تین لاکھ منفی افکار

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 23 دسمبر 2015

ڈیگال نے کہا تھا ’’چاند پر جانا کوئی بات نہیں، سب سے بڑا فاصلہ طے کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر جانا ہوگا‘‘۔ معاشرہ تخلیقات کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق استوار ہوتا ہے اور قومیں بھی انسانی فطرت وساخت کے مطابق ہی تشکیل پاتی ہیں۔

آپ دنیا کے تمام خوشحال، ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک کی بنیادیں باریک بینی اور اچھی طرح سے ٹٹول کر دیکھ لیں، وہ تمام کے تمام ممالک آپ کو اخلاقیات کی بنیادوں پر کھڑے ہوئے ملیں گے۔ اخلاقیات وہ واحد کنجی ہے کہ جس کی مدد سے آپ اپنے لیے خوشحالی، ترقی اور کامیابی کے زنگ سے زنگ آلود دروازے باآسانی کھول لیتے ہیں، وہ دروازے جو صدیوں سے بند پڑے ہوئے ہوں اور جو توڑنے سے توڑے نہ جارہے ہوں، جن کو توڑنے کے لیے نامور پہلوان بھی اپنی شکست تسلیم کرچکے ہوں۔

آپ بس اخلاقیات کی کنجی اٹھائیں، اسے تالے میں لگائیں اور چند ہی سکینڈ بعد دروازے کا تالا آپ کے ہاتھ میں ہوگا اور اگر آپ کسی بھی خوشحال، ترقی یافتہ اور کامیاب ملک کو واپس دوبارہ بدحالی، افراتفری، بدنظمی، بدانتظامی اور اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہوں تو آپ اور کچھ نہ کریں بس اس ملک میں اخلاقیات کو کرپشن، لوٹ مار اور خودغرضی کی دیمک لگادیں اور آرام سے چین و سکون سے بیٹھ جائیں۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ ملک پاکستان بن چکا ہوگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک میں افراتفری، نفسانفسی، بدانتظامی، خودغرضی، کرپشن اور لوٹ مار مچ جائے گی۔

بالکل سیدھا سادہ سا فارمولا ہے، اب کسی ملک کو تباہ و برباد و کھوکھلا کرنے کے لیے کسی ایٹم بم کی کوئی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی کسی کیمیائی ہتھیار کی کوئی ضرورت ہے، بس خاموشی اور چپکے سے اس ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کے جراثیم چھوڑ دیں، آپ کاکام آپ کی توقع سے بہت پہلے خودبخود ہوجائے گا۔

آج آپ کو پاکستان کا جو منظرنامہ نظر آتا ہے وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، آپ اپنی تاریخ کے سفر میں 50، 60 اور 70 کی دہائی تک چلے جائیں تو آپ یہ دیکھ کر سکتے میں آجائیں گے کہ ان ادوار میں ہمارے معاشرے کا شمار بھی مثالی معاشروں میں ہوتا تھا، ہماری بنیادوں میں بھی اخلاقیات کے بڑے بڑے ستون کھڑے ہوئے تھے، جب لوگ شرافت، ایمانداری، خلوص و محبت اور دیانت داری کی ہر وقت تسبیح پڑھا کرتے تھے، جبکہ کرپشن، لوٹ مار، دھوکا دہی، بدعنوانی، بداخلاقی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کو معاشرے میں کوڑھیوں کا درجہ حاصل تھا، جن سے ملنا جلنا، رشتے قائم کرنا، تعلقات برقرار رکھنا اپنی توہین سمجھا جاتا تھا۔

پھر نجانے کہاں سے کرپشن، خود غرضی، بے ایمانی کے جراثیم چپکے سے ہمارے ملک میں داخل ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شرافت، ایمانداری، دیانت داری، خلوص و محبت کو ٹین ڈبے والے بھی حقارت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ لفظوں کے معنی بدلنا شروع ہوگئے، کچھ لفظوں کو ہم نے کان پکڑ کر ملک بدر کردیا تو کچھ کو ہم نے زندگی کے کچرے میں پھینک دیا اور کچھ کو ہم نے اپنے عجائب گھروں میں یادگار کے طور پر رکھ دیا اور ایمانداروں، شریفوں، دیانت داروں کو کوڑھیوں کا درجہ دے دیا گیا، جن سے کوئی ملنا اور ان کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتا، اس لیے کہ کہیں شرافت، ایمانداری اور دیانت داری کے جراثیم انھیں بھی نہ لگ جائیں۔ اب صرف ہم ہیں اور ہمارے چاروں طرف بے ایمانی، خودغرضی، بے شرمی، غنڈہ گردی کا دیوانہ وار وحشیانہ رقص جاری ہے۔

ہمارے لیے ہی میکاؤلی نے یہ کہا تھا ’’ہم جو زندگی گزارتے ہیں وہ اس سے بہت دور ہے جیسی ہمیں گزارنی چاہیے اور وہ آدمی جو موجودہ روش اور اطوار ترک کرکے مثالی چلن اپنانے کی کوشش کرے گا، اپنے لیے مصیبت اور تباہی کا سامان کرے گا، کوئی بھی ایسا آدمی جو صرف اچھائی کو اپنے لیے طریق کار بنائے گا وہ اپنے لیے مشکلات پیدا کرلے گا، ایسے وقت میں جبکہ دوسرے سب لوگ اچھے نہیں ہیں‘‘۔ اب اس ساری صورتحال میں کیا کیا جائے؟

ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ایک عام آدمی دن میں تین سو منفی افکار سوچتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں لوگ دن بھر تین لاکھ منفی افکار سوچتے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ آئندہ بھی یہی سب کچھ اسی طرح ہی چلتا رہے گا تو پھر ہم سب سے بڑا عقل کا اندھا اور کوئی ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اب ہمارے پاس تمام آپشن ختم ہوچکے ہیں۔ یہ راستہ جس پر ہم چل رہے ہیں، بہت جلد مکمل تباہی اور بربادی پر جاکر ختم ہوجائے گا۔ ایک اور راستہ ابھی تک باقی ہے جو خوشحالی، ترقی، کامیابی پر جاکر ختم ہوتا ہے، جو کنفیوشش نے بتایا تھا۔

کنفیوشش سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو حکومت دے دی جائے تو پہلا کام کیا کریں گے؟ انھوں نے کہا میں سب سے پہلے لوگوں کی زبان کی اصلاح کروں گا۔ اس پر لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا، اس سے کیا ہوگا؟ تو کنفیوشش نے کہا جب کوئی حکم دیا جاتا ہے اور سمجھا نہیں جاتا تو اس پر عمل غلط ہوجاتا ہے، جب عمل غلط ہوجاتا ہے تو حکم دینے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کی زبان کی اصلاح کی جائے‘‘۔

سقراط باربار کہتا تھا ’’ایک شخص برائی سے بچ سکتا ہے اگر اسے یہ معلوم ہوکہ یہ برائی ہے‘‘۔ انسان کی خو اہشات اور اس کے جذبات عقل کے درست تجزیے کرنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جب انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے سے تسکین پانے لگتا ہے تو یہ خواہشات خوشنما دلائل سے نفس کو مطمئن کرنا شروع کردیتی ہیں اور یوں انسانی عقل غصہ کھا کر صحیح تجزیہ نہیں کرپاتی، عقل کی یہ غلطی خواہشات و جذبات کی وجہ سے ہوتی ہے۔

مرنے سے کچھ دیر پہلے سقراط سے کرائٹو نے پوچھا کہ ہمارے لیے کوئی حکم۔ سقراط نے صرف یہ ہی تلقین کی کہ تم اپنے نفس کی حفاظت کرنا۔ میرے ہم وطنو! یاد رکھو، اخلاقیات کے بغیر یہ زندگی ایک گناہ ہے، سزا ہے، جرم ہے، ایسا گناہ، ایسی سزا، ایسا جرم، جو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کرتے آرہے ہیں۔ آئیں سب سے پہلے ہم اپنی زبان کی اصلاح کریں، لفظوں کے معنوں کو جانیں، برائی کو جانیں، اچھائی کو پہچانیں اور اپنے نفس کو اپنی خواہشات وجذبات سے محفوظ رکھیں۔ یاد رکھیں گناہ کرتے رہنا بھی ایک سزا ہے۔ اگر آپ اسی سزا میں اپنی زندگی کاٹنا چاہتے ہیں تو پھر اور بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔