مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے!

رحمت علی رازی  اتوار 20 دسمبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اس بار ارادہ تو تھا کہ صوبہ سندھ کی سائیں سرکار کی طرف سے اپوزیشن کے شدید ترین احتجاج کے باوجود رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کی قرارداد اسمبلی سے منظور کرانے پر لکھا جائے اور عوام کو باور کرایا جائے کہ ایسی پارٹی جسکے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا پُرکشش نعرہ دیکر ملک بھر کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور عوام میں جڑیں رکھنے کی وجہ سے ذوالفقار بھٹو کو تمام تر مخالفت کے باوجودعوام کے دلوں سے نہ نکالا جا سکا لیکن کمال جانیے ان کے داماد محترم کا جس نے رات دن ایک کر کے اپنے سسُر کے نعرے کو عوام کے دلوں سے اسطرح نکالا کہ روٹی کی جگہ موت، کپڑا کی جگہ کفن اور مکان کی جگہ قبر دیدی۔

اس محترم نے اپنی پارٹی کا نام و نشان مٹانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب یہ پارٹی صوبہ سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‘ اگر وہ اسی طرح محنت کرتے رہے تو اس پارٹی کا نام لینے والا کوئی نہ ملے گا۔ انھوں نے کمال فنکاری سے اس ملک کے مظلوم، بے بس اور لاوارث عوام سے جینے کی آخری خواہش تک بھی چھین لی‘ انھوں نے ملک کو اس قدر کنگال کر کے باہر کے بینک بھرے کہ اب اس کے تحفظ کے لیے سندھ اسمبلی سے مضحکہ خیز اور شرمناک قراردادیں منظور کروائی جا رہی ہیں‘ ان قراردادوں کے ذریعے صوبے کو کنگال کرنیوالوں کو پوچھنے، پکڑنے اور ان سے لوٹ مار کا مال واپس وصول کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے والی رینجرز کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کہا جا رہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پائیں‘ اور ڈاکوؤں، لٹیروں اور ملک کو کنگال کرنیوالوں کو عبرت کا نشان بنانے کے بجائے انہیں 21 توپوں کی سلامی دیں اور انہیں صوبہ سندھ کو مزید کنگال کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی دیدیا جائے۔ اس وقت ملک انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے‘ بیرونی طاقتیں اپنے ایجنڈے مسلط کرنے پر کمربستہ ہیں‘ ہمسایوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات گوناگوں مخمصوں کی نذر ہو چکے ہیں‘ دہشت گردی نے ہمیں چہار دانگ سے مفلوج کر رکھا ہے اور اندرونی طور پر بھی ملکی سلامتی کی صورتحال تذبذب کا شکار ہے‘ ایسے میں قوم کسی لسانی تعصب یا ادارہ جاتی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

آپریشن ضربِ عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ بلوچستان اور کراچی میں بھی امن و امان کی صورتحال میں حیرت انگیز حد تک بہتری آئی ہے۔ یہ سب پاک فوج کی قربانیوں اور عملِ پیہم کا ثمر ہے جسے ہماری سیاسی اور مذہبی کچھاروں میں چھپے بہروپئے اداکار ًضایع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ مذہبی اور سیاسی کلاکار ہیں جو ہر دور میں دہشت گرد تنظیموں کے ہدایتکارِ اعلیٰ رہے ہیں۔ ان ہی سہولت کاروں اور ملک دشمنوں کے حصہ داروں کی وجہ سے پاکستان سے دہشت گردی کا موسم رخصت ہونے کا نام نہیں لے رہا‘ ان ہدایتکاروں کی پروڈکشن بند نہ کی گئی تو یہ ایسی ایسی ہارر فلمیں بنائیں گے جنہیں دیکھ کر لوگ خود کو قبروں میں بھی محفوظ نہیں سمجھیں گے۔

ایسے ہی کچھ ہدایتکار تھے جن کے اشارئہ ایکشن پر اے پی ایس جیسا روح فرسا سانحہ روپذیر ہوا۔ سانحہ پشاور کی پہلی برسی کے موقع پر آئی ایس پی آر نے میجر عمران رضا کا لکھا ہوا ایک گیت، ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ ریلیز کیا ہے‘ ہم کہتے ہیں کہ دشمن کے بچوں کو ضرور پڑھائیں مگر پاکستان کے ان دوست نما دشمنوں اور پالیسی سازوں کو ان سے بھی پہلے پڑھانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی اور افراتفری کے اس غیر یقینی ماحول میں جب تلے کی زمین اوپر آ چکی ہے اور ہر نفس برداشتۂ خاطر ہوا پڑا ہے ایسے میں آئی ایس پی آر کا ریلیز کردہ یہ خوبصورت قومی گیت‘ جو سانحہ پشاور کے شہید بچوں کی داستان کا ترجمان ہے‘ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔

اس کی لفاظی اور ترکیب ِ موسیقی بھی سننے کے لائق ہے۔ مرکزی خیال اس لیے اچھوتا ہے کہ بندوق بمقابلہ قلم کا مضمون باندھا گیا ہے۔ اس سے بڑا انتقام لینے کی بات شاید ہی دُنیا میں کسی نے کی ہو کہ وہ دشمن جو جاہلِ مطلق ہے، اس کی نسل کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب تھما دی جائے تا کہ وہ خصومت کی روِش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دے۔ بندوق کبھی بھی قلم کو مات نہیں دے سکتی‘ اس کا احساس اس گیت کے ہر مصرعہ سے ہوتا ہے۔

اس سے قبل میجر عمران رضا ہی کا ایک گیت ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے‘‘ چند ماہ سے صوت و صورت اُجاگر کر رہا تھا جس کی پنچ لائن ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے‘‘ ایک طعنِ طفل ہے اس دہشت گردانہ ذہنیت کے لیے جو بزدلی کی اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اس نے اپنی تشنہ کامی کو شانت کرنے کے لیے معصوم بچوں کو بال باندھی کوڑی مارنا شروع کر دی ہے۔ اس گیت میں بھی ایک فورس ہے‘ ایک تموج ہے جو پیار پریت‘ ہجر و وصال اور درد و انبساط کا سنگیت سننے والوں کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ اور ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے‘‘ یہ دونوں گیت ملی نغمات کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی پسندیدگی کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔

دنیا میں کوئی بھی گیت تخلیق ہوتا ہے تو اس میں ایک پیغام ہوتا ہے‘ ایک کہانی ہوتی ہے، ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ میں حکومت کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ فی الواقعہ خیبرپختونخوا اور وزیریہ (فاٹا) میں ہنگامی بنیادوں پر ایک معروضی تعلیمی ڈھانچے کا بندوبست کرے تا کہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی جہالت دُور ہو اور ان کی آیندہ نسلیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر دہشت گردی کے اندھیروں میں علم کا چراغ روشن کر سکیں۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا جو پیغام میجر عمران رضا نے دیا ہے عین وہی سندیس آرمی اسکول پر حملے کی پہلی برسی کے تناظر میں 15 دسمبر کی شب برطانوی شہر برمنگھم میں منعقد کی گئی تقریب میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے بھی دیا کہ ’’ضربِ عضب کے بعد اب پاکستان کو ’’ضربِ قلم‘‘ کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم ہی لوگوں کو شدت پسندی سے دُور رکھنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

’’پوپینر فار پیس اِن پشاور‘‘ نامی اس تقریب سے خطاب کے ذریعے ملالہ نے لگے ہاتھ اقوامِ عالم کو بھی یہ باور کرا دیا کہ دُنیا اگر دہشت گردی کے خاتمے کی نیت رکھتی ہے تو اسے دُنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعات کا ذمے دار ٹھہرانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس قسم کی الزام تراشی سے دہشت گردی تو رکتی نہیں البتہ یہ مزید لوگوں کو ’’ریڈیکل آئیڈیالوجی‘‘ کی جانب مائل کرنے کا سبب بنتی ہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں 16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں کے ہاتھوں 141 کمسنوں اور معلمات کی شہادت کے واقعے کی پہلی برسی کی مرکزی تقریب بھی اے پی ایس ہی میں منعقد ہوئی جس میں وزیر اعظم، آرمی چیف، پانچوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور مختلف ممالک کے سفراء کی شرکت نے قومی یکجہتی کا پیغام تو بہر حال دیا لیکن ہمیں اس سے بڑھ کر خوشی اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے 16 دسمبر کو ’’قومی عزمِ تعلیم‘‘ کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

اس عزمِ تعلیم میں دُشمنوں، دوستوں سبھی کے بچے شامل ہونگے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا خطاب بہت نپاتُلا، مدلل اور وضاحت آمیز تھا جس میں شہید بچوں کے لواحقین اور قوم کے دکھ کی روداد بھی تھی اور دہشت گردی کے متعلق پاکستان کی حکمت ِ عملی اور مستقبل کے تعین کی جھلک بھی۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بھلے سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تاہم جنرل راحیل شریف کی معیت میں وزیر اعظم کے اس خطاب کو محض ایک سیاسی تقریر نہیں کہا جا سکتا تاہم ان کے خطاب میں کوئی نئی بات بھی نہیں تھی کیونکہ اس کے متن میں جو کچھ موجود تھا وہ نیشنل ایکشن پلان کے حصہ کے طور پر عملی قالب میں ڈھل چکا ہے‘ بہ الفاظِ دیگر وہ اس سے ملتی جلتی باتیں سانحہ پشاور کے بعد کئی مرتبہ کر چکے ہیں‘ ذرا غور فرمائیے: ’’سانحہ پشاور کا دن ہمارے ماضی کا حصہ تو ہے ہی لیکن ہم اسے حال اور مستقبل کا حصہ بھی بنانا چاہتے ہیں۔ 16دسمبر 2014ء کا المیہ ہمارے دلوں کو چھلنی کر گیا لیکن ہمیں ایک کر گیا۔

تعلیم کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں‘ ہم تعلیم کو ترجیح بنائیں گے۔ ہم نئی نسل کو پرامن ترقی کی راہ پر گامزن پاکستان دینگے۔ پاکستان کے عوام کا دِل دُکھ اور غم سے بوجھل ہے۔ اس سانحہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور سب کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا کہ کیا انسانیت سے عاری ایسے درندے کسی نرمی کے مستحق ہیں؟ ایک سال پہلے بھی پشاور آتے میرے ذہن میں یہ خیال پختہ ہو رہا تھا کہ انسانوں کا مکالمہ ان سے ہو سکتا ہے جو انسانوں کی زبان سمجھتے ہوں۔ پشاور کی زمین پر قدم رکھنے سے پہلے مجھے معصوم بچوں کے لہو نے ایک فیصلے پر پہنچا دیا تھا کہ ہم پوری قوت کے ساتھ دہشت گردی پر ضرب لگائیں گے۔

میں قومی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جسکے تعاون سے ہم نے آئینی ترمیم کی، فوجی عدالتیں قائم کیں اور نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا اور اس پختہ عزم کے ساتھ میدان میں اُترے کہ اس سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لینگے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید بچوں کا لہو بول رہا ہے‘ آپریشن ضربِ عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔

ان کی پناہ گاہیں تباہ اور انفرااسٹرکچر ٹوٹ چکا ہے۔ بہت جلد دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک کا گوشہ گوشہ پرا من ہو گا‘‘۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو سیاسی اس لیے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے جو زبان بولی ہے وہ ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ ہے اور عسکری قیادت اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے پے در پے قربانیاں دے رہی ہے۔ پشاور میں دہشت گردی کے اور بھی بہت سے سانحات رونما ہوئے مگر اے پی ایس کا واقعہ اس لیے موسوم بہ ’’سانحۂ پشاور‘‘ ہو گیا کہ اس میں 140 معصوم بچوں کے بہیمانہ کشت و خون نے پتھر دلوں کو بھی روح کی گہرائیوں تک ہلا کر رکھ دیا‘ اگرچہ گزشتہ چھ سالوں کے دوران ملک بھر میں ساڑھے بارہ ہزار کے قریب معصوم بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِکا دُکا واقعات ذہنوں پر وہ اثر نہیں چھوڑتے جو مجموعی قتلِ عام کا ہوتا ہے۔

اس طرح کے سانحات جذباتی اور نفسیاتی طور پر براہِ راست انسانی یادداشت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور زبانی و رقمی تاریخ کے ریکارڈ پر ہونے کی وجہ سے ان کے اثرات آیندہ نسلوں کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ بھی کچھ ایسی ہی نوعیت کا ہے جس نے پوری قوم کے جذبۂ ترحم کو اُبھارا ہے۔ اتنے اعزازات و منسوبات 65ء اور 71ء کے فوجی شہداء کے نام بھی نہ ہوئے ہونگے جتنے اے پی ایس کے کم سِن شہیدوں کے حصے میں آئے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات خوش آیند ہے کہ پشاور آر کائیوز لائبریری کو سانحہ پشاور کے شہدا سے منسوب کر دیا گیا ہے اور وہاں ایک یادگار بھی تعمیر کی جا رہی ہے جس پر شہید بچوں کی تصویریں مزین کی جائینگی۔ وفاقی حکومت نے پہلے ہی اسلام آباد کے 122 اسکولوں اور کالجوں کو ان طلبہ سے موسوم کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

دہشت گردی کے ڈیڑھ عشرے پر محیط تلاطم نے معاشرے میں وہ انہدام بپا کیا ہے کہ حاشاللہ! یہ جنگ 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانیں نگل چکی ہے‘ اس کے علاوہ مالی و مِلکی نقصان بھی سوچ سے کہیں زیادہ ہے۔ 13 سالوں سے طاعون کی طرح پھیلی اس خونچکاں بیماری نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا ہے جن میں لاتعداد اطفال ایسے بھی ہیں جو خوف میں مبتلا ہو کر ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ پہروں میں گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر جانا آنا اور پہروں میں ہی تعلیم حاصل کرنا ٹراما میں مبتلا کر دینے کے لیے سب سے بڑا محرک ہے۔ بیدل حیدری نے اسی ماحول کی بُو سونگھ کر لکھا تھا:

ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچے

سانحہ پشاور میں صرف بچے نہیں مرے تھے‘ ان بچوں کو آدابِ انسانیت سکھانے والی ایک معلمہ کی بھی اس میں موت ہوئی تھی۔ افشاں سحر مدرّسۂ مکتب ہی نہ تھی اپنے شاگردوں کی محافظ بھی تھی‘ 16 دسمبر 2014ء کے اندوہناک واقعہ کے دوران وہ دہشت گردوں کے آگے ڈھال بن گئی اور بچوں تک پہنچنے سے پہلے اس نے اپنی لاش کو وحوشِ دہشت کی راہ میں بچھا دیا۔ اس ماہ لقاء کی شہادت پر علی سردار جعفری کی روح نے اسے خراجِ نوحہ پیش کر کے یارانِ محفل سے سم وبارود میں ڈوبے اس ماحول کی توجیہہ مانگی ہے:

ہماری پیاری حسیں زمیں پر
یہ قتل گہہ کا نظارہ کیوں ہے
یہ زندگی پارہ پارہ کیوں ہے
مجھے بتاؤ کہ آج کیسے
سیاہ بارود کی لکیریں
کٹیلے کاجل ، سجیلے سرمے
کے بانکپن سے الجھ گئی ہیں
مجھے بتاؤ لہو نے کیسے
حنا کے جادو کو دھو دیا ہے
حیات کے پیرہن کو انساں
کے آنسوؤں نے بھگو دیا ہے
میرے رفیقو! مجھے بتاؤ
کہ ساز نغموں سے کیوں ہیں روٹھے
بتا سکو تو مجھے بتاؤ
کہ تار کیوں پڑ گئے ہیں جھوٹے

پاکستان نائن الیون کے جعلی ڈرامے کی اصل قیمت آج تک چکا رہا ہے اور ہماری افواج اور دیگر سلامتی ادارے جارج بش کے چھوڑے ہوئے عفریت سے لڑتے لڑتے ناقابلِ تلافی مالی و جانی نقصان سے دوچار ہو چکے ہیں۔ جنرل مشرف نے اس تباہی میں اپنی آنکھیں بند رکھیں‘ اپنی غیر سنجیدہ حکمت ِ عملی کی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ ان کے دورِ حکومت میں کراچی اور بلوچستان بھی دوبارہ شورشوں کے گڑھ بن گئے۔

زرداری ان سے بھی بڑے دہلے ثابت ہوئے جن کی حکومت نے سارا فوکس کرپشن پر مرکوز رکھا اور عسکریت پسندی کو سر چڑھ کر بولنے کا موقع مل گیا‘ ان کے ساتھ ساتھ جنرل کیانی بھی اتنے باصلاحیت ثابت نہ ہوئے اور فوجی آپشن کے باوجود دہشت گردوں کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اس کے برعکس آپریشن ضربِ عضب نے محض ڈیڑھ سال کے عرصہ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

جنرل راحیل شریف بطور سپاہ سالار انتہائی باصلاحیت، حکمت جُو، مدبر اور تحمل مزاج واقع ہوئے ہیں‘ ان کی قیادت میں شروع کیے گئے آپریشن میں دہشت گردوں کے اب تک 837 ٹھکانوں اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کیا جا چکا ہے اور اب پاک افغان سرحد کے قریب عسکریت پسندوں کے آخری ٹھکانے بھی تباہ کیے جا رہے ہیں۔ پاک فوج نے گزشتہ 18 ماہ میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر 13 ہزار 200 کارروائیاں کی ہیں جن میں 183 خطرناک دہشت گرد ہلاک جب کہ 21 ہزار 193 گرفتار ہوئے۔

21 ویں ترمیم کے نتیجے میں ملک بھر میں قائم ہونے والی 11 فوجی عدالتوں میں 142 مقدمات لائے گئے‘ 55 کا فیصلہ ہو چکا‘ 87 کیسز پر پیشرفت جاری ہے اور اب تک 31 خطرناک دہشت گردوں کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود ہنوز ایک طویل سفر ہے جو پاک فوج کو طے کرنا ہے‘ اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے‘ صرف جانی نقصان کا شمار کیا جائے تو پاک آرمی، ایف سی خیبرپختونخوا، ایف سی بلوچستان اور سندھ رینجرز کے 488 افسران اور جوان شہید جب کہ ایک ہزار 914 زخمی ہوئے تاہم گزشتہ برس 16دسمبر کو اے پی ایس پشاور پر حملے کے بعد افواج پاکستان نے پوری قوم کی حمایت اور عزمِ نو کی وجہ سے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ پشاور کے بعد آپریشن ضربِ عضب کی رفتار وراز میں نمایاں تبدیلی اور ناقابلِ یقین حد تک تیزی آئی جسکے باعث ملک میں سیکیورٹی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ماضی کی بہ نسبت بہت بہتر ہوئی ہے۔ امریکا کے افغانستان سے جزوی انخلاء کے بعد خطے کی حرکیات مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہیں‘ اس کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان سے متعلق اپنی پالیسیاں از سر نو مرتب کی ہیں۔ اس وقت بھارت، اسرائیل اور افغانستان ایک نئی حکمت ِعملی کے ساتھ پاکستان میں سرگرمِ عمل ہیں۔

ان سب طاغوتی طاقتوں کے کرایہ کے قاتل کل بھی طالبان اور کالعدم مذہبی تنظیمیں تھیں آج بھی نئی شکلوں اور ناموں کے ساتھ وہی بھاڑے کے تکفیری مجاہد اس شیطانی مثلث کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں جن میں 70 اسلامی ممالک کے جہادی بھی داعش کے روپ میں شامل ہو چکے ہیں مگر ان کی فنڈنگ مشرقِ وسطیٰ کی داعش کی طرح سعودی عرب، امریکا، اسرائیل، ترکی اور اُردن نہیں کر رہا بلکہ بھارت اور اسرائیل کر رہے ہیں۔ ضربِ عضب کے سامنے پاکستانی طالبان کی طاقت ماند پڑتی دیکھ کر بھارت اور افغانستان سخت پریشان ہیں اور اپنے نیٹ ورک کو قابلِ عمل رکھنے کے لیے انھوں نے افغانستان سے بیروزگار افغان جوانوں اور پاکستان سے مذہبی تنظیموں کے کارندوں کو کرایہ کے قاتلوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

ضربِ عضب کے خوف سے ’’را‘‘ اور ’’خاد‘‘ نے بلوچستان اور کراچی کو اپنی کارروائیوں کا مرکز بنا لیا ہے اور اس کام کے لیے لاکھوں افغانوں کی پاکستان میں غیرقانونی آمد کا سلسلہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت نے مکارانہ چالوں سے بنگلہ دیش اور ایران کو بھی پاکستان مخالف قوتوں کے طور پر اُبھارنا شروع کر رکھا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی پاکستان کا دشمن بنا دیا جائے۔ اسے ایک طرف ضربِ عضب کا دکھ ہے تو دوسری طرف اکنامک کا ریڈور کا منصوبہ اسے تِیر کی طرح چیرے جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں مودی سرکار کی پوری کوشش ہے کہ دونوں بڑے شریفوں کو راہ سے ہٹا دیا جائے۔

جنرل راحیل شریف کو نقصان پہنچانا تو ان کے بس کی بات نہیں‘ ہاں نواز شریف کی حکومت ختم کروانے کے لیے انھوں نے ایک خاص لابی کو متحرک کر دیا ہے جو برطانیہ، امریکا اور پاکستان میں اپنا ہوم ورک تیار کر رہی ہے۔

بھارتی صحافی برکھا دت کا حالیہ انٹرویو اور کتاب کا منظرعام پر آنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ اس کی تفصیل آنیوالا وقت خود ہی بتا دیگا کہ نواز شریف کو ہٹانے کا بھارتی منصوبہ کیسے روبہ عمل ہوتا ہے۔ مستقبل قریب میں بھارت کی طرف سے ایسے مزید شوشے چھوڑے جانے کے قوی امکانات ہیں جن سے نواز شریف اور عسکری قیادت کے درمیان تفاوت پیدا ہو سکتی ہے‘ علاوہ ازیں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی ، اے این پی اور پی ٹی آئی حتیٰ کہ جے یو آئی بھی نواز حکومت کے خلاف گٹھ جوڑ کر سکتی ہیں جن کے تانتے بھارتی لابی کے ہاتھ میں ہونگے۔ واہگہ بارڈر سے لے کر سانحہ پشاور تک دہشت گردی کے تمام منصوبے بھارت کے ہیں‘ ان میں پاک فوج، رینجرز اور ایف سی کو بری طرح بدنام کرنے کے پلان بھی شامل ہیں اور آئی ایس آئی کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے بھی۔

اس پلان کی ابتداء سانحہ پشاور سے کی گئی جس کا اسکرپٹ اور پروڈکشن ’’را‘‘ کا تھا جب کہ لاجسٹک سپورٹ اور ڈائریکشن ’’خاد‘‘ کی تھی۔ سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر تناؤ اور بھارت کی طرف سے مسلسل گولہ باری بھی پاک فوج کا ضربِ عضب سے دھیان ہٹانے کا شاخسانہ ہی تھی۔ مودی سرکار اس لیے بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک وہ اپنی ذہنیت کے مطابق زیب ِ داستاں کے لیے بھی پاکستان کو کسی بڑے فتنے میں مبتلا نہیں کر پائی۔ سانحہ پشاور کے بعد پاک فوج نے بھارت کو پاکستان میں ہر محاذ پر پسپا کیا ہے۔

آجکل دہشت ساز ممالک تاریخی تواریخ اور مشہور سیکیورٹی کوڈز کے ہندسوں کو اپنے فسادی منصوبوں میں برت رہے ہیں ‘جیسا کہ امریکا نے جب خودساختہ نائن الیون کا منصوبہ بنایا تو اس نے اپنے ایمرجنسی پولیس کے نمبر 911 (ہمارے 15 کے طرح) کو نائن الیون کا نام دیکر اسی تاریخ اور مہینے کی مناسبت سے استعمال کیا۔ اسی طرح بارہ سال پہلے انڈیا نے ایک ہندی فیچر فلم ’’16 دسمبر‘‘ بنائی تھی جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک آفیسر کو اطلاع ملتی ہے کہ ایک پاکستانی فوجی افسر (جسے انھوں نے ولن دکھایا ہے) سقوطِ ڈھاکہ کا بدلہ لینے کے لیے 16 دسمبر کو بھارت میں دہشت گردی کی ایک بہت بڑی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے تو انڈیا سے کسی 16 دسمبر کو بدلہ نہیں لیا البتہ انڈیا نے ضرور 16 دسمبر کو سانحہ اے پی ایس کر کے پاکستان کے سانحہ مشرقی پاکستان کے زخم کو ایک بار پھر تازہ کر دیا۔ اسقاطِ ڈھاکہ اور واقعۂ طفلانِ پشاور کا ایک ہی یوم و ماہ کو وقوع پذیر ہونا ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے۔

بہ امرِ واقعہ اس غم انگیز آفت ِ ناگہانی نے پاکستان کو دہشت گردی کے رِستے ہوئے ناسور کا علاج فراہم کر دیا ہے اور فی الحقیقت یہ سانحہ 13 سالہ دہشت گردی کے خلاف رینگتی ہوئی جنگ کا نقطۂ خم دار ثابت ہوا ہے۔ یہ شہید معصوموں کی قربانی کا اثر ہے کہ ننھوں فرشتوں کی لاشیں اور خون دیکھ کر پوری قوم متحد ہو گئی‘ یہی نہیں بلکہ ملک و قوم کی بقا کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کو بھی مجبوراً ایک صفحے پر آنا پڑا۔ اسی ردِعمل کی پیروی میں 21 ویں آئینی ترمیم بھی منظور ہوئی، فوجی عدالتوں کی راہ بھی ہموار ہوئی، نیشنل ایکشن پلان بھی وضع ہوا اور آپریشن ضربِ عضب کو از سر نو برسرِ عمل لایا گیا۔

نیشنل ایکشن پلان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اُن جملہ خامیوں کو رفع کرنے کی سعی کی گئی ہے جن کی وجہ سے ماضی میں انسدادِ دہشت گردی کے منصوبے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے۔ امریکا کی عطا کی ہوئی اس طویل جنگ میں پاکستان نے فوجی افسروں، جوانوں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں (جن میں بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہیں) کے خون کا بھاری خراج پیش کیا ہے‘ شہریوں کی املاک اور قومی معیشت کا بیش بہا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ ان کارروائیوں میں فوجی قافلوں، چیک پوسٹوں اور اہم تنصیبات پر خودکش حملے، اسکولوں اور مقدس مذہبی مقامات پر بم دھماکے اور معصوم شہریوں کا قتلِ عام بھی شامل ہے۔

اس زیاں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کا ملک سے اُٹھ جانا اور مجموعی تجارتی خسارہ بھی ناقابلِ فراموش ہیں جن کے سبب پاکستان کی معیشت زیربار آئی اور کاروبارِ زندگی کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ سانحہ پشاور کے شہیدوں کا خون رنگ لے آیا ہے جس کی بدولت پاکستان میں ہر طرف امن کی بہار لوٹ رہی ہے‘ اسی مسرت میں اس بار اے پی ایس کی پہلی برسی پاکستان بھر میں قومی یکجہتی اور ملی جوش وجذبہ کے ساتھ منائی گئی۔ ہم نے بھی 17 دسمبر کو ڈپٹی کمشنر کی خصوصی دعوت پر لاہور کے جناح ہال میں سانحہ پشاور کی یاد میں رکھی گئی تقریب میں شرکت کی جس میں بطور خاص کمشنر لاہور عبداللہ سنبل اور صوبائی وزیر بلال یٰسین بھی شریک تھے‘ سب جانتے ہیں کہ ہم تقریبات میں بہت کم جاتے ہیںلیکن سانحہ پشاور کی برسی کی تقریب میں شرکت کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات تھی۔

ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) عثمان یونس آئے روز ایسی تقریبات منعقد کر کے عوام کو متحرک رکھتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے میں بھی دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اس خصوصی تقریب میں سانحہ واہگہ بارڈر اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں جانیں گنوانے والے شہداء کے لواحقین، بچوں، چند صحافیوں اور معززین شہر کو مدعو کیا گیا تھا‘ بچوں کے ملی نغمے اور سانحہ پشاور کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے دل گرمادینے والے گیت سن کر حاضرین کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج نے جس طرح ملک بھر میں دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑا ہے اسی جذبہ کے ساتھ اسے اس سیاسی و مذہبی نیٹ ورک کو بھی توڑنے کی ضرورت ہے جسکے اکابرین کی ہمدردیاں ملک و قوم اور فوج کے ساتھ ہونے کے بجائے امن کے دشمنوں کے ساتھ ہیں جن کے بچوں کو پڑھانے کا قوم کے بچوں نے عزم باندھ لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔