معصوم شہداء کی قربانیاں… ہم نہیں بھولیں گے

احسن کامرے  پير 21 دسمبر 2015
سانحہ آرمی پبلک سکول کی پہلی برسی کے موقع پر پشاور میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: عبدالغفار بیگ/ایکسپریس

سانحہ آرمی پبلک سکول کی پہلی برسی کے موقع پر پشاور میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: عبدالغفار بیگ/ایکسپریس

سانحہ آرمی پبلک سکول ملکی تاریخ میں برپا ہونے والے سانحات میں امتیاز رکھتا ہے۔ اس دن ایک سو چوالیس بچوں کو جس طرح بے دردی سے شہید کیا گیا گویا پوری قوم کو شہید کرنے کے مترادف تھا۔ اس سانحہ کو ایک برس بیت گیا ہے لیکن پوری قوم کا غم اور دکھ ابھی بھی تازہ ہے۔  سانحہ آرمی پبلک سکول کی پہلی برسی کے موقع پر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی قائدین، دفاعی ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور شہید بچوں کے والدین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عنایت اللہ خان (سینئر وزیربرائے بلدیات خیبرپختونخوا)

آرمی پبلک سکول کا واقعہ16دسمبر کو پیش آیا ،یہ وہی دن ہے کہ جس دن 1971ء میں ہمارا ملک دولخت ہواتھا اور اب اسی سیاہ روز ’’اے پی ایس‘‘ کا سانحہ رونما ہوا جس نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس واقعہ کی وجہ سے پوری قوم اورسیاسی قیادت نے مل کر فیصلے کیے اورخطے اور ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں یکسوئی پیدا ہوئی۔ قومی ایکشن پلان تشکیل دیاگیا اور پھر فوج نے دہشت گردوں کے خلاف موثر انداز میں کاروائیاں شروع کیں جو ابھی تک جاری ہیں۔آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے حوالے سے تحقیقات نہ کرانے کا الزام کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ یہ سکول کینٹ میں واقع ہے اور اس واقعہ کے حوالے سے تمام تر تحقیقات فوج نے کیں ہیں اورفوج بھی حکومت کاہی ادارہ ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ایپکس کمیٹیاں بنائی گئیں جن میں گورنر، وزیراعلیٰ، کورکمانڈر اور دیگر متعلقہ حکام مل بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ اے پی ایس کے واقعہ کے بعد پوری قوم ، فوج ، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں اوراے پی ایس شہداء کی برسی کے سلسلے میں جو تقریب سکول میں منعقد ہوئی وہ بھی سب کی مشاورت سے کی گئی۔

صوبائی حکومت نے آرمی پبلک سکول کے شہداء کے ورثاء کو بیس ،بیس لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کیے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کو مفت علاج فراہم کیا گیا اور جن لوگوں کو علاج معالجے کے لیے دیگر شہروں میں بھجوانا ضروری تھا انھیں وہاں بھجوایاگیا اور جن کا علاج اندرون ملک ممکن نہ تھاانہیں بیرون ملک بھجوایا گیا۔ صوبائی حکومت نے ان شہیدبچوں کی یاد ہمیشہ کے لیے دلوں میں زندہ رکھنے کی غرض سے تعلیمی اداروں کو ان کے ناموں سے منسوب کیا جبکہ فوج نے بھی بچوں کو وظائف اور کیڈٹ کالجز میں داخلے دیئے۔ ان بچوں اور ان کے والدین کو عمرہ اور بیرون ملک کے دورے بھی کروائے گئے جب کہ ان کا نفسیاتی علاج بھی کروایا جا رہا ہے تاکہ بچوں اور بڑوں پر اس واقعہ کے اثرات ختم کیے جاسکیں ۔ اے پی ایس کے واقعہ میں شہید ہونے والوں کے حوالے سے شہداء فورم اور بچ جانے والوں کے حوالے سے غازی فورم بنائے گئے اور ان کی جانب سے حکومت کو جوتجاویز دی گئیں ان میں سے جن پر عمل درآمد ممکن تھا وہ کیا گیا۔

حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھار ہی ہے اور ہماری پوری کوشش ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی نہ رہے لیکن یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ لازمی طور پر خامیاں رہی ہوںگی۔ اے پی ایس واقعہ میں جو دہشت گرد کارروائی کرنے آئے تھے وہ سب موقع پر ہی مارے گئے یا انہوں نے خود کو اڑا لیا جبکہ ان کے سہولت کاروں کو پھانسی دے کر کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ دکھی دلوں کو سکون مل سکے۔ جہاں تک اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ سرحد پار ہیں، اس لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں تاہم اگر شہداء کے والدین اور ورثاء کا اصرار ہے تو پھر اس پر غور کیا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت شہداء کے ورثاء اور والدین کا اطمینان چاہتی ہے۔اسی مقصد کے لیے صوبائی حکومت نے اے پی ایس شہداء کے ورثاء اور والدین سے رابطے اوربات چیت کے لیے سپیکر صوبائی اسمبلی اسدقیصر کو کوآرڈینیٹر مقرر کیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات مشتاق احمد غنی فوج کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

میاں افتخار حسین (مرکزی جنرل سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی)

سانحہ آرمی پبلک سکول کوایک سال مکمل ہوچکاہے لیکن درد ابھی تک کم نہیں ہوا۔ اس سانحہ میں ظلم و بربریت کی جو کہانیاںرقم کی گئیںان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہ خوش آئند بات تھی کہ کسی حد تک امن قائم ہوا تھا لیکن اب جو حالات بن رہے ہیں ان میں ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہورہے ہیں۔ یہ سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کے خون کا صدقہ ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلئے متحد ہوئی ،کاش ہمیں اس اتحاد کے لیے اتنی بڑی قیمت نہ چکانا پڑتی۔ اگر آپریشن ضرب عضب دو،تین سال پہلے شروع ہوجاتا تو ہوسکتاہے کہ اے پی ایس سانحہ پیش نہ آتا۔ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے نہ صرف پوری پاکستانی قوم متحد ہوئی بلکہ افغانستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ دو سال بعد ملاعمر کی موت کی خبر سامنے لاکر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب پختون قوم پرست قیادت کے ذریعے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ جوڑا گیا جس کے نتیجے میں افغان صدر اشرف غنی نے فرانس میں بھی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور وہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھی شرکت کے لیے بھی تشریف لائے۔

آج بھی گڈ اور بیڈ کی اصطلاحات موجودہیں ،اگر انھیں چھوڑ دیاجائے تو غلط فہمیاں دور ہوں گی اور مذاکرات بہتر طریقہ سے آگے بڑھ سکیں گے لیکن اگر غلط پالیسیاں جاری رہیں تو مزید سانحات دیکھنا پڑ سکتے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ 9/11 کے بعد القاعدہ ختم ہوئی تو اب داعش بن گئی۔ دنیا کے چالیس ممالک داعش کی فنڈنگ کررہے ہیں اور اسی وجہ سے افغانستان بھی عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ پیرس واقعہ کے نتیجے میں طاقتور ممالک داعش کے خاتمے کے لیے چڑھ دوڑے ہیں۔ہمیںبھی سانحہ اے پی ایس کے شہداء کے خون سے وفا کرنی چاہیے اور ایسے کسی دوسرے واقعہ کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔افسوس ہے کہ بیس نکاتی قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، آپریشن ضرب عضب صرف وزیرستان تک محدود ہے۔ دہشت گرد پورے ملک میں کالعدم تنظیموں کی صورت میں موجوداورمختلف ناموں سے فعال ہیں لہٰذا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پورے ملک میں ہونا چاہیے۔

لیاقت شباب ( صوبائی سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلزپارٹی)

سانحہ آرمی پبلک سکول ملکی تاریخ کا اندوہناک سانحہ ہے۔ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ اے پی ایس کا واقعہ حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم اے پی ایس سانحہ میں شہید ہونے والے والدین ،اساتذہ اور دیگر افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اتنی بڑی قربانی دی لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت نے جو معاوضہ ان ورثاء کو دیا وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ والدین اور ورثاء کے تحفظات دور نہیں کیے جارہے اور نہ ہی ان کے مطالبے پر اب تک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا۔یہ ان شہیدوں کے پاک خون ہی کی برکت ہے کہ پوری قوم متحد ہوئی ۔ ہم آرمی چیف کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہوںنے فوری طور پر کسی بھی بات کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں کے خلاف بھرپور طریقے سے کارروائی شروع کی جس کی وجہ سے قوم کو اطمینان حاصل ہوا ۔ ہم سب کی خواہش ہے کہ سانحہ اے پی ایس میںملوث دہشت گردوں کو نشان عبرت بنادینا چاہیے جبکہ 16دسمبر کا دن ہمیشہ کے لیے قومی دن کے طور پر منانا چاہیے۔

دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں فوج، حکومت، سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کو ایک ہی صفحہ پر رہتے ہوئے ان کے خلاف کارروائیوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اور صرف اسی صورت میں ہی ہم کامیاب ہوں گے ۔اب اگر ،مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر ہم دہشت گردوں اور عسکریت پسندی کے خلاف خدانخواستہ یہ جنگ ہار جاتے ہیں تو پورا ملک داؤ پر لگ جائے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اب ہمارے پاس جنگ جیتنے کے علاوہ کوئی دوسری آپشن نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی وصوبائی حکومتوں کو مل کر دہشت گردی کا تدارک کرنا چاہیے اور اسے جڑ سے اکھاڑنا چاہیے۔ان حالات میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے جو کردار اداکیاہے اس کے اعتراف میں انھیں فوری طور پر فیلڈ مارشل کا عہدہ دینا چاہیے۔ یہ حکومت کا طرز عمل ہی ہے کہ جس کی وجہ سے آج شہداء کے والدین اور ورثاء گروہوں میں تقسیم ہونے پر مجبور ہوئے ۔ حکومت یہ واقعہ کنٹونمنٹ بورڈ حدود کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کررہی ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ افسوس ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کو گزرے ایک سال ہوگیاہے لیکن نہ تو واقعہ کی ایف آئی آر شہداء کے والدین اور ورثاء کی خواہش اور مرضی کے مطابق درج ہوئی اور نہ ہی ان کے تحفظات ختم ہوسکے ہیں۔

بریگیڈیئر(ر)محمود شاہ (دفاعی تجزیہ نگار)

یہ انتہائی افسوسناک اور المناک واقعہ تھا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس واقعہ کے بعد قوم متحدہوئی اورفوج نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن مرحلے کاآغازکیاجس کے ثمرات اب آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں کافی عرصہ سے باتیں تو ہورہی تھیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہاتھاآخرکار اس واقعہ سے پوری قوم متحد ہوئی اورہم ’’اگرمگر‘‘سے آگے بڑھے۔ جن لوگوںنے سکول میں بچوں کا قتل عام کیا وہ اسلام تو کیا انسانیت سے بھی خارج ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کو 2010 ء میں شروع ہوجانا چاہیے تھا، اگر ایسا ہوتا تو دہشت گردی کے ایسے واقعات نہ ہوتے جو اس دوران ہوتے رہے اورنہ ہی ان عسکریت پسندوں کو مضبوط اورمنظم ہونے کا موقع ملتا۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی میں کمی تو ہوئی ہے تاہم اب اس آپریشن کو ہر حال میں منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔

اسکول کے واقعہ نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا، اب کوئی بھی سیاسی جماعت ان عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کرسکتی ۔آن گراؤنڈ کوئی اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ تمام عسکریت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کی جارہی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کو ’’اون‘‘ کیاہے۔دنیا کو افغانستان میں امن کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کے حالات میں بہتری نہ آنے کے غلط اثرات پاکستان پر ہوتے رہیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن ممالک میں بھی دہشت گردی ہورہی ہے وہ اس کے خاتمے میں ناکام ہوچکے ہیں لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اپنی لازوال قربانیوں کی وجہ سے یہ جنگ جیت رہاہے۔

عبدالجلیل جان (صوبائی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام(ف))

16 دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور جو کچھ گزشتہ سال 16دسمبر کو ہوا ماضی میں ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ فوج نے تو معاملات کو سنبھالا ہے لیکن حکومت نے اپنا کردارادا نہیں کیا جس کی وجہ سے والدین شہداء اور غازی فورمز کی صورت میں سامنے آئے ہیں ۔ حکومت اپنی نااہلی کا اعتراف کرے کیونکہ اس واقعہ کے حوالے سے تحقیقات اور کارروائیوں کے حوالے سے سارا کردار کسی اور نے نہیں بلکہ پاک فوج نے ادا کیا اورفوج کی کاروائیوں سے ہی آج قوم مطمئن ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کی عدم تشکیل حکومتی غفلت کا شاخسانہ ہے جبکہ اس حوالے سے شہید بچوں کے والدین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ جوڈیشل کمیشن تشکیل کر دے اور والدین اور ورثاء کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر بھی درج کی جائے تاکہ ان کے تحفظات دور ہوسکیں ۔ یہ معصوم فرشتہ صفت بچوں کی قربانی اور ان کے پاک خون کا صدقہ ہے کہ آج پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ایک صفحہ پر ہے۔ شہداء کے والدین کو صرف پیسے دینے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے بلکہ اس کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت نے کرنا ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نہیں بلکہ اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر سال 16دسمبر کا دن قومی یوم سوگ کے طور پر منایاجائے۔

شیریں جاوید (پروگرام آفیسرعورت فاؤنڈیشن)

اتنے بڑے سانحہ پر سول سوسائٹی شہداء کے والدین کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اس سانحہ کے روز سول سوسائٹی نے باضابطہ سڑکوں پر آکر احتجاج کیا تھا اور امن پارک میں روزانہ شہید بچوں کی یاد میں شمعیں روشن اور ان کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔ ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ امن پارک کو شہید بچوں سے منسوب کرنا چاہیے اور وہاں ان کی یادگار تعمیر کی جائے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرنا چاہتی تو سول سوسائٹی کو اجازت دے دے۔ ہم چندہ اکٹھا کرکے شہداء کی یادگار تعمیر کریں گے۔ حکومت کو ان بے بس والدین کی فریاد سننی چاہیے اور ان کی تسلی کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام اور شہید بچوں کے حوالے سے ایف آئی آر کا اندراج ہونا چاہیے۔

اس سانحہ کے ایک سال بعد بھی والدین کا دل بے قرار ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دکھوں میں تاحال کمی نہیں آسکی ہے۔ ان والدین کے غم کا ازالہ کرنے کے لیے حکومت کو ایسے سفاک مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے اور جن مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے ان کے چہرے بھی عوام کے سامنے لائے جائیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف خیبر پختونخوا میں ہی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کیوں جاری ہے،وفاقی حکومت کو چاہیے کہ پنجاب میںبھی ان کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بھی امن کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جب تک افغانستان میں امن نہیں آئے گا تب تک ایسے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا۔

ظفر اقبال (والد اسامہ ظفر شہید)

ایک سال تو جیسے انگاروں پر لوٹ پوٹ کے گزر گیا، ہر لمحہ ہر گھڑی ہمیں بے گناہ اور بے قصور ننھے کلیوں کی یاد تڑپاتی ہے ۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیںآ رہا ہے کہ آخر کیوں ان معصوم اور بے گناہ بچوں کا خون بہایا گیا۔ اب صرف اپنے رب سے یہی التجا ہے کہ خون کی ندیاں بہانے والوں کا ایسا بھیانک انجام ہو کہ تاقیامت ان کی نسلیں بھی تڑپتی رہیں۔ شہداء کے والدین کے بس یہی مطالبات ہیں کہ اس واقعے کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور ایف آئی آر والدین کی جانب سے درج کروائی جائے۔ اس کے بعد جو بھی فیصلہ ہو گا ہمارے لیے قابل قبول ہو گا۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں مراعات نہیں چاہئیں۔ ہم تو صرف انصاف چاہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس سانحے نے پوری قوم کو یکسو کیا اور ہمارے بچوں نے لازوال قربانیاں دیں لیکن ہمارے زخموں پر مرہم کون رکھے گا۔

یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ 15 جنوری 2014ء کو جب عمران خان پشاور آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ میں آپ کا وکیل ہوں لیکن اب تو یہ کہنے میں ہم بجا ہیں کہ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں‘‘ کیوں کہ اس کے بعد اسد قیصر کو فوکل پرسن بنا کر شہداء کے نام پر سیاست چمکائی جانے لگی جبکہ شہداء کے والدین میں گروہ بندی کر کے صرف چند افراد کو مراعات دی گئیں۔ صرف 10 خاندان ہر جگہ موجود ہوتے ہیں جب کہ ابتداء میں ایک خود غرض شخص نے شہداء کے نام پر لاکھوں روپے بٹورے، اب بھی یہ شخص ہر جگہ پیش پیش رہتاہے۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ شہداء کے نام پر مفادات حاصل کرنے والوں کا کڑا احتساب کیاجائے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ حکومت کی جانب سے امن چوک میں یادگار شہداء بنانے کا جووعدہ کیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا بلکہ صرف آرکائیوز میں چھوٹی سی یادگار پر ٹرخا دیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ شہداء کے والدین کو اب تک کی تحقیقات سے آگاہ کیا جائے اور ان کے تحفظات دور کئے جائیں۔ ہم جوڈیشل کمیشن کا قیام، والدین کی جانب سے ایف آئی آر کا اندراج اور انصاف چاہتے ہیں۔

محمد حسین (والد عدنان حسین شہید)

16دسمبر کا دن ہمارے لیے قیامت کا دن تھا اور ہم ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ اس دن ہوا کیاتھا۔ عدنان حسین کو تو ماں نے بڑی چاؤ سے تیار کیا، ناشتہ کروا کے بڑا آدمی بننے کے لیے سکول بھیجا تھا لیکن ظالموں نے ہمارے خواب چکنا چور کر دیئے اور انتہائی بے دردے کے ساتھ ہمارا لخت جگر چھین لیا ۔ اللہ ہی ان سے ہمارا بدلہ لے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں کہ اس نے ہمارے دوسرے بیٹے کو بچالیا۔ عموماً زلزلے کے بعد اس کے آفٹر شاکس آتے رہتے ہیں لیکن اس واقعے کے بعد ہم ہر روز اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ عدنان حسین کی والدہ دسمبر کی سردراتیں باہر صحن میں ،اپنے بیٹے کے انتظار میں گزارتی ہیں۔ اس سانحہ کے بعد وہ دم بخود رہنے لگی ہے، انہیں اب جینے کی امنگ نہیں، وہ ہر وقت دروازے پر ٹکٹکی باندھے اپنے عدنان کی راہ تکتی رہتی ہے۔ جب میں تبلیغ کے بعد گھر آیا تو عدنان نے اپنے لیے شولڈر والے نئے کپڑے سلوائے تھے، میں نے اس سے کہا کہ یہ شولڈر ٹھیک نہیں۔

اس سانحے کے کچھ عرصہ بعد میں نے عدنان کی والدہ سے وہی کپڑے دکھانے کو کہا، جب وہ کپڑے لائی تو اس پر شولڈز نہیں تھے، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ آپ کے کہنے کے بعد عدنان نے شولڈر کاٹ دیئے تھے۔ ان کی ہر یاد سے ہمارا کلیجہ پھٹتا ہے لیکن اب ایک صورت قرار کی ہے کہ ان بچوں کی لازوال قربانیوں کو اسی صورت یاد رکھا جائے کہ قوم یکسو ہو کر دہشت گردی کے خلاف لڑے اور اس خطے میں امن کا بول بالا ہو۔ ہماری ایک ہی خواہش ہے کہ ان لازوال قربانیوں کے صلے میں ہمیں مکمل انصاف دلانے کے ساتھ ساتھ ہمارے تحفظات دور کئے جائیں اور ان بچوں کو اعلیٰ اعزازات سے نوازا جائے تاکہ ان کی قربانیاں تاقیامت یاد رکھی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔