امریکا کا ’ ونڈر بوائے‘

ندیم سبحان  منگل 22 دسمبر 2015
گریجویشن کی دوڈگریاں، دو کتابوں کا مصنف، پائلٹ، ناسا کا ملازم،عمر صرف سترہ سال!۔ فوٹو: فائل

گریجویشن کی دوڈگریاں، دو کتابوں کا مصنف، پائلٹ، ناسا کا ملازم،عمر صرف سترہ سال!۔ فوٹو: فائل

اندازہ کیجیے جس شخص کے پاس کالج کی دو ڈگریاں ہوں، وہ دو کتابوں کا مصنف ہو، جہاز اڑانا جانتا ہو اور ناسا جیسے ادارے کا ملازم ہو، اس کی عمر کیا ہوگی؟ آپ کا جواب یقینی طور پر بیس سال سے اوپر ہوگا۔ مگر جناب موشے کائی کیولن محض 17 برس کی عمر میں یہ کام یابیاں حاصل کرچکا ہے جن کا بہت سے لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

’ پُوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں‘ کے مصداق موشے کی غیرمعمولی ذہانت کے جوہر بھی کم عمری ہی میں کھلنے لگے تھے۔ صرف آٹھ برس کی عمر میں وہ ہائی اسکول سے نکل کر کالج میں داخل ہوچکا تھا۔ ایک ہی سال میں اس نے 4.0 جی پی اے کے ساتھ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی۔ اور تو اور اسی سال اپنی سوانح عمری بھی لکھ ڈالی۔ موشے کی تصنیف سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ثابت ہوئی تھی۔ موشے کو تعلیمی قابلیت بڑھانے کا جنون شروع ہی سے تھا۔ چناں چہ مختصر سے وقفے کے بعد اس نے تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور کیلے فورنیا یونی ورسٹی سے ریاضی کے مضمون میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت موشے کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔

موشے جسے امریکی ذرائع ابلاغ نے ’’ ونڈر بوائے‘‘ قرار دیا ہے، آئندہ سال تیسری ڈگری وصول کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ وہ بوسٹن کی برینڈیز یونی ورسٹی سے سائبرسیکیورٹی کے مضمون میں ایم اے کر رہا ہے۔ فی الحال اس نے یونی ورسٹی سے کچھ عرصے کی رخصت لے رکھی ہے کیوں کہ ان دنوں وہ ناسا کے ایک پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔ یہ پروجیکٹ ہوائی جہازوں اور ڈرونز کے لیے جاسوس اور نگراں ٹیکنالوجی وضع کرنے کے بارے میں ہے۔ اسے مارشل آرٹ سیکھنے کا بھی جنون ہے۔ اس قدر مصروفیت کے باوجود وہ مارشل آرٹ کے لیے وقت ضرور نکالتا ہے۔  اس کھیل میں موشے نے درجنوں ٹرافیاں اور میڈل حاصل کررکھے ہیں۔

اسکول اور کالج میں حصول علم کے دوران موشے کو کئی بار ساتھی طلبا کے عملی مذاق کا نشانہ بننا پڑا۔ زبانی باتیں تو اسے روز ہی سننی پڑتی تھیں۔ یہ وہ طلبا تھے جنھیں موشے کی ذہانت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ انھیں یہ برداشت نہیں ہوتا تھا کہ کئی سال چھوٹا لڑکا ان کی برابری کررہا ہے۔ موشے کی دوسری تصنیف انھی تلخ تجربات پر مشتمل تھی۔

نوجوانی میں ڈھیر ساری کام یابیاں سمیٹ لینے کے باوجود موشے کا اصرار ہے کہ وہ کوئی غیرمعمولی انسان نہیں بلکہ دوسرے لوگوں ہی کی طرح ہے، بس وہ ہر کام کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔  تاہم موش کے والدین اس کی غیرمعمولی ذہانت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موشے نے پہلا لفظ چار ماہ کی عمر میں ادا کیا تھا۔ تین برس کی عمر کو پہنچنے تک وہ ریاضی کے سوالات حل کرنے لگا تھا۔ والدین اسے گھر پر ہی تعلیم دینے پر مجبور ہوئے کیوں کہ پرائمری اسکول کا نصاب اس کی ذہنی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔

والدین کے برعکس موشے کے ریاضی کے استاد اس کی کام یابیوں کو سخت محنت کا صلہ قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر ڈینیئل جج کہتے ہیں،’’ بیشتر لوگ اس کی کام یابیوں کو خداداد ذہانت کا رہین منت سمجھتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موشے سے زیادہ محنتی طالب علم میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ‘‘

دل چسپ بات یہ ہے کہ بیشتر نوجوانوں کی طرح موشے بھی اپنے کیریئر کے سلسلے میں تذبذب کا شکار تھا۔ ابتدا میں وہ فلکیاتی طبیعیات داں ( astrophysicist) بننا چاہتا تھا۔ پھر اسے رمز نویسی ( cryptography) سے دل چسپی ہوئی جو اسے کمپیوٹر سائنس کی طرف لے آئی۔

موشے کی غیرمعمولی کام یابیوں کے پیش نظر گذشتہ دنوں ناسا نے اسے ملازمت کی پیش کش کردی ۔ اس پیش کش پر موشے کی خوشی دیدنی تھی، کیوں کہ تین برس پہلے بھی اس نے ناسا میں حصول ملازمت کی کوشش کی تھی مگر کم عمری اس کے آڑے آگئی تھی۔ موشے کی عمر اب بھی زیادہ نہیں لیکن اب ناسا کو اس کی خدمات درکار تھیں۔ خلائی ادارے کو ایک ایسے نوجوان کی ضرورت تھی جو سوفٹ ویئر اور ریاضی کے الگورتھم کے ساتھ ساتھ طیارہ اڑانے میں بھی مہارت رکھتا ہو۔ ان شرائط پر موشے پورا اترتا تھا چناں چہ اس کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔