مفادات کی گاڑی کے بیل

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 16 دسمبر 2015

جہاں ہمیں دیگر خوش فہمیاں اور ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم سوچتے ہیں اور یہ بھی کہ کیا خوب سوچتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں، ان کی یاد داشت ہی جا چکی ہے، جنہیں یہ تک یاد نہیں ہے کہ وہ کون ہیں کیا ہیں وہ چاہتے کیا ہیں ان کی مرضی کیا ہے ان کے حقوق کیا ہیں، ان کی ضروریات کیا ہیں، ان کے فرائض کیا ہیں پھر بھی اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں۔

واہ صاحب واہ کیا خوب ہیں ہمارے لوگ آپ اس وقت سو چتے ہیں، جب آپ سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح میں امتیاز کرتے ہیں، سوچنے کے معنی انتخاب کرنا ہیں آپ کو ہاں یا نہیں کہنے کا اختیار حاصل ہے، آپ کو یہ اہلیت حاصل ہے کہ قبول کریں یا مسترد کریں جو بھی اشیاء صحیح ہیں جو بھی اشیا درست ہیں جو بھی اشیاء منصفانہ ہیں جو بھی اشیاء خالص ہیں۔

پرنٹائس نامی ایک صاحب امریکا کے شہر ساگ ہاربر میں1834ء میں پیدا ہوئے انھیں اپنے وقت کا عجیب ترین آدمی کہا جاتا تھا جس نے ہوائی جہاز اور ریڈیو کا تصور پیش کیا اور ذہنی ٹیلی پیتھی کی نہ صرف پیش گوئی کی بلکہ وہ اس کی پریکٹس بھی کرتے تھے۔ آج بھی ا ن کی قبر پر ایک بڑا کتبہ لگا ہوا ہے جس پر تحریر ہے ’’سوچیں اشیاء ہیں‘‘ وہ اشیاء جو عزت کے قابل ہیں جو محبت اور پوجا کے لائق ہیں لیکن ہم اس بات کو کیونکر سمجھ سکتے ہیں۔

اس بات کو وہ ہی سمجھ سکتے ہیں جو سوچتے ہیں اور ہم 20 کروڑ تو بس چوارہے پر بیٹھے چاروں طرف سے آنے والی چیختی اور چلاتی آوازوں کو سن رہے ہیں ایک سے ایک سریلی آوازیں ایک سے ایک بھدی آوازیں چاروں طرف سے بس آوازیں ہی آوازیں پکار رہی پکار، بلاوہ ہی بلاوہ کہیں سے یہ آواز آ رہی ہے، یہ ملک ہمارا ہے، یہاں اسلامی نظام آئے گا کوئی چلا رہا ہے، لبرل ازم آئے گا، کوئی چیخ رہا ہے یہاں طالبان کا نظام آئے گا، کوئی چلا رہا ہے داعش سب سے بہتر ہیں کوئی چیخ رہا ہے یہ زندگی بیکار ہے ابدی زندگی کی فکر کرو کوئی چلا رہا ہے صرف میں مسلمان ہوں باقی سب کافر ہیں۔

اتنے میں ایک نئے صاحب آ کر چلانا شروع کر دیتے ہیں سب کے سب کافر ہیں صرف میں ہی مسلمان ہوں میرا کہنا مانو کوئی کہہ رہا ہے مسئلوں کا حل نئے صوبے میں ہے تو کوئی کہہ رہا ہے صوبے میں نہیں بلکہ نئے صوبوں میں ہے۔ اتنے میں نیا شور پیدا ہو جاتا ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے لوگ چاروں طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہاں سے تبدیلی آ رہی ہے۔ اسی دوران ایک نیا شور اٹھتا ہے ملک میں خوشحالی آ گئی ہے اور لوگ چاروں طرف خوشحالی کو تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں چاروں طرف بڑا ہی مزیدار، دلچسپ کھیل تماشہ لگا ہوا ہے۔ ہر نئے شور پر یہ جو 20 کروڑ ہیں دل کھول کر تالیاں بجانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر دوسرے نئے شور پر سوچے سمجھے بغیر اچھلنا کودنا شروع کر دیتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ سب سے انفرادی طور پر ان کے متعلق پوچھیں تو سب متفقہ طور پر یہ ہی کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں لیکن جب بھی نیا شور اٹھتا ہے تو سب سے پہلے اس کی طرف دوڑ لگانے والوں میں وہی شامل ہوتے ہیں۔ یہ جو 20 کروڑ ہیں سب کی سن رہے ہیں سب کو دل کھو ل کر داد دے ر ہے ہیں، لیکن اس سارے شور شرابے میں وہ کہیں گم ہو گئے ہیں، کہیں کھو گئے ہیں اور کسی کو بھی وہ یاد تک نہیں ہیں کوئی بھی ان کے متعلق جاننے تک کے لیے تیار نہیں ہے سب کو بس اپنی اپنی پرفارمنس کی پڑی ہوئی ہے۔

سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شور مچانے میں لگے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ دہشت ناک منظرنامہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے جس میں 20 کروڑ جیتے جاگتے انسان محض تماشائی بنے ہوئے ہیں، جو سب کچھ کر سکتے ہوں لیکن کچھ بھی نہیں کر رہے ہوں جنہیں چند سو وہ لوگ جو صرف اپنے معاشی مفادات کے غلام ہیں اپنی اپنی مفادات کی گاڑیوں کا بیل بنانے میں مصروف ہوں اور بیل بھی وہ جو کبھی اپنے متعلق نہ سوچے جو کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے بس سر جھکائے صرف مفادات کی گاڑی کو کھینچتا رہے ۔

اب سارا قصور کس کا ہے یہ بتانے کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر آپ خوشی خوشی بیل بننے کے لیے تیار اور راضی ہیں تو ظاہر ہے گاڑی والے کو کسی پاگل کتے نے تھوڑی کاٹا ہے جو وہ آپ کو بیل بننے کے لیے منع کرے گا یا روکے گا یا آپ کو سیدھی راہ دکھائے گا جب آپ اپنے لیے نہیں سو چ رہے ہیں جب آپ دوسروں کو اپنے سارے فیصلے کرنے کا اختیار دے رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو تو بیل ہی بنائیں گے سر پر تھوڑی بٹھائیں گے اصل میں اصل مسئلہ ہی سوچنے کا ہے لیکن اس کے لیے پہلے یاداشت کا واپس آنا ضروری ہے۔

ایک پرانے قصے میں لکھا ہے کہ نیک نامی کے مالک ریبائی بعل، شم، تو نے جس کو ہشیت کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ایک اشد ضروری مگر خطرناک مہم شروع کی تھی۔ حضرت مسیح کی آمد میں عجلت کے لیے تمام انسانیت کے لیے جو بڑی مشکل میں گرفتار تھی اور جن کو بہت ساری برائیاں گھیرے ہوئے تھیں ان کو فوراً بچایا جانا تھا۔

تاریخ میں دخل اندازی پر ہشیت کو سزا دی گئی تھی ایک دور افتادہ جزیرے پر اپنے ایک مخلص ملازم کے ساتھ جلاوطنی کی مایوسی کے عالم میں ملازم نے اپنے آقا سے درخواست کی کہ وہ اپنی پراسرار طاقت سے دونوں کو گھر واپس پہنچا دے۔ ناممکن! ہشیت نے جواب دیا۔ میری طاقت مجھ سے چھین لی گئی ہے تو آپ کوئی دعا کیجیے۔

مغفرت کی دعا کیجیے یا کوئی معجزہ کیجیے، ’’میں سب کچھ بھول گیا ہوں‘‘ اور پھر دونوں ساتھ مل کر رونے لگے پھر اچانک آقا اپنے ملازم سے مخاطب ہوا ’’ذرا مجھے دعا یاد کراؤ کوئی بھی دعا‘‘ دیکھیے اگر میں کر سکا ملازم نے جواب ’’میں خود بھی سب کچھ بھول چکا ہوں‘‘ سب کچھ بالکل سب کچھ جی ہاں سوائے…! سوائے کیا سوائے حروف کے ہشیت یہ سنتے ہی خوشی سے چلایا تو پھر تمہیں انتظار کس بات کا ہے تم حروف کی تلاوت شروع کرو اور میں تمہارے ساتھ ساتھ دہراتا جاؤں گا ‘‘۔ اور پھر دونوں جلا وطنوں نے تلاوت شروع کی پہلے سرگوشی میں پھر ذرا اونچی آواز میں ’’الف، بے، جیم، دال اور یہ عمل بار بار کرتے رہے، ہر بار زیادہ قوت سے زیادہ گرم جو شی سے حتیٰ کہ ہشیت میں اس کی طاقتیں عود کر آئیں اور اس کی یاداشت واپس آ گئی۔

یاداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہو جاتا ہے، قید کی اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے۔ جب آپ کی یاداشت واپس آ جائے تو پھر سوچنا یہ ملک کیوں بنایا گیا تھا، اس کے مقاصد کیا تھے۔ بانیان پاکستان کے ذہنوں میں نئے ملک کا تصور کیا تھا انھوں نے اپنی تقاریر میں کیا کہا تھا اور یہ بھی سوچنا کہ کیا ساری زندگی تمہیں بیل ہی بنے رہنا ہے یا تمہیں اپنی زندگی کا مالک بننا ہے اور جنہوں نے تمہیں بیل بنا رکھا ہے کیا انھیں سزا دینی ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔