ہارٹ آف ایشیا کانفرنس علاقائی تعاون اور سیاسی مفاہمت کا آغاز ہے!!

احسن کامرے  پير 14 دسمبر 2015
اسلام آباد میں ہونے والی ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

اسلام آباد میں ہونے والی ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کانفرنس گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں دنیا کے بڑے ممالک اور عالمی اداروں نے شرکت کی۔

اس کانفرنس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق‘ کانفرنس میں تمام ممالک سے کہا گیا کہ وہ افغانستان میں امن اور مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے میں تعاون اور کردار ادا کریں۔ اس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ امن کے عمل کو بڑھانے اور پائیدار امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا اور بات چیت کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ شروع کیا جائے ۔ اس کانفرنس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج بھی پاکستان تشریف لائیں اور اس طرح پاک بھارت تناؤ کم ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی، عسکری و خارجہ امور کے ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 ایس ایم ظفر (سابق وفاقی وزیر قانون)

پاک بھارت تعلقات اور پاک افغان تعلقات کے حوالے سے امریکا کے مفادات کی نوعیت الگ الگ ہے، اس لیے اس کانفرنس کو بھی اسی تناظرمیں دیکھنا چاہیے۔ افغانستان سے جب امریکی فوج واپس جارہی تھی تو طالبان مضبوط ہونا شروع ہوگئے تھے اور ایسا معلوم ہوا جیسے انہیں نئی زندگی مل گئی ہو۔ اس کے بعد امریکا نے مزید ریسرچ کی تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ طالبان کی قوت بڑھے گی اور اب اسے وہاں داعش کا خطرہ بھی نظر آرہا ہے لہٰذا پاکستان کی مددکے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ داعش صرف حملہ نہیں کرتا بلکہ علاقے پر قبضہ بھی کرتا ہے لہٰذا اگر شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہ افغانستان میں بھی قدم جما لیتا ہے تو امریکا کے لیے اس سے زیادہ تشویش ناک بات کوئی نہیںہوسکتی۔ میرے نزدیک امریکا کی اس علاقے میں بہت گہری دلچسپی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی پالیسی کو ’’ایف-پاک پالیسی‘‘ کا نام دیا ہے جبکہ بھارت کو اس میں شامل نہیں کیا۔ وہ اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے لہٰذا ہمیں بھی اس کانفرنس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس امریکا کی کوشش کی وجہ سے ہوئی تاکہ بگڑتے ہوئے حالات میں افغانستان اور پاکستان کو ایک میز پر لاکر، ایک پالیسی پر متفق کرنے گنجائش پیدا کی جاسکے۔

افغانستان میں دو مختلف نظریے کے لوگ اقتدار میں ہیں، ایک پاکستان کے حق میں ہے جبکہ دوسرا پاکستان کے مخالف ہے۔ افغانستان کی کمزور سیاسی حکومت، طالبان کے بڑھتے ہوئے کردار اور داعش کے خطرے نے، امریکا کو اس علاقے کے متعلق ایک نئی دلچسپی میں مبتلا کردیا ہے اور اب وہ یقینا کوشش کرے گا کہ اس کی اس دلچسپی کے مطابق ہم بھی آگے بڑھ سکیں۔ اس کانفرنس میں فارمولے تو اچھے بنے ہیں مگر انہیں سٹریٹجی کہنا غلط فہمی ہے۔ فارمولے اچھی خواہشیں ہوتی ہیں لیکن ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی امریکا کی دلچسپی ہے لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے۔اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی قسم کا تناؤ رہتا تو امریکا کے دونوں ممالک کے ایجنڈے پورے نہیں ہوتے تھے لہٰذا اس نے اپنے مفادات کی وجہ سے اب پاک بھارت تناؤ کم کروانے کا انتظام کیا۔ ہماری حکومتیں اور میڈیا اسے بریک تھرو کہتی ہیں لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیراعظم کے بجائے بھارتی وزیرخارجہ آئیں اور وزیرخارجہ صرف وہی کہہ سکتی تھیں جس کی انہیں اجازت تھی۔ وہ کسی بھی حوالے سے کوئی وعدہ کرکے نہیں گئیں بلکہ انہوں نے ہمیں مزید امیدیں دلا دی ہیں اور کسی بھی مسئلے پر فیصلے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔

پاک بھارت ڈائیلاگ کانام کمپوزٹ سے کمپری ہنسیو کر دیا گیا۔ کمپوزٹ ڈائیلاگ میں ہمارے صرف اہم مسائل تھے مگر کمپری ہنسیو میں شاید ان کاراہداری میں راستے کا مطالبہ بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے دورے سے صرف پاک بھارت تناؤ ختم ہوا ہے جبکہ ہمارے مسائل کے حل کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ افسوس ہے کہ ہم دوبارہ زیرو پوائنٹ پر پہنچ گئے ہیں اور ہم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے مذاکرات سے بھی پہلے کے دور میں چلے گئے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ کشمیر کے مسئلے میں جتنا وقت گزرے گا ، اتنی ہی بین الاقوامی دنیا کی دلچسپی ختم ہوجائے گی اور پھر کشمیر کا حصول مزید مشکل ہوجائے گا۔ پاکستان نے یقینا حالات کو بہتر کرنے کے لیے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور وہاں سے افواج پاکستان کی واپسی کا ذکر نہیں کیا، اس کے علاوہ سمجھوتہ ایکسپریس کی بات بھی نہیں کی لہٰذا اگر اب کمپری ہنسیو ڈائیلاگ ہیں تو ان معاملات کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سیاچن میں بھی دونوں ممالک کا نقصان ہورہا ہے لیکن اس کا بھی کوئی حل نہیں ہورہا۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ پانی کا بھی مسئلہ ہے لیکن اس پر بھی بات نہیں کی جارہی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں پانی کا تنازعہ پانی کی جنگ نہ بن جائے۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کی افادیت اس کے انعقاد سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ ماسوائے افغانستان اور پاکستان کے، اس کانفرنس میں شریک کسی بھی دو ممالک کا مفاد مشترک نہیں ہے۔ افغانستان کے مسائل نے اسے آج تک مستحکم نہیں ہونے دیا اور کوئی بھی ان مسائل کی وجوہات دور کرنے کی کوشش نہیں کررہا لہٰذا جب تک وہ دور نہیں ہوںگی تب تک امن قائم نہیں ہوگا۔ نئے مالیاتی نقشے میں افغانستان اور پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے ہمیں کمزور کیا جارہا ہے تاکہ ہم اپنی مرضی کی کوئی پالیسی تشکیل نہ دے سکیں۔ امریکا نے افغانستان میں جنگ پر اربوں ڈالر لگائے ہیں لہٰذا وہ افغانستان سے کبھی بھی نہیں جائے گا اور خاص کر ان حالات میں جب پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک معاہدہ چل رہا ہو اور پاکستان معاشی مرکز بنانے کی بات کررہا ہو، امریکا اپنی افواج واپس نہیں بلائے گا۔ مشرقی وسطیٰ میں ترکی واحد ملک رہ گیا تھا جو مضبوط نظریے کی بنیاد پر ایک طاقت بن گیا تھا اب اسے بھی مسائل میں پھنسا دیا گیا ہے۔ ترکی کی تاریخ ایسی ہے کہ وہ مسائل سے نکلنے کی ہمت رکھتا ہے لیکن جس طرح کے حالات بن گئے ہیں میرے نزدیک اس وقت وہ شدید مشکلات کا شکار ہے لہٰذا دعا ہے کہ وہ ان مسائل سے بھی نکل آئے۔

سعودیہ عرب نے جس وجہ سے بھی شام میں مسائل شروع کروائے ہیں، وہ ان سے پیچھے ہٹا ہے لہٰذا اب سعودیہ عرب بھی خطرات کا شکار ہے۔ داعش فتنا ہے لیکن یہ خاص مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے اور یہ واحد تنظیم ہے جن کی ایک ریاست ہے اور وہ تیل کی تجارت بھی کرتے ہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان کو اس سطح تک آنے کیوں دیا گیا۔ امریکا اور برطانیہ یہ سمجھتے ہیں کہ بمباری اس کا حل نہیں ہے، اس سے مسئلہ مزید بڑھے گا۔ اس کے لیے زمینی کارروائی ضروری ہے لیکن اس کے لیے کوئی تیار نہیں ہے اور ایسا صرف ایران، پاکستان اور کچھ حد تک ترکی کرسکتا ہے۔ ایران کی حیثیت سب کے سامنے ہے جبکہ پاکستان، مشرقی وسطیٰ کے مسائل اور سعودیہ عرب اور ایران میں تلخیاں ختم کروانے کی کوشش کرسکتا ہے اور جو شیعہ سنی کی فضا قائم کردی گئی ہے اس کے خاتمے میںا ہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ پاکستان اپنی اہمیت کو نہیں سمجھتا ۔ ہم نے باقی ہر طرف کوشش کی ہے لیکن ایران کے ساتھ معاملہ نہیں بڑھایا۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’سی پیک‘‘ منصوبے میں ایران کی شمولیت کے بغیر اس منصوبے کی زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔

دنیا اس منصوبے کی اہمیت سمجھتی ہے، بھارت بھی اس سے بخوبی واقف ہے۔ اگر ہندوستان اس منصوبے میں شامل نہیں ہوتا تو وہ اکیلا رہ جائے گا لہٰذا اب وہ مجبوراََ پاکستان آیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اس کانفرنس کو ’’مس ہنڈل‘‘ کیا ہے اور بھارتی وزیر خارجہ کو ہیڈ آف سٹیٹ کا پروٹوکول دیااور ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ میلہ صرف سشما سوراج کے لیے سجایا گیا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس وقت بات چیت آگے بڑھانا ہماری نہیں بلکہ بھارت کی مجبوری ہے لیکن ہم نے اسے اپنے لیے مجبوری بنا لیا ہے۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں انتہا پسندی کی جو لہر آئی ہے وہ ہندوستان کے وجود کے لیے خطرہ ہے اور اس وقت سب سے بڑا خطرہ خود مودی بنے ہوئے ہیں۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا حاصل کچھ نہیں ہوگا، حاصل تب ہی ہوگا جب پاکستان اور افغانستان خود بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں گے۔ اس کانفرنس میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جنہوں نے ان ممالک کومل بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں، مذاکرات میںان کی شمولیت کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہر سے کوئی فیصلہ مسلط کیا جاسکتا۔

عبدالغفار عزیز (انچارج خارجہ امور ونگ، جماعت اسلامی)

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا نام بہت اچھا ہے اور اس میں علامہ ا قبالؒ کے افکار کو سمویا گیا ہے۔افغانستان کو ملت کے دل کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا اور قابل ذکر قوتوں کا یہاں جمع ہونا بہت بڑی کامیابی ہے۔بنیادی طور پریہ کانفرنس اسی جادوئی ہاتھ کا کرشمہ ہے جس نے افغانستان میں الیکشن جیتنے اور ہارنے والے، دونوں کو اقتدار دے دیا۔ میرے نزدیک اگر وہ جادوئی ہاتھ کارفرما نہ ہوتا تو کسی بھی صورت اس طریقے سے اس کانفرنس کا انعقاد نہ ہوتا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا اسلام آباد میں منعقد ہونا اور بڑی قوتوں کا یہاں موجود ہونا یقیناََ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ افغانستان اگر دل ہے توپاکستان وہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے اس دل کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔

میرے نزدیک یہ کانفرنس پاکستان کو سنہری موقع فراہم کرتی ہے کہ پاکستان اپنی سٹریٹجک حیثیت کے پیش نظر اپنا کردار ادا کرے۔ اس کانفرنس کا موثر اور نتیجہ خیز ہونا جہاں اس میں جمع ہونے اور جمع کرنے والی قوتوں پر منحصر ہے وہیں خود پاکستان کا بھی بہت بڑا امتحان ہے ۔پاکستان کی حکومت، اداروں، سیاستدانوں اور تمام متعلقہ افراد نے گویا ایک قوم کی حیثیت سے اس کانفرنس کو ویلکم کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم نے مری پراسس شروع کیا تھا جس میں افغانستان کے تمام متعلقہ فریقین موجود تھے لیکن حالیہ کانفرنس میں صرف افغانستان کے حکمران آئے لہٰذا اب اس کانفرنس کے نتائج کی روشنی میں پاکستان کو مری پراسس کو آگے بڑھانا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک چاہے پاکستان ہی کیوں نہ ہو، باہر سے افغانستان پر امن مسلط نہیں کرسکتا لہٰذا اگر افغانستان میں امن مقصود ہے تو متعلقہ فریقین کو بات چیت کے عمل میں شامل کرنا ہوگا۔

داعش کے نام سے ایک ’’گلوبل ٹرینڈ‘‘ شروع کیا جارہا ہے اور اب افغانستان کے بھی بہت سے صوبے اس کے سپرد کردیے گئے ہیں کیونکہ جنگ لڑنے کے لیے اس کی بنیاد چاہیے ہوتی ہے۔ جب داعش کے خلاف جنگ شروع کی گئی تو آغاز ہی میں اس کے لیے 550بلین ڈالرمختص کردیے گئے جو عالمی جنگ کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے اور اس طرح ایک لمبی سٹریٹجی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک یہ پراکسی وارز ختم نہیں ہوں گی اور متاثرہ ممالک کے تمام فریقین کو آپس میں بٹھا کرسہولت کار کا کردار ادا نہیں کیا جائے گا، تب تک دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس کانفرنس کے بعد اگرپاکستان اپنی سٹرٹیجک اہمیت کو دریافت کرلیتا ہے توپاکستان کوافغانستان کے مسئلے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مسئلہ کشمیر، پاکستان کو درپیش دہشت گردی اوربنگلہ دیش میں ہندوستان کی ایما پر پاکستان سے جو انتقام لیا جارہا ہے اس پر آواز اٹھانی چاہیے بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ 2016ء امریکا کے انتخابات کا سال ہے اوروہ مظلوم قوم سے زیادہ اپنے ووٹرز کو متوجہ کرنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کرتا ہے لہٰذا اگر یہ صرف بلبلا بھی ہے تب بھی پاکستان کو اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان اور خطے میں امن کے قیام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ افغانستان کا حل اسی میں ہے کہ بیرونی افواج وہاں سے نکلیں اور پوری افغان قوم مل کر بندوق کی بجائے باہم مذاکرات اور جمہوریت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں، اس میں نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور اس پورے خطے کے ممالک کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہندوستان نے اس کانفرنس میں شرکت تو کی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حوالے سے مستقبل قریب میں ہندوستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں اور وہ مختلف قسم کے تعصبات پھیلا ئے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک ان سب چیزوں کو جانتے ہوئے بھی ہمیں ان کے ساتھ معاملہ بہتر کرنا چاہیے لیکن پہلے دن سے ہی یہ واضح کردینا چاہیے کہ جب تک مسئلہ کشمیرحل نہیں ہوگا بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی جیسی کوئی سہولت نہیں دی جاسکتی۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (تجزیہ نگار)

ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس، استنبول پراسس کا ایک حصہ ہے جو نومبر2011ء میں شروع ہوا۔ افغانستان گزشتہ دو صدیوں سے بڑی طاقتوں کی سیاست کا شکار ہا ہے اور بالخصوص روس اور برطانیہ کی ٹسل یہاں پر رہی ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے علاقائی تعاون اور سیاسی مفاہمت کا آغاز ہے۔ گو کہ دنیا کی معیشت میں افغانستان کا کوئی بڑا کردار نہیں ہے لیکن اس کانفرنس میں دنیا کے 14 بڑے ممالک، 11 عالمی اداروں اور17 سپورٹنگ ممالک جن میں امریکا اور جرمنی بھی شامل ہیں، کی شرکت سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کانفرنس میں تمام بڑے ممالک کا شامل ہونا اس چیز کا غماز ہے کہ یہ افغانستان میں امن کی سنجیدہ کوشش ہے۔ اسی سنجیدہ کوشش کا ایک حصہ پاک بھارت تعلقات بہتر کروانا بھی ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام ہے اور وہاں نئے پلیئرز کے آنے سے صورتحال غیر یقینی ہوگئی ہے۔ شام اور نارتھ افریقا میں بھی صورتحال خراب ہے لہٰذا اس خطے میں کسی بڑے خطرناک واقعے سے بچنے کے لیے دنیا افغانستان میں امن چاہتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقت ہیں اور اگر یہاں کوئی مسئلہ ہوا تو صورتحال بہت زیادہ بگڑ سکتی ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ دہشتگردی اور دیگر خطرات کے باوجود اتنی بڑی کانفرنس یہاں منعقد ہوئی اور اس میں بھارت سمیت تمام بڑے ممالک کی شرکت کو بھی یقینی بنایا گیا لہٰذا میرے نزدیک پاکستان کا ڈپلومیٹک انداز اچھا تھا اور اس نے کارڈ بھی اچھے کھیلے ہیں۔اس کے علاوہ افغان صدر کا جس انداز میں استقبال کیا گیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت، افواج اور تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور اس طرح افغانستان میں ،پاکستان کے بارے میں غلط امیج کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ گو کہ اس کانفرنس میں تلخ و شیریںہر قسم کی باتیں ہوئیں لیکن متفقہ رائے یہی نکلی کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں ایسی بات نہیں کریں گے جس سے حالات خراب ہوں اور امن کیلئے چاہے، طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوں یا مفاہمت کی بات ہو، تعاون کریں گے۔ افغان صدر اشرف غنی نے واضح کیا کہ امن اور مفاہمت دو الگ چیزیں ہیں جن پر کام کرنا چاہیے۔اس حوالے سے پاکستان نے بھی نیک نیتی دکھائی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ پاکستان، افغان مہاجرین کی صورت میں بہت بڑا مسئلہ لیے ہوئے ہے اور دہشت گردی کا کہیں نہ کہیں تعلق افغان مہاجرین سے ملتا ہے۔

یہ صورتحال امن کے لیے اچھا آغاز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم مری پراسس کو آگے لے کر چل سکیں گے؟ افغانستان میںا من کے قیام کے لیے پاکستان ہر لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک اب پاکستان کو مزید بہتر طریقے سے کردار ادا کرنا چاہیے۔ افغانستان سے حکومتی و عوامی سطح پر رابطے بڑھانے چاہئیں اور افغان صدر اشرف غنی کو سپورٹ کرنے کے لیے حکمت عملی بھی بنانی چاہیے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج بظاہر ا س کانفرنس میں شرکت کے لیے یہاں تشریف لائیں لیکن اس میں تھائی لینڈ میں ہونے والی اس ملاقات کا بھی گہرا تعلق ہے جو فرانس میں پاک بھارت وزراء اعظم کی ملاقات کے بعد قومی سلامتی کے مشیران کے درمیان طے پائی تھی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کا ڈھانچہ قومی سلامتی کے مشیران کے تحت ہی بنے گا اور یہ ایک سست عمل ہے کیونکہ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے حوالے سے تحفظات بھی ہیں۔

اس وقت بھارتی حکومت پر ان کے لوگوں کا دباؤ بہت زیادہ ہے اور میرے نزدیک بھارتی حکومت نے ’’سیف سیونگ‘‘ کے لیے پاک بھارت کرکٹ سیریز بحال نہیں کیں تاکہ وہ اپنی قوم کو دکھا سکیں کہ ہم ایک حد سے آگے نہیں جارہے۔ بھارتی وزیرخارجہ کے دورے سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں لہٰذا ہم اس میں بہت زیادہ امید نہیں رکھ سکتے تاہم امید ہے کہ قومی سلامتی کے مشیران کی ملاقات میں ٹھوس بنیادوں پر پیش رفت ہوگی۔ٹرانزٹ ٹریڈ میں شمولیت کا بھارتی مطالبہ بہت پرانا ہے، اس حوالے سے اس نے امریکا سے بھی دباؤ ڈلوایا لیکن بھارت کی شمولیت کسی بھی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اب جبکہ بھارت سی پیک منصوبے کی مخالفت کررہا ہے تو پاکستان کو مزید محتاط رہنا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔