قرآن پاک کے برمنگھم میں موجود قدیم ترین نسخے کی تاریخ سے متعلق نئے انکشافات

ویب ڈیسک  بدھ 23 دسمبر 2015
یہ وہی نسخہ ہےجو مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے632 اپنے خلافت میں مرتب کروایا تھا، تاریخ دان، فوٹو: فائل

یہ وہی نسخہ ہےجو مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے632 اپنے خلافت میں مرتب کروایا تھا، تاریخ دان، فوٹو: فائل

برمنگھم: قرآن شریف کے ایک قدیم ترین نسخے کے چند صفحات جب رواں سال کے وسط میں برمنگھم یونیورسٹی سے دریافت ہوئے تو یہ خبر دنیا بھر کے اخبارات کے سر ورق پر شائع کی گئی اور سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں نے اس خبر کو بڑے شوق سے پڑھا لیکن اب اسی نسخے کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ وہی نسخہ ہے جسے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے دور حکومت میں مرتب کروایا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے یہ اسی نسخے کے کچھ صفحات پیرس کی لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

قرآن کے اس قدیم ترین نسخے کی دریافت کے ماخذ کے بارے میں بڑے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں اور خلیجی ممالک میں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ابتدائی طور پر اس کو جتنی اہمیت دی جا رہی تھی اس سے کئی گنا زیادہ معنی خیز اور اہم ہے اور اس کی کاپی دیٹنگ سے ہونے والے انکشافات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جسے عالمی سطح پر مسلمان علما اور تاریخ دان بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ نئے انکشافات میں کہا گیا ہے کہ برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن شریف کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ببلیوتھک نیشونال دی فرانس میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔

نیشنل لائبریری میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ایک ہی نسخے کے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن شریف کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔

پیرس کی لائبریری کے صفحات 19 ویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے جب کہ پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہاں ہی محفوظ ہیں لیکن تاریخ دانوں کے لیے ایک نیا سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اگر یہ نسخہ پیرس کی لائبریری کو مل گیا تو برمنگھم یونیورسٹی میں پائے جانے والے صفحات وہاں کیسے پہنچے اس بارے میں پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی ہی میں فسطاط کی مسجد سے یہ نسخہ قاہرہ کی نیشنل لائبریری میں منتقل کر دیا گیا تھا اور اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے اور جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایلفاس منگانا کے ہاتھ آئے اور وہ انہیں برمنگھم لے آئے۔ منگانا کا تعلق عراق سے تھا اوروہ نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جاتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سی ایسی نادر دستاویزات کا جو مغرب کے خریداروں کو فروخت کی گئیں ان کا ابھی منظر عام پر آنا باقی ہے۔

ان نئے انکشافات میں سب سے اہم بات جس نے مرکزی حیثیت اختیار کرلی ہے وہ ہے کہ اس نسخے کی اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخیں۔ برمنگھم میں پائے جانے والے صفحات کے بارے میں سب سے زیادہ حیران کن بات کاربن ڈیٹنگ کے طریقہ کار سے سامنے آئی وہ یہ ہے کہ یہ نسخہ 568 اور 645 کے درمیان مرتب کیا گیا جس میں پیغمبر اسلام کا دور کے 13 سال بھی آتے ہیں۔ برمنگھم یونیورسٹی میں عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جس معتبر ترین شخصیت نے قرآن پاک کے اس نسخے کو تحریر کیا وہ یقینی طور پر پیغمبر اسلام کے انتہائی قریب رہی ہوگی اور اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخوں کا تعین ان ماہرین کی نفی کرتا ہے جنہوں نے ان صفحات کے رسم الخط اور گرائمر کے اصولوں کی بنیاد پر تجزیہ کیا ہے۔

لندن میں مشرقی اور افریقی علوم کے اسکول میں اسلامی علوم کے شعبے سے وابستہ مصطفیٰ شاہ کا کہنا ہے کہ دستاویزات کا رسم الخط اور اس کی گرامر کی علامتوں سے لگتا ہے کہ یہ بعد کے دور میں لکھے گئے۔ پروفیسر دریچو کو کاربن ڈیٹنگ سے تاریخوں کے تعین پر شدید تحفظات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بہت سی دستاویزات جن کو لکھے جانے کی تاریخوں کے بارے علم تھا جب ان کی کاربن ڈیٹنگ کی گئی تو ان کے نتائج غلط نکلے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ’’ریڈیو کاربن ایکسریلٹر یونٹ‘‘ کے اسٹاف کا کہنا ہے انہوں نے ان دستاویزات کی تاریخ کا جو تعین کیا ہے وہ بالکل درست ہے چاہے اس کو قبول کرنا کتنا دشوار ہی کیوں نہ ہو، اسی لیے تحقیق کار ڈیوڈ شیول کا کہنا ہے کہ حالیہ برس میں تاریخ کے تعین کے طریقہ کار میں بہتری آئی ہے۔ برمنگھم کے قرآنی صفحات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بعد کی تاریخ زیادہ درست ہیں لیکن جس دور کا تعین کیا گیا ہے اس کے 95 فیصد درست ہونے کا امکان ہے۔

برمنگھم کی یونیورسٹی سے صرف 2 صفحات ملے ہیں اور پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ مکمل قرآن کے 200 مزید صفحات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی یاد گار قسم کا نسخہ ہو گا لیکن اس سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کس نے اس قرآن کو تحریر کروایا ہوگا۔ متحدہ عرب امارات کے حاکموں کی طرف سے تعلیم کے فروغ کے لیے بنائے گئے ادارے محمد بن راشد المختوم فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر جمال بن حواریب کا کہنا ہے کہ اس ثبوت سے ایک اور شاندار نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ  برمنگھم میں ملنے والے قرآنی صفحات قرآن شریف کے پہلے مکمل نسخے کے ہیں جو مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے 632 سے 634 کے مختصر دورۂ خلافت میں مرتب کروایا تھا۔ برمنگھم میں ان صفحات کو دیکھنے کے بعد جمال بن حواریب کا کہنا تھا کہ مسلمان دنیا کے لیے یہ بہت بڑی دریافت ہے۔ ان کا کہنا تھا ان کے خیال میں یہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے قرآن کے صفحات ہیں جب کہ جس معیار کے پرچہ جات کا استعمال کیا گیا ہے اور جس طرز کی یہ تحریر ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ پائے کا کام ہے اور اس کو کسی انتہائی اہم شخصیت نے مرتب کروایا تھا۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے ابتدائی دور سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نسخہ، یہ کلیات اور یہ مسودہ اسلام اور قرآن کی جڑ سے ہے اور یہ دریافت اسلام کی تعلیم اور تحقیق میں انقلاب ثابت ہوسکتی ہے۔

لیکن یہ بحث یہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے کچھ اور پہلو اور امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے اس جانور کے انتقال کی تاریخ کا تعین ہوتا ہے جس کی کھال پر یہ تحریر کیا گیا نہ کہ تحریر کی اصل تاریخ کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسودہ 645 کے بعد کا بھی ہو سکتا ہے اور پروفیسر تھامس کا اصرار ہے کہ ممکنہ تاریخیں 650 اور 655 کے درمیان کی ہو سکتی ہیں اور یہ وہی 644 سے 656 کا درمیانی دور ہے جب خلیفہ ثانی حضرت عثمان غنیؓ نے قرآن شریف کے نسخے مرتب کروائے جنہیں مخلتف علاقوں میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو بھیجے جانا مقصود تھا تاکہ پورے عالم اسلام میں ایک ہی قرآن ایک ہی ترتیب اور زبان سے رائج ہو تاہم ان مفروضے کو حتمی طور پر مسترد یا منظور کرلینا فی الحال ممکن نہیں ہے۔

شارجہ میں امریکن یونیورسٹی میں شعبے عربی میں ترجمے سے منسلک جوزف لمبارڈ م نے کہا کہ اگر ابتدائی دور کی تاریخیں درست ہیں تو کسی مفروضے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس لیے وہ اس مفروضے کو بھی رد نہیں کریں گے کہ یہ اس نسخے کے حصے ہیں جو زید بن ثابت نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں مرتب کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حضرت عثمان غنیؓ کے دور کے نسخے کی کاپی ہو۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس بحث پر مزید تحقیق کی جا رہی ہے جس سے اس کی درست تاریخ کا تعین ممکن ہوسکےگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔