لڑکیوں کا بائیک چلانا

صدف آصف  پير 21 دسمبر 2015
بے جا تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

بے جا تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

حقوق نسواں کی متلاشی تنظیمیں سماج میں خواتین کے مساوی حقوق کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ انہیں مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے اور کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسی منزل کو حاصل کرنے کے لیے گزشتہ دنوں خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت کا چرچا ہوا۔

سرکاری طور پر کسی قسم کی ممانعت نہ ہونے کی بازگشت سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ جب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں اسکوٹر چلائیں گی، تو پھر مردوں کا سا لباس بھی زیب تن کرنے لگیں گی، کسی کا کہنا ہے کہ اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اس سے مغرب کی بھدی تقلید ہو رہی ہے۔ کوئی اسے آزاد خیالی سے تعبیر کر رہا ہے اور کوئی اسے غیر مناسب قرار دے رہا ہے، تاہم کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اس اقدام  کے حق میں ہیں کہ اس سے خواتین اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں گی، اس کے لیے پڑوسی ملک ہندوستان کی مثال پیش کی جاتی ہے، جہاں خواتین کی بڑی  تعداد  اسکوٹر چلاتی ہے۔

چند ایک کا یہ بھی خیال تھا کہ خواتین شہر میں موٹر سائیکل چلائیں، تو کیا بری بات ہے، جب کہ ہمارے ہاں خاتون پائلٹ بھی ہیں، جو جہاز اڑاتی ہیں، اعلیٰ طبقے کی خواتین  اپنا شوق پورا کرنے کے لیے سڑکوں پرگاڑیاں دوڑا سکتی ہیں، تو پھر اسکوٹر چلانے میں کیا عار؟ اس طرح ایسی خواتین جو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں، اسکوٹر چلانے سے انہیں اپنے معمولات سر انجام دینے میں سہولت ہوگی۔ خاص طور پر وہ نوکری پیشہ لڑکیاں، جنہیں اپنے دفتر کی طرف سے لانے لے جانے کی سہولت میسر نہیں اور وہ صبح و شام بسوں، یا رکشوں کی بھاگ دوڑ کرتی رہتی ہیں۔

اسکوٹر چلانے سے ان مشکلات سے چھٹکارا مل جائے گا۔ طلبا کالج و یونی ورسٹی جانے کے لیے اس سستی سواری کو استعمال کر سکتی ہیں۔ قانونی طور پر اجازت نامہ ملنے کے باوجود، جب تک ہمارے  سماج  اور معاشرتی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی، لڑکیوں کو سڑکوں پر اسکوٹر چلانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسکوٹر پر خواتین کا بیٹھنے کا انداز شاید کافی دنوں تک لوگوں کو ہضم نہ ہو پائے۔ اس لیے سب سے پہلے معاشرے کو اپنے سوچنے  کے انداز میں بدلاؤ لانا ہوگا۔ ترکی، بھارت، چین اور دوسرے کئی ممالک میں لڑکیوں کے بائک چلانے پر کوئی پابندی نہیں۔

خواتین کو اتنی آزادی ضرور حاصل ہونی چاہیے، جو انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ جس طرح عورت کے لیے پردہ ہے، اسی طرح مرد کی آنکھ میں بھی حیا لازم ہے۔ اگر یہ بات  سمجھ میں آجائے، تو کافی مسئلے خود بخود ہی حل ہو جائیں، ہمارے ہاں مرد وزن کو جس طرح بسوں اور کوچوں میں ٹھس کر سفر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی لڑکی بائیک چلانا چاہے، تو شاید اس کو برا نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ تاہم یہاں کے ماحول کے مدنظر رکھتے ہوئے، بچیوں کو  محتاط انداز میں اسکوٹر  لے کر نکلنے  کی ہدایات دینا چاہیے۔

خواتین کو اسکوٹر چلاتے ہوئے، چند اہم باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسکوٹر پر بیٹھنے سے قبل وہ اس معاملے میں مکمل مہارت رکھتی ہوں، ’بائیک رائیڈنگ‘ کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ اسکوٹر سڑک پر لائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ راہوں پر ٹریفک کے ازدہام میں بائیک سنبھالنا یقیناً مہارت مانگتا ہے۔ غفلت اور تیز رفتاری کے باعث بہت سے موٹر سائیکل سوار کسی ناخوش گوار حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسکوٹر بنانے والی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے خاص طرز کی اسکوٹر تیار کریں، جو چلانے میں آرام دہ اور آسان ہوں۔ حکومت چاہے تو خواتین کے لیے سڑک پر ٹریک مخصوص کر سکتی ہے۔ یوں تو خواتین محتاط ڈرائیور سمجھی جاتی ہیں، تاہم بے جا تنقید سے ان کی خوداعتمادی کو زک پہنچتی ہے۔ اس لیے اس معاملے میں لوگوں کا مثبت رویہ بھی ضروری ہے۔ سفر سے پہلے اپنی بائیک کو چیک کریں، تاکہ راستے میں خراب ہو کر پریشانی کی باعث نہ بنے۔ ہیلمٹ کا استعمال ضرور کریں۔

انسانی تہذیب نے وقت کے ساتھ ہمیشہ آگے کی جانب سفر کیا ہے، زمانے کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، بس سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ جہاں بے جا پابندیوں سے ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے، وہیں حد سے بڑھا ہوا ماڈرن ازم بھی تباہی کا راستہ ہے۔ ہمیں اس حوالے سے تمام حدود و قیود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ بے جا آزاد خیالی سے معاشرے کا  توازن بگڑنے کا خدشہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔