بھارت کے سر پر منڈلاتا خطرہ۔۔۔۔۔’’خالصتان‘‘

سید بابر علی  اتوار 20 دسمبر 2015
خالصتان تحریک سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔:فوٹو : فائل

خالصتان تحریک سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔:فوٹو : فائل

سکھ قوم فطرتاً امن پسند ہے، لیکن وہ ایک مدت سے ظلم کا شکار ہے۔ تقسیم سے قبل سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے آل انڈیا نیشنل کانگریس کے راہ نماؤں نے سکھوں کو الگ ریاست کے خواب دکھائے، بعدازانہوں نے سکھوں ہی کو قانون شکن قراردے دیا۔ ان تمام عوامل نے سکھوں کو خالصتان تحریک چلانے پر مجبور کیا۔خالصتان تحریک سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔

1980 کی دہائی میں خالصتان تحریک اپنے عروج پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ تاہم 1984میں اُس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو اسٹار کرکے اس تحریک کو منتشر کردیا تھا۔ سکھوں کی جانب سے خالصتان تحریک کے ساتھ پنجابی صوبے کا مطالبہ بھی عروج پر رہا۔ خالصتان تحریک اور اس کا پس منظر جانے کے لیے ہمیں سکھ مذہب کی تاریخ کا عمومی جائزہ لینا پڑے گا۔ سکھ مذہب کا آغاز تو پندرھویں صدی میں بابا گرُو نانک نے کیا۔

بعدازاں گُرونانک اور اُن کے پیش رو، نو گُرووں نے سکھ عقائد کو آنے والی کئی صدیوں تک فروغ دینے کا کام کیا۔ لیکن پانچویں گُرو، گُرو ارجن کے دور میں سکھ ازم صحیح معنوں میں مستحکم ہوا۔ گرُو ارجن نے امرتسر کو دنیا بھر کے سکھوں کے لیے دارالحکومت قرار دیا اور سکھوں کی پہلی مستند مذہبی کتاب ’ادی گرنتھ‘ مرتب کی۔ تاہم گُرو ارجن کے دور میں ریاست کی جانب سے سکھ ازم کو ایک خطرہ سمجھا گیا اور1606میں گُرو ارجن کو پھانسی دے دی گئی۔

ریاستی مظالم سے تنگ چھٹے گُرو ہرگوبند نے سکھ کمیونٹی کو عسکری تربیت دینا شروع کی تا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم کا مقابلہ کر سکیں۔ اس دور میں سکھوں نے اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے کئی لڑائیاں لڑیں۔ مغلیہ دور حکومت آنے تک سکھوں نے حکم رانوں کے ساتھ نسبتاً پُر امن دور گزارا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں حکومت اور سکھوں کے درمیان آویزش نے جنم لیا، جس نے تصادم کی صورت اختیار کرلی۔ 1675میں اورنگزیب نے نویں گُروتیغ بہادر کو گرفتار کرکے تختۂ دار پر لٹکا دیا۔

1699میں دسویں گُرو گوبند سنگھ نے مردوخواتین پر مشتمل عسکری گروپ ’خالصہ‘ تشکیل دیا، جس کا مقصد اپنے عقیدے کا تحفظ کرنا تھا۔ گوبند سنگھ نے سکھوں کی ابتدائی رسم (کندھے دی پھول) قائم کی اور سکھوں کو انوکھی وضع قطع دینے کے لیے پانچ ’ک‘ دیے۔ گوبند سکھوں کے آخری گُرو تھے، اب سکھ اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔

سکھوں کے پہلے عسکری لیڈر بندا سنگھ بہادر تھے، جنہوں نے 1716میں اپنی گرفتاری اور پھانسی تک مغلوں کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ سترھویں صدی کے وسط میں سکھ ایک بار پھر منظم ہوئے اور اگلے پچاس سالوں میں انہوں نے خطے کے زیادہ سے زیادہ حصے پر اپنا تسلط قائم کیا۔ 1799میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا اور1801میں پنجاب کو ایک خود مختار ریاست قرار دے کر خود کو مہاراجہ کا لقب دیا۔ اُس نے ایک ایسی ریاست میں کام یابی سے حکومت کی جہاں سکھ اقلیت میں تھے۔

1839میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اقتدار کے لیے ہونے والی جنگ نے ریاست کو دو لخت کردیا۔ 1845میں سلطنتِ برطانیہ نے اندرون خانہ ہونے والی لڑائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھ فوج کو شکست سے دوچار کیا اور ان کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کرلیا۔ چار سال بعد سکھوں نے دوبارہ برطانوی فوج پر حملہ کیا، تاہم اس میں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس لڑائی کے بعد انگریزوں اور سکھوں کے درمیان تعلقات خوش گوار ہوگئے اور سکھوں کی بڑی تعداد نے بعد میں برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیں۔

تاہم یہ دوستی زیادہ عرصے نہیں چل سکی اور اس کا اختتام 1919میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام پر ہوا، جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں سکھ بھی مارے گئے۔ یہ برٹش انڈیا کا ایک شرم ناک واقعہ تھا، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے؛ اپریل 1919کو برطانوی فوجی دستوں کی کمانڈ کرنے والے جنرل ای ایچ ڈائر نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں تقریباً چار سو افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

طاقت کے نشے میں چور اور ہندوستانیوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے جنرل ڈائر کے نزدیک یہ قتل عام پنجاب کو اخلاقی سبق سکھانے کے لیے ضروری تھا۔ حکومتِ برطانیہ نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جنرل ڈائر کو کسی سزا کے بغیر قبل از وقت ریٹائر کردیا۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ سانحہ امرتسر ہی برطانوی راج کے زوال کی بنیاد بنا، اور اس کے بعد ہی تقسیم کے لیے جدوجہد میں زیادہ تیزی ہوگئی۔

1947میں ہونے والی تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہنے میں والے سکھوں کے ساتھ برا سلوک روا رکھا گیا، کیوں کہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ تقسیم کے وقت اپنے لیے علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کرسکے۔ لیکن تقسیم نے انہیں ان کے گھروں، زمینوں سے محروم کردیا۔ سکھوں کے لیے الگ ریاست کے مطالبے کو حکومت ہند نے کبھی تسلیم نہیں کیا ۔ ان تمام عوامل نے سکھوں کے غصے کو مزید بڑھا کر دونوں مذاہب (سکھوں اور ہندوؤں) کے درمیان سیاسی مخاصمت پیدا کردی، جس کے نتیجے میں متعدد پُرتشدد واقعات بھی ہوئے۔

اسی دور میں ایک سکھ مبلغ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا سکھوں کے راہ نما کے طور پر سامنے آئے۔ اور علیحدہ ریاست کے لیے کوششیں شروع کیں۔ 1983میں جرنیل سنگھ اور اُن کے پیش روؤں نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے لی، جس کے بعد بھارتی حکومت نے گولڈن ٹیمپل کو اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہونے اور عسکریت پسندوں، مطلوب مجرموں کی پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے کارروائی کا فیصلہ کیا۔

جون 1984میں اندرا گاندھی نے متنازعہ ’آپریشن بلیو اسٹار‘ کی منظوری دی۔ گولڈن ٹیمپل پر سرکاری سرپرستی میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں نہ صرف اس سکھوں کے اس مقدس مقام اور تاریخی عمارت کو شدید نُقصان پہنچا، بل کہ کافی جانی نْقصان بھی ہوا۔ اپنے مقدس مقام کی بے حرمتی نے سکھوں کو مشتعل کردیا۔ یہی بات سانحہ محض چار ماہ بعد31اکتوبر 1984کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کا محرک بنی، جنہوں نے دانستہ طور پر سکھ عقائد کی بے حرمتی اور مقدس مقام پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اسی بات نے اندراگاندھی کے سکھ محافظوں کو انہیں قتل کرنے پر مجبور کیا۔

اندراگاندھی کے قتل کے بعدپورے ملک میں سکھ مخالف مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق چار دن جاری ہونے والے ان پُر تشدد واقعات میں2700سکھ قتل کیے گئے، لیکن اخبارات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس بلوے میں قتل ہونے والے سکھوں کی تعداد دس ہزار سے 17ہزار کے درمیان ہے۔ سکھ کمیونٹی تاحال اس قتل عام کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر کشیدہ خاطر ہے۔

اس سے قبل 1966میں سکھوں کے مطالبے کو مانتے ہوئے بھارتی حکومت نے پنجاب کو تین ریاستوں ہریانہ، ہماچل پردیش اور سکھوں کی اکثریت والے حصے پنجاب میں تقسیم کردیا تھا۔ تاہم یہ عمل بھی سکھوں کا غصہ کم نہ کرسکا اور حکومت کی جانب سے روا رکھے جانے والے مذہبی اور لسانی تعصب اور ریاست پنجاب کی حدود کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھارتی حکومت کے سامنے اپنے مزید مطالبات پیش کیے، جنہیں حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ایک عرصے تک سکھوں کی اکثریت پر مشتمل ریاست مشرقی پنجاب میں صورت حال پُرامن ہے اور خالصتان تحریک کم زور پڑگئی۔

تاہم اس سال مشرقی پنجاب میں امن وامان کی صورت حال دوبارہ بگڑ گئی اور خالصتان تحریک نے ازسرنو سر اٹھا لیا ہے۔ دوسری طرف دیگر ملکوں میں موجود سکھ انتہاپسندوں کی جانب سے خالصتان تحریک کے دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ بھارت کے سر پر اب بھی منڈلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت امریکا میں کانگریشنل انتخابات میں خالصتان کے حامی عناصر کے کردار پر امریکا کو تنبیہ کرچکا ہے، جب کہ 2015میں گورداس پور حملہ اس تحریک کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جارہا ہے۔

بھارتی خفیہ ایجسنی را کے مطابق سکھ شدت پسند جرمنی، برطانیہ، امریکا اور ملائیشیا جیسے ملکوں میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، جس کا واضح ثبوت ریاست کیلی فورنیا میں بھارت مخالف ریلی ہے، جس میں تقریباً چھے سے آٹھ ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔ حال ہی میں خالصتان تحریک کے حق میں کئی نعرے سامنے آئے ہیں۔ آپریشن بلیو اسٹار کی اکتیسویں برسی کے موقع ہونے والے اجتماع میں بھی خالصتان تحریک کے نعرے گائے گئے جس پر پولیس نے 25سکھ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا تھا۔
۔۔

علیحدگی گی پسند سکھ عسکری تنظیمیں
سکھوں کے لیے علحیدہ ملک خالصتان کے قیام کے لیے تحریک چلانے کے کے لیے سکھوں کے بہت سے عسکری گروپ سرگرم ہیں: جن میں سے اہم درج ذیل ہیں۔

٭ببر خالصہ انٹرنیشنل
دہشت گردی اور عسکری کارروائیوں کی بنا پر اس تنظیم کا نام یورپی یونین، کینیڈا، بھارت اور برطانیہ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ کینیڈا اور امریکا کی عدالتیں 27جون 2002کو بھارتی فضائی کمپنی ایئرانڈیا کی پرواز182 کو بم سے تباہ کرنے کے واقعے میں ملوث قرار دے چکی ہیں۔

٭انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن
برطانیہ میں سکھوں کی جانب سے بنائی گئی اس تنظیم کا نام بھی کینیڈا اور بھارت کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔

٭خالصتان کمانڈو فورس
سربت خالصہ کی جانب سے بنائی گئی یہ تنظیم گرچہ ابھی تک کسی دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق یہ عسکری گروپ 1995میں بھارت میں وزیراعلیٰ بینت سنگھ اور سیکڑوں ہلاکتوں کی ذمے دار ہے۔

٭خالصتان زندہ باد فورس
یورپی یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں موجود یہ عسکری گروپ مبینہ طور پر 2006میں جالندھر میں انٹر اسٹیٹ بس ٹرمینل پر دھماکوں کا ذمے دار ہے۔

٭خالصتان لبریشن فورس
1986میں قائم ہونے والی یہ شدت پسند تنظیم اسی سے نوے کے عشرے میں بھارت میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں ملوث ہے۔

بھارتی حکومت کے جھوٹے وعدے
1947میں تقسیم کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور قتل عام ہوا۔ سرحدوں کی تقسیم کے بعد نصف پنجاب پاکستان اور بقیہ ہندوستان کے پاس چلا گیا۔ پاکستانی پنجاب میں رہنے والے سکھوں نے بھارت ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ تقسیم کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زائد سکھ مارے گئے، لاکھوں روپے کی جائیداد کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ سکھوں نے یہ قربانی صرف کانگریس راہ نماؤں کے جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر دی، جنہوں نے تقسیم سے قبل سکھوں کو مستقبل کے سہانے خواب دکھا تے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے شمالی علاقوں میں سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست قائم کی جائے گی، جہاں وہ آزادی سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ اُس وقت سکھوں سے تین بڑے وعدے کیے گئے، جن کے پورا نہ ہونے پر سکھوں میں بددلی پیدا ہوئی۔

٭ پہلا وعدہ، سکھوں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھا جائے گا
سکھوں سے پہلا وعدہ یہ کیا گیا کہ کانگریس حال اور مستقبل میں ایسی کوئی بھی قرارداد منظور نہیں کرے گی، جس سے سکھوں کے جذبات مجروح ہوں یا وہ قرارداد ان (سکھوں) کے لیے اطمینان بخش نہ ہو۔ لیکن تقسیم کے بعد صرف تین ماہ بعد ہی 10اکتوبر1947کو پنڈت جواہر لال نہرو نے سکھوں کو ’قانون شکن لوگ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سکھ قانون شکن لوگ ہیں، انہوں نے ہندو قوانین کو توڑا ہے۔ حکومت کو اُن کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔‘ بعدازاں بھارتی آئین میں آرٹیکل 25کا بھی اضافہ کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ سکھ ازم ہندوؤں کا ایک فرقہ تھا۔ بھارتی حکومت نے راجیہ سبھا میں موجود سکھ ارکان کی جانب سے مسترد کیے جانے کے باوجود آرٹیکل 25کو آئین کا حصہ بنا دیا۔

٭دوسرا وعدہ، سکھ ریاست قائم کی جائے گی
تقسیم کے وقت سکھوں کے لیے ملک کے شمال میں ایک خود مختار ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 1937میں کلکتہ میں کانگریس کی جانب سے منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ’زبان کی بنیاد پر اس ریاست کے قیام سے اقلیت کی ثقافت، زبان اور اقدار کا تحفظ کیا جاسکے گا۔‘ 1945میں خود جواہر لال نہرو کا اس بابت کچھ یوں کہنا تھا،’صوبائی سرحدوں کی ازسرِ نو تقسیم ناگزیر ہے۔

میں ایک خودمختار یونٹ کے حق میں ہوں۔ اگر سکھ ایک یونٹ کے طور پر فعال ہونا چاہتے ہیں، تو میں اس بات کو پسند کروں گا کہ وہ صوبے میں خودمختار ہوں۔‘ سکھ قوم کو قانون شکن قرار دینے والے نہرو نے نو جنوری 1930کو ایک تقریب میں سکھوں کو پنجاب کے بہادر سپوت پکارتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ (سکھ) خصوصی التفات کے حق دار ہیں اور شمالی پنجاب میں ان کے لیے ایک مخصوص ریاست بنانے میں، میں کوئی بُرائی نہیں سمجھتا، اور سکھ بھی آزادی کو محسوس کرسکتے ہیں۔

لیکن بعد میں بھارتی راہ نما پینترا بدلتے ہوئے نہ صرف اپنے اس وعدے سے مُکر گئے بل کہ سکھوں کے الگ صوبے کے جائز مطالبے کو ملک کی وحدت کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔ سکھوں کو بہادر سپوت کہنے والے نہرو اپنے ہی بیان سے کچھ اس طرح مُکرے،’میں ملک میں خانہ جنگی برداشت کرسکتا ہوں لیکن پنجابی ریاست نہیں‘ پنجابی بولنے والوں کے لیے ریاست بنانے کا مطلب سکھ قوم کو پھلنے پھولنے کا موقع دینا ہے۔‘

٭تیسرا وعدہ، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا
انڈین نیشنل کانگریس سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اور راجیہ سبھا کے رکن بینی گل شیوا راؤ نے ’فریمنگ آف انڈین کانسٹی ٹیوشن‘ کے صفحہ 181پر اقلیتوں کے تحفظ کو کچھ اس طرح بیان کیا تھا، ’اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے، یہ ایک اقرارنامہ تھا، ایک درخواست اور ایک ایسی یادداشت تھی جس کے تحت لاکھوں بھارتیوں سے معاہدہ کیا گیا تھا، اور ہمیں اس عہد کو پورا کرنا چاہیے۔‘

لیکن دوسرے وعدوں کی طرح حکومت نے اس وعدے کو پورا کرنے کے بجائے بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے کی پالیسی پر عمل کیا اور اقلیتوں کو یہ باور کرایا گیا کہ انہیں یا تو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر رہنا ہوگا یا وہ خود کو ہندو اکثریت میں ضم کرلیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت میں جمہوریت کا لفظ محض دستاویزات کی حد تک ہے۔

اسے عملی طور پر کبھی نافذ نہیں کیا گیا۔ حکومتی مکروفریب نے نہ صرف سکھ قوم کو مشتعل کیا بل کہ انہیں غلامی کی ایک نئی زنجیر میں پہنادی۔ حکومت اور ہندو عوام کی جانب سے انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ پنجاب میں 72سے96فی صد اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ہندو اکثریت قابض ہے۔ فوج میں بھرتی میرٹ کے بجائے آبادی کے لحاظ سے ہورہی ہے۔ سکھوں کا کوٹا 40فی صد سے کم ہوکر 1اعشاریہ 2فی صد رہ گیا ہے۔ اس بارے میں سکھوں کی تاریخ اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ہرجندر سنگھ دل گرہ کا کہنا ہے کہ، ’سکھوں کے ساتھ ہر شعبۂ زندگی میں امتیاز برتا جا رہا ہے، ہندوؤں نے سکھوں کے بارے میں تذلیل آمیز لطیفے بنانا شروع کردیے ہیں۔ وہ موقع ملنے پر معصوم سکھوں پر حملے کرتے ہیں۔‘

سکھ اپنی ہی ریاست پنجاب میں ہندو انتہاپسندوں کی شر انگیزی سے محفوظ نہیں۔ کچھ عرصے قبل ہی گُرو گوبنِد سنگھ کی یاد میں ہونے والی تقریب پر انتہاپسند ہندوؤں نے گھریلو ساختہ تیزابی بم اور پتھروں سے حملہ کردیا تھا۔ لیکن پولیس نے یہ سب دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا، اور حملہ آور سکون سے اپنا کام کرکے فرار ہوگئے۔

٭ الگ صوبے کی جدوجہد
1955میں بھارتی حکومت نے زبان کی بنیاد پر سکھوں کے لیے علیحدہ صوبہ بنانے سے انکار کردیا اور پنجابی ریاست کے لیے جدوجہد کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔ حکومت کا یہ اقدام نہ صرف غیرآئینی تھا بل کہ یہ آزادی اظہار ایکٹ کی براہ راست خلاف ورزی بھی تھی۔ سکھوں نے اس حکومتی فیصلے کی پُرامن احتجاج کے ذریعے مذمت کی ۔ سکھوں کی سیاسی اور مذہبی پیشوا ماسٹر تارا سنگھ نے اپنی تقریر میں اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’ہم نے آزادی کا مطالبہ کیا لیکن حکومت ہمیں غلام بنانا چاہتی ہے اب تو ہم پر پنجابی صوبے کا نام تک لینے پر پابندی ہے۔ یہ سب ہماری حرمت کو تباہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

ہم پنجابی صوبے کے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے اور پولیس کو رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں پیش کریں گے۔ ‘ تارا سنگھ کی ہدایت پر خود مختار پنجابی ریاست کے حق میں مہم اور گرفتاریاں پیش کی گئیں۔ انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے سکھوں کے اس مطالبے کو پاکستان کی سازش سے تعبیر کیا۔ سکھوں کو ملک دشمن اور غدار کہا گیا۔

1960تک تقریباً 25ہزار سکھوں کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔ ان کی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ، جلاؤگھیراؤ کیا گیا۔ سکھ راہ نماؤں نے مختلف مواقع پر نہرو سے ملاقات کی، لیکن انہوں نے ہر بار سکھوں کے مسائل سننے اور اُن کے مطالبات مانے سے انکار کیا۔ نہرو نے پنجابی ریاست کے قیام کو ملکی مفاد اور پنجاب میں رہنے والے ہندوؤں کے لیے خطرہ قرار دیا، جب کہ سکھ راہ نما اجیت سنگھ اور تارا سنگھ نے نہرو کو متعدد بار یہ بات بات باور کروانے کی کو شش کی کہ ’ ہم سکھ اکثریت والی ریاست نہیں چاہتے۔ ہم تو صر ف ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں بنیادی زبان پنجابی ہو۔ اس میں یہ زبان بولنے والے ہندو، سکھ سب شامل ہوں۔‘‘
سکھوں کے شدید احتجاج کے بعد 1966میں بھارتی حکومت نے پنجابی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن رپورٹ کی بنیاد پر پرانے پنجاب کو تین حصوں ہریانہ، ہماچل اور سکھ اکثریت کے پنجاب کے نام سے ہی علیحدہ ریاست قائم کی، لیکن اس میں بھی بددیانتی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پنجاب کے کئی وسائل میں ہریانہ کو شراکت دار بنایا گیا۔

٭ سکھوں کو ملنے والی بیرونی امداد
آپریشن بلیواسٹار کے بعد سکھوں نے بیرون ملک منظم ہونا شروع کیا۔ 2006 میں کینیڈا کے ٹی وی چینل سی بی سی کی سکھ مذہب پر بننے والی دستاویزی فلم کے مطابق کینیڈا میں مقیم سکھ کمیونٹی نہ صرف سیاسی اثرورسوخ بڑھا رہی ہے بل کہ کھلے عام خود مختار سکھ ریاست کے لیے ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے لیے مدد فراہم کرر ہی ہے۔ کینیڈا کی ورلڈ سکھ آرگنائزیشن نے اس دستاویزی فلم میں لگائے گئے الزامات کو غلط قرار دے کر ٹی وی چینل پر ہتک عزت کا دعویٰ کردیا۔

کینیڈا ہی ایک اور صحافی کم بولان نے سکھ کمیونٹی کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی رپورٹ شایع کی۔ فروری 2008 میں بی بی سی ریڈیو 4نے پنجاب پول سربراہ این پی ایس اولاکھ کے اس بیان کو نشر کیا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر برطانیہ کی سکھ کمیونٹی پر پنجاب میں پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث عسکری گروپوں کی مالی امداد کا الزام عائد کیا تھا۔ لندن ہی کے ایک اور صحافی اینڈریو گلیگین نے ’دی لندن ایوننگ اسٹینڈرڈ‘ میں ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا گیا کہ برطانیہ کی سکھ فیڈریشن، انٹر نیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن کی پیروکار ہے اور اس کے ارکان سیاسی قتل ، بم دھماکوں اور اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ یاد رہے کہ انٹر نیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن برطانیہ میں جلاوطن دہشت گرد گروپ کی فہرست میں شامل ہے، تاہم یہ امریکا کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔