خوف بیچنے والے

اوریا مقبول جان  پير 14 دسمبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں خوف ایسی چیز ہے جسے سب سے آسانی کے ساتھ بیچا جا سکتا ہے اور پھر موت کا خوف۔ موت تو ایک ایسی اٹل سچائی ہے کہ جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ انسان کی ساری جدوجہد اور تگ و دو اس موت کے عفریت پر قابو پانے پر لگی ہوئی۔ فلاں ملک اس لیے ترقی یافتہ ہے‘ کیونکہ وہاں افراد کی اوسط عمر بہت زیادہ ہے۔ وہاں سیلابوں اور زلزلوں سے بچنے کے انتظامات بہت خوب ہیں۔ بڑھاپے پر قابو پانے، جوان رہنے، بیماریوں اور متعدی امراض سے بچنے کے لیے تحقیقات کا آخری نقطہ اور منزل یہ ہے کہ آدمی موت پر کیسے قابو پاتا ہے، لیکن انسان کی لاکھوں سال کی اس جدوجہد پر ہر دوسرے لمحے موت ایک طمانچہ رسید کرتی ہے۔ فاتحانہ طور پر اپنی مرضی کے شخص کو ساتھ لے جاتی ہے اور پوری انسانی جدوجہد کو ماتم کرتا چھوڑ جاتی ہے۔ یہ ہے موت اور اسی موت کا خوف جب کسی شخص کے دل میں گھر کر جاتا ہے تو پھر آپ اسے موت سے بچنے کے لیے مٹی بھی بیچیں تو وہ سونے کے مول خریدے گا اور اگر موت کا یہ خوف کسی قوم یا قبیلے میں رس بچ جائے تو ان کی حالت اس بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہو جاتی ہے جنھیں گلے میں رسی ڈال کر جس طرف چاہے ہانک دو۔

لیکن موجودہ دور کا کمال یہ ہے کہ اس نے موت کے خوف کو کاروبار بنا لیا ہے۔ پہلے لوگوں کے سروں پر ایک انجانے خوف کی تلوار لٹکائی جاتی ہے اور پھر اس تلوار کے وار سے بچنے کے لیے بنائے گئے بندوبست کو مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ موت کا بے دلیل قسم کا خوف ایسی بلا ہے کہ آدمی گھر بار بیچ کر زندگی کے چند لمحے خریدنا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب موت اس کے پاس نہیں آئے گی۔ موجودہ دور کی سب سے بڑی انڈسٹری خوف ہے۔ دنیا بھر کا کارپوریٹ مافیا خوف پھیلاتا ہے۔ اور پھر اسی خوف کے سائے میں اپنی مصنوعات اور سہولیات بیچتا ہے۔ آپ کسی ملک کے بڑے شہر بلکہ اپنے ملک پاکستان کے صدر مقام اسلام آباد اور دیگر صوبائی صدر مقام پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے فائیوسٹار ہوٹلوں کی زندگی کا موازانہ آج سے بیس سال پہلے کی زندگی سے کریں تو آپ کو یہ ہوٹل رہائش یا کھانا پینا نہیں خوف بیچتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اسلام آباد کے دو بڑے ہوٹلوں میں دنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے دفاتر منتقل کرنے کی خواہشمند ہیں اور جن کے وہاں منتقل ہو چکے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتی ہیں۔ ہوٹلوں کے چاروں طرف مضبوط، مستحکم اور بم پروف دیواریں بنا دی گئی ہیں، ایسے تمام آلات جو دھماکا خیز مواد اور اسلحہ کو سو  پردوں میں بھی تلاش کر سکتے ہیں‘ نصب ہیں۔

مخصوص تربیت یافتہ کتے بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ ٹیلیفون کالوں کو روکنے کے لیے جام کرنے والے آلات بھی موجود ہیں اور کالوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے مشینیں بھی مہیا ہیں۔ آپ ایک دفعہ کسی طرح کے ہوٹل میں گھسں جائیں تو یوں سمجھو کہ موت کا فرشتہ بھی آپکا سراغ نہیں لگا سکتا۔ دنیا بھر سے آنے والے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمایندے، عالمی اداروں کے افسران، بیرونی سفارت کار، غرض ایسے سب لوگ جن کی سیکیورٹی خالصتاً پرائیویٹ ہے، وہ ایئرپورٹ سے بلٹ پروف اور دہشت گردی پروف گاڑیوں اور محافظوں کے ساتھ ان ہوٹلوں میں آتے ہیں، اپنی میٹنگ یا ضروری کام کرتے ہیں اور ویسے ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ اگر یہ خوف نہ ہوتا تو کیا اس ہوٹل یا ایسے ہوٹلوں کا کاروبار اس طرح چمکتا، سیکیورٹی آلات بنانے والی کمپنیوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا، کتے پالنے اور انھیں خاص طرح تربیت دینے والوں کی چاندی ہوتی، وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو چند لاکھ روپے ماہانہ کے دفاتر میں کام کرتی تھیں‘ اب ان ہوٹلوں کو پچاس گنا زیادہ کرایہ دینے کو بھی تیار ہوتی ہیں اور وہ یہ اخراجات اپنی مصنوعات کی قیمت بڑھا کر عوام سے وصول کرتی ہیں۔

خوف کے اس کاروبار نے صرف ان چند ہوٹلوں کے کاروبار کو نہیں چمکایا بلکہ اس نے ایک پوری انڈسٹری کو جنم دیا ہے۔ پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کا کاروبار اسقدر وسعت اختیار کر چکا ہے کہ ہر دوسرا دفتر اپنے دروازے پر ان سے ایک پرائیویٹ گارڈ حاصل کرتا ہے اور خود کو ہر قسم کے خوف سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس خوف نے نہ صرف اسلحہ ساز فیکٹریوں کو نئے نئے اسلحہ بنانے کی ترغیب دی ہے بلکہ وقت سے پہلے خطرے کی نشاندہی اور لوگوں کی طرف بڑھتے ہوئے مہیب اور خوفناک گروہوں کا پتہ دینے کے آلات بھی بے شمار تعداد میں بنائے گئے اور اربوں ڈالر میں فروخت کیے گئے۔ خوف‘ کارپوریٹ دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور موت کا خوف اس ہتھیار کی اصل۔ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہاں کی میونسپل سروسز کی طرف سے فراہم کیے جانے والے پانی پر لوگ زندگی گزارا کرتے تھے۔

یہ ادارے اپنے پانی کو کلورین یا پوٹاشیم پرمیگنیٹ سے صاف کر کے اس قابل بنا دیتے تھے کہ لوگوں کو بیماری نہ لگے۔ سب سے پہلے کیلفورنیا میں پانی کے نمونے پر بحث کا آغاز کیا گیا اور انھیں حفظان صحت کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔ لوگوں کو پہلے یہ خوف ڈالا گیا کہ اس پانی میں فلاں فلاں معدنیات تھیں جن سے آپ کی ہڈیاں کمزور ہو سکتی ہیں‘ یاداشت میں کمی یا پھر نظام انہضام میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لوگوں کو یقین سا ہونے لگا۔ اس کے بعد مختلف شہروں کے پانیوں کے نمونوں میں بکٹیریا اور دیگر بیماریوں کے جرثوموں کو دریافت کیا گیا۔ ہیپاٹائٹس کا خوف سر پر سوار کیا گیا اور پھر پانی کی بوتل ہر شخص کے ہاتھ میں آ گئی۔ ہر کسی کا اپنا پانی ہے جو وہ لے کر گھومتا پھرتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے پاکستان میں آج سے صرف 25 سال پہلے سوچا تھا کہ ہم پانی بھی خرید کر پئیں گے۔ وہ قوم جو دیہات میں دودھ کو فروخت کرنا بھی برا سمجھتی تھی کہ یہ اللہ کی ایک نعمت ہے اوراس سے مال کمانا حرام ہے‘ اب زمین میں موجود اللہ کی اجتماعی نعمت پانی کو بھی پیسے لے کر فروخت کرتی ہے۔

دنیا کی صحت اور میڈیسن کی انڈسٹری جسے ملٹی نیشنل کمپنیاں چلاتی ہیں‘ اسی خوف کے ہتھیار کو لے کر پروان چڑھتی ہے۔ ہر کسی کو ناگہانی موت سے ڈرایا جاتا ہے‘ معذور ہونے کا خوف دلایا جاتا ہے‘ بیمار اور لاچار ہو جانے کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور پھر کبھی وٹامن بیچی جاتی ہیں اور کبھی خالص غذا جسے Organic غذا کہتے ہیں۔ تقریباً پچاس سال سائنس دانوں نے اس کوشش میں لگائے کہ اشیا کے بیج ایسے بنائے جائیں کہ ایک ایکڑ پر بے شمار گندم‘ چاول یا دالیں حاصل کی جا سکیں۔ جب ایسا ہو گیا تو ساری دنیا کو خوفزدہ کیا گیا کہ اگر تم نے یہ خوراک کھائی تو تمہارے ہارمونز میں خرابی آ جائے گی‘ تم بدصورت اور معذور ہو جاؤ گے۔ تم خالص گندم‘ خالص چاول‘ دالیں اور خالص گھی استعمال کرو اور پھر اس خالص پن کو بیچ کر سرمایہ کمایا گیا۔ پہلے خود خوف پیدا کیا گیا‘ پھر اس خوف سے سرمایہ داروں کو ڈرایا گیا‘ پھر ان کو اس خوف کے زیر اثر جی بھر کے لوٹا گیا۔

خوف کے سوداگر اپنے لیے خود بھی خوف کی فضا کا چرچا کرتے ہیں۔ ہر سیاست دان‘ بیوروکریٹ‘ جرنیل‘ صحافی‘ جج‘ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر آ جاتا ہے۔ لمبی لمبی کانوائے‘ ایلیٹ فورس‘ اونچی اونچی دیواریں‘ مسلح گارڈ۔ آپ کسی جی او آر‘ کسی سیکریٹریٹ یا کنٹونمنٹ کے علاقے میں گھسنے لگیں تو ایسا لگتا ہے آپ غزہ سے اسرائیل جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو سارا دن منبر رسولﷺ پر بیٹھے قرآن پاک کی یہ آیات تلاوت کرتے ہیں کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ نہ جلدی کرتی ہے اور نہ دیر‘ جو اللہ کو قادر مطلق فاعل حقیقی اور مختار کل سمجھتے ہیں۔ وہ سنی‘ شیعہ‘ دیو بندی‘ بریلوی‘ کوئی بھی ہو‘ اسی خوف کے سائے میں اپنے ارد گرد مریدوں کا حصار لیے گھومتے ہیں۔ انھیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے۔

سید الانبیاءﷺ  نے اسی خوف کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا مرض قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’قریب ہے کہ تم پر دنیا کی اقوام چڑھ آئیں گی‘ جیسے کھانے والوں کو کھانے کے دسترخوان پر دعوت دی جاتی ہے۔ کسی نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ‘ کیا ہم اس زمانہ میں بہت کم ہونگے‘ فرمایا نہیں! بلکہ تم اس زمانہ میں بہت کثرت سے ہو گے‘ لیکن تم سیلاب کے اوپر چھائے ہوئے کوڑے کباڑ کی طرح ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت اور رعب نکال دے گا اور تم ’’وہن‘‘ کا شکار ہو جاؤ گے۔ پوچھا گیا‘ یا رسول اللہ ’’وہن‘‘ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت کا خوف ( ابو داؤد)۔ کیا اس امت کو یہ مرض لاحق نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔