امریکی مسلمان امریکا کا صدر نہیں بن سکتا؟

تنویر قیصر شاہد  بدھ 16 دسمبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نومبر 2016ء میں نئے امریکی صدر کا انتخاب ہونے والا ہے۔ جناب بارک حسین اوباما اپنی تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ رخصت ہو جائیں گے۔ درجن بھر امریکی سیاستدان صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہیں۔ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹ، ابھی اپنے اپنے فائنل ’’گھوڑے‘‘ کی تلاش میں ہیں۔

امریکی صدر بننے کا خواب دیکھنے والوں میں ایک صاحب بَین کارسن (Ben  Carson) بھی ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار۔ سیاہ فام بین کارسن پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر رہے ہیں۔ ذہنی امراض کے کامیاب سرجن ڈاکٹر مگر کچھ عرصہ سے ریٹائر ہوکر سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔

مذہبی لحاظ سے کٹر مسیحی۔ انتخابات کے ابتدائی مراحل ہی میں مگر انھوں نے ایک ایسا بیان داغ ڈالا ہے جس نے امریکی انتخابی ، سماجی اور سیاسی دنیا میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ امریکا کے ممتاز نجی ٹی وی NBC کے معروف اینکر پرسن چک ٹوڈ (Chuck Todd) کو مفصل انٹرویو دیتے ہوئے بَین کارسن نے کہا ہے کہ کسی امریکی مسلمان کو نہ تو امریکا کا صدر بننے دینا چاہیے اور نہ ہی مسیحی امریکی عوام کو اپنی قسمت و مقدر کی لگام کسی ممکنہ مسلمان صدر کے ہاتھ میں دینی چاہیے۔

ان صاحب نے مزید فرمایا ہے: ’’اسلام بنیادی طور پر امریکی آئین سے متصادم ہے۔‘‘ اس بیان نے بحث و تمحیص کا ایک طوفان بپا کردیا ہے۔ مجھ سمیت جن لوگوں نے موصوف کا انٹرویو سنا ہے، وہ گواہی دیں گے کہ بیچارے بَین کارسن صاحب اپنا آخری بیان (’’اسلام بنیادی طور پر امریکی آئین سے متصادم ہے‘‘) دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار نظر نہیں آرہے تھے مگر چالاک اینکر پرسن نے انھیں ایسی مشاقی سے گھیرا کہ بین کارسن صاحب کے نہاں خانۂ دل میں کہیں چھپا ہوا اسلام کے خلاف تعصب اُچھل کر سامنے آگیا۔

ایک اندازے کے مطابق رواں لمحوں میں تیس لاکھ کے قریب مسلمان امریکا میں رہتے ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ امریکا میں بین کارسن کے خلاف پہلا ردِ عمل ان لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو کسی بھی صورت میں مذہب کو سیاست کا حصہ بنانے کے مخالف ہیں اور مذہب کو ریاستی معاملات سے بالکل الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں۔

ان لوگوں نے بین کارسن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اسلام، امریکی آئین اور صدارت کو یکجا کرنے کی بات کرکے نہایت بیہودہ اور بھونڈی حرکت کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بین کارسن ایسے شخص کو سِرے سے امریکی صدر بننے کا کوئی حق نہیں جو امریکی آئین سازوں سے واقف ہے نہ بانیانِ امریکا کی کوششوں سے آگاہ کہ یہ سب لوگ تو امریکی آئین میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو یکساں اور مساوی قرار دے چکے ہیں۔

ممتاز تحقیقی و سماجی امریکی جریدے The  Atlantic  نے بَین کارسن پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر بننے کا خواب دیکھنے والے بین کارسن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنا بغض ضرور رکھیں لیکن ان پر واضح رہنا چاہیے کہ وہ بانیانِ امریکا جنہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے امریکی آئین ڈرافٹ کیا، وہ امریکی صدر بننے کے لیے عیسائی، مسلمان، یہودی یعنی کسی بھی مذہب کے پروکار کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا۔

مذکورہ جریدہ سوال کرتا ہے کہ آیا بَین کارسن کے خیالات سے امریکی آئین ساز بھی متفق ہیں؟ (Ben  Carson  Says  No  to  a  Muslim  US  President,  Butt  Would  the  Founding  Fathers  Agree?) جواب نفی میں ہے کہ امریکا انھی لوگوں نے تو آباد کیا تھا جو مذہبی طور پر ستائے گئے تھے اور جنھیں مذہبی لوگوں سے اختلاف کرنے کی پاداش میں اذیتیں دی گئیں؛ چنانچہ ستائے گئے بھاری تعداد میں یہ تعذیب یافتہ لوگ نئی سرزمین (امریکا) آئے اور آباد ہوتے چلے گئے۔

ایسے لوگوں کے مدبرین اور سیاسی رہنماؤں سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ کسی ایک مذہب اور مسلک کو ماننے والے کو کسی دوسرے مذہب و مسلک کے ماننے والے پر ترجیح دیں گے۔ یہی آزاد امریکی آئین کی اصل روح ہے اور یہی امریکی آئین کے آرٹیکل6 کا خلاصہ ہے جو یقینا کسی امریکی مسلمان کو بھی امریکا کا صدر بننے کی اجازت اور حق دیتا ہے۔

یہ اسی آئین کی روح اور طاقت ہے کہ امریکی سینیٹ کے ممتاز رکن (ساؤتھ کیرولینا سے سینیٹر لنڈسے گراہم) نے بین کارسن کا متنازعہ بیان آتے ہی کہا کہ ان صاحب کو ری پبلکن پارٹی میں رہنے اور صدارتی انتخاب لڑنے کا قطعی کوئی حق نہیں۔ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اگر کوئی امریکی مسلمان امریکی صدر بننے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے، ہمیں ایک جگہ رکنے سے گریز کرنا چاہیے۔

آئیے اس طرح کی فضول بحث سے آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے بھی مگر بہت سے ہیں جنہوں نے بین کارسن کے بیان اور خیال سے اتفاق کیا ہے۔ ایسے لوگوں نے کہا ہے: ’’بین کارسن غلط تو نہیں کہتے۔ امریکا پر جن لوگوں نے قاتلانہ حملہ (سانحۂ نائن الیون کی طرف اشارہ ہے) کیا، وہ سب مسلمان ہی تو تھے۔ تو کیا پھر کسی مسلمان کے ہاتھ میں امریکا اور امریکیوں کی لگام دی جاسکتی ہے؟‘‘ واقعہ یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحہ نے امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔

یہ تو ظاہر ہے کہ بَین کارسن ایسے ری پبلکن امیدوار کو اب امریکی مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملیں گے لیکن ان صاحب کے اینٹی مسلم خیالات و بیانات نے امریکی مسلمانوں کو ایک نئی صورتحال سے دوچار ضرور کردیا ہے۔

امریکی مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم (کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز) کے صدر ابراہیم ہوپر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عواض نے کہا ہے: ’’ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے جب امریکا میں کہا اور سمجھا جاتا تھا کہ کوئی کیتھولک عیسائی امریکی صدر نہیں بن سکتا، کوئی سیاہ فام افریقن ریاست ہائے متحدہ کا سربراہ نہیں بن سکتا لیکن ایسی باتیں پھیلانے اور کہنے والے لوگ پہلے بھی غلط تھے اور آج بھی غلط ہیں۔‘‘ سب نے دیکھا ہے کہ اب تک سات کیتھولک عیسائی امریکا کے صدر بن چکے ہیں اور بارک حسین اوباما سیاہ فام بھی امریکا کا صدر بن گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی امریکی مسلمان بھی امریکا کا صدر بن سکتا ہے۔

اگر امریکی مسلمانوں میں اس طرح کی استعداد اور قابلیت رکھنے والا کوئی شخص پیدا ہوگیا تو یہ محیر العقول واقعہ بھی رونما ہوسکتا ہے۔ اگرچہ امریکی مسلمان تعداد، ذہنی سوچ اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث ابھی اتنے طاقتور اور مؤثر نہیں ہیں کہ امریکی مسلمان کمیونٹی کا کوئی فرد امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوجائے لیکن امریکا میں اینٹی مسلم خیالات رکھنے والی لابی اور گروہ کو خدشہ ہے کہ امریکا میں مسلمانوں کی شرحِ آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ممکن ہے اپنے ووٹوں کی طاقت اور تعداد کے بَل پر کبھی کوئی مسلمان امریکی صدر بن جائے۔ چنانچہ حفظِ ماتقدم کے طور پر بین کارسن ایسے لوگ امریکی مسلمانوں کے بارے میں شوشے اور شُرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس لابی کے برعکس امریکی عوام کی اکثریت غیر متعصب ہے۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی جب امریکی ریاست ٹیکساس میں چودہ سالہ ایک سوڈانی نژاد امریکی مسلمان، احمد محمد، کے ڈیجیٹل کلاک بنانے پر اس کی ٹیچر نے (غلط فہمی کی بنیاد پر) اسے گرفتار کروادیا (کہ یہ تو اس نے ٹائم بم بنا دیا ہے) تو اس زیادتی کے خلاف پورے امریکا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی؛ چنانچہ فوری طور پر احمد کو رہا کرنا پڑا۔

امریکی صدر بارک اوباما نے بھی احمد محمد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی مذمت کی اور اس امریکی مسلمان بچے کو امریکا کا زبردست سرمایہ قرار دیتے ہوئے اسے وہائٹ ہاؤس میں مدعو بھی کیا۔

امریکا کے مہنگے ترین تعلیمی ادارے ’’ایم آئی ٹی‘‘ نے کہا کہ اسے احمد ایسے طالب علموں کی ہمیشہ تلاش رہتی ہے۔ گوگل نے کہا کہ احمد محمد صاحب جب چاہیں، ان کے ہاں انٹرن شپ کے لیے آسکتے ہیں۔ ایسے شاندار اور منصفانہ ماحول میں اینٹی مسلم خیال رکھنے والے امریکی صدارتی امیدوار جناب بین کارسن ایسے لوگوں کی دال نہیں گل سکتی اور نہ ہی ان کے مقاصد پورے ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔