ایک غلط تاثر

مقتدا منصور  جمعرات 17 دسمبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

خالد علیگ مرحوم کا شعر ہے کہ:
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت نرالی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

جو لوگ ہاتھوں میں قلم اور حق گوئی پر یقین رکھتے ہیں، انھیں ہاتھ قلم ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ سچائیاں بہت کم لوگوں کو ہضم ہو پاتی ہیں، بالخصوص حکمران طبقات میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ تنقید برداشت کرسکیں ، لیکن اس کے باوجود ایک لکھنے والے کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے مطالعہ، مشاہدے اور تجربات کو سینہ قرطاس پر رقم کرنے سے گریز نہ کرے۔ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔

اس کے علاوہ ایک اظہاریہ نویس کے لیے یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ بے شک اخبارات کے مالکان اور مدیران کی خفگی و برہمی کو خاطر میں نہ لائے، مگر اپنے قارئین کی رائے اور اعتراضات پر کھلے ذہن کے ساتھ توجہ دے۔ کسی مضمون کے بارے میں قارئین کا ردعمل لکھاری کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، اس کی لوگوں تک کس حد تک تفہیم ہوئی ہے۔ یوں اندازہ ہوجاتا ہے کہ آیا اس موضوع پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے یا پھر آگے بڑھ جانا ہے۔

کراچی میں جاری آپریشن اور سال بھر کے دوران ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ہمارے چند اظہاریوں میں حکومتی اقدامات پر تاریخ کے تناظر میں بحث کی گئی تھی۔ بعض قارئین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ان اظہاریوں میں سے چند میں پنجاب مخالفت کی بو آ رہی تھی جس کی وہ مجھ جیسے آزاد فکر شخص سے توقع نہیں رکھتے۔

یہ درست ہے کہ اپنی 40 سالہ عملی زندگی اور اگر اس میں طلبہ سیاست کے6 برس مزید شامل کرلیے جائیں، تو46برسوں کے دوران اپنی سوچ کو لسانی یا قومیتی بنیادوں پر محدود کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ایک ایسا شخص جس کے سامنے پورے ملک کے محروم طبقات کی ابتر حالت زار ہو۔ جس نے اوکاڑہ اور خانیوال کے ملٹری فارمزکے مزارعین کی جدوجہدکا کھلی آنکھوں جائزہ لیا ہو جس نے بھٹہ مزدوروں کی کسمپرسی کے دلدوز مناظر دیکھے ہوں۔ وہ کسی بھی طور لسانی یا قومیتی تقسیم کا اسیر نہیں ہوسکتا بلکہ سیاسی، سماجی اور تاریخی شعور اسے طبقاتی تقسیم کی حشرسامانیوں سے ہر لمحہ آگاہ کیے رکھتا ہے۔

لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مراعات یافتہ مقتدر حلقے اپنے مذموم مفادات کی تکمیل کی خاطر قومیتی اور لسانی تقسیم کی جذباتیت کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا ماحول بنادیتے ہیں جس کا عام آدمی بھی شکار ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وطن عزیز کے ہر صوبے اور ہر خطے میں ایسے طبقات موجود ہیں، جنہوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر قومیتی اور لسانی جذبات کو ابھرا۔ ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی گریز ممکن نہیں کہ طاقت کے مراکز کسی مخصوص لسانی یا قومیتی گروہ کی مکمل گرفت میں آجانے سے دیگر قومیتوں میں یہ رجحان تقویت پا جاتا ہے کہ ان کے استحصال میں وہ مخصوص کمیونٹی یا قومیت مکمل طور پر شریک کار ہے۔

پنجاب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ روز اول ہی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی تھی۔ اس میں شک نہیں قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے دوران سول بیوروکریسی میں بلحاظ تعداد ہجرت کرکے آنے والے افراد کی تعداد زیادہ تھی، مگر سکہ رائج الوقت بہر حال چوہدری محمد علی کی قیادت میں اہل پنجاب کے ہاتھ میں تھا جب کہ ملٹری بیوروکریسی تو مکمل طور پر ان کی گرفت میں تھی اور آج بھی ہے۔

اس ابتدائی زمانے میں سول بیوروکریسی میں مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کا جائزہ لیں تو بنگال سے افسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ سندھ اور بلوچستان کی سول بیوروکریسی میں رتی برابر بھی نمایندگی نہیں تھی۔ چنانچہ چوہدری محمد علی کی قیادت میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی سول بیوروکریسی کو مکمل بااختیاریت حاصل تھی۔ مگر اس کے سامنے دو خطرات تھے۔ اول، بنگال کی آبادی کا تناسب۔دوئم، سول بیوروکریسی میںہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد۔

سول بیوروکریسی میں ہجرت کرکے آنے والوں کے اختیار اور تعداد کو محدود کرنے کا سلسلہ روز اول ہی سے شروع کردیا گیا تھا۔ غیر تحریری کوٹا سسٹم قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی نافذ ہوگیاتھا۔ ایوب خان، یحییٰ اور بھٹو دور میں ان کی ایک بڑی تعداد کو فارغ کرکے ان کی عددی برتری کو ختم کردیا ۔

اس سلسلے میں دوسرا اقدام دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی تھی جس کا فیصلہ1953ہی میں کرلیا گیا تھا مگر عمل درآمد 1959میں ایوب خان کے ہاتھوں کرایا گیا۔ نتیجتاً نان گزیٹیڈ عہدوں پر ان کے دروازے مکمل طور پر بند ہوگئے کیونکہ یہ پوزیشنز مقامی ہوتی ہیں۔ بنگال کی عددی برتری کو ختم کرنے کے لیے 1955میں پیریٹی کا اصول نافذ کیا گیا۔ ساتھ ہی مغربی حصہ کے چاروں صوبوں کو ون یونٹ میں ضم کرنے کے نتیجے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی کی پورے ملک پر مکمل بالادستی قائم ہو گئی۔

بیوروکریسی کے اس کھیل کو صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے مزید بڑھاوا دیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پنجاب سے حقیقت پسندی پر مبنی آوازیں ہی اٹھتی رہی ہیں۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاندانہ سلوک کے خلاف جہاں پروفیسر وارث میر مرحوم جیسے باضمیر صحافیوں نے جرأت رندانہ کے ساتھ آواز بلند کی وہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے بھی ضمیر کی آواز پر طالع آزماحکمرانوںاوربیوروکریسی کو للکارا۔ خاص طورپر حبیب جالب نے اپنی نظموں کے ذریعے حکمرانوں کو ممکنہ خطرات سے متنبہ کرنے کا سلسلہ جرأتمندی سے جاری رکھا۔

بلوچستان میں مختلف اوقات میں کیے جانے والے آپریشنز کے دوران ہونے والی زیادتیوں کے خلاف بھی پنجاب کے دانشوروں اور صحافیوں نے خواہ محدود تعداد ہی میں سہی، مگر آواز ضرور اٹھائی۔کراچی آپریشن کی گوکہ پنجاب کے بیشتردانشوروں اور صحافیوں نے حکومتی اقدامات کی حمایت کی مگر اس کے باوجود جاوید چوہدری سمیت چند ایک تجزیہ نگاروں نے بعض اقدامات پر نکتہ چینی کی اور عوام کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی رکھا۔

یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ آیا پنجاب سے تعلق رکھنے والا طبقہ اولیٰ واقعی پنجاب کے حقوق کا نگہبان ہے یا محض اقتدارواختیار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے پنجابیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے؟68برس کی پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ طبقہ پنجابی عوام، ان کی زبان اور ثقافت کے بدترین دشمن کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ محض اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کی خاطر پنجابیت کو استعمال کر رہاہے۔ اس نے پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالیں۔ پنجاب کے غریب اور محروم طبقات کی ترقی کا راستہ روکنے کی خاطر اردو اور انگریزی کا سہارا لیا۔

متشدد فرقہ واریت کا زہر پنجاب میں پھیلایا۔ پنجابی محنت کشوں بالخصوص مزارعین اور بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں کے بدترین استحصال کی سرپرستی کی۔ اپنے مخصوص مفادات کی خاطر پورے ملک میں نسلی، لسانی اور قومیتی تقسیم کو ہوا دی۔ سندھ میں سندھیوں اور ہجرت کرکے آنے والی کمیونٹیز کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں۔ خیبر پختونخوا میں پشتو اور ہندکوبولنے والوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑاکیا۔ بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کی راہیں جدا کرنے کی کوشش کی۔

لہٰذا ہمارا یہ موقف ہے کہ چھوٹے صوبوں سے جو تنقید سامنے آتی ہے، وہ دراصل پنجاب کے عوام پر نہیں ہوتی بلکہ بیوروکریسی اور حکمرانوں سمیت ان مراعات یافتہ طبقات پر ہوتی ہے جنہوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر اس ملک کو مختلف نوعیت کے مسائل کی گرداب میں پھنسا دیا ہے۔ یہ عناصر 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والی تھوڑی بہت خود مختاری کو بھی سلب کرکے اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور اینکروں کی ایک بڑی تعداد منصوبہ سازوں اور بیوروکریسی کے اقدمات کو تقویت دینے کا باعث بنی ہوئی ہے۔

سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ مگر ایک بھی الزام کسی بھی عدالت میں آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح ایم کیو ایم پر Raw سے فنڈنگ لینے کا الزام بھی کسی عدالت میں ثابت نہیںہوا مگر اس کے باوجود وفاقی حکومت اور بیوروکریسی کی شہ پر ذرایع ابلاغ کے اسلام آباد اور لاہور مراکز سندھ کی دو مقبول سیاسی جماعتوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ میڈیا ٹرائل کررہے ہیں ۔ لہٰذا ہمارے اظہاریوں میں عصبیت کا پہلو تلاش کرنے کے بجائے ان عناصر پر تنقید کی جائے، جو شاہ سے زیادہ شاہ پرست بن کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔