریہ اضافیت Theory of Relativity) (Special 4 ۔ نامی گرامی مساوات E=mc2 ۔ آئن اسٹائن کے یہ چار آٹیکلز 1905 ء میں سائنسی جریدے ’’سائنٹیفک جرنل‘‘ میں شائع ہوئے تھے۔

ان چاروں پرچوں نے جدید طبیعات کی بنیاد رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کے باعث خلاء، وقت اور مادّے کے بارے میں قدیم خیالات یکسر تبدیل کردیے گئے۔ ان کے ہم عصروں نے اسے تسلیم کرلیا اور انہیں بے پناہ شہرت و عظمت حاصل ہوگئی اور ممکنہ طور پر وہ 1921 ء کے فزکس نوبیل پرائز کے حق دار ٹھیرے۔

آج سائنس داں کائنات کی تشریح دو بنیادی اہمیت کے نظریات سے کرتے ہیں اور یہ جدید طبیعات کے دو ستون ہیں،1۔ کوانٹم میکینکس،2۔ عمومی اضافیت کا نظریہ۔ کوانٹم میکینکس میں مظاہر کا مطالعہ انتہائی چھوٹے پیمانے (اسکیل ) پر کرتی ہیں جس میں ایک انچ کے لاکھویں، کروڑویں پیمانے تک پیمائش کی جاتی ہے جن میں کائنات کے بنیادی (ایلیمنٹری)ذرات جیسے الیکٹران، پروٹان، نیوٹران، پوزیٹران اور کوارک وغیرہ شامل ہیں، جن کا باریک بینی سے مطالعہ کوانٹم میکینکس سے کیا جاتا ہے، جب کہ عمومی نظریہ اضافیت کائنات سے متعلق معروف نظریہ ہے جو چند میل سے لے کر اربوں، کھربوں میلوں کے قابل مشاہدہ پیمانوں پر کائنات کا مطالعہ کراتی ہے۔

یہاں اس مفروضے کی بنیاد یہ ہے کہ فاصلہ اور وقت محض اضافی ہیں۔ نیوٹن کے قوانین ِحرکت نے مکاں (خلاء) کے متعلق مقام کے تصّور کو باطل قرار دے دیا تھا اور اضافیت کے نظریے سے مطلق زماں (وقت) کے تصّور سے چھٹکارامل گیا۔ اس نظریے میں میکسویل کے روشنی کے بارے میں نظریہ اور روشنی کی رفتار کی بھی جمع کردیا گیا ہے جس کے مطابق تمام مشاہدہ کرنے والوں کو اب روشنی کی رفتار کی ایک سی پیمائش کرنی چاہیے، چاہے اس کی رفتار کچھ بھی ہو۔ نظریہ اضافیت کا ممکنہ حوصلہ مند نتیجہ یہ ہے کہ اس سے زماں و مکاں کے بارے میں پچھلے تمام نظریات میں انقلاب رونما ہوچکا ہے۔ اس میں زماں (وقت) مطلق ہے، جب کہ مکاں (خلاء) مطلق نہیں ہے۔ مطلق وقت پر ہمیشہ سارے مشاہدہ کرنے والوں کا اتفاق نہیں ہوسکتا ہے کہ روشنی نے کتنا فاصلہ طے کیا ہے۔

آئن اسٹائن کی شہرۂ آفاق مساوات :E=mc2 ہے۔ اس فارمولے کی رو سے یہاںE توانائی، m کمیت اور c روشنی کی رفتار ہے۔ توانائی کمیت سے متناسب ہے یعنی جب توانائی بڑھے گی تو کمیت میں بھی اضافہ ہوگا۔ روشنی کی رفتار طے کردہ فاصلے کو صرَف شدہ وقت سے تقسیم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی رو سے مختلف جگہوں سے مشاہد کرنے والے روشنی کی مختلف تیزی (رفتار) کی پیمائش کریں گے۔ اس کے برعکس اضافیت کی مدد سے تمام مشاہدہ کرنے والوں کو روشنی کی رفتار پر اتفاق کرنا ہوگا۔

اگر وہ روشنی کی کے طے کردہ فاصلے پر متفق نہ ہوں تو سفر میں لگنے والے وقت پر متفق نہ ہوں گے (یہاں کیوںکہ وقت وہ فاصلہ ہے جو روشنی نے طے کیا ہے، مگر اس پر مشاہدہ کرنے والے متفق نہیں اسی لیے یہ روشنی کی رفتار پر تقسیم ہوگا، جس کے لیے سب کا اتفاق ہے) دوسرے الفاظ میں اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ نظریہ اضافیت نے مطلق وقت کے مفروضے کا خاتمہ کردیا ہے اور ہر مشاہد ہ کرنے والا صرف اپنی گھڑی کے حساب سے وقت کو ناپے گا اور سب ہی کے پاس ایک ہی وقت رکھنے والی گھڑیاں ہوں تو بھی یہ لازمی نہیں کہ تمام ہی مشاہد ہ کرنے والے آپس میں اتفاق رکھیں ۔

چناںچہ اس کی آسان تشریح کی جاسکتی ہے کہ نظریہ اضافیت کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ تمام ایسے مشاہدہ کرنے والوں کے لیے جو کہ خود حرکت میں ہوں، ان پر سائنس کے قوانین یکساں لاگو ہونے چاہییں خواہ ان کی رفتار کچھ بھی ہو اور اضافیت کے نظریے میں وقت کے سابقہ مطلق خیال کو ترک کرنا پڑا۔ اس کے بجائے اب مشاہد ہ کرنے والا خود اپنی گھڑی کے مطابق وقت کا پیمانہ رکھتا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ مختلف مشاہدہ کرنے والوں کی گھڑیاں مختلف ہوں۔ اس طرح وقت اپنے مشاہدہ کرنے والے کے لیے ایک ذاتی تصّور بن کر رہ گیا۔

کائنات سے متعلق عقل انسانی کی سمجھ میں وہ بات انیسویں صدی تک سمجھ سے بالا تر تھی، جسے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں چودہ سو سال پہلے بتادیا ہے،’’آسمانوں کو ہم نے (اپنے ) ہاتھوں سے بنایا اور یقینا ہم کشادگی کرنے والے ہیں ‘‘۔1915 ء میں آئن اسٹائن نے جب اپنا ’’عمومی نظریہ اضافت ‘‘ پیش کیا تو اس میں کائنات کی ابتداء میں عظیم دھماکے کی پیش گوئی چھپی ہوئی تھی۔ ’’بگ بینگ ‘‘ جسے اب تک کا سب سے مانا جانے والا کائناتی نظریہ سمجھا جاتاہے، اس کے مطابق دھماکے سے پہلے کائنات ایک نقطے یا یکتائیت پر مرکوز تھی اور جسے عرف عام میں ’’سنگولیٹری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

1970 ء میں برطانیہ کے معروف سائنس داں اور آئن اسٹائن کے ہم پلہ ماہرطبیعات و ریاضی داں اسٹیفن ہاکنگ نے ڈاکٹر راجرپین روز کی شراکت میں ثابت کردیا کہ ’’کائنات کی ابتدا ایک سنگولیٹری سے ہوئی تھی اور اس کا اختتام بھی عظیم سمٹاؤ(Big Crurch) کے نقطے یا سنگولیٹری پر ہوگا۔‘‘ آئن اسٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریہ کو تجربات کی روشنی میں جانچنا ایک کھلا چیلینج تھا ۔1917 ء میں امریکا میں ماؤنٹ ولسن پر ایک دیو قامت فلکیاتی دوربین (ٹیلی اسکو پ) کو مشاہدے کے لیے تیار کرلیا گیا تھا، تب امریکی ماہرفلکیات ایڈون ہبل اور ان کے اسسٹنٹ ملٹن ہمیسن نے کائنات کی پیدائش کے حوالے سے حیران کن اور سرپرائز کے طور پر یہ دریافت کرلیا کہ کائنات عظیم دھماکے کے بعد پھیل رہی ہے اور پھیلتی ہی جارہی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے اس دریافت کے بارے میں کہا ہے کہ 20 صدی کے دوسرے عشرے میں یہ دریافت عظیم فکری انقلابات میں سے ایک تھی۔ 1929 ء میں ہبل نے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو سچ کر دکھایا کہ وہ درست تھا اور اس وقت یہ انکشاف ہو ا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دُور بھاگ رہی ہیں۔ گویا کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی اور کائنات کی توسیع اور بناوٹ ایک ایٹمی دھماکے کا نتیجہ ہے۔

اب ہمیشہ سے قائم و دائم سمجھی جانے والی کائنات کا قدیم ترین تصّور یکسر بدل چکا ہے اور اس کی جگہ ایک حرکت پذیر اور پھیلتی ہوئی تعمیر نو والی کائنات نے لے لی ہے، جس نے اپنے ماضی میں ایک مخصوص وقت پر اپنی ابتدا کی اور مستقبل کی ایک مقررہ ساعت پر انجام پذیر ہوجائے گی۔ نیوٹن کے ماڈل میں کائنات محدود اور ابد تک قائم پذیر کائنات کا تصّور تھا اور بالاخر البرٹ آئن اسٹائن کے کائنات سے متعلق ریاضیاتی نظریہ اضافیت نے نہ صرف کائنات کے آغاز کی نشان دہی کی بل کہ کائنات کے پھیلنے کے تصّور کو بھی اُجاگر کردیا۔

کائناتی کشش اور رَد کی بنیادی قوتوں جن میں کم زور اور طاقت ور دونوں شامل ہیں، کو باہم یکجا کرکے طبیعات میں ایسا وحدتی نظریہ کی تلاش عرصہ دراز سے کی جارہی ہے جس کی مدد سے ہم کائنات کی تعریف کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کرسکتے ہیں۔ آئن اسٹائن نے بھی ایسے ہی ’’یونیفائیڈ فیلڈ تھیوری‘‘ کے لیے کوششیں کی تھیں مگر وہ کام یاب نہ ہوسکیں۔

اسٹیفن ہاکنگ بھی مانتے ہیں کہ آج سے 100سال پہلے سر آرتھر ایڈینگٹن کے مطابق نظریہ اضافیت کو سمجھنے والے محض دو آدمی تھے، لیکن آج صدی پورے ہونے پر عمومی نظریہ اضافیت کو یونیورسٹیوں کے ہزاروں طالب علم سمجھتے ہیں اور لاکھوں لوگ اس خیال سے کم ازکم آشنائی ضرور رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم مکمل وحدتی نظریہ دریافت کرلیتے ہیں تو اسے تھوڑے ہی وقت میں سمجھ لیا جائے گا۔ پھر ہم سب اس قابل ہوسکیں گے ان قوانین کو سمجھا سکیں جوکہ کائنات کا تعین کرنے والے ہیں اور ہمارے وجود کے آئینہ دار ہیں۔

آئن اسٹائن ایک نظر میں

ریائش اور شہریت: اٹلی، سوئزرلینڈ، آسٹریا (موجودہ چیک ریپبلک) بیلجیئم اور امریکا۔
تحقیقاتی شعبے: طبیعات، ریاضی اور فلسفہ۔
تحقیقات کے ادارے: یونیورسٹی آف زیورخ، سوئزرلینڈ۔ سوئس پیٹنٹ ہاؤس، برن، سوئزرلینڈ، چارلس یونیورسٹی (پراگ)ETH زیورخ،” کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (Caltech)، ” “Prussian Academy of Sciences، “Kaiser Wilhelm Institute” ،”University of Leiden” ، اور “Institute for Advanced Study”۔
آئن اسٹائن کی پہچان بننے والے نظریات:
٭خصوصی نظریہ اضافیت
٭ عمومی نظریہ اضافیت
٭فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ
٭نظریہ براؤنی حرکت
٭ آئن اسٹائن سالڈ
٭مساواتی اصول
٭ آئن اسٹائن قطر (Einstein radius)
٭مادہ و توانائی کی مساوات E=mc2 =
٭ آئن اسٹائن میدانی مساوات
٭بوس۔ آئن اسٹائن اعداد وشمار( statistics )
٭بوس۔ آئن اسٹائن گاڑھا پن(condensate)
٭ بوس۔ آئن اسٹائن باہمی تعلق
٭آئن اسٹائن۔ کارٹن نظریہ
٭آئن اسٹائن۔ انفیلڈ۔ ہوفمین نظریہ
٭آئن اسٹائن۔ دے حاس اثر
٭بوہر۔ آئن اسٹائن مباحثہ
٭ تجازبی لہریں (Gravitational wave)
٭آئن اسٹائن تعلق (حرکی نظریہ)
٭ کائناتی مستقل (Cosmological constant)
٭ کائناتی مدت (Cosmological term)
٭وحدتی میدانی نظریہ ( Unified Field Theory)
٭ای پی آر پیراڈوکس (EPR paradox)
تحقیقاتی مقالے اور کتب :
Annus Mirabilis papers (1905)
“Investigations on the Theory of Brownian Movement”(1905)
Relativity: The Special and the General Theory(1916)
The World as I See It”(1949)ـ”
“Why Socialism?”(1949)
“Russell-Einstein Manifesto”(1955)
آئن اسٹائن کی کتابوں کے اُردو تراجم:
1 ۔ ’’نظریہ اضافیت کے مطالب‘‘
2 ۔ ’’کائنات کے معمار‘‘
3 ۔ ’’دنیا جسے میں دیکھتا ہوں‘‘
4 ۔’’طبیعات کا ارتقاء‘‘
اعزازات: برنارڈ ایوارڈ (1920)، نوبیل انعام (1921) ، میتھوسائی (Matteucci) میڈل (1921)، برائے ممبر رائیل سوسائٹی1921) ForMemRS ( ، کوپلی (Copley) میڈل) (1925 ، میکس پلانک میڈل (1929) ٹائم پرسن آف دی سینچری (1999) ۔
٭منسوب انعامات:
آئن اسٹائن کے نام سے دیے جانے والے ایوارڈز یہ ہیں:
٭آئن آسٹائن ایوارڈ
٭آئن آسٹائن میڈل
٭آئن آسٹائن امن انعام
٭آئن آسٹائن عالمی انعام برائے ’’سائنس‘‘
٭ آئن آسٹائن انعام (APS)
٭آئن آسٹائن انعام برائے ’’لیزر سائنس‘‘
٭آئن اسٹائن کی نامکمل یا ناکامیاب تحقیقات :
1۔ خصوصی نظریہ اضافیت
2۔ سپر کنڈکٹیویٹی(Superconuctivity)
3۔ تجازبی لہریں (Gravitational Wave)
4۔ بلیک ہولز
5۔ کوانٹم میکینکس
6۔ EPR پیراڈوکس
7۔ کائناتی مستقل (Csmological Constant)
8۔ منکوسکی کا کام ( Minkowski’s work)
9 ۔ ہائزن برگ کا کام (Heisenberg’s work)
10۔ وحدتی میدانی نظریہ (Unified field theory)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔