ہاتھوں کی لگائی گرہیں…

نصرت جاوید  بدھ 18 جولائی 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے ہاں عقل و دانش سے لدے لوگوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ انھی لوگوں میں سے چند ایک اس گمان میں بھی مبتلا رہتے ہیں جیسے خدانخواستہ ہماری آزاد عدلیہ کے سینئر ترین ججوں کو چند بہت ہی پیچیدہ معاملات طے کرنے کے لیے ان کے مشوروں کی ضرورت رہتی ہے۔ انھی مفروضہ ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر وہ قلم اٹھا لیتے ہیں۔ اخبارات کے ادارتی صفحوں پر مضامین لکھتے ہیں یا چند نامی گرامی اینکروں کے ساتھ بیٹھ کر بڑی ریٹنگ لانے والے ٹاک شوز میں اپنی دانش کے موتی بکھیر دیتے ہیں۔

فی سبیل اﷲ اپنی دانش بانٹتے ایسے چند حکیم آج کل سپریم کورٹ کو یہ مشورہ دیتے پائے جا رہے ہیں کہ راجہ پرویز اشرف کو بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح ’’وہ چٹھی‘‘ نہ لکھنے کی وجہ سے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجنے سے اجتناب فرمایا جائے۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ اگر راجہ پرویز اشرف بھی انکار کر دیں تو سپریم کورٹ از خود ایک کمیشن بنائے جو سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ کر اس ملک کے بینکوں میں چھپائے گئے آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر کروڑوں ڈالروں کا سراغ لگانے میں مددگار بن سکے۔

آئین اور قانون سے نابلد ایک دو ٹکے کا بکائو مارکہ رپورٹر ہوتے ہوئے میں مسلسل یہ سوچتا رہتا ہوں کہ کسی بھی عدالت میں زیر غور مقدمات کو ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات کے صفحوں پر دلائل کے ذریعے طے کر دینا بھی توہینِ عدالت کے زمرے میں آتاہے۔ ایسے معاملات میں عامیوں کا خاموشی اختیار کرنا عدالتوں کے معاملات کو ٹھنڈے طریقے سے قانون کے عین مطابق حل کرنے کے عمل کی حقیقی معاونت کرتا ہے۔ مگر یہ پاکستان ہے میری جان۔ جہاں عدلیہ آزاد ہے اور صحافت ضرورت سے زیادہ بے باک۔ سب چلتا ہے۔

اسی لیے تو اپنی جان کی امان مانگتے ہوئے صرف یاد دلانا چاہتا ہوں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو ’’وہ چٹھی‘‘ لکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انھوں نے تعمیل نہ کی۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنھیں نسبتاََ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے تمام اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ مگر وہ خط نہ لکھنے کی وجہ سے توہین عدالت کے مجرم پائے گئے اور بالآخر کسی بھی گارڈ آف آنر کے بغیر وزیر اعظم ہائوس سے ایسے رخصت ہوئے جیسے آپ اپنے گھر سے کسی ملازم کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا کرتے ہیں۔ گوجر خان کے ’’راجہ رینٹل‘‘ میں ایسا کون سا سرخاب کا پر لگا ہے کہ اگر وہ بھی وہی چٹھی نہ لکھیں تو ان کے ساتھ ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھا جائے۔ ان کے بجائے سپریم کورٹ کا بنایا کمیشن سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ سکتا ہے تو یوسف رضا گیلانی کے ہوتے ہوئے بھی یہ کام ہو سکتا تھا۔ مختصراََ میری موٹی عقل یہ ماننے سے قاصر ہے کہ راجہ پرویز اشرف کا انجام یوسف رضا گیلانی سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اگر انھوں نے ’’وہ چٹھی‘‘ نہ لکھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بات میرے جیسا آئین اور قانون کی باریکیوں سے نابلد شخص بھی سمجھ رہا ہے وہی بات ہمارے اخبارات کے صفحوں اور بڑی ریٹنگ لانے والے ٹاک شوز میں فی سبیل اﷲ اپنی دانش کے موتی خیرات کرنے والوں کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔ میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ سمجھ انھیں بھی ہے مگر سپریم کورٹ کے بنائے ایک کمیشن کے ذریعے ’’وہ چٹھی‘‘ لکھنے کے راستے یہ لوگ ایک خاص مقصد کے تحت دکھا رہے ہیں۔ انھیں بتانے والوں نے خبر دے دی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد خاموشی سے وزیر اعظم ہائوس خالی کر دینا تو آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی نے کسی حجت ومزاحمت کے بغیر قبول کر لیا تھا۔

مگر راجہ پرویز اشرف کی بار اس طرح نہیں ہوگا۔ کیا ہوگا؟ مجھے تفصیلات کا ہرگز علم تو کیا اندازہ بھی نہیں۔ یہ بات البتہ دیوار پر لکھی جا چکی ہے کہ اب کی بار شاید صرف مزاحمت ہی نہیں جوابی وار بھی ہوں گے۔ شاید اسی ممکنہ ’’یدھ‘‘ کو جس کا میں اندازہ لگا رہا ہوں، ٹالنے کے لیے ہمارے چند ذہین و فطین لوگ اخبارات کے صفحوں اور بڑی ریٹنگ لانے والے ٹاک شوز میں سپریم کورٹ کے بنائے کمیشن کے ذریعے ’’وہی چٹھی‘‘ لکھنے کے مشورے دیتے پائے جا رہے ہیں۔

میری موٹی عقل ’’ہونی‘‘ کو ٹالنے کے لیے کوئی مشورہ سوچنے کی اہل ہی نہیں۔ مجھے تو اپنی ماں کی کئی بار دہرائی وہ کہاوت یاد آتی ہے جو بڑی سادہ پنجابی میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اکثر ہاتھ سے لگائی گئی گرہوں کو دانتوں سے کھولنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اسی کہاوت کے تناظر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یوسف رضا گیلانی کا ایک گھریلو ملازم کی طرح سزاوار ہو جانے کے بعد فارغ کیا جانا ہاتھوں سے لگی گرہ تھی۔ اسی گرہ کو راجہ پرویز اشرف کی بار کھولتے ہوئے دانتوں کو استعمال کرنا پڑے گا۔ دانتوں کا استعمال اپنے ہدف کو تکلیف بھی پہنچا سکتا ہے اور تکلیف میں مبتلا ہدف اپنے بچائو کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور بھی ہو جایا کرتا ہے۔

ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنے کی ضرورت کو یاد کرتے ہوئے مجھے وہ خبر سن کر بڑی حیرت ہوئی جس میں اتوار کو یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان طویل خفیہ مذاکرات کے بعد آیندہ انتخابات کی تاریخوں پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ اس سال کے نومبر میں وہ تاریخ آ سکتی ہے اور اب کوشش ہو رہی ہے تو صرف اتنی کہ ان پانچ افراد پر اتفاق کر لیا جائے جو مرکز اور صوبوں میں انتخاب کروانے کے لیے بنائی گئی حکومتوں کے سربراہ ہوں گے۔ اس سے پہلے کچھ اور ذرایع سے خبر یہ بھی آئی تھی کہ عبوری وزیر اعظم کے لیے عاصمہ جہانگیر اور حسین ہارون میں سے کسی ایک کے نام پر متفق ہونا باقی رہ گیا ہے۔

مجھے کسی دوسرے کی دی گئی خبروں کی تردید کرنے کا مرض کبھی بھی لاحق نہیں رہا۔ التجا صرف یہ کرنا ہے کہ وزیر اعظم چاہے عبوری ہی کیوں نہ ہو وزیر اعظم ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے اس عہدے کو ہماری انتظامیہ کا مختار کل بنا دیا ہے۔ اس مختار کل کو اپنے عہدے کے دوران تقریباَ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ ضرور کرنا ہوتا ہے جس کا تعلق نام نہاد ’’قومی سلامتی امور‘‘ سے ہوا کرتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ہماری قومی سلامتی کی حفاظت پر مامور ہمارے بڑے ہی مستعد حضرات میری بڑی ہی پیاری اور محترمہ عاصمہ جہانگیر کو خواہ چند لمحوں کے لیے سہی پاکستان کی انتظامیہ کا کلی طور پر مختار کل دیکھنا چاہیں گے۔ ہمارے ملک میں ابھی وہ گھڑی ہرگز نہیں آئی جہاں ایسی انہونیاں ممکن ہو سکیں۔ حسین ہارون کے سلسلے میں صرف یہ عرض کروں گا کہ انھیں عبوری حکومت کا سربراہ بنانے سے پہلے ذرا یہ تو پتہ کر لیا جائے کہ صدر زرداری کی تمام کاوشوں کے باوجود انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیا۔

وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ہوا کرتے تھے۔ انھیں تنخواہوں اور عہدوں کی ضرورت نہیں۔ اپنے پلے سے خرچ کرتے ہیں۔ دریادلی کے ساتھ اور اپنے ہاتھ سے ہر طرح کے کھانے بناتے ہوئے دُنیا بھر کے طاقتور نمایندوں سے گہرے تعلقات بنا چکے ہیں جو پاکستان کے طویل المدت مفادات کے کام آسکتے ہیں۔ مگر ان کی یہی ’’پھرتیاں‘‘ ان لوگوں کو پسند نہ آئیں جو میرے اور آپ جیسے عامیوں پر قومی سلامتی کے مفادات کے نام پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں کافی تفصیلات سے میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔ مگر اسلام آباد میں رہنے والا ایک معمولی صحافی ہوں۔ اپنی گاڑی خود چلاتا ہوں۔ کوئی ڈرائیور اور محافظ میرے ہمراہ نہیں ہوتا۔ مجھے خاموش ہی رہنے دیں اور گرہوں کو دانتوں سے کھولے جانے کا انتظار کریں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔