مزدور رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ

بابر ایاز  جمعـء 25 دسمبر 2015
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

کسی صحافی کے لیے ایسی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شریک ہونا ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، جن کا تعلق اس کے دلچسپی کے موضوع سے ہو۔اس سے مخصوص عنوان پر توجہ دینے میں مدد ملتی ہے اور کسی خلل کے بغیر اس موضوع کے حوالے سے سوچ کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔اس سے مفید معلومات حاصل کرنے اور باخبر شرکاء سے میل ملاقات کا بھی موقع ملتا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ بہت سے صحافی ایسے موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔میں نے پچھلے دنوں،کراچی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(HRCP) کے زیر اہتمام دو روزہ لیبر کانفرنس میں شرکت کی۔اس کانفرنس میں جن چند بڑے مسائل پر بات کی گئی، وہ یہ تھے۔ ٹریڈ یونینوں کی رکنیت اوران کی افادیت میں کمی،آجروں میںٹھیکے کی بنیاد پر مزدوروں کی بھرتی کا بڑھتا ہوا رجحان، آجروں کی اکثریت کی طرف سے کم ازکم اجرت کے قانون پر عمل درآمد نہ کرنا،ویمن ورک فورس سے امتیازی سلوک اور ملازمت پیشہ خواتین اور پرائیویٹائزیشن کے بارے میں مناسب معلومات کا فقدان۔

آئیے! اب ان مسائل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔اول، ٹریڈ یونینوں کا کردار اورکم ہوتی ہوئی رکنیت پاکستان ہی کا مخصوص مسئلہ نہیں ہے، چند ملکوں کو چھوڑکر پوری دنیا میں ایسا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبرایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILER) کی2006 کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’رجسٹرڈ یونینوں کی تعداد جو1995 میں 1,635 تھی ،2002 میں کم ہوکر1,202 رہ گئی، اور اس دوران ارکان کی تعداد 340,569 سے کم ہوکر138,456 پر آ گئی۔ رجسٹرڈ یونینوں کی تعداد میں کمی زیادہ تر ٹیکسٹائل، بینکنگ، میونسپل اداروں اورکھانے پینے کی اشیاء تیار کرنیوالے شعبوں میں دیکھی گئی۔ایک اندازے کیمطابق اس وقت قانونی ضابطوں کے اندرکام کرنیوالے اداروں (formal sector )کے پانچ فیصد سے بھی کم کارکن یونین کا حصہ ہیں۔ سرکاری طور پر یہ شعبہ، زراعت کو چھوڑ کر صرف 30 فیصد لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

ٹریڈ یونین ازم زوال کا شکارکیوں ہے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے مگر اس پر پوری طرح سے بات نہیں کی جاتی۔زیادہ تر ٹریڈ یونین لیڈر اس کا الزام قانون سازی کو ختم کرنے ،استبدادی ہتھکنڈوں اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی جیسے خارجی محرکات پرعائد کرتے ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں ریگولر ورکرزکی ملازمتیںکنٹریکٹ ورکرز کو منتقل کرنا ایک عام روش ہے۔یہ رجحان اس لیے بڑھ رہا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹرکے آجراس طرح کارکنوں کے بہبود فنڈ کے علاوہ صحت اورکارکنوں کے بڑھاپے کے فوائدکی مد میںرقم جمع کرانے سے خود کو بچا سکتے ہیں۔مگر یہ واحد وجہ نظر نہیں آتی ،آجر سمجھتے ہیں کہ بیشتر صورتوں میں اگر مشاہرے کو پیداواریت کے ساتھ منسلک کردیا جائے تو زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ بعض صنعتوں میں جہاں کارکنوں کو ان کی پیداوار کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے، وہ وہاں کام کرنیوالے ریگولر کارکنوں کی نسبت کہیں زیادہ کماتے ہیں۔انھیں صرف اس پیسے سے مطلب ہوتا ہے جو ان کے ہاتھ میں آتا ہے ، جب کہ صحت اور پنشن کی مراعات ان کے لیے زیادہ معانی نہیں رکھتیں۔

مزدور رہنماؤں اور ان کی تنظیموں کو متعدد دیگر محرکات پر بات چیت اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ، مثال کے طور پر، فیکٹریوں اور کارخانوں کو خودکار بنانے کے تیز رفتار رجحان نے کام کرنے کے لیے مزدوروں کی بڑی تعداد کی ضرورت کو کم کر دیا ہے ، اس کا نتیجہ ایسے پڑھے لکھے کارکنوں کے روزگار کی صورت میں نکلا ہے جو یا تو فنی لحاظ سے تعلیم یافتہ ہیں یا جنھیں مالکان کی طرف سے تربیت دی جاتی ہے۔مالکان انھیں ٹریڈ یونینوں سے دور رکھنے کے لیے ایسے ناموں والے عہدے دیتے ہیں جو سماجی اعتبار سے پرکشش ہوتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے کارکن بھی چاہتے ہیں کہ ان پر افسر یا انتظامی ٹیم کے حصے کا ٹھپہ لگا رہے۔ہمارے معاشرے پرگلوبلائزیشن کے ناگزیر اثرات کو سمجھنے اور اس بارے میں کثیر الجہت سوچ اختیار کرنے کے لیے مزدور رہنماؤں کو ماہرین معاشیات کے ساتھ مل بیٹھ کر غورکرنا چاہیے کہ دنیا کے موجودہ معاشی ماحول میں کس طرح کارکنوں کے لیے بہتر مراعات حاصل کی جائیں۔گلوبلائزیشن کو محض رد کردینے سے ان محنت کشوں کی کوئی مدد نہیں ہو گی جن کے مفادات کی وہ حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔

چند عشرے قبل ہم اس بات پر تنقید نہیں کرتے تھے کہ سرمائے کے دارالحکومت کی کوئی قومی حدود نہیں ہوتیں لیکن اس کے باوجودکارکنوں کو ان کی قومی حدود کا پابند رکھا جاتا ہے۔مگر آج یہ عالمی سرمایہ داری کے مفاد میں ہے کہ کارکنوں کو ترغیب دینے والی ملازمتوں کو دوسرے ملکوں تک پھیلایا جائے، جہاں محنت نسبتاً سستی ہوتی ہے۔اس انتہائی مسابقی دنیا میں محنت کش طبقات کو موجودہ غیر حقیقی انداز  فکر کی بجائے کھلے دل کے ساتھ از سر نو بہت کچھ سوچنا ہے۔ہم آج کے نوجوانوں کی سوچ کو روک نہیں سکتے،جن کے سامنے پوری دنیا موجود ہے۔وہ ان سپنوں پر یقین نہیں کرتے کہ مستقبل قریب میں اس معاشی نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔آج کا نوجوان صبر سے عاری ہے کیوں کہ نئی ٹیکنالوجیزکی ایجاد سے وقت کی آہٹ تبدیل ہوچکی ہے۔وہ فوری نتائج چاہتے ہیں، جس کے لیے ہمارے مزدور رہنماؤں کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔

مجموعی قومی پیداوار میں خدمات کے شعبے کا حصہ53.8 فیصد ہے۔اس میں36 فیصد پاکستانی ورک فورس کام کرتی ہے جو زراعت کے شعبے کے بعد ہے،جہاں سے42 فیصد ورک فورس روزی کماتی ہے۔ایک مضبوط، سروس سیکٹر ایگریکلچر لیبر ٹریڈ یونینوں کی غیر موجودگی میں مزدوروں کے حقوق کے لیے ممکنہ حد تک مضبوط تحریک کی ضرورت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مزدور رہنما ان شعبوں پر سب سے کم توجہ دیتے ہیں۔

محنت کشوں کے لیے کوئی حکمت عملی تیارکرتے وقت جس دوسرے اہم محرک کو ذہن میں رکھنا ہو گاوہ یہ ہے کہ ملک میں 99 فیصد معاشی ادارے چھوٹے اور درمیانے درجے میں آتے ہیں۔ اس سیکٹر میں منظم صنعتی سیکٹر سے کہیں زیادہ بڑی ورک فورس ملازم ہے جو عام طور سے بائیں بازو کی توجہ کا مرکز رہتا ہے، حالانکہ چھوٹے اور درمیانے حجم کے اداروں میں کام کرنیوالوں کا بڑے اداروں کے محنت کشوں سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔آزاد ماہرین معاشیات کی طرف سے کیے جانے والے دو جائزوں کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی اور متوازی معیشت کی سطح اس کی مجموعی قومی پیداوارکا91 فیصد ہے۔ (Kemal and Qasim 2012) ۔ یہ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔سرکاری ضابطوں سے اوجھل رہ کر کام کرنیوالایہ معاشی شعبہ مزدور قوانین کو خاطر میں نہیں لاتااور ٹیکس ادا نہیں کرتا جو محاصل کی وصولی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔چھوٹے اور درمیانے حجم کے ادارے سیاست میں متعدد معاملات پر محنت کش عوام کے اتحادی ہو سکتے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی آمادہ کیا جانا چاہیے کہ وہ ٹیکس دیں اور لیبر قوانین کی پابندی کریں۔کانفرنس کی قرار داد میں نجکاری کی بھی مخالفت کی گئی کیونکہ مزدور رہنماؤں کی توجہ اس بات پر تھی کہ پبلک سیکٹرکے ایسے اداروں میں کام کرنیوالوں کی ملازمتوں کا تحفظ کیا جائے جوکہ نجکاری کمیشن کی فہرست میں شامل ہیں۔ تاہم کیا کارکنوں کی مخالفت نجکاری کے عمل کو روک سکے گی؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پبلک سیکٹرکی زیادہ تر کمپنیاں،کاروبار کی طرح نہیں چلائی جاتیں ، بلکہ ہر آنے والی حکومت اپنے بے روزگار حامیوں کو کھپانے اور اپنے عزیز و اقرباء کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان کمپنیوں کو استعمال کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ادارے بے حال ہو رہے ہیں اور انھیں زندہ رکھنے کے لیے حکومت کوسالانہ 300 بلین روپے تک کا زر ِ اعانت فراہم کرنا پڑتا ہے۔ یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ ظاہرہے کہ بجٹ سے آتا ہے، اور پوری قوم اس کی قیمت ادا کرتی ہے۔اس سیکٹر کے یونٹوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت ادھار لیتی ہے،جس سے افراط ِ زر میں اضافہ ہوتا ہے،اوریہ ہر فرد پر ایک بد ترین ٹیکس ہے۔اب طے یہ کرنا ہے کہ کیا ملازمتوں کو بچایا جائے یا بیمار کمپنیوں میں سرمایہ کاری جاری رکھی جائے۔اگر کارکن نجکاری کو روکنا چاہتے ہیں تو انھیں متبادل حل پیش کرنا ہو گااور نئے قائم کیے جانے والے غیر جانب دار بورڈ آف مینجمنٹ میں نمایندگی حاصل کرنا ہو گی،جس کے پاس ان بیمار یونٹوں کی بحالی کا واضح منصوبہ ہے۔محض مخالفت سے عوام کی ہمدردی حاصل نہیں ہو گی کیونکہ عوام انھیں بوجھ سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔