کے پی کے بالکل صحیح ٹریک پر

سعد اللہ جان برق  جمعـء 25 دسمبر 2015
barq@email.com

[email protected]

دنیا میں اکثر ایسے حادثات اور اتفاقات ہو جاتے ہیں جنھیں دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ انھیں ’’عجیب‘‘ کے زمرے میں ڈالے یا ’’غریب‘‘ کا نام دے ڈالے مثلاً ایک مرتبہ پیر و مرشد کے ساتھ بھی ایک حادثہ ہوا کہ

کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

اب کے ہم نے ایک ایسا ہی حادثہ کسی مقام یا سڑک یا گھر بازار میں نہیں بلکہ اخبار میں دیکھا ہے اور ہمیں وہی گومگو کی صورتحال کا سامنا ہے کہ اسے عجیب کہیں غریب قرار دیں یا ڈبل کر کے عجیب و غریب دونوں نام دے ڈالیں، ایک خبر بڑی سرخی کے ساتھ یہ چھپی ہے کہ ’’خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کو بالکل صحیح ٹریک پر ڈال دیا ہے‘‘ اگر آپ ’’بالکل‘‘ کے لفظ پر صحیح زور ڈالیں تو خبر بڑی دل خوش کن، روح پرور اور جان فزا بن جاتی ہے کہ ایک تو صوبہ ریلوے ٹرین بن گیا ہے اور وزیروں، مشیروں اور کبیروں کو ڈبے فرض کر کے دیکھا جائے تو اچھی خاصی لمبی ٹرین بن جاتی ہے ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک منتخب نمایندے اور پارٹی لیڈر یوں سمجھ لیجیے کہ سواریاں ہیں گویا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ

گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے
گاڑی جاتی ہے گاڑی آتی ہے

اگرچہ گاڑی کے بارے میں سائیں کبیر داس کے خیالات اچھے نہیں ہے کیوں کہ وہ کہتا ہے کہ معاملہ بالکل الٹ ہے گاڑی نہ کہیں جاتی ہے نہ آتی ہے بلکہ وہ لطیفہ بھی تو ہے کہ بھائی یہ سڑک نوشہرہ کو جاتی ہے نا؟ لیکن جواب یہ ملا کہ جب سے میں دیکھ رہا ہوں یہ سڑک کہیں بھی آتی جاتی نہیں ہے بلکہ یہیں پڑی رہتی ہے، سائیں کبیر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ

رنگی کو ’’نارنگی‘‘ کہیں بنے دودھ کو ’’کھویا‘‘
چلتی کا نام ’’گاڑی‘‘ رکھیں دیکھ کبیرا رویا

اور ہمیں سائیں کبیر سے اتفاق یوں ہے کہ خبر میں یہ جو صوبہ خیر پخیر عرف ’’کیک‘‘ کو بالکل صحیح ٹریک پر ڈالا ہوا بنایا گیا ہے اس کے عین نیچے بلکہ اس کے سائے اتنی ہی بڑی سرخی کے ساتھ یہ خبر چھپی ہے کہ ’’ایثار پروگرام خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر خوردبرد کا انکشاف‘‘ ۔۔۔۔ اگرچہ یہ کوئی خبر نہیں کہی جا سکتی کیونکہ خورد برد کی خبریں تو آج کل ’’پرنٹ لائن‘‘ کی طرح مستقل آ رہی ہیں ایسا مقام کوئی بمشکل بچ پایا ہو گا جہاں وسیع پیمانے پر خوردبرد کے واقعات بلکہ انتظامات کیے گئے ہوں، ان دونوں خبروں سے البتہ پیر و مرشد کا ایک خوب صورت شعر بن سکتا ہے کہ

وعدۂ سیرِ گلستاں ہے خوشا لذت شوق
مژدہ قتل مقدر ہے جو مذکور نہیں

انگریزی کے بعض الفاظ بڑے غدار اور منافق ہوتے ہیں خاص طور پر جو الفاظ ہمارے ہاں پاکستان میں ہارٹ فیورٹ سمجھے جاتے ہیں اور جنھیں ادا کرنا ثواب دارین میں داخل ہے ان میں ایک یہ کم بخت ٹریک بھی ہے جو ٹرک trick کا کزن معلوم ہوتا ہے اور غالباً اسی وجہ سے سیاست میں بہت مستعمل ہوتا ہے کیوں کہ اسے وہی لوگ سمجھ پاتے ہیں جو کسی نہ کسی ٹریک پر چلتے رہے ہوں یا کسی اور کو چلاتے رہنے کا ’’ٹرک‘‘ جانتے ہوں لیکن ’’ٹرک اور ٹریک‘‘ دونوں صرف وہاں چل سکتے ہیں ۔

جہاں ریل اور ریلوے ٹریک ہوں جب کہ صوبہ خیر پخیر عرف ’’کیک‘‘ میں ریل اور ریلوے ٹریک کچھ نامانوس سی چیزیں ہیں وہ ایک پرانا لطیفہ ہے نا ۔۔۔ کہ افغانستان میں ایک وزیر کا ’’کسی‘‘ اور ملک کے وزیر سے ٹاکرا ہو گیا ’’کسی‘‘ اور ملک کے وزیر نے افغانی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا ملک بھی عجیب ہے ریلوے کا وجود ہی نہیں ہے اور ریلوے کا وزیر ہوتا ہے اس پر افغانی وزیر نے ’’کسی‘‘ اور ملک کے وزیر سے کہا کہ تمہارا ملک ہم سے بھی زیادہ عجیب ہے۔

وہاں بھی تو ’’انصاف‘‘ کی وزارت ہوتی ہے جب کہ انصاف ۔۔۔۔۔ آپ نے خیال کیا ہو گا کہ ہم نے ’’کسی اور ملک‘‘ کا بے تحاشا استعمال کیا ہے اس کی جگہ ہم کسی ملک کا نام بھی لے سکتے تھے لیکن اس قسم کے ٹاکرے اکثر پڑوسیوں میں ہوتے ہیں اور افغانستان کے پڑوس میں جو ملک یعنی ہمارا پیارا راج دلارا پاکستان موجود ہے وہاں انصاف اتنا زیادہ موجود ہے کہ کناروں سے چھلک چھلک پڑ رہا ہے، انصاف کی اتنی زیادہ موجودگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف وزارت انصاف اس کے لیے ناکافی پڑ رہی تھی ۔

اس لیے انصاف کو سنبھالنے کے لیے باقاعدہ ایک ’’تحریک‘‘ وجود میں آ گئی، پاکستانیوں کی انصاف پسندی کا اندازہ ان کی نصف پسندی سے بھی کیا جاتا ہے چونکہ انصاف کے لغوی معنی ’’نصف لی و نصف لک‘‘ یعنی آدھی تیری آدھی میری اور انگریزی میں ’’ففٹی ففٹی‘‘ ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے تو پورے ملک ہی کو ’’نصف لی و نصف لک‘‘ کر دیا کہ سموچا اور پورا ملک کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا پھر ملک کے باسیوں کو بھی ’’آدھوں آدھ‘‘ کر کے تقسیم کار کو نہایت انصاف کے ساتھ طے کیا گیا چنانچہ آدھے کماتے ہیں اور آدھے کھاتے ہیں آدھے روتے ہیں اور آدھے ہنستے ہیں آدھے قرضے لیتے ہیں اور آدھے ادا کرتے ہیں ۔

اگرچہ یہاں تقسیم میں کچھ ناہمواری سی ہے ایک طرف پندرہ فیصد اور دوسری طرف پچاسی فیصد کا تناسب ہے لیکن ایک تو وہ جو پندرہ فیصد ہیں وہ ایک ایک سو کے ’’برابر‘‘ ہے دوسرے یہ کہ پندرہ فیصد جو ہیں وہ پچاسی فیصد کھا جاتے ہیں جب کہ پچاسی فیصد کے لیے پندرہ فیصد بذریعہ بھیک دے دیتے ہیں یوں حساب برابر ہو جاتا ہے، رہ گئی بات اس ٹریک کی جس پر موجودہ حکومت نے صوبے کو ’’ڈالا‘‘ ہوا ہے تو ٹریک سے اگر ریلوے ٹریک مراد لیا جائے اور اس کے بغیر کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ ٹریک بھی ہو بہو ویسی ٹریک ہو سکتی ہے۔

جس پر پاکستان میں ریلوے چل رہی ہے کہ ہر مناسب مقام پر اسٹیشن اور جنکشن ہوتے ہیں جہاں طرح طرح کے لوگ کچھ نہ کچھ بیچتے رہتے ہیں بلکہ اور بھی ہزار دھندے اس سے جڑے ہوئے ہیں اور اتنے زیادہ جڑے ہوئے ہیں کہ ریلوے اور اس کا ٹریک نظر آئے یا نہ آئے چلے یا نہ چلے لیکن یہ دھندے صاف چلتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان تمام دھندوں میں سب سے مشہور دھندہ ’’شش و پنج‘‘ کا ہے شش و پنج وہ ملازم ہوتے ہیں جو صرف تنخواہ والے دن آتے ہیں اور نصف تنخواہ لے کر اور نصف نصفا نصف کر کے چلے جاتے ہیں۔

دوسرا دھندہ ’’پاس‘‘ کا ہے جو ریلوے ملازمین کا حق ہے چنانچہ ان کی فیملیاں پاس لیتی ہیں اور کسی اور کو پاس کر دیتی ہیں اور سیاست میں بھی، خاص طور پر صحیح ٹریک پر رواں دواں صوبہ خیر پختونخوا میں تو یہ ’’پاس سسٹم‘‘ بہت چلتا ہے ایک وزیر یا منتخب نمایندے کے ’’پاس‘‘ پر نہ جانے کتنے کتنے لوگ ’’سفر‘‘ اردو کا بھی اور انگریزی کا بھی کرتے رہتے ہیں اس سے زیادہ صحیح ٹریک اور کیا ہو سکتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔