1971ء میں ہرگز پاکستان کو شکست نہیں ہوئی!

محمد عثمان فاروق  منگل 15 دسمبر 2015
اگر پاکستان کو آج بھی ہماری ضرورت پڑتی ہے تو 1971 کی طرح کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور نہ یہ سوچیں گے کہ 40 سال بعد بنگلہ دیش کی طرح قتل کردیا جائے گا۔ فوٹو:فائل

اگر پاکستان کو آج بھی ہماری ضرورت پڑتی ہے تو 1971 کی طرح کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور نہ یہ سوچیں گے کہ 40 سال بعد بنگلہ دیش کی طرح قتل کردیا جائے گا۔ فوٹو:فائل

میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر کھڑا تھا اچانک میری نظر قبر کے تعویز پر پڑی۔ وہاں بنگالی زبان میں قائداعظم کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج تھی۔ قائداعظم کی قبر پر بنگالی زبان میں قائد کی تاریخ پیدائش اور وفات کا لکھا ہونا شاید مجھے کچھ پیغام دے رہا تھا کہ قبر میں سوئے ہوئے قائد اعظم کو شاید آج بھی اپنا پاکستان آدھا گوارا نہیں ہے۔ ہر سال 16 دسمبر آتے ہی جھوٹ اور پراپیگنڈے کی ایسی فصل تیار ہوتی ہے کہ 1971 میں پاکستان کی خاطر ہندوؤں اور مکتی باہنی کے دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 22 لاکھ بنگالیوں کی قربانیوں کو بالکل فراموش کردیا جاتا ہے۔ 1971 میں اصل میں کیا ہوا تھا اس بارے میں ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

یوری بیزمینوو Yuri Bezmenov

روسی خفیہ ایجنسی KGB کا سابقہ افسر یوٹیوب پر موجود اپنے انٹرویو میں انکشاف کرتا ہے کہ 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان میں کوئی آزادی کی جنگ نہیں تھی یہ صرف ایک سائیکالوجیکل آپریشن تھا ہم نے اچھا لکھنے اور اچھا بولنے والوں کو بھرتی کیا اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی برین واشنگ کرکے بغاوت پر آمادہ کیا اور بعد میں ایسے تمام لوگوں کو مروادیا جس کی سب سے بڑی مثال شیخ مجیب تھا جب اسکا کام ختم ہوگیا اسے ختم کروادیا گیا ۔

شرمیلا بوس Sarmila Bose

بنگالی ہندو ریسرچ اسکالر ’’شرمیلا بوس ‘‘اپنی 1971سے متعلقہ کتاب Dead reckoning میں لکھتی ہے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے بنگالیوں پر ظلم وستم کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جبکہ مکتی باہنی کے جرائم کو مجرمانہ حد تک چھپایا گیا ۔

جنرل مانک شاہ

بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شاہ کا انٹرویو یوٹیوب پر موجود ہے۔ جس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاک فوج نے بنا لڑے ہتھیار ڈال دیئے تو ان کا جواب تھا ’نہیں‘۔ وہ بہت بہادری سے لڑے مگر چونکہ وہ تعداد میں ہم سے بہت کم تھے اور اُن کی فضائی قوت ختم ہوچکی تھی، یہی وجہ تھی کہ اُن کی رسد اور کمک کے راستے بھی بند تھے اور وہ اپنے بیس یعنی مغربی پاکستان سے بہت دور تھے جس کی وجہ سے اُن کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

سولجرز ود ڈگنیٹی (Soldiering with Dignity)

1971ء میں جنرل مانک شاہ کا اسٹاف افسر بریگیڈئیر پندر سنگھ اپنی کتاب Soldiering with Dignity میں لکھتے تھے کہ 71ء میں ہم مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں کو پاکستانی فوج کی وردیوں میں بنگلہ دیش داخل کرتے، وہ وہاں لوٹ مارکرتے اور پاکستانی فوج کا کردار بنگالیوں کی نظر میں مشکوک بناتے تھے۔ اس کام نے آگے چل کر ہمیں بہت فائدہ دیا۔

قطب الدین عزیز

معروف ریسرچ اسکالر قطب الدین عزیز اپنی کتاب Blood and Tears میں ٹھوس تاریخی اور تصویری حوالہ جات کے ساتھ مکتی باہنی کے مظالم کی داستان منظر عام پر لاچکے ہیں مگر انکی یہ کتاب حیرت انگیز طور پر مارکیٹوں سے غائب ہے اور اِس کے چند ایک پرانے نسخے صرف ذاتی نوعیت میں کچھ لوگوں کے پاس موجود ہیں۔

2 دسمبر 2014 کو بی بی سی نیوز کی ویب سائٹ پر چھپنے والی خبر کے مطابق ایک برطانوی صحافی نے جب پاک فوج پر بنگالیوں کے قتل عام کی داستانوں کو افسانہ قرار دیا تو اس کو جرمانے کی سزا کے ساتھ بنگلہ دیش سے بے دخل کردیا گیا۔ مئی 2010ء میں ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق 1971 کی جنگ کے بارے میں بھارتی فوج کا بہت بڑا ریکارڈ غائب یا ضائع ہوچکا ہے۔

ذرا سوچیں اگر ہندوستانی فوج کو اِس جنگ میں فتح ہوئی تو پھر ریکارڈ کیوں غائب ہوا؟ وجہ یہ ہے کہ بھارت یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اُس نے مکتی باہنی کے ذریعے 71ء میں جو گھناؤنے جرائم سرانجام دئیے جن کا الزام پاکستان پر لگایا گیا، اگر انکی حقیقت کھل جائے تو بنگلہ دیش کی نام نہاد آزادی کی جنگ کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اوپر کے تمام حوالہ جات کے بعد چند سوالات اگر کوئی ان کے جواب دے سکے۔۔۔۔۔۔

آج بھارتی وزیراعظم نریندر مودی فخر سے کہتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی میں شامل رہے ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ ہندوستان نے جو مکتی باہنی کے نام پر بین الااقوامی بارڈر عبور کرکے پاکستان میں دہشتگردی کروائی اسکا حساب کون دے گا؟

شیخ حسینہ واجد آج پاکستان سے محبت کرنے والوں کو 45 سال بعد کیسے پھانسی دے سکتی ہے؟ گواہ کہاں سے آئے؟ گواہ کی یاد داشت 45 برس بعد اتنی قوی کیسے تھی کہ اس نے مجرم اور جرم دونوں کی شناخت کرلی؟ 45 سال میں تو انسان کا چہرہ تک تبدیل ہوجاتا ہے پھر گواہ نے گواہی کیسے اور کس بنیاد پر دی؟

مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے جو انسانیت کے خلاف جرائم کئے ان کو پھانسی کون دے گا؟ اگر بنگلہ دیش کچھ لوگوں کو پاکستان سے محبت کے جرم میں غدار قرار دے رہا ہے تو جن لوگوں نے پاکستان سے جا کر حسینہ واجد سے ایوارڈ لئے کیا ان کو بھی پاکستان میں پھانسی دی جانی چاہیئے؟

بنگلہ دیش میں آزادی کی تاریخ پاکستانی فوج کے آپریشن سرچ لائٹ سے شروع کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاک فوج کو آخر اچانک کیا مصیبت آئی تھی کہ اس نے آپریشن سرچ لائیٹ شروع کیا؟ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ آپریشن سرچ لائٹ اس لئے شروع ہوا کیونکہ اس سے پہلے مکتی باہنی کے دہشتگرد 35 ہزار بنگالی قتل کرچکے تھے۔ جس کے بعد مکتی باہنی کی سرکوبی کے لئے آپریشن شروع ہوا اور نومبر تک پورے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی پر قابو پا لیا گیا تھا، مگر ہندوستان نے جیسے ہی اپنی سرمایہ کاری ڈوبتے دیکھی تو لاکھوں فوج ٹینکوں اور جنگی جہازوں سمیت مشرقی پاکستان پر بھیج دی۔

یہ 1971ء ہی ہے جب مکتی باہنی کے دہشت گرد مشرقی پاکستان کے اخبار مارننگ نیوز کے ایڈیٹر ’’ایم رحمان‘‘ کو گھر سے اٹھاتے ہیں اور بعد میں انکی کٹی پھٹی لاش ملتی ہے۔ اِس قتل کے بارے مین اُن کے بیٹے ’’عامر رحمان‘‘ کا کہنا تھا کہ میرے خاندان اور محلے کے افراد کو جن میں عورتیں اور بوڑھے شامل تھے سب کو مکتی باہنی کے لوگوں نے قطار میں کھڑا کیا اور اوپر سے ٹرالر چلا دیا۔ بعد میں نوجوانوں کو قطار میں کھڑا کیا اور ان کے سروں میں گولیاں مارنی شروع کیں۔ جب میری باری آنے والی تھی تو ہمیں دور سے پاک فوج کی گاڑیاں آتی نظر آئیں اور وہ ہمیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یاد رہے ’’عامر رحمان‘‘ آجکل کراچی میں رہتے ہیں انکے بارے میں پچھلے دنوں وسیم اکرم کی گاڑی پر فائرنگ کے حوالے سے خبریں بھی چلیں تھیں۔ ان کا پورا خاندان 1971 میں مکتی باہنی کے ہاتھوں مارا گیا اور وہ مکتی باہنی کے جرائم کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔

کل پھر 16 دسمبر کا وہ دن آرہا ہے، جو ہر ایک پاکستانی کی آنکھوں کے سامنے تکلیف اور دُکھ کے سیاہ بادل پھیلادیتا ہے۔ مگر اہلِ پاکستان سے یہی کہوں گا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، یقیناً ہمارے لیے یہ مشکل وقت ہے، یقیناً اُس دن دشمن کو وقتی طور پر کامیابی نصیب ہوئی تھی مگر ہمیں آج بھی اُن لوگوں پر فخر ہونا چاہیے جو تمام تر مشکل حالات کے باوجود وہاں رہتے ہوئے پاکستان کی حمایت کررہے تھے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اُن کا انجام کیا ہوگا، اور آج 45 برس بعد اُن کو اُن کے کیے کی سزا مل رہی ہے مگر وہ تمام کے تمام بہت مطمئن اور خوش و خرم ہونگے کہ نہ وہ کبھی دشمن کے سامنے جھکے اور نہ ہی ملک و قوم کے لیے کبھی بھی کسی قربانی سے دریغ کیا۔ آج ہم دعا کرتے ہیں کہ دشمن کی کبھی اِتنی ہمت و جرات نہیں ہو کہ وہ ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے لیکن اگر خدانخواستہ ہم پر کبھی ایسا وقت آیا تو پھر ویسی ہی قربانی دینگے جیسی ہمارے بزرگوں نے 1971 میں دیں تھی۔ ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ ہمیں 40 سال بعد بنگلہ دیش کی طرح قتل کردیا جائے گا بلکہ ایک لمحہ بھی سوچے بغیر پاکستان کا دفاع کریں گے کہ یہی ہمارا نصب العین ہے۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ 1971ء میں پاکستان کو شکست نہیں ہوئی تھی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔