پاک افغان سرحد پر مضبوط مینجمنٹ میکنزم کی ضرورت

ایڈیٹوریل  جمعـء 25 دسمبر 2015
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیرسرکاری سیکیورٹی مذاکرات ہوئے، فوٹو: فائل

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیرسرکاری سیکیورٹی مذاکرات ہوئے، فوٹو: فائل

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیرسرکاری سیکیورٹی مذاکرات ہوئے جن میں دونوں ملکوں نے اپنی سرحدوں پر دراندازی روکنے اور باہمی ہم آہنگی پر مبنی مضبوط بارڈر مینجمنٹ میکانزم کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کے ریٹائرڈ جرنیلوں، سیکیورٹی ماہرین اور ارکان پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء نے افغان چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ سے بھی ملاقات کی۔

پاکستان ایک عرصے سے افغان حکومت سے شکوہ سنج رہا ہے کہ افغانستان سے سرحدی دراندازی کو روکا جائے کیونکہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں آ کر سیکیورٹی مسائل پیدا کر رہے ہیں‘ ان دہشت گردوں نے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر بھی حملے کیے اور واپس افغانستان فرار ہو گئے‘ پاکستان نے افغان حکومت سے متعدد بار یہ مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے لیکن افغان حکومت نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔

اب دونوں ممالک کے غیر سرکاری وفود کے درمیان سرحدوں پر دراندازی روکنے کے لیے مضبوط بارڈرمینجمنٹ میکنزم کے قیام پر اتفاق خوش آیند ہے‘ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ افغان حکومت کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہو گیا ہے کہ خطے میں قیام امن کے لیے دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنا اشد ضروری ہے اگر دہشت گردوں کو اسی طرح کھلی ڈھیل دی جاتی رہی اور ان کے خلاف کارروائیاں نہ کی گئیں تو خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ دہشت گردوں سے نہ صرف افغان حکومت کی سلامتی کو خطرہ ہے بلکہ یہ پاکستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہیں۔

پاکستان تو دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کر رہا ہے جس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن افغان حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کوئی ایسی کارروائی سامنے نہیں آئی حتیٰ کہ سرحدوں پر بھی ان کی آمدورفت روکنے کے لیے کوئی مضبوط میکنزم نہیں بنایا گیا یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان کی جانب آنے کے لیے افغانستان میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔

اب افغان حکومت نے مضبوط بارڈر مینجمنٹ میکنزم بنانے پر پیش رفت کی ہے تو اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے کیونکہ جتنی تاخیر کی جاتی رہے گی دہشت گردوں کو اتنا ہی فائدہ پہنچے گا۔ طالبان افغانستان کے اندر اب بھی ایک بڑی مسلح قوت اور حکومت کے لیے چیلنج ہیں، افغان حکومت اور نیٹو آرمی کو سب سے زیادہ خطرہ طالبان کی مسلح کارروائیوں ہی سے ہے اور انھیں بخوبی ادراک ہے کہ اگر کوئی قوت ان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے تو وہ طالبان ہی ہیں۔

طالبان کی مسلح قوت کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ انھوں نے شدید لڑائی کے بعد صوبہ ہلمند کے 14 شہروں میں سے 11 شہروں پر قبضہ کر لیا ہے‘ گزشتہ دنوں انھوں نے قندوز پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ عسکری ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ طالبان دوبارہ جس قدر تیزی سے ایک قوت بن کر ابھر رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں پھر سے ایک بڑی جنگ ہونے والی ہے۔ روس کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکا نے طالبان کی مدد کر کے روس کا راستہ روکا‘ اس طرح دو بڑی قوتوں کے درمیان یہاں جنگ لڑی گئی‘ یہ جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور مسلسل لڑی جا رہی ہے‘ اب پھر افغانستان میں روس اور امریکا پراکسی وار کی شکل میں ایک دوسرے کے سامنے آ رہے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق روس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے طالبان کے ساتھ روابط شروع کر دیے ہیں تاکہ مشترکہ دشمن داعش کے خلاف جنگ کی جا سکے۔ افغانستان میں صدر پیوٹن کے خصوصی نمایندے ضمیر کابلوف کا کہنا ہے کہ ماسکو کے مفادات طالبان کے مفادات سے ملتے ہیں اور وہ طالبان سے معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

تاریخ کا پلٹا کھانا حیرت انگیز امر ہے کل کے دشمن آج کے دوست اور کل کے دوست آج کے دشمن بن چکے ہیں۔ کل تک طالبان امریکی امداد کے بل بوتے پر روس کے ساتھ جہاد کر رہے تھے اور آج وہ روس کے ساتھ مل کر امریکا اور نیٹو آرمی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ طالبان کل بھی بڑی قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور آج بھی وہ ایک دوسری بڑی قوت کے ہاتھوں استعمال ہونے کے لیے تیار ہورہے ہیں۔

داعش کا اثر شام اور عراق سے نکل کر افغانستان سے ہوتا ہوا وسط ایشیا کی ریاستوں تک پہنچ رہا ہے اور وہ ان علاقوں میں بھی اپنے خفیہ اڈے قائم کر کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کرغزستان کے حکام کا کہنا ہے کہ اس کے چار سو کے قریب شہری داعش کے شدت پسندوں میں شامل ہو کر شام اور عراق میں سرگرم عمل ہیں ان میں سے بہت سے واپس آ گئے ہیں جو ملک کے لیے کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روس کو اب سب سے بڑا خطرہ داعش سے ہے جو اس کے بقول وسط ایشیا تک پہنچ چکی ہے‘ روس شام میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے‘ وہ الزام لگا چکا ہے کہ امریکا اور مغربی قوتیں داعش کو سپورٹ کر رہی ہیں‘ اب روس کرغزستان کی فوج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ داعش کے خطرے سے نمٹ سکے۔

عسکری ماہرین یہ قیاس کرتے ہیں کہ روس داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے طالبان کو آگے لانا چاہتا ہے اس طرح افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کے پیچھے بھی روس کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں روس کی مدد سے ایک اور نئی جنگ کا آغاز ہونے والا ہے اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر پھر سے خون بہے گا اور تباہی پھیلے گی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے ایک طویل عرصے کے بعد روس اور امریکا اور اس کی اتحادی قوتیں ایک بار پھر ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئی ہیں‘ اب بھی ان کا میدان جنگ مسلم ممالک ہیں اور اس پراکسی وار میں تباہی کا نشانہ مسلم ممالک ہی بنیں گے۔

یہ صورت حال پاکستان کے لیے بھی خطرے کا سگنل ہے کیونکہ جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو افغانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے پاکستان آ گئی‘ جب امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تو عام افغانیوں کے ساتھ ساتھ مسلح انتہا پسندوں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان آ گئی۔ اب اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کوئی بڑی لڑائی ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے لہٰذا اس خطرے کا احساس کرتے ہوئے پاکستان کو ابھی سے منصوبہ بندی کر لینا چاہیے اور سرحدوں پر مضبوط مینجمنٹ میکنزم کے قیام کو جلد از جلد ممکن بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔