افغانستان میں امن کیسے ممکن ہے؟

ایڈیٹوریل  بدھ 23 دسمبر 2015
۔پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے ۔یہاں آپریشن ضرب عضب شروع ہے۔ افغانستان اس حقیقت کو تسلیم کر لے تو صورت حال میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

۔پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے ۔یہاں آپریشن ضرب عضب شروع ہے۔ افغانستان اس حقیقت کو تسلیم کر لے تو صورت حال میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

افغانستان میں گزشتہ روز امریکی فوج کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام ائیربیس کے قریب طالبان کے خودکش حملے میں6 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔خود کش حملے میں دو امریکی فوجیوں سمیت6 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔امریکی حکام نے ہلاکتوں کی تصدیق جب کہ طالبان نے خود کش حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ اخباری اطلاعات  کے مطابق خود کش حملہ آور موٹر سائیکل پر سوارتھا۔خود کش حملہ آورنے نیٹواورافغان فورسز کے مشترکہ گشت کے دوران فورسز کی گاڑی کے پاس آکر دھماکا کردیا۔

بگرام میں افغانستان میں امریکی فوج کا سب سے بڑا مرکز ہے۔یہاں نیٹو اور افغان فورسز پر حملہ ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان انتہائی محفوظ علاقے میں بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔طالبان کا خود کش حملہ نیٹو فوجیوں کی گاڑی پر تھا۔ تاہم اس حملے میں مرنے والے چھ کے چھ فوجیوں کا تعلق امریکی فوج سے ہے۔

افغانستان میں تعینات نیٹو حکام نے تو چھ فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ خود کش حملے میں نیٹو کے 19 فوجی ہلاک اورمتعدد زخمی ہوئے۔ادھر افغان صوبہ ہلمند میں سیکیورٹی فورسز اور طالبان میں شدید لڑائی جاری ہے جب کہ طالبان نے ضلع سنگین پر قبضہ کرلیا۔نائب گورنرہلمندمحمد جان رسول یار نے ضلع سنگین پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کر تے ہوئے کہا کہ پولیس ہیڈکوارٹرز،گورنر ہاؤس،انٹیلی جنس آفس سمیت تمام اہم عمارتوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے اورپورا ہلمند صوبہ طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے۔ہلمند اسٹرٹیجکلی بڑی اہمیت کا حامل صوبہ ہے کیونکہ یہ کابل کے قریب ہی ہے۔

یہاں بھی قندوز کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکی اسپیشل فورسز نے ہلمند کو مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں جانے سے روکنے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ افغان دارالحکومت کابل میں بھی گزشتہ روز صدارتی محل کے قریب تین راکٹ فائر کیے گئے تاہم جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔صوبہ ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر سمیت 3مشتبہ دہشتگرد ہلاک اورمتعدد زخمی ہوگئے۔امریکی سفارتخانے کے مطابق کابل میں ایک امریکی شہری کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔

سیکیورٹی حکام نے جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے پر خود کش حملے کی سازش ناکام بنانے اور ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔یہ افغانستان کی صورت حال کی تصویر ہے۔ تمام خبروں کا جائزہ لیا جائے تو یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ افغانستان پر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ انتظامیہ کا کنٹرول نہیں ہے۔ پورے افغانستان میں ایک طرح سے جنگ جاری ہے اور طالبان افغان فورسز پر ہی نہیں بلکہ نیٹو فورسز پر بھی حملے کر کے ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا یہ دعویٰ کہ افغانستان میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے وہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

پہلا نقطہ تو یہ ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز اس قابل نہیں ہیں کہ وہ افغانستان میں جاری مزاحمت کا خاتمہ کر سکیں۔ ان کی تربیت اور ذہنی مضبوطی اس سطح کی نہیں کہ وہ ایک نظریاتی گروہ سے جنگ کر سکیں۔ جہاں تک نیٹو فورسز کا تعلق ہے تو وہ زیادہ تر اپنی بیسوں میں تعینات ہیں اور مخصوص کارروائیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان میں طالبان سے ہمہ وقت لڑائی کے لیے تیار کوئی فورس نہیں ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی حکومت میں شامل گروہ بھی اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ طالبان کو کارنر کر سکیں۔ افغانستان کی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس حکومت کی سیکیورٹی فورسز دارالحکومت کو محفوظ نہ بنا سکیں‘ اس کی ساکھ کیا باقی رہ جاتی ہے۔ افغانستان میں تعینات نیٹو فورسز کی کمانڈ کو بھی چاہیے کہ وہ زمینی حقائق کو دیکھے اور صورت حال کا تجزیہ کر کے امریکا اور دیگر ممالک کو آگاہ کرے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی حکومت جن لوگوں سے مذاکرات کر رہی ہے یا کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ وہ بھی کمزور فریق ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔

جب تک امریکا اور افغانستان اس کردار کو تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک افغانستان میں امن کا قیام نا ممکن ہے۔افغانستان کو چاہیے کہ وہ اعتماد سازی کے لیے سب سے پہلے وہاں پناہ گزین پاکستان مخالف گروہوں کا خاتمہ کرے۔ فضل اللہ اور اس کے ساتھی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان کے بارے میں یہی اطلاعات ہیں کہ وہ افغانستان میں مقیم ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو ان عناصر کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے۔ اسی طرح افغانستان وہاں سے پاکستان میں دراندازی کرنے والوں کو روکنے کے عملی اقدامات کرے۔پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے ۔یہاں آپریشن ضرب عضب شروع ہے۔ افغانستان اس حقیقت کو تسلیم کر لے تو صورت حال میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔