ادب کا میلہ دیکھو، میلے کی بہار دیکھو

انتظار حسین  پير 14 دسمبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

جاڑا بھی اب ذرا چمک اٹھا ہے۔ اور ادھر ادبی میلوں ٹھیلوں کا موسم بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ ہر میلہ کی اپنی بہار ہے۔ کسے چھوڑیں اور کسے پکڑیں۔ اور ہماری ایک ٹانگ لاہور میں ایک ٹانگ کراچی میں۔ ارے کراچی کی آرٹ کونسل کے ادبی میلے میں کیسے نہ جاتے۔ اول تو آرٹ کونسل کے مدار الہام احمد شاہ جب کسی کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اور ہم نے میلہ سجایا ہے اس کی رنگا رنگی دیکھو تو گھیرا اس طرح سے ڈالتے کہ شکار کنی کسی طور کاٹ نہ سکے۔ اور پھر انھوں نے ہندوستان سے ایسا ایسا مہمان بلا رکھا تھا‘ دلی سے علی گڑھ سے لکھنؤ سے کہ یوں بھی یہ میلہ ہمیں اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ارے ابھی تو شمس الرحمن فاروقی یہاں سے مجمع لوٹ کر گئے تھے۔ اس پر مستزاد ان کی صاحبزادی مہر افشاں فاروقی۔ سونے پہ سہاگہ۔ اور آپ ہندوستان ہی سے اردو تنقید کا دوسرا نگ شمیم حنفی۔ اور ان کے ساتھ ساتھ علی گڑھ سے ابو الکلام قاسم اور لکھنؤ سے انیس اشفاق  اور ہاں عبید صدیقی جو دستاویزی فلمیں بنانے کے ہنر میں طاق ہیں۔

کچھ ادھر سے شاعروں کی بھی آمد آمد کی خبر تھی۔ اور پھر خود کراچی میں جو ادبی مخلوق شاد آباد ہے۔ انھیں بھی کم مت جانو۔ سو یوں سمجھو کہ ادیب قطار اندر قطار۔ اور ادب کے شائقین و سامعین ہزار صد ہزار۔ اچٹ کر نظر اسٹیج پر گئی تو نقادان کرام ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صف آرا نظر آئے۔ اردو تنقید کے ہر مکتبہ کی بانگی موجود اور پھر شہر شہر سے آئے ہوئے۔ دلی‘ لکھنؤ‘ علی گڑھ‘ لاہور‘ اسلام آباد۔ پھر گھر کی مرغیاں۔ تقریریں‘ مقالے۔ کوئی مختصر کوئی طویل۔ کسی کی بات سمجھ میں آئی‘ کسی کی سر سے گزر گئی۔ ناصر عباس نیر اونچے اڑتے ہیں۔ دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ ان کا ایک بیان حافظہ میں اٹکا رہ گیا ہے۔ کہتے تھے کہ یہ جو فرنگی علما نے ہمارے قدیم علوم پر اتنا زور دیا اور اپنی تحقیق سے نئے سرے سے ہمیں ان کے اسباق حفظ کرائے اور اس پر داد لی تو اس میں بھی ایک چال تھی۔ جب ہی تو سرسید نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کا استدلال تھا کہ اپنے نئے علوم ہمیں پڑھاؤ۔ پرانے علوم میں ہم شناوری کر چکے ہیں مگر ان کا تو منصوبہ یہی تھا کہ انھیں پرانے علوم میں مصروف رکھو۔ مغرب کے نئے علوم ہم سے بچا کر لے گئے۔ گویا اس باب میں بھی ہم نے ایک سازش کا پتہ چلا لیا۔ ارباب بصیرت کے لیے یہ نکتہ غور طلب ہے۔

ڈاکٹر ضیاء الحسن کے بیان میں بھی ہمیں ایک بات کام کی نظر آئی۔ کہتے تھے کہ ادب میں تجربے ہوتے رہنے چاہئیں۔ کوئی تجربہ ناکام بھی ہو تو وہ ضایع نہیں جاتا۔ آگے کے لیے نئی فکر کے لیے زمین ہموار کرتا ہے۔ ٹھیٹھ اردو زبان میں اس کار خیر کو قربانی کے بکرے کہئے۔ جب انور سجاد اور ان کے ہمنوا تجریدی افسانے لکھ رہے تھے اور معترضین ان پر انگشت نمانی کر رہے تھے تو ہم نے بھی اس وقت یہی کہا تھا کہ اگر یہ افسانہ نگار مگھم افسانے لکھ رہے ہیں تو بھی ثواب کا کام کر رہے ہیں۔ ہر ادب کو جب وہ جمود کا شکار ہونے لگے تو اسے قربانی کے بکرے درکار ہوتے ہیں۔ اگر ان افسانوں سے معنی برآمد ہو گئے تو سبحان اللہ۔ اگر نہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں

یک ذرہِ زمیں نہیں بیکار باغ کا

آج نہیں تو کل ان افسانوں کی افادیت آشکار ہوگی۔

بہر حال نقادوں کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ مگر کمبخت وقت دغا دے گیا۔ جو صاحب اس مباحثہ کے نگراں تھے انھیں آخر میں ہوش آیا کہ ارے مباحثہ کا وقت تو ختم ہو رہا ہے اور جو جاری ہیں وہ رکنے میں نہیں آ رہے۔ تب انھوں نے اعلان کیا کہ مباحثہ کا وقت قریب الختم ہے۔ بس اتنی گنجائش ہے کہ دو ڈھائی نقاد اور اپنی بات کریں مگر بہت مختصر ان دو ڈھائی نقادوں نے بھی اختصار برتتے برتتے اتنا وقت لے لیا کہ آخر میں جس کے بیان کا انتظار تھا وہی رہ گیا۔ یعنی شمیم حنفی۔ یہ صورت احوال دیکھ کر احمد شاہ لپک کر آئے اور معزز نگراں کو ٹوکا اور کہا کہ ابھی تو شمیم حنفی کو ہمیں سننا ہے۔ مگر شمیم صاحب کے پاس اب کہنے کے لیے کیا رہ گیا تھا۔ انھوں نے جلدی جلدی گنتی کے دو تین کلمات کہے اور اس مباحثہ کا خاتمہ بالخیر کیا۔

اصل میں یہ جو سیمیناروں میں ہمارے یہاں نگراں مقرر ہوتے ہیں اور جنھیں موڈریٹر کہا جاتا ہے‘ ان کے قبضہ قدرت ہی میں سب کچھ ہوتا ہے۔ تھوڑا سلیقہ ہو تو بحث مباحثہ کو اعتدال کی حدود میں رکھیں‘ بولنے والوں کو یاد دلاتے رہیں کہ کتنا وقت گزر گیا ہے اور آپ کا بیان جاری ہے۔ مگر بالعموم ہمارے یہ موڈریٹر خود ہی موڈریشن کی حدود سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اور یوں بھی ہوتا ہے انھیں خود بہت کچھ کہنا ہوتا ہے۔ سو ہر تقریر کے بعد اس تقریر میں خود اضافہ کرتے ہیں اور مقرر ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔ اگلی نشست میں عبداللہ حسین موضوع گفتگو تھے۔ اس نشست کی خوش نصیبی یا بدنصیبی یہ تھی کہ موڈریٹر خود عبداللہ حسین سے ملاقات کر چکا تھا سو اس کے پاس سنانے کے لیے ایک لمبی داستان تھی۔ ادھر گفتگو کرنے والے تین تھے‘ اصغر ندیم سید‘ شمیم حنفی اور یہ خاکسار۔ مگر موڈریٹر مائیک کے آگے سے ہٹنے کے لیے تیار ہی نظر نہیں آتا تھا۔ خدا خدا کر کے ان تینوں نے اپنا فریضہ ادا کیا اور صدارتی کلمات کہے جا چکے تو ہم سمجھے کہ نشست تمام ہوئی مگر موڈریٹر مائیک کے سامنے کھڑا تھا اور جاری تھا۔ تب اسے یاد دلایا گیا کہ نشست ختم ہو چکی ہے۔

مگر یہ ہمارے مباحثوں مکالموں میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ آخر میں ہر پھر کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ موڈریٹر کے باوصف مباحثہ بخیر و خوبی تمام ہوا۔

یہ جو اجلاس ہوا سچ پوچھو تو ایک لحاظ سے بلکہ مختلف لحاظوں سے بہت ہی کامیاب تھا۔ ایک اس لحاظ سے کہ دو تین دنوں میں نشستوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا۔ اور ہم حیران کہ یہ تو مسائل و مباحث کا ایک سمندر ہے ان ڈھائی تین دنوں میں کیسے سمیٹا جائے گا جب کہ ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم پھیلانا تو خوب جانتے ہیں۔ بس سمیٹنا نہیں آیا۔ لیکن یہاں ہم نے دیکھا کہ مختلف نشستیں اس لحاظ سے کامیاب رہیں کہ ہر پہلو پر بحث بھی ہوئی۔ اختلاف رائے بھی ہوا۔ پھر جلدی جلدی بحث کو کسی نہ کسی طور سمیٹ بھی لیا گیا۔ آخر کچھ موڈریٹر تجربہ کار بھی تو ہوتے ہیں اور سلیقہ سے مباحثہ کو چلانا جانتے ہیں۔

اور پھر سامعین کا ذوق و شوق بھی اس کامیابی کا ضامن تھا۔ ہر چند کہ سامعین اتنے ہوتے تھے کہ بعض بعض نشستوں میں سمجھ لیجیے کہ ہال لبالب بھر جاتا تھا اور سامعین جیسے ابلے پڑ رہے ہیں۔ لیکن بحث کے دوران کتنے تحمل سے یکسوئی کے ساتھ سننے کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ پھر بھی یار لوگ کہتے ہیں کہ ادب کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ تو میڈیا کا زمانہ ہے۔ اور میڈیا میں جو تُوتکار ہوتی ہے اور بحث بحثی لٹھم لٹھا ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ ادب آخر کے تئیں ایک تہذیب کا بھی تو نام ہے۔ وہ تہذیب بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ارے بیان کرنے کو کتنا کچھ تھا‘ کتنی نشستوں کا احوال بیان کرنا تھا۔ مگر ہمارے کالم کی حدود دغا دے گئیں۔ وہاں مباحث کا ایک دریا۔ یہاں کالم نام کا ایک کوزہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔