- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
میں تو رستے سے جا رہا تھا ۔۔۔
آج سے کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی گانا خاصا معروف ہوا تھا، یہ گانا جتنا بے تکا اور بے ربط تھا اُتنا ہی مقبول ہوا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہم بھی کبھی کبھار بچپن میں گنُگنا ہی لیا کرتے تھے،
’’میں تو رستے سے جا رہا تھا،
میں تو بھیل پوری کھا رہا تھا،
تیری نانی مری تو میں کیا کروں‘‘۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس بے مقصد گانے کا کیا تذکرہ؟ بے موقع و محل، تو جناب کیا کیجئے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ روز کابل سے ناشتہ کر کے ہندوستان واپسی پر جس انداز میں پاکستان وارد ہوئے اور کسی کو خوش اور کسی کو ناراض کرتے ’’میں کیا کروں‘‘ کے مصداق پُر لطف شام کی چائے کا مزہ لے کر، جناب نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دے کر اور وزارت داخلہ کے امیگریشن کے ’’سخت اصول و ضوابط‘‘ کو بصد احترام کونے سے لگا کر دوبارہ اپنے ملک روانہ ہوگئے تو اس صورت حال میں گانے کے بول یاد آجانا کوئی حیران کن بات تو نہیں۔
نریندر مودی کے اس اچانک اور غیر متوقع دورہ نے دونوں ممالک کے عوام اور سیاسی حلقوں میں نرم گرم سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ جہاں کچھ امن پسند اس آشا کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں وہیں کچھ اس باہمی تعلقات کی ہمواری سے ناراض بھی نظر آتے ہیں۔ بلکہ کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما منیش تیواری نے تو ٹوئٹ کے ذریعے نریندر مودی کے اس اچانک فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ،
’’وزیراعظم کا لاہور جانے کا یہ فیصلہ اسی طرح کی ایک سفارتی غلطی ہے جو واجپائی کے لاہور دورے کے بعد کارگل کے روپ سامنے آئی تھی‘‘۔
جبکہ امن کی فاختاؤں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت مثبت اقدام ہے۔ جس سے خطے میں امن و امان کی صورتحال پر واضح اثرات مرتب ہوں گے جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نریندر مودی کی آمد کے ساتھ ہی پاک بھارت کرکٹ سیریز کا خواب آنکھوں میں سجا بیٹھا ہے۔
PM's misadventure to Lahore is worst manifestation of Spectecalisation of Diplomacy Last time Vajpayee went to Lahore Kargil!this time what?
— Manish Tewari (@ManishTewari) December 25, 2015
یقینی طور پر بھارتی وزیراعظم کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کا باعث بنے گا اور ہم بھی پاک بھارت تعلقات کے مابین بہتری اور سرحدوں پر تناؤ میں کمی اورعوام کے درمیان پیار و محبت اور انسانیت کے قائل ہیں۔ لیکن ایک بات ذرا غور طلب ہے کہ مودی صاحب نے جس طرح سو سے زائد افراد کے ہمراہ اچانک دورہ پاکستان کر کے دنیا کو حیرت میں ڈالا ہے وہیں پاکستانی وزارت داخلہ کے سنہری اصولوں کو بھی تار تار کردیا ہے۔
ابھی زیادہ دور کی کیا بات کریں اس ماہ کا جائزہ لیں تو ماہِ دسمبر میں سابق آسٹریلوی کھلاڑی ڈین جونز کو سفری اور قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ائیر لائن پر جرمانہ عائد کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے (جو کہ ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کے تحت دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور انہیں پسپا کرنے کی ’’ذمہ داری‘‘ بھی مسلسل سنبھالے ہوئے ہیں) وا شگاف الفاظ میں واضح کردیا تھا کہ،
’’وہ دن گئے جب قواعد و ضوابط کی دھجیاں ارائی جاتی تھیں، ملکی عزت اور وقار سے بڑھ کر کوئی بات نہیں‘‘۔
تو اب گذشتہ روز پاکستانی وزارتِ داخلہ کے سخت اصول کیونکر نرم ہوگئے؟ جب پڑوسی ملک سے 120 افراد اچانک اور قانونی دستاویزات نہ ہونے کے باوجود پاکستان کی سر زمین پر اُترے اور اُن میں کچھ جاتی امرا تک جا پہنچے اور وزیراعظم پاکستان کے ساتھ چائے کی چسکیاں بھی لیں اور تو اور ان کو سالگرہ اور نواسی کی شادی کی مبارکباد بھی دے ڈالی۔ ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ موجودہ تاریخ میں آپ کو دنیا میں کہیں بھی ایسا دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ اِتنا بڑا وفد بغیر ویزا کے دوسرے ملک میں چلا جائے، صرف چلا نہیں جائے بلکہ اُن کی مہمان نوازی بھی کی جائے۔ لیکن میں اُن کے بارے میں اچھا خیال کرتے ہوئے یہی کہہ سکتی ہوں کہ وزیر داخلہ اِس حوالے سے ضرور لاعلم ہونگے ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
مودی صاحب بصد شوق پاکستان آئیں، آم کا لطف اٹھائیں، جاتی امرا کی مہمان نوازی سے فیض یاب بھی ہوں، سالگرہ کی مبارکباد بھی دیں۔ امن و امان اور دونوں ممالک کے درمیان اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات کی بحالی کیلئے سب قبول ہے۔ بلکہ ہم اس جذبہ خیر سگالی کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں لیکن حکومت پاکستان اتنا تو واضح کرے کہ کس اصولی موقف میں ترمیم کرکے مودی اور ان کی پلٹن کو بغیر ویزا پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔